دادو آپ کو نہیں لگتا یہ رانیہ میں ابھی تھوڑا بچپنا ہے؟”
متقین ناشتے سے فارغ ہوکر دادو کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا تھا،مائشہ کو دادو نے جو روم دیا تھا،وہ اسمیں آرام کرنے جا چکی تھی۔
“ارے شادی سے پہلے سب لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں،میاں بچوں کی ذمہ داری آتے ہی سارا بچپن غائب ہوجاتا ہے۔”
دادو نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ہمم مم۔۔ویسے میں آپ سے پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ لڑکی بہت کم عمر ہے،میرا تھوڑا مشکل ہوجائے گا،امیچیور لڑکی کے ساتھ گزارا۔
“متقین نے کچھ پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
“ایسی بات کیوں کر رہے ہو،تمہاری کوئی بات ہوئی ہے اس سے”؟
دادو نے چونکتے ہوئے کہا۔
“ہاں کچھ خاص نہیں مگر مجھے ایسا فیل ہورہا ہے۔”
متقین نے گول مول سا جواب دیا۔دادو پر سوچ انداز میں اسکو دیکھے گئیں،جو
اب اپنے موبائیل میں مصروف تھا۔
“اچھا اور اس لڑکی کا کیا قصہ ہے؟
“اچانک دادو کو مائشہ یاد آگئی۔
متقین پہلے سے من گھڑت کہانی انکو سنا کر مطمئین کرنے لگا۔
“اچھا،وہ سب تو صحیع ہے،مگر یہ کب تک رہے گی یہاں پر؟”
دادو نے ساری روداد سن کر پوچھا۔
“دادو کچھ کہہ نہیں سکتے،ویسے بھی آپکے لئیے تو اچھا ہے نہ،آپ کا اچھا وقت گزر جائے گا۔”
متقین نے انکے پاؤں دباتے ہوئے کہا۔
“ہاں مگر وہ تو ویسے بھی میں تمہاری شادی کرنے والی ہوں،رانیہ کے ساتھ بھی میرا اچھا وقت گزر جائے گا،اور ویسے بھی تم اسکو جلدی یہاں سے چلتا کرو،ایسے جوان بچی کو گھر میں رکھنا صحیع نہیں ہے،اور پھر رانیہ کو بھی شادی کے بعد مسائل ہوسکتے ہیں۔”
دادو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
“دادو میں آپکو کیا بتاؤں کہ اسکو تو شادی سے پہلے ہی مسائل ہوچکے ہیں۔”
متقین دل میں سوچ کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے نہ جانے کون سے پہر جنت کی آنکھ کھلی،اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا،وہ عشاء پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی۔
اب بھی اس نے وضو کیا اور تہجد کے لئیےکھڑی ہوگئی۔اس کی واحد امید
صرف اللہ تھا،جس کے آگے وہ گڑگڑا سکتی تھی۔
رشید تو اسکی ایک بھی سننے کو تیار نہ تھا۔وہ آجکل روز تہجد میں لمبی لمبی دعائیں مانگتی تھی،کہ کسی طرح رشید کا دل بدل جائے،اور وہ لوگ حرام سے بچ جائیں۔
ابھی بھی آنسو تواتر سے اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے،
“اے میرے مالک !تو میرے دل کا حال جانتا ہے،تو میرے رشید کو بچا لے،
اسکو شیطان کی چال سے بچا لے،مجھے اور میری آنے والی نسلوں کو اس حرام رزق سے بچالے،
میری فریاد تیرے سوا سننے والا کوئی نہیں ہے،صرف تو دلوں کو بدل سکتا ہے،رشید کا دل بدل دے،اسکو عقل عطا کردے،
مجھے ڈھنگ سے مانگنا نہیں آتا،مگر تو تو بن مانگے بھی عطا کرتا ہے۔
میں نے جانے انجانے کوئی گناہ کیا ہو تو تو اسکو بخش دے،مگر مجھے ایسی ذلت کی زندگی نہ دینا،جس میں حرام کی آمیزش ہو۔
میرے رب تو سن لے،میری دعا سن لے۔”
روتے روتے وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔آنکھ کھلی تو فجر کی اذانیں ہورہی تھیں۔وہ پتہ نہیں کتنی دیر بے ہوش رہی تھی۔
بےبے بھی نماز کے لئے اٹھ چکی تھیں۔اسکا اٹھتا دیکھ کر اسکے پاس آگئیں۔
”کیا ہوگیا دھی رانی،جب سے آئی ہے،بڑی پریشان ہے،تہجد بھی بنا اٹھائے پڑھ رہی ہے،رشید تو ٹھیک ہے نہ؟؟”
بے بے نے اسکے بال سنوارتے ہوئے پوچھا،جو چادر کھلنے کے باعث بکھرے ہوئے نظر آرہے تھے۔
“بے بے میرے لئے دعا کرنا،بہت دل گھبرا رہا ہے”۔
جنت نے بے بے کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
“سب خیر تو ہے نہ پتر؟؟میں تو ویسے بھی دن رات تیرے ہی لئے دعا کرتی ہوں،میرا تیرے سوا ہے ہی کون۔”
بے بے نے اسکو پچکارتے ہوئے کہا۔
“ہاں بے بے سب خیر ہے”۔
جنت نے لمبی سانس کھینچ کر کہا۔بس صرف دعاؤں کی ضرورت ہے۔
چادرسنبھالتی وہ وضو کے لئے کھڑی ہوگئ۔بےبے نے اسکے دل کے سکون کے لئے دل سے دعا کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائشہ کے ایکدم سے گھر سے چلےجانے سے گھر کا ماحول اور کشیدہ ہوگیا تھا۔سب ایک دوسرے پر الزام ڈال رہے تھے،اوپر سے بلیک میلر کی کال نے بھی راتوں کی نیند اڑائی ہوئی تھی۔
آج رات زیشان صاحب اور انسپکٹر شہزاد کوپیسے لے کر جانے تھے۔
انسپکٹر شہزاد گھر کے کپڑوں میں تھا،اس نے اپنے بندےبھی آس پاس لگا دئیے تھے،جو آس پاس چھپے بیٹھے تھے۔ان لوگوں نے رات دو کا وقت دیا تھا،
زیشان تایا مقررہ وقت سے آدھے گھنٹے پہلے ہی پہنچ گئے تھے،اب ایک گھنٹا گزرنے کو آگیا تھا،مگر کسی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
جب ہی رات کے سناٹے میں ٹائر کے چرچرانے کی آواز آئی۔انسپکٹر زیشان ایکدم الرٹ ہوکر بیٹھ گیا تھا۔
اس نے زیشان صاحب کوتسلی دینے والے انداز میں تھپتھپایا،اور جانے کا اشارہ کیا۔
زیشان تایا سخت ٹینشن کے زیر اثر تھے،
“اگر تم لوگ ناکام ہوگئے تو میرا بہت نقصان ہوجائے گا،”
انہوں نے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا،جو کہ گاڑی کا اے سی کھلا ہونے کے باوجود انکے چہرے پر نظر آرہا تھا۔
“کچھ نہیں ہوگا،بس آپ اطمینان سے جاکر بات کریں،اور ویڈیو کی اصل کاپی حاصل کریں،باقی کام ہم بعد میں سنبھال لیں گے۔”
ایس پی شہزاد نے انکو حوصلہ دیا۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترے۔
سامنے والی گاڑی کی لائٹس آن تھیں،اور آنے والے نے منہ ڈھانکا ہوا تھا،روشنی آنکھوں پر پڑنے کے باعث ویسے بھی وہ اسکو دیکھ نہیں پا رہے تھے،جب ہی انکا موبائیل تھرتھرایا۔انہوں نے جیب سے موبائیل نکالا۔
ان نون نمبر سے کال آرہی تھی،یہ ضرور اسی بلیک میلر کی کال ہے،جب ہی وہ گاڑی سے اتر نہیں رہا تھا۔
ہیلو،کال ریسیو کرکے انہوں نے کان سے لگایا۔
“ہاں ،پیسے پورے لائے ہو نہ”؟
سوال کیا گیا۔
“ہاں ہاں ہاں پورے ہیں،کھول کے دیکھ لینا،تم آؤ گے یا میں آؤں؟”
زیشان صاحب نے سوال کیا۔
“نہیں آگے مت آؤ ،اپنی دائیں طرف دیکھو،اسکول کی دیوار کے ساتھ ایک کوڑا دان رکھا ہے،اس کے اوپر کالے رنگ کا شاپر رکھا ہے،وہ اٹھا کر اچھی طرح تسلی کرلو،اور وہیں سے بیگ کھول کے مجھے دکھاؤ۔”
فون کرنے والے نے حکم جاری کیا۔زیشان تایا نے دور سے ہی بیگز کی زپ کھول کر نوٹوں کی گڈیاں دکھائیں۔ہیڈ لائٹ کی روشنی میں اس بندے کو وہ صاف نظر آرہی تھیں۔
“ٹھیک ہے،اسکو بھی وہیں کوڑے دان کے اوپر رکھدو،اور بلکل بھی ہوشیاری نہ دکھانا،ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔”
زیشان صاحب نے اسکی ہدایت کے مطابق بیگز کوڑے دان پر رکھے،اور وہاں موجود ڈی وی ڈی کوگاڑی میں موجود لیپ ٹاپ پر لگا کر چیک کیا۔وہ دونوں اب تک کال پر تھے۔
“مگراس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ اصل ویڈیو ہے اور تمہارے پاس کوئی کاپی نہیں ہے”؟
زیشان تایا نے ویڈیو دیکھتے ہوئے ناگواری سے پوچھا۔
“گارنٹی جب تک ہے،جب تک تم مجھے نقصان نہیں پہنچاؤ گے۔”
جیدے نے مونچھوں کو تاؤ دیا۔
“جب تک میں ٹھیک ٹھاک ہوں،ویڈیو کہیں لیک نہیں ہوگی،دوسری صورت میں میرے آدمی اسکو سارے شہر میں پھیلا دیں گے۔”
اس نے ان لوگوں کو دباؤ میں لینے کے لئے خالی دھمکی دی تھی،ورنہ اس کے اور رشید کے علاوہ یہ بات کسی کو نہیں معلوم تھی،اور اسکو بھی بس صبح تک کا انتظار تھا،اسکو صبح ہی یہ شہر چھوڑ دینا تھا،اور کچھ دنوں میں ملک چھوڑنے کا ارادہ تھا۔
“اور تمہارے ساتھ یہ آدمی کون ہے؟”
اسکا اشارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ایس پی کی طرف تھا۔
“یہ میرا دوست ہے،میں اتنی رات کو ڈرائیو نہیں کرسکتا ہوں۔
“زیشان صاحب نے تھوڑا گڑبڑا کر جواب دیا۔
“اچھا ٹھیک ہے،اب جاکر گاڑی میں بیٹھو اور فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔”
زیشان صاحب نے ایس پی کو نظروں میں اشارہ کیا ،اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ایس پی نے انجن اسٹارٹ کیا۔
“وہ کہہ رہا ہے،ویڈیو اور لوگوں کے پاس بھی ہے،”
زیشان تایا نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پریشانی سے کہا۔
“فکر نہ کرو اسکو ہاتھ آنے دو،اگلے پچھلوں سب کا حساب لے لوںگا۔”
ایس پی نے کال ملاتے ہوئے کہا۔
“ہاں ہیلو،ہوشیار ہوجاؤ،اور سنو اسکو زندہ ہی پکڑنا ہے۔”
گاڑی ریورس گئیر میں ڈالتے ہوئے اس نے ہدایت دی اور فون کاٹ دیا۔
“ہم یہیں انتظار کریں گے۔جیسے ہی وہ بیگ کے پاس پہنچے گا،میرے آدمی اسکو جا لیں گے،بس ہم بھی سگنل ملتے ہی پہنچیں گے۔”
اسکول کے پچھلے جانب اپنی گاڑی کھڑی کرکے ایس پی نے زیشان صاحب کو لائحہ عمل بتایا۔زیشان صاحب دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے کھانے سے فارغ ہوکر مائشہ البم کھولے بیٹھی تھی،جب متقین ناک کرکے کمرے میں داخل ہوا۔
مائشہ نے مسکرا کر اسکو دیکھا اور البم بند کردیا۔
“میں نے سوچا تم بور ہورہی ہوگی ،اتنے دن سے گھر سے نہیں نکلی ہو،تو یہ کچھ بکس لایا تھا،تم کوریڈنگ کا شوق ہے؟؟”
متقین نے بکس مائشہ کو دیتے ہوئے کہا۔
“ہاں بہت زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا بہت پڑھ لیتی ہوں،ویسے بائی دا وے تھینکس۔”
مائشہ نے بکس پکڑتے ہوئے کہا۔
“آئیں بیٹھیں”
اس نے سامنے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔
متقین مسکرا کر بیٹھ گیا۔
“دن بھر کیا کرتی ہو؟؟یونیورسٹی بھی چھوٹ گئی ہے۔”
“ہاں بس زندگی ایکدم پلٹ گئی۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا،میں یہ سب اتنی آسانی سے جھیل جاؤنگی۔پاپا نے مجھے لاڈوں میں پالا تھا،اور آج میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں۔”
مشی نے اپنے آنے والے آنسوؤں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔
“اچھا یہ بتاؤ کیا دیکھ رہی تھیں تم؟”
متقین نے بات کا رخ موڑنا چاہا۔
“یہ میرے بچپن کا البم ہے،اسمیں میرے وہ سارے پیارے لوگ ہیں جو اب میرے ساتھ نہیں ہیں۔”
مائشہ نے نمناک آنکھوں سے البم پر ہاتھ پھیرا۔آئیں میں آپکو اپنے ممی پاپا سے ملواتی ہوں۔”
اس نے البم اٹھا کر سامنے رکھی ٹیبل پر رکھا اور خود گھٹنوں کے بل کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
“ارے یہ تم اتنی گول مٹول سی ہوتی تھیں۔”
متقین نے مائشہ کی پہلی سالگرہ کی تصویر دیکھ کر کہا۔جس میں وہ پھولا ہوا فراک پہنے اپنے پاپا کے ساتھ روتے ہوئے کیک کاٹ رہی تھی۔مائشہ جھینپ کر مسکرا دی۔
“اوریہ میری پھپھو ہیں،انکو بھی ممی کی طرح میں نے کبھی نہیں دیکھا،مگر سنا ہے،یہ بہت خوبصورت اور دادا کی لاڈلی تھیں۔پتہ نہیں کیوں مجھ سے سارے رشتے جلدی چھوٹ گئے۔”
وہ اپنی جون میں ساری بات کئے جارہی تھی اس بات سے بے خبر کہ متقین شاک میں ہے۔
“یہ تمھاری سگی پھپھوہیں؟ “
متقین نے پوچھنے سے زیادہ جیسے خود کو یقین دلانا چاہا تھا۔
“ہاں آپ کیوں اتنا حیران ہورہے ہیں؟”
مائشہ نے نا سمجھی سے کہا۔
“یہ میری ممی ہیں”۔متقین نے لمبا سانس لے کر جواب دیا۔
اب کی بار شاک لگنے کی باری مائشہ کی تھی۔
“وہاٹ ،انکی تو ڈیتھ شادی سے پہلے ہی ہوگئی تھی۔ہم لوگوں کو تو بچپن سے یہی پتہ ہے۔”
مائشہ نے نا سمجھی سے کہا۔
“ہمم م م۔۔اب ان سارے سوالوں کے جواب دادو ہی دے سکتی ہیں۔اس وقت تو وہ سو چکی ہونگی۔”
متقین نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
“کل شام کو واپسی پر ان سے بات کرتا ہوں۔”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...