اسلام وعلیکم ،میں مائشہ بول رہی ہوں،پہچاناآپ نے”؟
“وعلیکم اسلام۔۔کیسی ہیں آپ؟جی بلکل پہچان لیا۔مگر یہ نمبر تو آپکا نہیں ہے”؟
متقین کی دوستانہ آواز سن کر جیسے اسکو ڈھارس ہوئی تھی۔
“جی نہیں میرا فون اس وقت بند ہے،میں اپنی دوست کے فون سے کال کر رہی ہوں۔مجھے آپ سے ضروری بات کرنی تھی،آپ اس وقت کہاں ہیں؟”
“میں کراچی شفٹ ہوچکا ہوں۔اپنے گھر پر ہوں۔۔خیریت تو ہے سب”؟
کراچی سن کر مائشہ کو جیسے اطمینان ہواتھا۔
“اچھا تو کیا آپ مجھ سے مل سکتے ہیں کہیں؟”
اسکو ایسے فری ہونا بلکل بھی اچھانہیں لگ رہا تھا،وہ اس کے بارے میں کچھ بھی غلط سوچ سکتا تھا،مگر اس وقت وہ بہت مجبور تھی۔رات بھر سوچنے پر اسکو یہی سمجھ آیا کہ عروش کی طرح کسی بھی دوست کے گھر والے اسکو نہیں رکھیں گے ۔اور تایا بہت آسانی سے اس تک پہنچ بھی جائیں گے،کیونکہ اسکے سب ہی دوستوں سے وہ لوگ واقف تھے۔بہت سوچ بچار کے بعد اسکے ذہن میں متقین آیا تھا،جس کو کوئی جانتابھی نہیں تھا اور جو ان ڈیپینڈنٹ بھی تھا،باقی سب ہی دوست والدین پر ڈیپینڈنٹ تھے اور اسکی مدد کرنے سے قاصر تھے۔
“جی ،خیریت تو ہے؟مجھے آپ کچھ پریشان لگرہی ہیں؟”
متقین کووہ لا ابالی سی مشی یاد تھی،ابھی وہ کچھ الجھی اور گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔بے ربطگی سے بات کرتی وہ اسکو پریشان لگی تھی۔
“جی بس خیریت نہیں ہے،مجھے آپ سے ایک فیور چاہئیے۔آپ سوچ رہے ہونگے آپ مجھے صحیع سے جانتےبھی نہیں اورمیں آپکے گلے پڑ رہی ہوں،مگرابھی میں بہت مجبور ہوں۔”
اس نے بہت ہی دلگرفتگی سے کہا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے،آپ پریشان نہ ہوں،آپ کہاں ملنا چاہتی ہیں؟”
متقین نے اسکو تسلی دی۔
“میں اس وقت پی ای سی ایچ ایس میں ہوں،آپ سندھی مسلم سوسائٹی میں گلوریا جینز پر آجائیں۔میں جہاں ہوں وہاں سےوہ نزریک ہے۔”
مشی نے جلدی جلدی اسکو جگہ سمجھائی۔
“صحیع ہے،میں آدھے گھنٹے میں پہنچتا ہوں۔”
متقین نے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے آمادگی ظاہر کی۔
“تھینک یو سو مچ،اللہ حافظ۔”
مشی نے سکون کا سانس لیکر کال ڈسکنکٹ کی۔اس نے کال لاگ سے متقین کا نمبر ڈیلیٹ کیا،وہ اپنا کوئی بھی سراغ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔عروش اس وقت روم سے باہر تھی،اسلئیے اس نے اس کے فون سے کال کرلی تھی۔اپنا فون وہ بند ہی رکھے ہوئی تھی۔سامان تو اسکا سارا پیک تھا،بس اس نے کپڑےنکال کر چینج کئے،وہ جو ہمیشہ ہی جینز اور رف حلئیے میں ہر جگہ نکل جاتی تھی،آج پتہ نہیں کیوں اسکو اپنا آپ بہت انسیکیور فیل ہوا،اس نے شلوار قمیص اوردوپٹہ والا سوٹ نکال کر پریس کیا،اور شاور لینے چلی گئی۔جب عروش دونوں کا ناشتہ لے کر آئی اسوقت وہ پوری تیار ہو چکی تھی۔
“ارے تم کہاں جارہی ہو ،صبح صبح؟”
گو کہ ابھی بھی باہر اسکی ممی سے بحث ہوئی تھی کہ اس لڑکی کو جلدی چلتا کرو،مگرپھربھی وہ مروتاً اسکو تیار دیکھ کر روک رہی تھی۔
“بس یار میں تم کو پریشان نہیں کرنا چاہتی،میں امی کے ماموں کے پاس جارہی ہوں،اسلام آباد میں رہتے ہیں وہ،ابھی بات ہوئی تھی میری،وہ مجھے لینے ائیر پورٹ آجائیں گے۔”
اس نے من گھڑت کہانی سنائی۔
“اوہ اچھا،چلو یہ تو اچھا ہے،اپنوں کے پاس تم زیادہ سیکیور رہو گی۔
عروش نے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔مشی جبراً مسکرا دی۔
“چلو اچھا ناشتہ کرلو،ٹکٹ کب کرواؤگی؟”
عروش نے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے کہا۔
“وہ ڈائرکٹ ائیر پورٹ پہنچ کر ہی ہو جائے گی۔”
اس نے نظریں چراتے ہوئے ایک اور جھوٹ بولا۔
عروش ناشتہ شروع کر چکی تھی۔مشی کو تو بھوک نہیں تھی،اس نے صرف ایک کپ چائے لی۔
“تھینکس آ لوٹ یار،سب سے مشکل میرے لئے کل کہ ہی رات تھی،تمنےمجھے سپورٹ کیا۔تھینکس اگین۔”
چائے ختم کرکے وہ عروش سے گلے مل کر اپنا سامان لے کر نیچے اترنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو آج رات اسکو کال کرکے وہیں پرانے اسکول کے پیچھےہفتے کی رات بلالے،میں وہیں اسکول کے اندر ہونگا،کہہ دینا کہ بیگ دیوار کے ساتھ رکھے کوڑے دان میں ڈال دیں،اور اسکے اوپر رکھا پیکٹ اٹھا لیں،اس دوران تو انکے ساتھ رابطے میں رہنا،ان لوگوں کے جاتے ہی کوڑےدان سے وہ بیگ نکال کر اسکول کی دیوار کے پیچھے پھینک دینا،میں اسکو اٹھا کر آگے کے دروازے سے نکل جاؤنگا،اگر وہ لوگ پیچھا کرنا بھی چاہیں گے تو جب تک وہ آگے پہنچیں گے میں وہاں سے نکل چکا ہونگا،کیونکہ وہ نگرانی کوڑے دان کی ہی کریں گے۔تو ساری بات سمجھ گیا ہے نہ”؟
اپنا پورا لائحہ عمل بتانے کے بعد رشید نے اپنے دوست جیدے سے پوچھا،جس کا نام تو جاوید تھا ،مگر سب اسکو جیدا بلاتے تھے،اب تک کال اور میسج بھی اس نے جیدے سے ہی کروائے تھے،اور ۲کروڑ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
“ ہاں وہ سب تو ٹھیک ہے،مگر اس سب میں جان میری جوکھم میں زیادہ پڑے گی،اور دس کروڑ میں سے صرف دو میرے ،یہ زیادتی ہے۔آدھے آدھے ہونے چاہیے۔”
جیدے نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔وہ دونوں اس وقت فون پر بات کر رہے تھے،رشید کو اندازہ تھا آجکل سارے نوکروں کی نقل و حرکت پر نظر ہے،اسلئیے وہ کام سے آنے کے بعد گھر سے نہیں نکل رہا تھا،اور اسی لئے سب کام بھی جیدے سے ہی کروائے تھے۔جیدے کو اب ہوس ہونے لگی تھی،شروع میں بیٹھے بٹھائے دو ملنے پر بھی وہ خوش تھا،مگر وقت کے ساتھ ساتھ اسکی لالچ بڑھ رہی تھی۔
“دیکھ تو زیادہ سیانا نہ بن،ثبوت مجھے ملے،آئیڈیا میرا،شک کے دائرے میں بھی میں ہوں تجھ کو کون جانتا ہے؟تو کس حساب میں آدھا لے گا”؟
رشید کو بھی تاؤ آگیا تھا۔
“سوچ لے،میں جاکر بتا دونگا،اور پھنسونگا تو میں بلکل بھی نہیں،کیونکہ انکا شک ویسے بھی گھر کے بندوں پر ہی ہوگا”۔
جیدے نے مکار مسکراہٹ کے ساتھ فون ایک ہاتھ سے دوسرے میں لیا۔
“اب تو مجھے بلیک میل کرے گا”؟
رشید کو صحیع معنوں میں شاک لگا تھا۔”ہاہاہاہا تیرے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں،تو تو جسکا نمک کھا رہا ہے اسکو نہیں بخشا تونے،مجھے بھی تو دھوکہ دے سکتا ہے۔۔۔اب سن میں کہوں گا،پانچ پانچ کے دو بیگ لائیں،ایک بیگ میں تجھکو پھینک دونگا اور ایک میں لے کر چلا جاؤنگا۔تو راضی ہے تو ٹھیک ورنہ میں اس کھیل کا حصہ نہیں۔”
جیدے نے دو ٹوک الفاظ میں بات ختم کی۔رشید اس وقت مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق مجبور تھا،دل میں اسکو موٹی سی گالی دے کر ہامی بھر کر فون بند کیا۔مگر اب اسکو جیدے سے خوف آرہا تھا،وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے جیدے کو ساتھ ملایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ ریسٹورنٹ پہنچی تو متقین پہلے باہر کھڑا وہاں اسکا انتظار کرہا تھا۔مائشہ کو دیکھ کر آگے بڑھ کر اس نے دروازہ کھولا اور پھر دونوں ساتھ ہی ریسٹورںٹ میں داخل ہوئے۔
“کیا لیں گی آپ”؟
متقین نے بیٹھنے کے بعد مائشہ سے پوچھا۔
“جی کچھ نہیں بس بریک فاسٹ کرکے نکل رہی ہوں۔”
“ہم م م۔۔چلیں ایک کپ کافی میں میرا ساتھ دے دیں”۔
جب تک ویٹر بھی انکے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا۔مائشہ نے ہلکے سے گردن ہلادی۔متقین آرڈر کرکے مائشہ کی طرف مڑا۔”جی اب آپ بتائیے کیوں پریشان ہیں”؟
متقین نے دونوں ہاتھ کی انگلیاں باہم ملا کر تھوڑی پر رکھیں۔
“دراصل مجھے سمجھ نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں”؟
مائشہ ابھی بھی بہت کنفیوز تھی۔
“جہاں سے سمجھ آجائے وہیں سے بتانا شروع کردیں۔”
متقین نے مسکراتے ہوئے کہا۔ساری روداد اس نے آنسوؤں کے بیچ سنائی۔متقین اس دوران خاموش تھا۔اس نے اس دوران بس مائشہ کو خاموشی سے ٹشو دئے تھے۔
“افسوس ہوا آپکے فادر کی ڈیتھ کا سن کا۔”
مائشہ کے چپ ہونے پر متقین نے اسکوایک اور ٹشو پکڑاتے ہوئے کہا۔مائشہ نے زور سے آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا۔
“اب آپ مجھے یہ بتائیے کہ فی الحال آپکا مسئلہ رہائش کے علاوہ کیا ہے”؟
متقین نے بغور اسکو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں،بس تھوڑے دن کے لئے مجھے آپ کسی سیف جگہ کا بندوبست کرکے دے دیں،جب یہ معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو میں خود کہیں اور چلی جاؤںگی۔”
مائشہ نے اپنے ناخنوں کو کھرچتے ہوئے کہا۔
“دیکھیں مائشہ فی الحال اگر آپ چاہیں تو میرے گھر پر بھی رہ سکتی ہیں،میری صرف دادو ہوتی ہیں،انکو اس بات سے کوئی پرابلم نہیں ہوگا،میں انکو سمجھا لوں گا۔کیونکہ میرے جاننے میں دو تین لوگ ہیں جو آپ کو بحفاظت کسی محفوظ جگہ پہنچا دیں گے،مگر جیسے آپ نے کہا کہ آپ کے کزن کے بہت تعلقات ہیں تو آپ کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے،میرے گھر پر آپ آرام سے رہ سکتی ہیں۔آپ نے گھر پر کسی سے ذکر تو نہیں تو کیا تھا میرا”؟
متقین نے ایکدم چونک کر پوچھا۔
“نہیں اور اسی لئے مجھے آپ کا خیال آیا کہ آپ سے زیادہ محفوظ جگہ مجھے کوئی نہیں رکھ سکتا۔”
مائشہ نے گردن جھکا کر کہا۔
“ہمم م۔۔۔تو بس اپنا سامان اٹھائیں ،ہم لوگ ابھی چلتے ہیں۔”
متقین نے بل فولڈر میں پیسے رکھتے ہوئے کہا۔
“آپ میرے دوست کی بہن ہیں،اور اسکو کام کے سلسلے میں کہیں جانا تھا،اسلئیے وہ آپکو میرے پاس چھوڑ کر گیا ہے،آپکے پیرنٹس کی ڈیتھ ہوچکی ہے،اور رشتے دار سارے دوسرے شہروں میں ہیں۔۔۔از دیٹ کلئیر ٹو یو”؟
متقین نے کور اسٹوری ترتیب دے کر مائشہ کو سمجھایا۔مائشہ نے آہستہ سے گردن ہلادی،اور خاموشی سے متقین کے پیچھے چلنے لگی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...