“ماں” دنیا کا ایک شیریں ترین لفظ ہے اور ماں وہ شخصیت ہے جو اپنی اولاد کیلئے بیش بہا نعمتوں کا خزانہ ہے. انہی نعمتوں میں ایک نعمت لوری ہے جسکا واسطہ بچے کی ابتدائ زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ہر لحاظ سے اپنی ماں کا مرہون منت ہوتا ہے.
جب بچہ شرارتوں پر اتر آتا ہے یا اسے کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی لاحق ہوجاتی ہے اور وہ آرام کرنے سے قاصر ہوتا ہے تو ماں اسکے لئے ہلکے ہلکے سروں میں کچھ گنگناتی ہے جسے لوری کا نام دیا گیا. لوری کے سر بچے کے کانوں میں پڑتے ہی اپنا جادوئ اثر دکھاتے ہیں اور بلکتا ہوا بچہ نیند کی وادیوں میں کھوجاتا ہے.
لوری اکثر فی البدیہ اشعار پر مشتمل ہوتی ہے جو ایک ماں حالات اور بچے کی کیفیت کے لحاظ سے گنگناتی ہے. دنیا میں لوری کی شروعات تو ایسے ہی ہوئ ہے لیکن بعد میں شعراء اور ادباء نے اسے ادب کی ایک صنف کے بطور پیش کرنے کی کوشش کی اور اس طرح لوری باضابطہ لکھی جانے لگی حالانکہ اسکی تاریخ دو ہزار سال قبل مسیح کے ذمانے تک ملتی ہے. آثار قدیمہ کی کھدائ کے دوران مٹی سے بنی ہوئ چھوٹی تختیاں دریافت ہوئ ہیں جن پر زبان کی ابتدائ شکل کیونی فارما سکرپٹ میں لکھے ہوئے اشعار ملے ہیں جو مائیں بچوں کو سلانے کیلئے گنگنایا کرتی تھیں. یہ تختیاں آج بھی لندن کے برٹش میوزیم میں موجود ہیں.
لوری کے موضوعات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں. کچھ لوریوں میں مافوق الفطرت عناصر کا ذکر ہوتا جو بچوں کو ڑرانے کا کام کرتیں تاکہ وہ شرارتوں سے باز رہیں.لیکن اکثر لوریوں کے موضوع دعائیہ اور محبت کے اشعار پر مبنی ہوتے ہیں. زیادہ تر لوریاں اصلاف کے حسن, بہادری اور مروت کی کہانیوں سے مزین ہوتی ہیں.
لوریوں کا مقصد محض وقتی طور پر بچوں کو آرام پہونچانا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ لوریوں کے زریعے ایسے کردار ساذ واقعات بھی بچوں کے ازہان میں پیوست کرائے جاتے ہیں جو مستقبل میں انکو کامیاب اور کارآمد شہری بنانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں.
کچھ لویان الفاظ سے بالکل عاری بھی ہوتی ہیں جو صرف آوازوں پر مشتمل ہوتی ہیں جیسے. آہا ہا, اوں ہوں, لا لا وغیرہ.
1870 عیسوی میں پہلی بار ایک برطانوی سرجن جنرل ایڑوارڑ ویلفورڑ نے 18 اردو لوریوں کا 34 صفحوں پر مشتمل ایک مجموعہ شایعں کرایا. اس کا نام “لوری نامہ” ہے.
بر صغیر کی معروف لوریوں کے چند ایک نمونے بیش ہیں.
1. راج دلارے میری اکھیوں کے تارے
توے دل میں سماؤں
میں تو واری واری جاؤں
جھولا جھلاؤں او میری اکھیوں کے تارے
2. سو جا راج کماری سوجا
سوجا میں بلہاری سوجا
3. چاند کمل میرے چاند کمل
چپ چاپ سوجا
یوں نا مچل
4. کھویا کھویا چندا کھوئے کھوئے تارے سوگئے تو بھی سوجا لال ہمارے5. دھیرے سے آجا نندیا اکھین میں. نندیا دھیرے سے آجا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...