کچھ لوگ فطری طور پر ایسے ہوتے ہیں جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذات کے حصار میں رہ کر کائنات کے تلخ حقائق، معاشرے کے چیختے مسائل اور زندگی کے شب و روز کے کرب کی ترجمانی اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی فن کارانہ صلاحیت، زندگی کے داخلی و خارجی احوال کی سچی بصیرت اور وقت کی نبض پر انگلی رکھ کر حالات کا جائزہ لینے کی بھرپور قابلیت کے باوجود بھی ناقدین کے تعصب اور تنگ نظری کا شکار رہے ہیں جس کے سبب ادبی سطح پر انھیں وہ پزیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ گذشتہ پانچ دہائیوں سے جن شاعروں نے اپنی شعری صلاحیت کو مثبت اور مضبوط طریقہ سے اردو شعر و ادب میں پیش کیا ہے ان میں شریف احمد شریفؔ کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ وہ وسط ہند کی ایک معتبر شعری آواز تھی جسے بر صغیر میں نہایت ادب اور احترام کے ساتھ سنا جاتا رہا ہے۔
شریف احمد شریفؔ ادب کو ہر حال میں ادب بنا کر ہی پیش کرنے کے قائل تھے۔ ان کو قدیم ادبی اور تہذیبی روایتوں سے پیار تھا اس لیے وہ اپنے تہذیبی پس منظر سے نہ صرف واقف تھے بلکہ انھیں اس ورثہ کا احترام ملحوظ تھا۔ اس کے علاوہ وہ فرسودہ قدروں کے خلاف بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہر طرح کی صحت مند ادبی تحریک کو جذب کیا لیکن کسی ایک کے ہو کر نہیں رہے۔ ان کی شاعری میں حیاتِ انسانی کے نت نئے ساز پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے غریبوں، مفلسوں اور پسماندہ طبقوں کی عکاسی کبھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود بھی انھیں انسان سے محبت تھی اور ان کا ذہن ہر قسم کے تعصبات سے پاک تھا۔ در اصل ان کو زندگی کی قدروں سے پیار تھا خواہ وہ قدیم ہو یا جدید۔ وہ ماضی کی عظمتوں کا احساس رکھتے تھے لیکن حال کی طرف بھی متوجہ تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری عصری آگہی کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کے افکار و خیالات ایک تسلسل اور منطقی ربط کے ساتھ ان کی شاعری میں نمایاں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے یہاں ایک مخصوص قسم کی سنجیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ ان کی نظم فکر وفن کا خوبصورت نمونہ ہے اور تشبیہات و استعارات کی ندرت، موضوع پر اول سے آخر تک گرفت، ابتدا اور نقطۂ عروج نیز معنویت کے لحاظ سے منفرد ہے۔
قدرت کے مناظر کا بیان، تاریخی واقعات، حسن و عشق کی چھیڑ چھاڑ، اخلاقی اور مذہبی موضوعات، سماجی، سیاسی، معاشی مسائل، فلسفیانہ رموزو نکات غرض حیات و کائنات کے کم و بیش سبھی گوشوں کو شریف احمد شریفؔ نے اپنی نظم میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی نظمیں رنگارنگ اور متنوع موضوعات سے مالا مال ہیں۔ ان کے یہاں کچھ نظمیں ایسی بھی مل جاتی ہیں جو مندرجہ بالارنگ و آہنگ سے مشابہت رکھنے کے باوجود بعض خصوصیات کی وجہ سے منفرد ہیں۔ ان نظموں میں زندگی کے مسائل کی طرف شاعر کا اندازِ نظر مفکرانہ ہے۔ ’’خطاب‘‘، ’’نصیحت‘‘، ’’وہ شخص‘‘، ’’صبحِ آزادی‘‘، ’’سٹی اسکیپ‘‘ ’’تری غلیل کا ہدف‘‘، ’’وہ لمحہ شاید قریب ترہے‘‘، ’’دمِ وداع‘‘ وغیرہ نظمیں ایسی ہیں جن میں سماجی زندگی کے بکھرے ہوئے مسائل، افکار و خیالات اور تہذیبی عوامل دوسری نظموں کی بہ نسبت زیادہ واضح نظر آتے ہیں۔ یہ نظمیں تہذیبی و تاریخی عوامل اور زندگی کی اقدار کی شکست و ریخت کو مکمل طور پر پیش کرتی ہیں اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند بند ملاحظہ کیجیے ؎
ہمک کر بازوؤں کو تولتا ہے
کبھی وہ بند مٹھی کھولتا ہے
کہاں وہ حرفِ حکمت رولتا ہے
ابھی تو صرف غوں غاں بولتا ہے
وہ ننھا چاند سا بچہ محمد
بہت پیارا بہت سچا محمد
رسولوں کی دعا میں جو رہا ہے
ابھی وہ پالنے میں سو رہا ہے
(گہوارے کا چاند)
جہاں وہ ہے وہاں کہسار بھی ہیں
خوشی سے جھومتے اشجار بھی ہیں
ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی آ رہی ہیں
گماں ہوتا ہے جیسے گا رہی ہیں
ترنم ریز خاموشی فضا میں
عجب خوشبو سی ہے جس کی ہوا میں
بہت سادہ یہاں کی زندگی ہے
دھلا سا چاند ہے اور چاندنی ہے
(وہ چل رہا ہے)
میں جانتا ہوں میری زندگی کہ میں نے تمھیں
جو مٹ نہ پائیں گے دل سے کبھی وہ داغ دیئے
تمہارے ذہن کو اپنی عزیز یادیں دیں
تمہاری شب کے اندھیروں کو سو چراغ دئیے
تمھیں کو سارے جہاں سے عزیز تر جانا
تمھارے درد سے آنکھوں کو اشک بار کیا
ڈھلی جو شام تو مہکا تمھارا پیرہن
سحر ہوئی تو تمھارا ہی انتظار کیا
(انتظار)
رات کاٹی ہے غلامی کی سسک کر ہم نے
ساتھیو! اب کہیں آغازِ سحر بھی دیکھیں
دیکھنے والے غلاموں کو بہ اندازِ سجود
تخت و تاج اپنا بچا لیں کہ ادھر بھی دیکھیں
ایک ہاتھ اور بھی اونچا ہوا پرچم لے کر
ایک ہاتھ اور بھی شمشیر تک آ پہنچا ہے
وقت کا تیز و سبک خنجرِ براں یارو!
بیڑیاں کاٹ کے زنجیر تک آ پہنچا ہے
(صبحِ آزادی)
اس انتہائے تباہی کے باوجود ابھی
میں ایک حسرتِ تعمیر جاں میں پاتا ہوں
ہری رہے گی یہ شاخِ امید مدت تک
یقین رکھ کہ شگوفے یہاں کھلے گے ابھی
جدا جدا ہیں جو راہیں تو غم نہ کر ساتھی
ہم ایک روز کسی موڑ پر ملیں گے ابھی
(دمِ وداع)
درج بالا نظموں کے ٹکڑوں سے پتہ چلتا ہے کہ شریف احمد شریفؔ نے اپنی زندگی کے حسین خوابوں، محرومیوں اور ناکامیوں کو پر کیف و پر سوز انداز سے اشعار کی شکل میں اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ ان کا ہر شعر زندگی کا آئینہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کی یہی خصوصیت انھیں ممتاز اور نمایاں بناتی ہے۔
در اصل شریف احمد شریفؔ کی نظموں میں عام طور پر خارجی تجربات کا داخلی ردِ عمل ہے اور ان کے بیان میں تغزل کی چاشنی۔ ان کی نظموں میں ہئیت کے اعتبار سے قدیم اندازِ نظم گوئی جو غزل کے آہنگ سے قریب ہے ملتا ہے لیکن انھوں نے اپنے احساسات کی سادگی سے اس میں ندرت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بقول عبدالرحیم نشترؔ ؎
’’شریف احمد شریف محترم، موقر اور معتبر شاعر ہیں۔ سنجیدہ، پر وقار اور فکر انگیز نظموں اور غزلوں کے خالق۔ وہ ایک اچھے نثر نگار اور بالغ تنقید نگار بھی ہیں اور تنقیدی شعور کے حامل بھی۔ اسی لیے ان کی شاعری میں یہ سبھی خوبیاں موجود ہیں۔‘‘
(روزنامہ انقلاب ممبئی)
شریف احمد شریفؔ کے کلام میں غزل کا سرمایہ نظموں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’کارِ جہاں بینی (۱۹۹۹ء)‘‘ اور ’’دستخط (۲۰۱۴ء)‘‘ میں نظموں کے ساتھ غزلیں بھی شامل ہیں۔ ان غزلوں میں فکر و نظر کی وہی خوبیاں نظر آتی ہیں جو ان کی نظموں میں کار فرما ہیں اوران کے شعری شعور کی پہچان بھی ہیں جو ہر لمحہ اپنی تازگی اور توانائی کا احساس کراتی ہیں۔ جن میں رومانیت کے ساتھ شعری حسن، نپے تلے الفاظ اور خیال کی تازگی پائی جاتی ہے اور اندازِ بیان اتنا دلکش اور اس قدر والہانہ ہے کہ شعر سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ اردو، ہندی اور فارسی کے الفاظ کو ہم آمیز کر کے وہ اپنی شاعری کو نہایت پراثر بناتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں معنوی آہنگ اور لفظی رچاؤ کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان میں فنکارانہ ذہنیت اور درد مندانہ احساس کا پر تو بھی نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں ایسے بہت سے اشعار مل جاتے ہیں جن میں انھوں نے روایتی مضامین سے انحراف کرتے ہوئے اپنے خیالات و احساسات کو بالکل نئے اور معنی خیز ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ دیکھیے ؎
اٹھے صبح تو بدن ٹوٹتا ہوا سا لگے
یہ انحطاط بھی شاید نشاطِ شب کا ہے
۰۰۰۰
تو خدا ہے تو مرا دستِ طلب خالی کیوں
بات اتنی سی تری ذات تک آ پہنچی ہے
۰۰۰۰
سارا منظر سراب جیسا ہے
جو بھی دیکھا ہے خواب جیسا ہے
۰۰۰۰
سوال یہ بھی ہے کس فاصلے سے تیر چلا
یہ دیکھنا بھی ہے گہرائی کتنی گھاؤ میں ہے
۰۰۰۰
محبت کا بس ایک ہی کام ہے
بیاباں کو گلزار کرتی رہے
۰۰۰۰
زندگی مرے دریچے پہ کوئی شمع جلا
آ ذرا دیکھ کہ تاریک مکاں ہے کہ نہیں
۰۰۰۰
جہاں سے سارے دشاؤں میں روشنی پھیلی
مرے خدا یہ اندھیرا وہیں پہ کیسا ہے
۰۰۰۰
وہ لوگ دوڑتے چلاتے اس طرف کو گئے
جدھر سنا کہ سلامت تھا اک مکان کوئی
۰۰۰۰
اب تک ترے وعدے کا یقیں بھی نہیں ٹوٹا
تکتے ہیں تری راہ کو ہر شام ڈھلے ہم
۰۰۰۰
ترے لیے اگر آساں ہے بھول جا مجھ کو
میں سطحِ یاد پہ اک عکس ہوں مٹا مجھ کو
اس طرح کے بے شمار اشعار شریف احمد شریفؔ کے مجموعۂ کلام میں دیکھے جا سکتے ہیں جن میں روانی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ زبان سلیس اور رواں دواں ہونے کے باعث مصرعوں میں چستی اور برجستگی در آئی ہے۔ ان کے کلام میں فکر کے ساتھ تخیل کی پرواز غنائیت، عصری حسیت اور آگہی کے بہترین نمونے جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ زبان کی سادگی، روانی اور شستگی کے اثرات بھی اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان کا اسلوب منفرد اور یگانہ ہے جو خود ان کا اختراع کیا ہوا ہے۔ ان کے کلام میں جمالیاتی کشش کا احساس بھی ہوتا ہے اور دورِ حاضر کے متعدد سماجی مسائل کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شریف احمد شریفؔ کو غزل کے مزاج اور اس کے فنی لوازم سے نہ صرف گہری واقفیت تھی بلکہ وہ اس سے طبعی مناسبت بھی رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مخصوص ہیئتی ساخت کے اعتبار سے غزل موزوں کرنا جس قدر آسان ہے اچھی غزل کہنا اسی قدر مشکل۔ چنانچہ انھوں نے ہمیشہ داخلی تحریک، ذاتی اپج اور تخلیقی تقاضے کی بنیاد پر غزل کہی۔ اسی لیے غزل پر ان کی مضبوط فنی گرفت اور تخلیقی ندرت و انفرادیت سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ شریف احمد شریفؔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جب اپنے ہونے اور نہ ہونے کا یقین تک حاصل نہیں تو میں قدیم ہوں یا جدید اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر شاعری کس خانے میں رکھی جا سکتی ہے؟ اور خدا جانے اہلِ بصیرت اور اربابِ فن اسے شاعری سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔؟‘‘
(دستخط،ص ۱۰)
شریف احمد شریفؔ کا یہ قول ان کی شخصیت کا ترجمان ہے ؎
یہ دل کسی سے کوئی آس بھی نہیں رکھتا
افسوس! وہ ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۰ء کو ۷۲؍ سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور ہر دم کے لیے خاموش ہو گئے لیکن سچا فن اور سچا فن کار کبھی نہیں مرتا۔ وہ ہر وقت اور ہر جگہ زندہ رہتا ہے۔ شریف احمد شریفؔ اپنی نظموں اور غزلوں کی بناء پر آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ اردو میلہ ناگپور، نومبر تا دسمبر ۲۰۱۶ء
ب
’’انسان کو جب انتخاب کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بہترین چیز کا انتخاب کرتا ہے اور بہترین کی تعریف یہ کہ جس چیز کا انتخاب کیا جائے وہ مفید بھی ہو اور پسند کے مطابق بھی۔ بس یہی شعور ایک قاری کو اچھے برے ادب کی تمیز سکھاتا ہے اور یہی تمیز اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اس چیز کو قبول کرے یا رد کرے۔‘‘
(اس کا مذہب ہی سرشار کرنا رہا: محمد دانش غنی
مشمولہ ’’ایک کتاب ڈاکٹر محبوب راہیؔ کی کثیر الکلامی پر‘‘
مرتب ڈاکٹر عبد الوحید نظامی، صفحہ نمبر ۱۳۵)