اس سلطنت کا آخری روز 29 اکتوبر 1923 تھا۔ اس روز مصطفٰے کمال اتاترک ترکی کی ری پبلک کے صدر بنے تھے۔ ترکی کے ری پبلکن عثمانی سلطان کو یکم نومبر 1922 کو معزول کر چکے تھے۔ ان کا کردار خلیفہ تک محدود ہو گیا تھا اور 3 مارچ 1924 کو یہ ٹائٹل بھی ان سے لے لیا گیا۔
مصطفٰے کمال نے اکتوبر 1927 کو چھ روز تک پارلیمنٹ میں لمبی تقریر کی۔ یہ ترکی کی تاریخ میں اس قدر مشہور ہے کہ اس کو ترکی زبان میں صرف “تقریر” ہی کہا جاتا ہے۔ اس میں بتایا کہ ان کی جنریشن کیوں اس فرسودہ ماضی کو مسترد کر چکی ہے۔ ان کے ابتدائی برس اصطلاحات کی سیریز کے تھے۔ جو ترکی کو جدید دنیا میں لانے کے لئے اقدامات تھے۔
حال میں ترکوں نے اپنی تاریخ کو ازسرِ نو دیکھنا شروع کیا ہے کہ یہ محض ایک سلطنت کا عروج و زوال نہیں تھا۔ یہ سلطنت سولہویں صدی میں اپنے عروج میں روم کی قدیم سلطنت جیسی شان و شوکت والی تھی۔ طویل عروج کے بعد اپنی کچھ بنیادی کمزوریوں کی وجہ سے پیچھے رہ گئی۔ صدیوں تک اس کی فوجیں دنیا میں دہشت کا نشان رہیں۔ نہ صرف یورپی افواج کے لئے بلکہ مشرق میں ایران اور دوسری اسلامی ریاستوں کے لئے بھی۔ عثمانی آرکیٹکچر استنبول اور دوسرے شہروں میں منفرد اور نمایاں رہا۔ عظیم مساجد تعمیر ہوئیں۔ سلطنت کا نظامِ انصاف نسلی تنوع کی پیچیدگیوں میں توازن رکھتا رہا۔ بڑے سکیل پر انتظامی اور مالیاتی امور نبھائے گئے۔ مورخین اس کو مردِ بیمار کہتے ہیں لیکن یہ بیماری ایک لمبی زندگی کا آخری وقت تھا۔
ترکی میں جب ملک بننے کی 75ویں سالگرہ 1998 کو منائی گئی تو ساتھ ہی اعلان کیا گیا کہ 1999 میں عثمانی سلطنت کی 700ویں سالگرہ منائی جائے گی۔ لیکن 1299 میں کیا ہوا تھا؟ نہ کوئی مشہور جنگ، نہ کوئی اعلانِ آزادی، نہ کوئی حملہ۔ اتفاقاً یہ سال 699 ہجری تھا۔ اسلامی کیلنڈر اور جارجین کیلنڈر میں نئی صدی اکٹھی شروع ہو رہی تھی۔ اس برس کو ایسی سلطنت کے نقطہ آغاز کے لئے چنا گیا جس نے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک کے علاقے پر حکومت کی تھی۔
اس کا اختتام تو واضح ہے۔ اس کے آغاز کے بارے میں بہت کچھ واضح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایت کے مطابق اس سلطنت کے پہلے سلطان عثمان نے ایک خواب دیکھا تھا۔ جس میں ایک درخت پیٹ سے نکل کر دنیا کا سایہ کئے ہوئے تھا۔ اس سائے کے نیچے پہاڑ تھے اور اس میں سے نہریں بہہ رہی تھیں، جن سے لوگ پانی پیتے تھے اور کھیتوں کو بھی سیراب کرتے تھے اور فوارے بنائے جاتے تھے۔ اس کی تعبیر انہیں امام ایدیبالی نے بتائی تھی کہ انہیں حکومت کے لئے چن لیا گیا ہے۔
یہ کہانی سلطان عثمان کی وفات کے ڈیڑھ سو برس بعد پندرہویں صدی میں بنائی گئی لیکن ایک طاقتور کہانی سمجھی جاتی ہے جو یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ اس خاندان کا حکومت کرنا قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔
اگر ہم 1299 کو دیکھیں تو یہ وسطی ایشیا سے آنے والے ترکمان لوگوں کا ایک قبیلہ تھا جو اناطولیہ کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بازنطینی حکمران کے باسفورس پر چوتھی صدی میں بسائے گیا شہر قسطنطنیہ مشرقی رومی سلطنت کا دارلحکومت چلا آ رہا تھا۔ عثمانیوں سے پہلے ترکمان بازنطینی سلطنت پر مشرق سے بار بار حملہ کرنے والے جری جوان سمجھے جاتے تھے۔ ترکوں میں سے سلجوق ترک سب سے زیادہ کامیاب رہے تھے۔ سلطان ارپ ارسلان نے بازنطینوں کو 1071 میں شکست دے کر ترکوں کا مغرب کی طرف ہجرت کر کے اس علاقے میں آنے کا راستہ کھولا تھا۔ یہ اناطولیہ کی قسمت طے کرنے کا اہم سنگِ میل تھا۔
سلجوقوں نے اگلی ایک صدی میں کمزور ترک قبائل کے علاقوں کو فتح کر لیا تھا۔ تیرہویں صدی کا آغاز ان سلجوقوں کے عروج کا تھا۔ انکو رومی سلجوق کہا جاتا تھا۔ منگولوں نے سلجوق سلطنت کو تاراج کیا۔ ایک وقت میں قونیہ کا طاقتور سلجوق سلطان قراقرم کے منگولوں کا باجگزار بن چکا تھا۔ منگول خود اپنے اندرونی جھگڑوں کا شکار ہو گئے اور اناطولیہ کے علاقے میں طاقت کا خلا پیدا ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ میں ہمیں 1301 میں پہلی لڑائی کا ذکر ملتا ہے جو قسطنطنیہ کے قریب لڑی گئی اور بازنطینی فوج کو شکست ہوئی۔ اس لڑائی میں ترکمان کی قیادت جس نے کی اس کا نام عثمان تھا۔ وہی عثمان جس کے گرد کہانیاں بنیں اور اس سلطنت کا نام پڑا۔ ہمیں پہلی عثمانی تعمیر حاجی اوزبک مسجد ملتی ہے جس کو 1333 میں بنایا گیا۔
اگرچہ عثمان بن ارطغرل فرضی کردار نہیں تھے لیکن ان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے دور میں یہ اتنے اہم کردار نہیں تھے۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں ہو گا کہ ان کی ابتدائی فتوحات ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔
عثمانی روایات بتاتی ہیں کہ شمال مغربی اناطولیہ میں ایک قبائلی سردار ارطغرل تھے۔ سلجوق سلطان نے انہیں قونیہ میں جاگیر دی تھی جو سوگت کی آبادی کے قریب تھی۔ ہمیں اس دور کا سکہ ملا ہے جس پر عثمان بن ارطغرل کی مہر ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ عثمان محض قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اس سے زیادہ بڑے علاقے پر حکمران تھے۔ سب سے پرانا سکہ 1326 کا ہے۔ اور اس سے مورخ اندازہ لگاتے ہیں کہ عثمانی حکومت منگولوں کی الخانیت سے آزاد ہو چکی تھی۔
ترکمانیوں کی آمد نے طاقت کا توازن ہلا دیا۔ بازنطنیی، سلجوق، الخانی تینوں اس سے متاثر ہوئے۔ عثمانیوں کی ایک خاص نشانی درویش تھے۔ جو ان کے مارچ کا حصہ رہے۔ یہ ہمیں اس سلطنت کی سب سے پرانی دستاویز سے بھی پتا لگتا ہے۔ یہ دستاویز عثمان کے بیٹے اورحان کی طرف سے درویشوں کو 1324 میں زمین دینے کی ہے۔ (ساتھ لگی تصویر اسی دستاویز کی ہے)۔ اناطولیہ میں پھیلی درویشوں کی خانقاہیں عثمانی اثر کے ساتھ پھیلتی گئیں۔ اورحان اور بعد میں آنے والے درویشوں کے سلسلوں سے منسلک رہے۔ درویشوں کے سلسلوں کی اس سلطنت کے پورے دور میں اہمیت رہی۔
ہمیں سلطان عثمان کے دور کی کوئی دستاویز نہیں ملتی جس سے معلوم ہو کہ وہ خود کو کیا کہتے تھے لیکن اورحان نے اپنے لئے غازی کا لقب چنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمان کے خواب کی تاریخ پندرہویں صدی میں لکھی گی جب عثمانی مورخین نے سلطنت کے ابتدا کی تاریخ لکھی۔ انیسویں صدی میں سلطان عبدالحمید دوئم نے اپنی زوال پذیر ہوتی سلطنت کو سہارا دینے کے لئے ماضی کا سہارا لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ابتدا کے بارے میں رومانس داخل ہوا۔ سوگت کو عثمانی سلطنت کا گڑھ قرار دیا گیا۔ ماضی کے نئے ہیرو بنے۔ ارطغرل کا مقبرہ تعمیر ہوا۔ سنگِ مرمر سے تعمیرات ہوئیں۔ ارطغرل کی زوجہ کی قبر کا اضافہ ہوا۔ سلطان عثمان کی قبر بنائی گئی (حالانکہ ان کو ان کے بیٹے نے یہاں سے لے جا کر بورصہ میں دفن کیا تھا) اور ان کے ساتھ کے پچیس جنگجووٗں کی قبریں بنیں۔ آج بھی سوگت میں یہ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور سالانہ عرس منایا جاتا ہے جس میں عثمانی سلطنت کی ابتدا کو یاد کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس سلطنت کا آغاز ماضی کی دھند سے ڈھکا ہے۔ لیکن اس کا عروج اور زوال بالکل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر عثمانی سلطنت کی سب سے پرانی دستاویز کی ہے۔ یہ درویش خانقاہ قائم کرنے کا چارٹر ہے۔ اس چارٹر کے اوپر طغرہ (شاہی دستخط) میں لکھا ہے اورحان بن عثمان۔ یہ دستاویز فارسی زبان میں لکھی ہے اور 1324 کی ہے۔ یہ تین صفحات میں سے پہلا صفحہ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...