(Last Updated On: )
یعنی ملکہ مہر نگار کی۔ تڑپ، بے قراری، نالۂ نیم شبی اور اشکباری
اُس مصیبت شِعار کی۔ دو ایک جملۂ مُعترضۂ پُر شکایت، کشش محبت کی حکایت
نظم :
کدھر ہے تو اے ساقیٔ بے خبر
ہوا حال شادی کا سب اختتام
تپش سے، تڑپ سے تو کر دے بہم
خوشی سے، مجھے رنج مرغوب ہے
یہی ساتھ دیتا شب و روز ہے
نہ کی لطف سے غم زدوں پر نظر
مگر غم کا قصہ ہے وہ ناتمام
کہ لکھتا ہوں پھر داستانِ الم
یہ مونس ہے، ہم دم بہت خوب ہے
یہ غم، عاشقوں کا غم اندوز ہے
نالہ نوازانِ بزمِ ماتم و تَفتَہ جگرانِ کُلبۂ غم، حاکیانِ حکایتِ حُزن و ملال و نثّارانِ دل خوں، آشُفتہ حال لکھتے ہیں کہ اُس بے سر و ساماں، کُشتۂ ہجراں، دور از دِل دار و ہم قرین غم، رونا دیدۂ شادی، بوریا نشینِ ماتم، دِل رِیش، سینہ فِگار یعنی ملکہ مہر نگار کا فُرقت میں یہ حال ہوا، اُستاد :
یاں تک کہ اُٹھانے کا وقت اپنے، قریب آیا
اِس پر، مرے بالیں پر تم اُٹھ کے نہ آ بیٹھے
میں نام ترا لے لے دن رات جو چِلّاؤں
او سُنتے ہوئے بہرے! کیوں کر نہ گلا بیٹھے
جو کوئی کہتا: خیر ہے ملکہ! گھلی جاتی ہو، کیوں اتنا رنج و غم کھاتی ہو! تو یہ کہتی، مصحفی:
غم کھاتی ہوں لیکن مری نیت نہیں بھرتی
کیا غم ہے مزے کا کہ طبیعت نہیں بھرتی
مُؤلف:
نہ پوچھو کچھ مری حالت کہ اس دل کے لگانے سے
پریشاں، سینہ سُوزاں، مُنفعل، سر در گریباں ہوں
ایسی باتیں درد آمیز، وحشت انگیز کرتی کہ سُننے والوں کی چھاتی پھٹتی۔ وہ کہتیں: نظر بہ خدا رکھو۔ حسنؔ:
اُسے فضل کرتے، نہیں لگتی بار
نہ ہو اُس سے مایوس، اُمیدوار
سوزؔ:
پھر بہار آتی ہے تجھ میں، اے گلستاں! غم نہ کھا
وہ چلی آتی ہے فوجِ عندلیباں، غم نہ کھا
گو کہ شب آخر ہوئی، اے شمع! تو زاری نہ کر
پھر وہی محفل، وہی تیرا شبستاں، غم نہ کھا
وہ سُن کر یہ کہتی کہ میں چراغِ سحری ہوں؛ یقین ہے کہ تاصُبح بزمِ جہاں سے، جل کے، سفری ہوں۔ خسروؔ:
پس ازانکہ من نمانم، بچہ کار خواہی آمد
مُؤلف:
ہمارے جان کے جانے میں جب عرصہ رہا تھوڑا
تب اُس کے دل میں آیا دھیان میرے پاس آنے کا
آج تک اُس غفلت شعار، فراموش کار کی کچھ خبر نہ آئی؛ ہم نے غمِ جدائی میں مفت جان گنوائی۔ مُؤلف:
تپِ جُدائی سے اس طرح اب نزار ہوں میں
اجل کے مُنہ سے بھی، غالب ہے، شرمسار ہوں میں
کیا ہے رنجِ جُدائی نے ایسا کاہیدہ
نظر میں خلق کی، رشکِ خطِ غُبار ہوں میں
جو تو وہ گُل ہے کہ عالم کے دل میں ہے تری جا
تو سب کی آنکھ میں کھٹکا کیا، وہ خار ہوں میں
قرار می برد از خلق آہ و زاریٔ ما
سُرورؔ! رنج میں کس کے یہ بے قرار ہوں میں
یہ معمول تھا: جب چار گھڑی دن رہتا، سوار ہو کر؛ اُن درختوں میں، جہاں جانِ عالم سے ملاقات ہوئی تھی، جاتی اور جو جو شریکِ راحت و رنج تھیں، اُن سے مخاطب ہو یہ کہتی، اہلیؔ شیرازی:
خوش آنکہ تو باز آیی و من پای تو بوسم
ہر جا کہ تو روزے نفَسے جای گرفتی
روی تو تصور کنم و لالہ و گل را
ہر جا کہ غزا لیست، چو مجنوں سر و چشمش
من اہلیؔ درویش، تو آں شاہِ بُتانی
در سجدہ فتم، خاکِ قدمہای تو بوسم
آنجا روم و گریہ کُناں جای تو بوسم
در حسرتِ رخسارِ دل آرای تو بوسم
در آرزوی نرگسِ شہلای تو بوسم
دستیکہ ببوسم، بہ تمنای تو بوسم
اور کبھی صُبح سے پھرتے پھرتے، قریبِ شام بادلِ ناکام اُسی جنگل میں پھر آتی، یہ غزل زبان پر لاتی، جُرأتؔ:
بہ شکلِ مہر ہے گردش ہی ہم کو سارے دن
جو تم پھر آؤ تو پیارے، پھریں ہمارے دن
نہیں ہے تیرے مریضانِ ہجر کا چارہ
اب اپنی زیست کے بھرتے ہیں یہ بچارے، دن
بہ وصل کیونکے مُبدل ہوں ہجر کے ایام
مگر خدا ہی یہ بگڑے ہوئے سنوارے دن
رہے تھا جب کہ ہم آغوش مجھے سے وہ پیارا
عجب مزے کی تھیں راتیں، عجب تھے پیارے دن
کب اُس سے ہو گی ملاقات، میں یہ پوچھوں ہوں
ذرا تو دیکھ نجومی! مرے ستارے، دن
لگایا رُوگ جوانی میں کیوں میاں جُرأتؔ
ابھی تو کھیل تماشے کے تھے تمھارے دن
رات کو بہ حالِ بے قرار وہ سوگوار ناچار گھر آتی۔ تمام شب کراہ کراہ، سب کو جگاتی اور یہ سُناتی، اُستاد:
حرام نیند کی، اقرارِ وصلِ جاناں نے
الٰہی! کوئی کسی کا اُمیدوار نہ ہو
وہ رات جسے شبِ فُرقت کہتے ہیں، بے چینی سے پہاڑ ہو جاتی؛ تو وہ غم کی ماری سخت گھبراتی، یہ لب پر لاتی، اُستادؔ:
جیسا شبِ عشرت کو فلک! تو نے گھٹایا
کی جلد نہ فرقت کی، ستم گر، سحر ایسی!
ہے ہے! آج نہ صدائے مُرغِ سحر آئی، نہ مُوذِن نے ندائے اللہُ اکبر سُنائی۔ نہ خواب غفلت سے پاسبان کم بخت چونکا اور نیند کی جھونک میں، گھڑیالی بھی گجر کا بجانا بھول گیا۔ جُرأتؔ:
تھے شبِ وصل یہ سب جان کے کھانے والے
آج کیا مر گئے گھڑیال بجانے والے!
شب کو نالہ تھا، دن کو زاری تھی؛ دن رات اُس پر سخت بھاری تھے۔ لوگ کہتے تھے: ملکہ! اللہ کو یاد کرو، کبھی تو دل کو شاد کرو۔ شافی مُطلق تمھارے مرض مُفارقت کو بہ صحتِ وصل بدل کرے؛ اب روزِ وِصال، عنایتِ ذُوالجلال سے قریب ہے؛ تو اُس وقت بہ حسرت یہ کہتی، اُستاد:
شبِ وِصال جو قسمت میں ہے، تو ہووے گی
دُعا کرو، شبِ فرقت تو یہ سحر ہووے
نظم:
مریضِ ہجر کو صحت سے اب تو کام نہیں
رکھو و یا نہ رکھو مرہم اس پہ، ہم سمجھے
کیا جو وعدۂ شب اُس نے، دن پہاڑ ہوا
وہی اُٹھائے مجھے، جس نے مجھ کو قتل کیا
اُٹھایا داغِ گُل، افسوس، تم نے دل پہ سُرورؔ
اگرچہ صبح کو یہ بچ گیا تو شام نہیں
ہمارے زخمِ جُدائی کو اِلتیام نہیں
یہ دیکھیو مری شامت کہ ہوتی شام نہیں
کہ بہتر اس سے مرے خوں کا انتقام نہیں
میں تم سے کہتا تھا، گلشن کو کچھ قیام نہیں
اُستاد:
آخر شبِ وصال کی جا، پیش کی وہی
ہر دن تھا اے فلک مجھے جس رات کا خیال
مُعاملاتِ عشق دیکھیے: وہاں شہ زادے کو غم سے فراغ، کیفیتِ باغ، گُل عذار بغل میں، راحت و آرام؛ یہاں ملکہ آتشِ فراق سے با دلِ پُر داغ، آشُفتہ دماغ، خارِ غم جگر میں گرفتارِ رنج و آلام۔ لیکن دردِ دلِ بے قرار، نالۂ جگر افگار رائگاں نہیں جاتا۔ جب تڑپ بلبل کے دل میں زیادہ ہوتی ہے، موسمِ گُل آتا ہے۔ اسی طرح سُوزِ دلِ عاشق جو حد سے فزوں ہو، معشوق رحم کھاتا ہے۔ بھولا ہو، یاد آئے۔ وگر ہجر میں پھڑک کر مر جائے، مطلوب کو نعش پر لائے، اُس کی بھی جان گنواتا ہے۔ حضرتِ عشق دشمنِ جانِ عاشق و معشوق ہیں، ان کا حال کیا کہیں؛چنانچہ یہ نقل ضربُ المثل ہے اور حقیقت میں اصل ہے۔ چشمِ عبرت بیں اور گوشِ شنوا اس کے دیکھنے اور سُننے کو درکار ہے، نیرنگیٔ عشق کا اظہار ہے۔