رشیدے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے،اگر ان لوگوں کو پتہ لگ گیا تو وہ ہم کو نہیں چھوڑیں گے۔جنت نے جب سے سنا تھا کہ رشید نے وہ ویڈیو اسکے مالکوں کو بھیج دی ہے،وہ گھبرائی ہوئی تھی۔اونچا نہ بولا کر،دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔رشید نے روٹی کا نوالہ توڑتے ہوئے اسکو ڈپٹا۔کوئی نہیں پکڑ پائے گا مجھے۔اسی لئے یہاں سے نہیں گیا ابھی کہ ہمارے غائب ہوتے ہی ویڈیو ملے گی تو ہم فوراً پکڑ میں آجائیں گے ،اگر وہ کیمرہ کھویا نہ ہوتا تو اپنے پلان کے حساب سےآرام سے سب کام کرتا ،مگر اس سے پہلے وہ ان لوگوں کے ہتھے چڑھے ہم اسکی قیمت وصول کرکے یہاں سے چلے جائیں گے،بلکہ تو کل اپنی بے بے کے پاس چلی جا،میں پیسے ملتے ہی یہاں سے نکل جاؤنگا پھر تجھ کو لے کر ہم کسی دوسرے شہر چلیں گے،رشید نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔نہیں میں تجھ کو چھوڑ کر نہیں جاؤںگی،میرا دل بہت گھبرا رہا ہے،جنت نے توے پر سے روٹی اتاری اور اسکے ساتھ ہی آکر بیٹھ گئی۔آجکل اسکی بھوک مر گئی تھی،اسکا دل ہر وقت انجانے خوف سے دھڑکتا رہتا تھا۔تو جھلی ہوگئی ہے،ہمارے دن پلٹنے والے ہیں ،اور تو ہر وقت الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہے۔رشید نے ڈکار لے کر رومال سے منہ صاف کیا،اور وہیں پلنگ پرلیٹ گیا۔جنت اسکو ملامتی نظروں سے دیکھے گئی۔اس نے کھانا بھی نہیں کھایا اور برتن سمیٹنے لگی۔رب سوہنے تو میرے رشیدے کو سیدھا راستہ دکھا دے،اسکو طمع اور لالچ سے بچا لے،یہ حرام پیسہ ہمارے پیٹ میں نہ جائے،اس نے دل میں رشید کے لئے دعا کی اورآنکھیں خشک کرکے برتن دھونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم،متقین نے ریسیور کان سے لگاتے ہوئے کہا۔اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے،اور متقین لاؤنج سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا،جب فون کی گھنٹی بجی۔اتنی رات گئے آنے والے فون پر وہ حیران تھا،کیونکہ اسکے جاننے والے اسکو موبائیل پر ہی کانٹیکٹ کرتے تھے،اور دادو کی زیادہ جان پہچان کسی سے تھی نہیں،اور وہ بھی اس ٹائم تو انکو کوئی کال کرتا نہیں کیونکہ وہ عشاء کے بعد اپنے کمرے میں سونے چلی جاتی تھیں۔دوسری طرف ابھرنے والی نسوانی آواز پر وہ تھوڑا اور حیران ہوا۔جی دادو تو سونے جاچکی ہیں،آپ صبح انکو کال کرلیجیے گا۔دوسرے جانب رانیہ کا نام سن کر اس نے یہی اخذ کیا کہ رانیہ کو دادو سے ہی بات کرنی ہوگی۔نہیں ایک منٹ فون مت رکھیے گا ،مجھے آپ سےہی بات کرنی تھی،متقین کوجان چھڑاتا دیکھ کر رانیہ نے جلدی سے بولا،مبادا وہ فوراً ہی فون نہ رکھ دے۔جی بولئیے۔متقین نے بہت ہی شائستگی سے کہا۔دراصل مجھے آپ سے بہت اہم موضوع پر بات کرنی ہے،رانیہ نے تمہید باندھی۔جی جی بولئیے میں سن رہا ہوں۔متقین نے ریسیور ایک کان سے دوسرے پر منتقل کرتے ہوئے کہا۔ساتھ ہی وہ کرسی بھی کھینچ کر بیٹھ گیا۔اصل میں بات یہ ہے کہ میں ہمارے رشتے کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہ رہی تھی۔رانیہ نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ہم م م ۔۔متقین نے ایک صرف ہم م پر ہی اکتفا کیا،آپ کسی کو پسند تو نہیں کرتے ہیں؟رانیہ نے ہچکچکاتے ہوئے پوچھا۔میں کسی اور میں انٹرسٹڈ ہوتا تو آپ سے منگنی ہی کیوں کرتا؟متقین نے الٹا اس سے ہی سوال کرڈالا،اور ویسے میں کسی میں انٹرسٹد نہیں ہوں۔۔آپکو ایسا کیوں لگا؟؟متقین نے سنجیدگی سے سوال کیا۔دراصل میری فرینڈ کےساتھ ایسا ہوچکا ہے،اسلئیے مجھے لگا کہ شروع میں ہی آپ سے پوچھ لینا چاہیے۔رانیہ نے تھوڑا جذباتی انداز میں بتایا۔متقین گردن ہلا کر رہ گیا۔اور ویسے یہ بات تو آپکو مجھ سے پھر منگنی سے پہلے پوچھنے چاہیے تھی،متقین کو رات اس پہر اپنا انٹرویو لینا کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔دراصل میں تو چاہ رہی تھی،مگر موقع ہی نہیں ملا، اور آپ کا نمبر بھی نہیں تھا۔رانیہ نے بے چارگی سے بولا۔اور کچھ جو آپ پوچھنا چاہتی تھیں پوچھ لیں،متقین نے محظوظ انداز میں پوچھا۔اسکو اندازہ ہوگیا تھا کہ رانیہ ایک جذباتی اور حساس لڑکی ہے،سو وہ اس پر اپنا ایک نرم مزاج تاثر چھوڑنا چاہ رہا تھا،تاکہ اسکو متقین کی طرف سے کوئی خدشہ نہ رہے۔نہیں فی الحال تو اتنا ہی کافی ہے۔اور میرا نمبر بھی نوٹ کرلیں،تاکہ آئندہ آپکو جو بھی معلوم کرنا ہو آسانی سے کرسکیں،متقین نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔جی ویٹ میں اپنا موبائل لے کر آتی ہوں،نمبر نوٹ کرتے ہی رانیہ نے جلدی سے تھینکس،بائے کہہ کر فون رکھدیا۔متقین کندھے اچکاتا ،ریسیور کریڈل پر رکھتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔
بی بی صاحب مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے،کرم دین کچھ گھبرایا ہوا مائشہ کے کمرے میں داخل ہوا۔جی بولئیے،مائشہ اچانک اسکو اپنے کمرے میں دیکھ کر کچھ پریشان ہوگئی۔کرم دین نے جب سے زیشان تایا کے کمرے میں ہونے والی گفتگو سنی تھی،وہ کافی پریشان تھا۔وہ تایا کے لئیے قہوہ لے کر گیا تھا اور اس نے وہاں ہونے والی ساری بات سنی،اور خاموشی سے وہاں سے پلٹ گیا۔وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس خطرے سے مشی کو آگاہ کرکے وہ اسکو بچا لے،اسکو باتوں سے کچھ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ سلمان صاحب کا قتل ہوا ہے،اب وہ مشی کو اس سازش کا حصہ نہیں بننے دینا چاہتا تھا۔اور اسی غرض سے وہ اس وقت مائشہ کے کمرے میں تھا۔بی بی صاحب، اس نے ڈرتے ڈرتے آس پاس نظر دوڑائی اور مشی کے تھوڑا نزدیک آکر اس کو رازداری میں سب بتانے لگا جو کچھ اس نے سنا تھا،بس وہ بیچ سے سلمان صاحب کے قتل والی بات گول کرگیا کہ کہیں مشئ بی بی اس بات سے جزباتی ہوکر سب کے سامنے ہی بات نہ کھول دیں،بی بی صآحب آپ جلد از جلد یہاں سے چلے جاؤ،آپ کی دولت کے چکر میں یہ لوگ آپ کی زبردستی شادی کروادیں گے،بلکہ مجھے تو آپکی جان کو بھی خطرہ لگ رہا ہے،انکے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔اندر اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے ۔کرم دین نے آنکھوں سے آنسو پونچھے جو اسکو پھر سے سلمان صاحب کو سوچ کر آگئے تھے۔اچھا بابا ،میں کچھ سوچتی ہوں،آپ جائیے،مشی یہ سن شاک میں تھی۔وہ جنکو اپنا سمجھ رہی تھی،وہ اسکے باپ کے مرتے ہی دولت ہتھیانے کے طریقے سوچنے لگے تھے۔وہ پہلے ہی ڈپریشن میں تھی،سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائے،کس سے مدد لے۔نا نا نانی کا اسکے انتقال ہوچکا تھا،دو خالائیں تھیں جو کینیڈا اور آسٹریلیا میں مقیم تھیں۔ماموں اسکے کوئی تھے نہیں،بہت دیر کی سوچ بچار کے بعد اس نے عروش کی طرف جانے کا سوچا تھا، مگر اس طرح اسکو گھر سے کوئی نکلنے نہیں دے گا،بس یہی سوچ کر وہ رات کا انتظار کرنے لگی۔اس نے اپنا بیگ پیک نکال کر اپنا ضروری سامان رکھ لیا تھا،کپڑے نکالتے وقت اسکی نظر کیم کارڈر پر پڑی،اس نے وہ بھی اپنے بیگ کے اندر ہی رکھ لیا۔اپنے کریڈٹ ،ڈیبٹ کارڈ،کافی مہیںے کی جمع شدہ پاکٹ منی،اپنے بچپن کا البم اور اپنی ماما کا زیور جو انکے انتقال کے بعد اسکے سیف کے لاکر میں رکھا تھا،ہینڈ کیری میں رکھ کر وہ پرسکون ہوگئی تھی،کم ازکم اب اسکو مالی پریشانی تو نہیں ہوگی۔باقی منصوبہ بندی وہ سکون سے بیٹھ کر کرے گی۔ابھی اسکو خود کو نارمل شو کرنا تھا۔اور اسی غرض سے وہ رات کا کھانا کھانے چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کندھے پر بیگ پیک ،ہاتھ میں ہینڈ کیری لئے ،سر پر جیکٹ کا ہڈی گراۓ وہ دبے قدموں سے کچن کے عقبی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی،جو لان سے گھوم کر باہر کی طرف نکلتا تھا۔اس وقت گھر کا ہر ذی روح خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا،سواۓ اسکے جو رات کے گہرے ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔اور اب موقع غنیمت جان کر خاموشی سے گھر سے نکل رہی تھی۔آہستہ سے دروازہ بند کرتے وقت مڑ کر نمناک آنکھوں سے ایک الوداعی نظر گھر کو دیکھا،اور آستینوں سے آنسو پونچھتے ہوئےکبھی نہ واپس آنے کا مصمم ارادہ لئے دہلیز پار گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
باہر نکل کر اسنے اپنی گاڑی نکالی اور زن سے گھر کا گیٹ عبور کرگئی۔اب اسکا رخ عروش کے گھر کی طرف تھا، جس کو وہ پہلے ہی آگاہ کر چکی تھی۔عروش اپنے ٹیرس پر کھڑی اسکا ویٹ کر رہی تھی۔مشی کی گاڑی دیکھ کر وہ جلدی سے گیٹ کھولنے آئی۔اندر داخل ہونے پر مشی نے دیکھا کہ عروش کے پیرنٹس بھی لاؤنج میں بیٹھے اسکا ویٹ کر رہے ہیں۔وہ انکو سلام کرکے وہیں کاؤچ پر بیٹھ گئی۔ان دونوں کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ انکو مشی کا آنا اچھا نہیں لگا ہے۔آنٹی انکل میں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرونگی بس ایک دو دن میں کوئی انتظام کرلوںگی ۔اس نے نظریں نیچی رکھتے ہوۓ کہا۔ہاں بیٹا ہم سب کے حق میں یہی بہتر ہے،آپ کو پتہ ہے کہ آپکے تایا تائی ہم پر آپ کو ورغلانے کا الزام ڈال سکتے ہیں،اور پھر بہرحال آپ کی ساتھ عروش کی بھی بدنامی ہوگی۔اسکے پاپا نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔جی انکل ،بلکل ،میں بس دو دن میں چلی جاؤنگی۔امڈنے والے آنسوؤں کا گلا گھوںٹ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔لاؤنج میں موجود ہر چیز اسکو آنسوؤں کے باعث دھندلی نظر آرہی تھی،مگر وہ خود کو مضبوط دکھانا چاہتی تھی۔چلو مشی تم فریش ہو جاؤ،اتنی دیر سے خاموش بیٹھی عروش نے مشی کو وہاں سے لے جانا مناسب سمجھا۔سیڑھیاں چڑھتے اسکے کان میں عروش کی ماما کے الفاظ پڑے جو انہوں نے بظاہر آہستگی سے کہے تھے،مگر مشی کا دل اندر تک چیر گئے۔ماں باپ کی سر چڑھی اولادیں ایسے ہی رنگ دکھاتی ہیں۔عروش کے ماما پاپا آپس میں بات کرتے لاؤنج سے نکل کر چلے گئے۔اور ایک بار پھر مشی نے اپنے آنسوؤں کا گلا گھونٹ لیا۔وہ بس یہاں سے نکلنے کا اگلا لائحہ عمل ترتیب دینےلگی۔
کیا ہوا،آج اب تک مشی نیچے نہیں آئی ہے؟؟زیشان تایا نے اخبار کو تہہ لگا کر رکھتے ہوئے آفرین تائی سے استفسار کیا۔اس وقت دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔اور عموماً مشی چھٹی کے دن بھی گیارہ بجے تک ناشتے کے لئے آجاتی تھی۔ہاں ابھی دکھلواتی ہوں کسی کو بھیج کر،آفرین تائی نے ٹی وی آف کرتے ہوئے کہا۔وہ اس وقت کوئی ریپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھ رہی تھیں۔کرم دین،انہوں نے وہیں سے کرم دین کو آواز دی۔جی بی بی جی،کرم دین رومال سے ہاتھ خشک کرتا ہوا آیا،وہ اس وقت دن کاکھانا بنا رہا تھا۔جاؤ مشی بی بی کا دروازہ ناک کرو،وہ ابتک نیچے نہیں اتری ہیں۔آفرین تائی نے اپنا موبائیل اٹھاتے ہوئے کہا۔انکا ارادہ اپنی بہن سے بات کرنے کا تھا۔کرم دین سر ہلاتا چلا گیا۔دو تین بار ناک کرنے پر بھی دروازہ نہیں کھلا تو کرم دین نے آکر آفرین تائی کو اطلاع دے دی۔اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا،کہ کیا واقعی مشی بی بی گھر پر نہیں ہیں،جو وہ دروازہ نہیں کھول رہیں۔مصیبت میں ڈال دیا ہے اس لڑکی نے،نہ کام کی نا کاج کی،ذرا شادی ہو لینے دو،پھر دیکھتی ہوں میں،آفرین تائی اپنی بہن سے دل کی بھڑاس نکالتی سڑھیاں چڑھنے لگی تھیں۔ایک دو اور تین ناک پر بھی جب دروازہ نہیں کھلا،تو انہوں نے دروازے کا ناب گھمایا۔جو فوراً ہی کھل گیا۔اندر کمرہ خالی تھا،باتھ روم میں بھی سناٹا تھا۔باتھ روم چیک کرنے پر وہ بھی خالی ملا۔اچھا میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں،انہوں نےجلدی سے بہن کا فون کاٹا،اور مشی کو کال ملانے لگیں،انکے خیال میں مشی صبح صبح کسی دوست کی طرف چلی گئی تھی۔مگر انکو سخت غصہ آرہا تھا،کہ ان سے اجازت لئے بغیر وہ ایسی من مانی کیسے کر سکتی ہے۔مشی کا سیل فون بھی آف تھا۔آخر اس لڑکی نے ستانے کی کونسی قسم کھائی ہوئی ہے،خود ہی نمٹیں بھئی یہ اپنی چہیتی سے،مجھے بیچ میں پھنسا کر رکھا ہوا ہے۔وہ بڑبڑاتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگیں،