ہاۓ پاپا،آج فرائ ڈے تھا اور زروا اس وقت فاران سے بات کرنے بیٹھی تھی۔فاران کی جمعے کو چھٹی ہوتی تھی،اور اس دن وہ آرام سے گھر والوں سے بات کرتا تھا۔ہاۓ بیٹا،ہاؤ آر یو؟فاران نے ٹانگیں سیدھی کرکے لیپ ٹاپ پاؤں پر رکھا،آئی ایم ایبسولیوٹلی آل رائٹ۔زروا نے چہکتے ہوۓ کہا۔سو کیسی چل رہی ہیں اسٹڈیز؟؟پاپا اچھی چل رہی ہیں۔بٹ مما کیا کم ہیں جو آپ بھی پڑھائی کے پیچھے لگ گئے۔زروا نے ناک چڑھاتے ہوۓ کہا۔فاران نے غور سے زروا کو دیکھا،وہ پہلے ایسے بات نہیں کرتی تھی۔مگر وہ اسکو ٹوک کر بات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔سو اس نے گہری سانس لیتے ہوۓ لہجے کو نارمل رکھااوکے ،لیو اٹ،یہ بتائیے کیسی رہی شاپنگ آپکی؟دیٹس ونڈر فل۔زروا نے اشتیاق سے بتایا۔ویٹ اے منٹ ،وہ بھاگتی ہوئی بیڈ سے اتری۔اور دو منٹ میں ہی کافی سارے شاپرز اٹھا کے لے آئی۔اب وہ مسلسل ایک ایک چیز کھول کھول کے فاران کو دکھا رہی تھی،جو کہ بظاہر فاران ریکھ رہا تھا،مگر وہ زروا کے اندر آنے والی اس تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔واو ویری نائس۔ فاران نے اسکی ساری شاپنگ دیکھ کے اینڈ میں کہا۔زروا اس وقت چھوٹے بچوں کی طرح بے فکر اور خوش لگ رہی تھی۔دس منٹ پہلے والی ناگواری کا شائبہ تک نہ تھا۔اچھا پاپا نیکسٹ منتھ میری برتھ ڈے ہے تو مجھے کیا دیں گے آپ؟اوہ ہاں ،چلیں آپ بتائیں کیا چائیے آپکو؟فاران نے مسکراتے ہوۓ کہا۔پاپا مجھے آئی فون چاہئے۔میری سب دوستوں کے پاس ہے۔زروا نے اٹھلا کے کہا۔ہم م م۔۔اوکے،چلیں مل جاۓ گا آئی فون آپکو۔آئی لو یو پاپا،آئی لو یو ویری مچ۔زروا نے لیپ ٹاپ پر فلائنگ کس اچھالی۔آئی لو یو ٹو۔بٹ ٹیل می ون تھنگ۔فاران نے انگلی اٹھاتے ہوۓ کہا۔پاپا کے لئے ایک آئی فون پر اتنی محبت اور ماما کا کیا جو صبح سے رات تک آپکو احساس دلاۓ بغیر آپکے سب کام کرتی ہیں۔آئی تھنک شی ڈیزرو مور تھنکس اینڈ لوI think she deserve more love and thanks.فاران نے زروا بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔پاپا،آئی لو ہر ٹو،بٹ شی از آ بٹ اریٹیٹنگpapa i love her too but she is a bit irritating.اور انعم نے یہ جملہ باہر سے اندر آتے ہوۓ سنا۔اس کے قدم دروازے پر ہی جم گئے۔زروا اس سے اتنی متنفر ،آخر اسکی تربیت ،پیار میں کیا کمی رہ گئی ہے۔وہ الٹے قدموں وہاں سے واپس آگئی۔اندر زروا اور فاران کی کافی دیر بات چلتی رہی اور انعم کتنی ہی دیر سونے کے بہانے آنسو بہاتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔
بھائی صاحب برا نہ مانیئے گا،مگر لڑکیوں کی اتنی آزادی بھی ٹھیک نہیں ہے۔آپ نے مشی کو لڑکیوں کے ساتھ ٹور پر جانے کی اجازت دے دی۔سلمان صاحب جو مائشہ کے پاپا تھے،وہ بزنس کے سلسلے میں شہر کے باہر تھے،اور ابھی ان کی واپسی ہوئی تھی۔مشی کے یونی فیلوز کا پاک ٹور کا پروگرام بن رہا تھا،تو مشی نے ان سے فون پر اجازت لے لی تھی،آفرین تائی اس بات کے حق میں نہیں تھیں، اور اب اسی بات کو لے کر وہ سلمان صاحب سے ناراض تھیں۔میں نے سوچا بن ماں کی بچی ہے اسلئیے میں نے اپنے اکلوتے بیٹے سے اسکی بات طے کی تھی،مگر وہ ابھی ہی مجھے اور شہریار کو خاطر میں نہیں لاتی ہے،بعد میں کیا کرے گی۔تائی جان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح سلمان صاحب کومائشہ کو دی جانے والی آزادی واپس لینے پر مجبور کریں۔بھابی آپ کا کہنا بجا ہے،آپ نے میرے اور مشی کے اوپر احسان کیا تھا،مگر سب کچھ بہت واضح ہے،شہریار اور مشی کے ذہن بلکل میل نہیں کھاتے،اس بات کو آپ یہیں ختم سمجھیں۔سلمان صاحب نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔وہ ویسے بھی اس رشتے سے خوش نہیں تھے،مگر اس وقت انکی والدہ زندہ تھیں،جب آفرین تائی اور زیشان تایا نے شہریار کے اصرار پر رشتہ ڈالا تھا،اور زیشان اور سلمان صاحب کی والدہ کی دلی مراد پوری ہوئی تھی۔ویسے تو شہریار میں بظاہر کوئی کمی نہیں تھی،مگر سلمان صاحب کو شہریار کے اطوار کچھ خاص پسند نہیں تھے ،اسکا اٹھنا بیٹھنا ٹھیک لوگوں میں نہیں تھا۔مگر ماں کے دباؤ اور بھائی کی خوشی میں انہوں نے ہامی بھر لی تھی۔کیونکہ ماں پہلے ہی ایک بیٹی کھو چکی تھیں،اب بیٹوں کو ایک دیکھنا چاہتی تھیں،سلمان صاحب نے انکی خوشی میں جذباتی فیصلہ کرلیا تھا،مگر وقت کے ساتھ ساتھ انکو اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا احساس ہوتا جارہا تھا،اور آج موقع غنیمت جان کر انہوں نے یہ بوجھ اپنے اوپر سے اتار پھینکا تھا۔زیشان تایا اور آفرین تائی شہریار کی مرضی پر اسلئیے ہنسی خوشی راضی ہوگئے تھے کہ مائشہ سے شادی کی صورت بزنس کا باقی ۵۔%بھی انکے حصے میں آجاتا۔مائشہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔مائشہ کی والدہ اسکی پیدائش کے وقت ہی وفات پا گئی تھیں،مگر سلمان صاحب نے صرف مائشہ کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کی تھی،انہوں نے اسکو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا تھا ،اور بہت نازو نعم میں اسکی پرورش کی تھی۔مائشہ فطرتاً ایک ہنس مکھ اور لاابالی لڑکی تھی۔وہ I.Rمیں آنرز کر رہی تھی۔اسکی منگنی میٹرک کرتے ہی شہریار کے ساتھ ہوگئی تھی۔مگر سلمان صاحب نے صاف کہہ دیا تھا کہ مائشہ کی جب تک پڑھائی نہیں ختم ہوتی ،اسکی شادی نہیں کریں گے۔مائشہ ان سب جھنجھٹوں سے دور اپنی الگ ہی دنیا میں مگن تھی۔اسکو شہریار سے نہ خاص لگاؤ تھا نہ ہی یہ مسئلہ کہ اسکی شادی شہریار سے ہوگی۔تائی جان اسکی حرکتیں بس شادی کے انتظار میں برداشت کر رہی تھیں،مگر آج سلمان صاحب نے انکے سارے صبر پر پانی پھیر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انو دیکھو تم تھوڑے عرصے کے لئے زروا پربےجا روک ٹوک چھوڑ دو،اس سے تھوڑا کلوز ہونے کی کوشش کرو،مے بی وہ تمھارے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ سے تم سے منتفر ہورہی ہے۔اس ایج میں بچے خود کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں،وہ زیادہ روک ٹوک برداشت نہیں کرتے۔فاران نے زروا سے بات کرنے کے بعد انعم کو کال ملائی تھی۔مگر فاران تم یہاں ہو نہیں میں ٹوکوں نہیں تو زروا بلکل ہی ہاتھ سے نکل جائے گی۔انعم نے تشویش سے کہا۔تو یار ابھی وہ کونسا تمھارے ہاتھ میں ہے،فاران نے چڑ کے کہا۔دیکھو ،ابھی وہ اس فیز میں نہیں ہے کہ تم اس پر مزید سختی کرو،فی الحال اس سے اچھے ریلیشن بنانے کی کوشش کرو،معلوم کرو اسکے دل میں کیا چل رہا ہے،وہ کیوں تم سے بدزن ہورہی ہے۔اسکا فرینڈ سرکل جاننے کی کوشش کرو۔وہ تم سے جب ہی کھلے گی جب تم دونوں کا آپس میں اچھا ریلیشن ہوگا۔فاران نے انعم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ہمم م م۔۔۔میں دیکھتی ہوں۔انعم نے ہونٹ بھینچتے ہوۓ کہا۔دیکھو انو میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تمھارا طریقہ غلط ہے مگر ہر بچے کی اپنی فطرت ہوتی ہے،مے بی زروا سختی کے بجاۓ نرمی سے ہینڈل ہوجاے۔فاران کو احساس ہوا تھا انعم کچھ بجھ سی گئی ہے۔تم صحیع کہہ رہے ہو میں کوشش کروں گی۔انعم نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا۔اچھا چلو اب تم اپنی شاپنگ دکھاؤ،فاران نے ماحول کا تناؤ تھوڑا کم کرنا چاہا۔میں نے تم کو سارے سوٹس کی پکس واٹس ایپ تو کی تھیں،تم نے دیکھیں نہیں۔انعم نے اپنا موبائیل اٹھا کہ چیک کیا کہ کیافاران کو پکس گئی ہی نہیں تھیں۔ ارے پکس تو مل گئی تھیں مگر تم اپنے اوپر لگا کے دکھاؤ گی تو زیادہ سمجھ آئے گا نہ،فاران نے مسکرا کے کہا۔ایک تو تمھاری یہ ڈرامے بازیاں ختم نہیں ہوتی ہیں،انعم اپنی پرانی جون میں واپس آچکی تھی،وہ اٹھ کے الماری سے کپڑوں کے بیگز نکالنے لگی۔ فاران کے اندر ڈھیروں سکون اتر گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت مائشہ کی آنکھ کھلی،دھوپ چھن چھن کر کمرے کے اندر آرہی تھی،اس نے موبائیل اٹھا کر ٹائم دیکھا،جو دن کے بارہ بجا رہا تھا۔وہ ہڑ بڑا کر جلدی سے اٹھی۔پاؤں میں سلیپر ڈال کر وہ روم سے باہر نکلی،لاؤنج خالی پڑا تھا۔وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ آخر متقین کہاں گیا،اسکو تو مجھے چھوڑ کے آنا تھا،تب ہی سامنے سے ایک ادھیڑ عمر آدمی آتے نظر آئے۔آپ مائشہ بی بی ہیں ناں؟انہوں نے آتے ہی سوال کیا۔جی ،مائشہ نے ایک لفظی جواب دیا۔میں متقین بابا کے گھر کام کرتا ہوں،سب مجھے غفور چاچا کہتے ہیں۔انہوں نے اپنا تعارف کروایا۔اوہ۔۔مائشہ کو یاد آیا رات متقین کسی غفور چاچا کی بات کر رہا تھا۔جی وہ متقین بابا کہہ کر گئے ہیں،وہ شام کو کوشش کرکے جلدی آجائیں گے پھر آپکو چھوڑ دیںگے۔جب تک آپ آرام سے یہاں رہیں۔مگر مجھے تو اپنے دوستوں کے پاس جانا تھا،وہ لوگ میرا انتظار کر رہے ہونگے۔مائشہ نے پریشان ہوکر کہا،آپکے صاحب نے کہا تھا وہ مجھے صبح چھوڑ آئیں گے۔اسکو تقریباً رونا آگیا تھا۔بی بی متقین بابا کافی دیر تک تیار ہوکر آپ کا انتظار کرتے رہے۔جب آپ نہیں اٹھیں تب وہ نکلے ہیں،انکوآج ضروری کام سے جانا تھا ۔آپ پریشان نہ ہوں ،انہوں نے کہا ہے تو وہ آپکو ضرور چھوڑ کر آئیں گے۔غفور چاچا نے اسکو تسلی دی۔آپ ناشتے میں کیا لیں گی؟بس ایک کپ کافی بنادیں۔وہ مردہ دلی سے کہتی وہیں صوفے پر دراز ہوگئی۔ابھی اسکو پورا دن یہاں پر بور ہونا تھا۔اسکو غصہ اور رونا ایک ساتھ آرہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا آ پ نے کیسے آپ کے بھائی نے اپنی بیٹی کے کرتوتوں پر اسکو شہہ دی ہے۔آفرین تائی جو شام سے سیخ پا ہوئی بیٹھی تھیں،زیشان تایا کے آتے ہی پھٹ پڑیں۔ارے بھائی کیا ہوگیا،جو تم نے گھر میں گھستے ہی نیوز بلیٹن چلادی۔ذرا سانس تو لینے دو۔زیشان تایا نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوۓ کہا۔ہاں بس میں تو ہمیشہ فضول ہی بولتی ہوں،دیکھنا ایک دن وہ لڑکی باہر سے کسی کا ہاتھ پکڑ کر لے آئے گی اور آپلوگ بس تالی پیٹتے رہ جائیے گا۔آفرین تائی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیسے وہ فوراً زیشان تایا کو اٹھا کر مائشہ کے پاپا کے پاس بھیجیں۔اور ہاتھ کے ہاتھ مائشہ اور شہریار کا نکاح کروادیں۔ارے بھائی کونسی قیامت آگئی۔کچھ بتاؤ گی تو سمجھ آئے گا نہ،پہیلیاں بجھواۓ جارہی ہو۔زیشان تایا اب موزے جوتے اتار کر صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ چکے تھے۔قیامت ہی آگئی ہے سمجھیں،سلمان بھائی نے مائشہ اور شہریار کی بات ختم کردی ہے۔آفرین تائی نے آخر وہ بم زیشان صاحب کے سر پر پھوڑ دیا،جس کو سوچ سوچ کر شام سے انکے سر میں شدید درد ہوچکا تھا۔ہیں،ایسے کیسے رشتہ ختم کرسکتے ہیں وہ،زیشان تایا کے اوپر بھی یہ خبر بجلی بن کر گری تھی۔کر کیا سکتے ہیں ،کر چکے ہیں،مجھ سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ کر گئے ہیں،جب ہی تو آپکا انتظار کررہی تھی کہ جاکر انکا دماغ ٹھنڈا کریں،خاندان میں ایسے نہیں ہوتا ہے۔آفرین تائی نے بہت سمجھداری سے بال انکے کورٹ میں ڈال دی تھی۔ایک منٹ ،یہ بتاؤ اسکی نوبت کیوں آئی،وہ بیٹھے بٹھائے تو رشتہ ختم نہیں کرسکتے تھے،تم نے کچھ کہا ہے،انہوں نے مشکوک نظروں سے آفریں تائی کو دیکھا۔مم میں کیا بولوں گی۔آفریں تائی ایکدم انکی نظروں سے سٹپٹا گئیں۔دیکھو آفرین مجھے کھل کے بات بتاؤ،تاکہ میں اسی حساب سے ان سے جاکر بات کروں گا۔زیشان تایا نے سختی سے انکو مخاطب کیا۔بھئی میں نے تو انکے ہی بھلے کی بات کی تھی،کہ جوان جہاں بچی کو ایسے اکیلے بھیجنا ٹھیک نہیں ہے،تو وہ بپھر گئے اور بس یہ کہہ کر چل دئیے کہ شہریار اور مائشہ کی نہیں بن سکتی اسلئیے اس رشتے کو ختم سمجھیں۔آفریں تائی نے بات کو گول مول کرکے زیشان صاحب کو بتادی۔تو تم کو کس نے کہدیا ہے کہ ایک تم ہی دنیا میں عقلمند ہو،سب کو مشورے بانٹتی پھرو،زیشان تایا کو انکا آدھا سچ سن کر بھی بات اچھی نہیں لگی تھی۔اب کردیا نہ سب بیڑا غرق،میں ایک ایک کرکے دن کاٹ رہا ہوں کہ شادی کے بعد بزنس پورا ہمارے ہاتھ میں آجائے گا۔اور تمُ ہو کہ بنا بنایا کھیل خراب کردیا۔زیشان صاحب اس وقت سخت غصے میں تھے۔اب خبردار جو تم نےشادی تک منہ سے ایک لفظ بھی مائشہ کے لئے نکالا۔میں خود ساری بات سنبھال لوں گا۔انہوں نے انگلی اٹھا کر آفریں تائی کو تنبیہہ کی،اور خود واش روم فریش ہونے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکی کہاں ہے،بلائیں اسے،متقین نے اپنی کیپ اتار کر ٹیبل پر رکھی۔ اور غفور چاچا کو مائشہ کو بلانے کے لئے کہا۔گو کہ وہ بہت تھکا ہوا تھا،مگر وہ اس کام کو جلد ازجلد نمٹانا چاہ رہا تھا۔مائشہ بی بی تو دوپہر کو ہی اپنا کیمرہ لےکر نکل گئی تھیں۔کہہ رہی تھیں کہ بس قریب میں جارہی ہیں،مگر دو گھنٹے ہونے والے ہیں،آئی نہیں،وہاٹ،متقین کا دماغ ایکدم گھوم گیا۔وہ اس لڑکی کی وجہ سے جلدی آیا تھا،کل وہ ایک مشکل میں پھنس گئی تھی،اور آج پھر وہ اکیلے نکل کھڑی ہوئی تھی۔فی الحال وہ اس کے گھر تھی،اور اسکی ذمہ داری تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس وقت وہ اس کے سامنے آجائے تو وہ اسکو اچھے سے بتائے۔اس نے اپنے بال مٹھی میں جکڑے ہوۓ تھے،غصے کی شدت سے اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔آپ نے اسکو جانے کیوں دیا ؟اس نے ضبط کی حدوں کو چھوتے ہوۓ غفور چاچا سے سوال کیا۔بیٹا میں انکو کیسے روک سکتا تھا،مجھے تو کچھ پتہ بھی نہیں تھا کہ ماجرہ کیا ہے۔ غفور چاچا نے بیچارگی سے جواب دیا،جب ہی وہ اپنی دھن میں مگن گھر میں داخل ہوئی۔ارے آپ آگئے۔اس نے متقین کو دیکھ کر ایسے سوال کیا،جیسے یہ انکے روز کا روٹین ہو۔تمھارا دماغ ٹھیک ہے کہ نہیں،ابھی کل تم کو کس مصیبت سے نکال کر لایا ہوں،اور تمھاری دیدہ دلیری دیکھو تم آج پھر اکیلے نکل گئیں۔میں تم کو تمھارے دوستوں تک چھوڑ آؤں ،اسکے بعد جو جی چاہے کرنا،دو منٹ کے اندر اپنا سامان لو،اور نکلو یہاں سے،متقین نے غصے سے گاڑی کی چابی اٹھائی،اور باہر نکل گیا۔مائشہ ہکا بکا اسکو دیکھتی رہ گئی۔کمرے میں آکر اس نے اپنا بیگ اٹھایا۔اور خاموشی سے آنسو اندر اتارتے ہوۓ باہر نکل گئی۔جب وہ گاڑی میں بیٹھی تو اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔متقین نے اسکو انظر انداز کرکے زناٹے سے جیپ اسٹارٹ کردی۔مائشہ نے اپنے چہرے کا رخ باہر کی طرف کرلیا۔وہ دھیرے دھیرے رو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوئے ہوئے کیا بندہ پھنسایا ہے، مشی بیگم نے، جب ہی تو ہم بولیں کہ آخر دو دن سے غائب کہاں ہیں محترمہ۔ابھی ابھی متقین مائشہ کو اسکے فرینڈز کے پاس چھوڑ کر گیا تھا،اور اسکے نکلتے ہی اسکی دوستوں نے اس پر چڑھائی شروع کردی تھی۔شٹ اپ یار،میں کس مشکل میں پھنس گئی تھی،تم لوگ کو اندازہ بھی نہیں ہے،ہاں تو کس نے کہا تھا تم کو اکیلے نکلنے کو؟ردا نےایک ہاتھ کمر پر اور دوسرا نچا کر اس کو آڑے ہاتھوں لیا۔اچھا یہ تو بتادو یہ ہینڈسم کہاں سے ملا؟عروش کی سوئی اب تک متقین میں اٹکی ہوئی تھی۔بتاؤ بتاؤ ،چھپاؤ نہیں،عروش کے بولتے ہی ہھر سب ایک زبان ہوکر شروع ہوگئیں۔بس۔۔۔۔چپ کر جاؤ سب،مائشہ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوۓ کہا۔پھر اس نے الف سے ے تک اپنی ساری روداد سنادی۔عروش کو سب سے زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ مائشہ نے متقین کا نمبر تک نہیں لیا۔یہ تو ہے ہی مطلب پرست،خود انگیجڈ ہے نہ ،یہ بھی نہ سوچا کہ ہم میں سے کسی کے کام ہی آجاتی۔سارہ بھی آخر اپنی کیوٹکس کو آخری ٹچ دینے کے بعد میدان میں آگئی۔افوہ وہ بندہ بہت ہی کھڑوس ٹائپ کا ہے،تم میں سے کسی کو گھاس نہیں ڈالتا وہ۔مشی نے بیڈ پر دھپ سے لیٹتے ہوۓ کہا۔کیوں ساری گھاس تم کو کھلادی۔عروش نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ پوچھا۔ردا اور سارہ کا بے ساختہ ہی قہقہ گونجا تھا۔شٹ اپ یار،دفع کرو اسکو۔یہ بتاؤ اب آگے کا کیا پلان ہے تم لوگ کا؟؟مائشہ نے بات کا رخ موڑا۔بس سوچ رہے ہیں،پٹریاٹا کی طرف نکلیں گے،تم نے دو دن ضائع کرودئے۔خود تو ایڈوینچر کرکے آگئیں،ہم کو خوار کروادیا۔اور ہم معصوم ان محترمہ کے پیچھے یہاں بند ہوکر بیٹھ گئے تھے۔عروش کی سوئی پھر وہیں جاکر اٹک گئی تھی۔تم کو مبارک ہوں ایسے ایڈوینچرز،میں تو کان پکڑتی ہوں جو اب میں خواب میں بھی اس کھڑوس کو دیکھوں،مائشہ کو شام والی اپنے عزت افزائی یاد کرکے جھرجھری آگئئ۔چلو یار کھانے کا کیا پروگرام ہے،بہت زور سے بھوک لگی ہے،مائشہ نے بالوں کا گول مول جوڑا بناتے ہوۓ کہا۔ہاں چلو ہم تو تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔سارہ نے آئینہ میں ایک بار خود کو دیکھتے ہوۓ کہا۔متقین کا ذکر بند ہونے پر مائشہ نے سکون کا سانس لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمان پھر تمھارا دل صاف ہوگیا نہ،زیشان تایا رات کے کھانے سے فارغ ہوکر پچھلے آدھے گھنٹے سے سلمان صاحب کے کمرے میں بیٹھے تھے،وہ آفرین تائی کے بگاڑے ہوۓ کھیل کو پھر سے سیٹ کرنے آئے تھے۔دیکھئے بھائی صاحب مجھے آپ سے بھابھی یا شہریار کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے،نہ ہی میرے دل میں کچھ ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ مشی اور شہریار کا جوڑ ٹھیک نہیں ہے۔سلمان صاحب نے بھی آج اس بات کو ختم کرنے کی ٹھان لی تھی۔مگر دیکھو سلمان یہ رشتہ اماں کی زندگی میں طے ہوگیا تھا،تم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔زیشان تایا کو اب تھوڑا غصہ آنے لگا تھا۔جی بھائی صاحب اماں کی ہی وجہ سے بس میں اس رشتے کے لئے راضی ہوگیا تھا،مگر ان گزرے سالوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ میرا ندازہ درست تھا،مشی اور شہریار ایک دوسرے کے لئے ٹھیک نہیں ہیں۔سلمان صاحب نے بغیر کسی مروت کے صاف لفظوں میں اپنا فیصلہ سنادیا۔ٹھیک ہے تو گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑے گی۔شہریار جو کافی دیر سے کمرے کے باہر ٹہل رہا تھا،اس نے اندر آتے ہوۓ کہا۔اسکو آفرین تائی نے آتے ہی ساری روداد سنادی تھی،وہ کمرے کے باہر کھڑا ہوکر بات کے سنبھلنے کا انتظار کر رہا تھا،مگر لگ رہا تھا کہ سلمان صاحب فیصلہ لے چکے تھے،سو اس نے بھی ادب اور لحاظ بالائے طاق رکھ کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔زیشان تایا اور سلمان صاحب دونوں ہی ایک ساتھ مڑکر اسکو دیکھنے لگے۔سلمان صاحب نے ایک بہت جتاتی نظر زیشان تایا پر ڈالی،کہ میں نہ کہتا تھا کہ تمہارا بیٹا میری بیٹی کے لائق نہیں ہے۔شہریار یہ کونسا طریقہ ہے بڑوں سے بات کرنے کا۔معافی مانگو فوراً چاچو سے۔زیشان تایا نے دانت کچکچاتے ہوۓ شہریار کو لتاڑا۔یہ دونوں ماں بیٹا میری ساری منصوبہ بندی پر پانی بہا دیں گے۔انہوں نے دل میں دونوں کو بے نقط سنائیں۔نہیں بھائی صاحب معافی کی ضرورت نہیں ہے،بس مجھے شہریار پسند نہیں ہے مشی کے لئے ،اور بات ختم۔آپ لوگ جا سکتے ہیں۔سلمان صاحب نے ہاتھ سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔شادی تو میں مشی سے ہی کروں گا،اور آپ کے سامنے کروں گا۔شہریار بھی اس ٹائم آپے سے باہر تھا،میرے جیتے جی تومیں یہ نہیں ہونے دونگا ۔سلمان صاحب نے غصہ ضبط کرتے ہوۓ کہا۔تو آپکے مرنے کے بعد ہوجائے گی۔آپکو مرنے کی اتنی جلدی ہے تو ایسے صحیع۔شہریار نے جیب سے پستول نکال کر یکے بعد دیگرے تین فائر کردئے۔اس سے پہلے زیشان تایا یا سلمان صاحب کچھ سمجھتے شہریار اپنا کام کرکے دندناتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔زیشان تایا کے ہاتھ پاؤں ایکدم پھول گئے۔انہوں نے بھاگ کے سلمان صاحب کو اٹھایا مگر وہ موقع پر ہی جان بحق ہوچکے تھے۔انکا ذہن تیزی سے اگلے لائحہ عمل طے کرنے لگا۔انکو مائشہ کے آنے سے پہلے پہلے سلمان صاحب کو دفنانا تھا۔انہوں سب سے پہلے اپنے جاننے والے ایس پی دوست کو کال ملائی۔اس موقع پر وہ ہی انکو اس صورتحال سے نکال سکتا تھا۔چونکہ پسٹل پر سائلنسر لگا تھا،اسلئے اس واقعہ کی خبر گھر کے کسی نوکر کو نہیں ہو پائی تھی۔وہ بھاگ کر آفرین تائی کو بلا کے لاۓ۔آفرین تائی کمرے کا منظر دیکھ کر دہل گئی تھیں۔یہ یہ سب کیسے،کب،کس نے کیا۔الفاظ انکے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔تمہارے چہیتے کا کارنامہ ہے یہ،اسکا پھیلایا یہ گند اب مجھ کو صاف کرنا ہے۔زیشان تایا اس وقت غصے اور پریشانی میں لال بھبوکا ہورے تھے۔اب کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو،جاؤ خون کو صاف کرنے کا انتظام کرو۔انہوں نے زور سے تائی کو جھاڑا۔جج جی آفرین تائی بوکھلا کر واش روم کی طرف لپکیں۔زیشان تایا ٹہل کر ایس پی کا انتظار کرنے لگے،جب ہی انکو موبائیل پر ایس پی شہزاد کی مسڈ کال ملی،جسکا مطلب وہ نیچے آچکا تھا اور انکا انتظار کر رہا تھا۔وہ بھاگ کر ایس پی شہزاد کو لینے کے لئے نکلے۔وہ کمرے سے باہر نکلے ہی تھے کہ سامنے سے کرم دین جو انکا کک تھا،وہ آتا ہوا دکھائی دیا۔زیشان تایا نے دروازے کا ہینڈل مضبوطی سے پکڑ لیا۔کیا بات ہے کرم دین؟؟لڑکھڑاہٹ انکی آواز میں واضح محسوس کی جاسکتی تھی۔وہ چھوٹے صاحب اسٹڈی میں نہیں آۓ آج تو میں انکا دودھ یہیں دینے آگیا۔کرم دین نے سائیڈ سے ہوکے کمرے کے اندر جانا چاہا۔ہاں وہ دراصل سلمان کو کہیں ضروری کام سے جانا ہے تووہ بیگ پیک کررہا ہے،تم یہ دودھ مجھے دے دو،میں اسکو دے دونگا ۔انہوں نے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو پاتے ہوۓ کرم دیں کے ہاتھوں سے دودھ لیا۔جی،کرم دین نے دودھ انکے ہاتھوں میں تھما دیا،مگر کچھ تھا جو اسکو کھٹک رہا تھا۔اس نے جاتے جاتے مڑ کے دیکھا،زیشان تایا اب تک دودھ کا گلاس پکڑے کھڑے تھے۔کرم دین کو انہوں نے زبردستی مسکرا کر دیکھا,وہ کندھے اچکاتا وہاں سے اپنے کوارٹر کی طرف چل دیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...