دو دن بعد زروا کی برتھ ڈے تھی۔ہر سال ہی وہ اپنی فرینڈز کو بلا کر برتھ ڈے سیلیبریٹ کرتی تھی۔سو انعم کے لئے یہ ویک بہت مصروف تھا،پارٹی ارینجمنٹ کے لئے اس نے آرگینائزرز سے بات کرلی تھی،زروا نے اس بار اپنی برتھ ڈے میں سلمبر پارٹی رکھی تھی۔جسمیں اسکے فرینڈز نائٹ اسٹے اوور کرنے والے تھے۔انعم نے جب یہ پلان سنا تھا تواس نے زروا سے کہا تھا کہ وہ کچھ اور پلان کرلے کیوں کہ اسکا نہیں خیال کہ کسی کو بھی گھر سے نائٹ اسٹے کی پرمیشن ملے گی۔مگر انعم کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دو تین کے علاوہ سب ہی نے آنے کی ہامی بھرلی۔زروا میں تو تمہیں کبھی اجازت نہ دیتی کسی اور کے گھر جاکر رہنے کی،انعم نے باتوں کے دوران زروا سے کہا۔مما آپ نہ بھی بتاتیں تو بھی مجھے پتہ ہے کہ آپ کتنی کنزرویٹیو ہیں۔زروا جو پارٹی گیمز کی لسٹ بنا رہی تھی،اس نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔انعم کے دل کو دھکا لگا،تو کیا زروا کو وہ کنزرویٹیو لگتی ہے اسلئے وہ اس سے اس طرح بی ہیو کرتی ہے۔انعم جو مینیو لسٹ بنا رہی تھی،چھوڑ کر سوچنے لگی۔وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے روم میں آگئی تھی،ابھی وہ زروا سے بات کرکے اپنا اور اسکا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی،مگر اس نے سوچ لیا تھا وہ زروا سے پارٹی کے بعد بات کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔
مائشہ شاور لے کر نکلی،تو شہریار اسکے روم میں بیٹھا ہوا تھا۔آج تک کبھی شہریار اسکے روم میں نہیں آیا تھا،آپ یہاں کیسے ؟؟اس نے ناگواری سے پوچھا۔میرے ساتھ چلو پاپا نے بلوایا ہے،چاچو کا کچھ پتہ لگا ہے۔یہ سنتے ہی مائشہ شہریار سے بھی پہلے کمرے سے باہر نکل گئی۔کیا ہوا تایا ابو پاپا کہاں ہیں؟؟؟آپکی ان سے بات ہوئی؟؟اس نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیاں پوچھا۔اپنے روم سے زیشان تایا کے روم تک وہ بھاگتی ہوئی آئی تھی۔تمہارے لئیے کچھ اچھی خبر نہیں ہے،زیشان تایا نے سر جھکا کر کہا۔کیا ہوا تایا ابو،پاپا ٹھیک تو ہیں نہ؟؟؟مائشہ نے انکو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔سلمان اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔زیشان تایا نے کہہ کر اپنا چہرہ موڑ لیا۔ارے ارے پکڑو اسکو،آفرین تائی کی آواز پر وہ مڑے تو مائشہ کو زمیں پر بے ہوش گرا ہوا پایا۔پانی دو جلدی۔انہوں نے آفرین تائی سے کہا۔وہ بھاگ کے گلاس میں پانی انڈیل کر لائیں۔دو چار چھپاکے پانی کے مارنے پر مائشہ نے آنکھیں کھولیں،دو/چار سیکنڈ وہ سب کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی۔پھر زور سے چیخ مار کر آفرین تائی کے گلے لگ گئی۔نہیں ایسے نہیں ہوسکتا آپلوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے،میرے پاپا بلکل ٹھیک تھے،انکو کچھ نہیں ہوسکتا۔اس نے آفرین تائی کو پورا ہلا ڈالا تھا۔بیٹا صبر سے کام لو،سلمان کو کسی ٹرک والے نے ٹکر مار دی تھی،وہ کھائی میں گر گیا تھا۔چہرے کی شناخت ممکن نہیں ہے۔اس کا کچھ سامان پولیس اسٹیشن میں ہے۔تم چل کر شناخت کرلو۔زیشان تایا نے لہجے کو گلوگیر بناتے ہوئے کہا۔شہریار اس سب ڈرامے میں تماشائی کا کردار نبھا رہا تھا۔نہیں میں نہیں جاؤنگی۔اور چیخ مار کر وہ پھر ایک بار بے ہوش ہوگئی تھی۔اور ہوش میں نہیں آرہی تھی۔تمہارا کیا دھرا ہے سارا،زیشان تایا نے شہریار کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔اب کھڑے کیا ہو،گاڑی نکالو،اسکو ہاسپٹل لے کر جانا ہوگا۔وہ اور آفرین تائی اسکو اٹھانے کی کوشش کرنے لگے،شہریار فوراً باہر کی طرف بھاگا۔وہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی جلدی ہوسکے سامان سمیٹ لے،ہم آج ہی یہاں سے نکل رہے ہیں۔میں یہاں سے جاکر ان لوگوں کو ویڈیو بھیجوں گا۔بس تو جاکر بول آ بیگم صاحبہ کو کہ تیرے کسی چاچے کی فوتگی ہوگئی ہے،ہم پنڈ جارہے ہیں۔سمجھ رہی ہے نہ؟؟رشید نے اسکو سارا لائحہ عمل بتایا۔جنت کی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے رشید کو یہ سب کرنے سے روکے۔وہ بادل نخواستہ اپنے کمرے سے نکلی۔گھر پہنچنے پر اسکو آفرین تائی اپنے کمرے میں نہ ملیں۔اس نے سوچا موقع پاکر مشی بی بی کو سب بتادیتی ہوں۔پھر تو رشید کے پاس یہاں سے جانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا ،جب مشی بی بی کو ساری اصلیت پہلے ہی پتہ ہوگی تو رشید زیشان صاحب کو بلیک میل نہیں کر پائے گا۔ایسے کرکے کم از کم وہ رشید کو اس گناہ کی شراکت سے بچا سکتی تھی۔یہی سوچ کہ وہ مائشہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں مائشہ بھی نہ تھی۔البتہ جنت کو اسکا کیم کارڈر سامنے ہی چارج پر لگا نظر آگیا۔جنت کی تو جان ہی نکل گئی،اگر کہیں رشید اس طرف آگیا ہوتا تو اسکا بھانڈا پھوٹ جاتا۔جنت نے جلدی سے کیم کارڈر چارج سے نکال کر مائشہ کی الماری میں کپڑوں کے بیچ رکھ دیا،اور جلدی سے کمرے سے نکل گئی،اس سے پہلے کہ کوئی اسکو مائشہ کی الماری کھولے دیکھ لیتا،تو الٹا اسکی نیکی گلے پڑ جاتی۔باہر نکلتے ہی اسکا ٹکراؤ کرم دین سے ہوگیا۔جس سے اسکو پتہ لگا کہ مائشہ کو تو گھر والے ہاسپٹل لے کر گئے ہیں۔جنت دل مسوس کر وہاں سے واپس آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں مشی بی بی کے ہاتھ وہ کیم کارڈر تو نہیں لگ گیا،اور اسکو دیکھ کر انکی طبعیت خراب ہوئی ہو۔رشید نے جنت کی زبانی مائشہ کے ہاسپٹل کا سن کر قیاس کیا۔جنت کے اندر ایکدم سکون کی لہر دوڑ گئی۔وہ سوچنے لگی واقعی اس نے اس طرح سے کیوں نہیں سوچا۔مگر رشیدے مشی بی بی کو وہ کیمرہ کیسے ملے گا،اس نے اندر کی خوشی چھپاتے ہوئے کہا۔ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں،رشید نے تھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔اگر ایسا ہوا تو میری ساری پلاننگ اکارت جائے گی۔رشید نے افسوس سے سر جھٹکا۔ہاں پر رشیدے اب ہم کو یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں ہے،وہ ویڈیو تو انلوگوں کو ویسے ہی مل گئی ہے،اب ہم یہاں سے جائیں گے تو اتنا اچھا رہنا کھانا آرام کہاں ملے گا ہم کو؟؟کہاں مارے مارے پھریں گے ؟؟جنت نے رشید کو آنے والے دنوں کی مشکلات سے ڈرایا۔ہم م م۔۔۔مشی بی بی کے ہاسپٹل سے آنے تک ہمکو ٹہرنا ہوگا،تاکہ اصل صورت حال کا پتہ لگ سکے۔رشید نے پر سوچ انداز میں کہا۔جنت فی الحال خوش ہوگئی تھی،اسکو لگ رہا تھا مشی کی طبعیت خرابی کی ہو نہ ہو یہی ایک وجہ ہے،ورنہ دن میں تو وہ بھلی چنگی تھیں۔سو وہ کافی اطمینان سے اپنے کام سمیٹنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔
She had vasovagal syncope…
آسان الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلڈ پریشر اتنا لو ہوجاتا ہے کہ،دماغ کو خون کی سپلائی عارضی طور پر رک جاتی ہے،جس کی وجہ سے بے ہوشی ہوجاتی ہے۔اور عام طور ایسا کوئی بری خبر سننے یا کچھ لوگوں کو خون دیکھنے سے بھی ہوجاتا ہے۔فی الحال ایسی کوئی خطرے کی بات نہیں ہے،ہم نے دوائیں وغیرہ دے دی ہیں۔ابھی وہ انڈر آبزرویشن ہیں۔ڈاکٹر نے زیشان تایا کو اپنے روم میں بلا کر تفصیل بتائی۔تو کب تک رکھیں گے آپ مائشہ کو؟؟زیشان تایا نے پریشان ہوکر پوچھا۔ابھی تو وہ ہوش میں آگئی ہیں،تھوڑی دیر میں آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔مگر ہم انکی کنڈیشن دیکھ کر ہی آگے کچھ بتا سکتے ہیں،کیونکہ کچھ لوگوں کو یہ ایپیسوڈک(episodic)ہوتا ہے۔ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں انکو آگاہ کیا۔شکریہ ڈاکٹر صاحب ۔زیشان تایا انکے روم سے اٹھ کر آفرین تائی اور شہریار کے پاس آگئے،وہ لوگ کوریڈور میں کھڑے تھے،کیونکہ اب تک مائشہ ایمرجنسی میں تھی۔سب کتنا آرام سے چل رہا تھا،یہ سب تم دونوں ماں بیٹا کی بیوقوفیوں کا نتیجہ ہے جو میں بھگت رہا ہوں۔ایک بار پھر زیشان تایا کو نئے سرے سے شہریار اور آفرین تائی پر غصہ آرہا تھا۔وہ پریشانی کے عالم میں ٹہلنے لگے۔کتنی مشکل سے انہوں نے ایس پی کے ساتھ مل کر پورا ڈرامہ رچا تھا،سلمان صاحب کی گھڑی اور موبائیل جو قتل کے وقت انکے پاس تھا اسکو انہوں نے توڑ پھوڑ کر حادثہ کے شکار ہونے کا تاثر دیا تھا،باقی ایک میت سرد خانہ سے ایس پی زیشان نے انتظام کردی تھی،جس کا چہرہ مسخ تھا،انکو پوری امید تھی،مائشہ ڈیڈ باڈی دیکھنے کی ہمت نہیں کرے گی،اور وہ لوگ بس اس کو دفنا کر دنیا اور مائشہ کے سامنے سلمان صاحب کے قصہ کو وقت کی گرد میں دبا دیں گے،کہ مائشہ نے یہاں دوسری ٹینشن کھڑی کردی تھی۔اس سب سلسلے میں ایس پی نے بھی ان سے تگڑی رقم وصولی تھی۔وہ جتنا اس قصہ کو جلد از جلد نمٹانا چاہ رہے تھے،اتنا ہی وہ طول پکڑتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کیا دادو مجھے اس طرح جاکر انٹرویو نہیں دینا۔متقین نے ناراضگی سے کہا۔ارے کیا لڑکیوں کی طرح گھبرا رہا ہے۔بس ایک رسمی سی ملاقات ہے،ماشااللہ میرے بچے میں کوئی کمی تھوڑی ہے،جو کوئی منع کرے گا۔ وہ لوگ بس ایک بار ملنا چاہتے ہیں اور یہ تو انکا حق ہے۔دادو نے اسکو ڈپٹا ۔دادو دو دن پہلے لڑکی دیکھ کر آگئی تھیں،لڑکی تو انکو پہلے ہی پسند تھی،بس رشتہ ڈالنے گئی تھیں۔وہاں سے فوراً ہی ہاں ہوگئی تھی۔اب وہ لوگ چاہتے تھے کہ متقین سے گھر آکر مل لیں،تاکہ آگے رسم وغیرہ کی بات چیت طے ہوجائے۔آخر وہ تھوڑی دیر کی مغز ماری کے بعد متقین کو ملنے کے لئے قائل کرچکی تھیں۔آنے والے اتوار کی شام کا کہہ دیتی ہوں،تم بھی گھر پر ہی ہوگے،اور انلوگوں کو بھی چھٹی کے دن آسانی ہوگی۔دادو نے متقین سے راۓ لینی چاہی۔ہاں آپکو جو جیسے ٹھیک لگے کرلیں۔متقین جو انکی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا،اس نے آنکھیں موندے جواب دیا۔جیتا رہے ،خوش رہے،بس آیک بار تمھارا گھر بسا لوں تو سکون سے مروں گی۔انہوں نے خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔اوں ہوں۔۔۔کیسی باتیں کرتی ہیں آپ دادو۔۔متقین نےآنکھیں کھول کر انکو خفگی سے دیکھا۔اچھا اچھا نہیں کرتی،یہ بتاؤ،کیا پہنو گے ،میرے خیال سے شلوار قمیص ہی ٹھیک رہے گا۔دادو نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔دادو کچھ بھی پہن لوں گا،کہیں تو یونیفارم پہن کر ہی بیٹھ جاؤں؟متقین نے انکو شرارت سے دیکھا۔نہیں میرا پوتا تو اسی حال میں بھی بیٹھ جائے تو اسکو نظر لگ جائے گی،دادو نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ہاہاہا۔۔کتنی خوش فہم ہوتی ہیں نہ یہ خواتین اپنے گھر کے لڑکوں کے لئیے۔متقین نے انکے ہاتھوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔دونوں دادو پوتا آج کتنے دن بعد کھل کر ہنس بول رہے تھے۔دادو کا تو بس نہیں تھا کہ وہ اتوار کو دلہن ہی رخصت کرکے لے آتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انعم،زروا،زمل تینوں ہی حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساسات سے فاران کو دیکھ رہے تھے،جو ان لوگوں کو بغیر انفارم کئے زروا کے برتھ ڈے سے ایک روز قبل ہی پاکستان پہنچا تھا۔دیٹس ناٹ فئیر پاپا،فاران بھنک بھی نہیں پڑنے دی تم نے،پاپا آئی لائیک یور سرپرائز،تینوں ہی ایک ساتھ اپنی کہہ جارہی تھیں۔ارے بابا اندر بلا کر بیٹھنے بھی دوگی یا نہیں،فاران نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔اوہ ہاں،چلو،سب سے پہلے انعم نے اس کے کندھے سے بیگ پیک اتارتے ہوئے کہا۔فاران بھی اسکے پیچھے ٹرالی بیگ گھسیٹتا ہوا اسکے پیچھے چل دیا،زمل اور زروا اسکے دونوں بازو پکڑے ہوئے تھیں،اس نے باری باری دونوں کے سر پر پیار کیا۔چلو پہلے تم فریش ہوجاؤ،میں کچھ کھانے کا دیکھتی ہوں،تم بتا کے آتے تو انتظام کرکے رکھتی نہ میں،انعم نے اسکو ایک بار پھر ناراضگی سے دیکھا۔ادھر آؤ تم میرے پاس بیٹھو،فی الحال ،میں نے پلین میں کھانا کھا لیا تھا،فاران نے انعم کا ہاتھ پکڑ کر بٹھایا،جو اسکے پاس ہی کھڑی تھی۔مگر پھر بھی،دیکھو میرا حلیہ کتنا رف ہورہا ہے،انعم کو اب نئی فکر ستانے لگی،ارے فیشل تو تازہ تازہ لگ رہا ہے،فاران نے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ہاں وہ تو کل کی پارٹی کے لئے کروالیا تھا۔انعم نے جھینپتے ہوئے کہا۔اتنے عرصے بعد فاران کو اتنا قریب اور اتنے غور سے دیکھتے انعم کچھ جھینپ رہی تھی۔زروا فاران کو اپنی برتھ ڈے پارٹی کی تفصیل بتانے لگی،اور زمل اسکو اپنا ڈریس سلیکشن۔۔دونوں اسکے دونوں اطراف گلے لگ کر بیٹھی تھیں،اور وہ پیچھے سے انعم کا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا،جس کو پکڑے انعم خود کو تحفظ اور محبت کے ان دیکھے حصار میں محسوس کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
ایسا کرو تم سب کو فون کرکے کل کی تدفین کا کہہ دو،بس ہم کسی کو چہرہ دکھائے بغیر ہی اس قصے کو تو ختم کرتے ہیں،مشی پتہ نہیں کتنے دن ہاسپٹل میں رہے گی،اور واپس آکر نئے سرے سے پھر وہی ڈرامہ ہوگا۔زیشان تایا نے آفرین تائی کو ہدایت دی۔ہاں مگر آپ کیسےمیت کا چہرہ چھپائیں گے،اگر کسی کو اندازہ ہوگیا۔آفرین تائی کو اس سب سے بہت خوف آرہا تھا،انکا کہنا تھا،کہ سب کو بس بتا دیتے ہیں کہ لاش مسخ شدہ تھی،تو بس جلد از جلد سب کام نمٹا دئیے۔مگر زیشان تایا پکا کام کرنا چاہ رہے تھے،کسی کو کوئی شک نہ ہو اسلئیے وہ سب کام نارمل طریقے سےسب کے سامنے کرنا چاہ رہے تھے۔تم اپنا دماغ زیادہ مت چلاؤ،مجھے پتہ ہے ،سب کچھ کیسے کرنا ہے،وہ کسی ایکسیڈنٹ کی مسخ شدہ لاش ہے،کوئی نہیں پہچانے گا۔اور ویسے بھی میں کسی کو چہرہ نہیں دیکھنے دوں گا۔زیشان تایا نے انکو جھڑکا۔آفرین تائی کشمکش میں موبائیل اٹھا کر نمبر ڈائیل کرنے لگیں۔پریشانی دونوں کے چہرے سے عیاں تھی،زیشان تایا آفرین تائی کو دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...