(Last Updated On: )
۱۹۶۰ء کے بعد جدید اردو غزل کئی تجرباتی دور سے گزری ہے جس میں احساس ہی نہیں لفظوں کی شکست و ریخت بھی شامل ہے۔ اس دور میں غزل کی روایتی اورفرسودہ لفظیات اور پرانے مسلمات پر ازسرِ نو غور کیا گیا۔ رسمی مضمون آفرینی، فرسودہ طرزِ بیان اور تصنع کو خیر باد کہا گیا۔ فطری، غیر رسمی اور انفرادی شعری اظہار کی راہیں ہموار ہوئیں۔ روایتی سطحیت اور یکسانیت کی دھند سے باہر نکلنے کی غرض سے بعض کلاسیکی شعرا کی بازیافت کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ نئی غزل کے سارے اولین علم برداروں کے یہاں کسی حد تک کلاسیکی دروبست اور نظم و ضبط پایا جاتا ہے جس کا اعتراف نقادوں نے بھی کیا ہے۔
جدید غزل کے ابتدائی شعرا میں ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور ابنِ انشا کے نام لیے جاتے ہیں۔ ان کے بعد جن شعرا کے یہاں نئی فضا اور نیا لہجہ ابھر کر سامنے آیا ان میں شکیب جلالی، سلیم احمد، ظفر اقبال، حسن نعیم، شاذ تمکنت، شہریار، احمد فراز، مجید امجد، مخمور سعیدی، عبدالرحیم نشترؔ ، مظفر حنفی، ندا فاضلی، بشیر بدر، جون ایلیا، محمد علوی، بشرؔ نواز، زیب غوری، سلطان احمد، شہزاد احمد، بانی، منظور ہاشمی اور مدحتؔ الاختر کے علاوہ اور بھی بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں۔ جن شاعروں نے فکر و نظر کو اپنی شخصیت کا جز بنایا اور تمام شعری روایتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے مخصوص زاویۂ نگاہ اور اسلوب کی بنیاد پر شعری انفرادیت قائم کی ہے ان میں بشرؔ نواز کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
بشرؔ نواز کا نام ایسے جدید شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے نئے سے نئے مفہوم کے شعری اظہار میں بھی کلاسیکی روایت اور غنائیت کے فن کارانہ استعمال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ان کی غزل کی صورت میں مروجہ زبان، فنی پختگی اور ندرتِ اظہار کے امتزاج سے ایک خوشگوار جدید اسلوب سامنے آیا۔ ایسا اسلوب جو اردو کی شاعرانہ کلاسیکی بندشوں اور فارسی کی پہلو دار ترکیبوں کو بھی اپنے دامن میں سجائے ہوئے ہے۔
بشرؔ نواز کی شعری فکر جہاں کلاسیکی روایات سے تعلق رکھتی ہے وہیں نئی اقدار سے بھی ہم آہنگ ہے۔ ان کے یہاں روایت و جدت کا یہ سنگم مفاہیم کی نئی نئی تصویروں اور معانی کی نئی نئی جہات کو روشن کرتا ہے۔ رنگِ وفا، شاداب نکہتیں، شہدِ طلسم، مہتاب بکف رات، یادوں کے سمن زار، زنجیرِ وفا، آوازِ پا، مقتلِ ارمان و آرزو، متاعِ دیدۂ تر، ابر کا سایہ اور حرفِ وفا وغیرہ بشرؔ نواز کی غزل میں استعمال ہونے والے ایسے کلاسیکی لفظی مرکبات ہیں جو معنویت کے نئے دریچے وا کرتے ہیں اور رنجش، آواز، زلف، شمع، سرِ شام، قرب کی روشنی، رخسار، مہرِ جمال، حسنِ مجسم، پیراہنِ رنگیں، بادِ چمن، نیل گگن، ہاتھوں کی مہندی آنکھوں کا کاجل، تنہائی، آنچل اور نکہتِ آوارہ وغیرہ روایتی الفاظ سے خلق ہونے والے ایسی تخلیقی تراکیب ہیں جو زندگی کی نئی سمتوں کا سراغ دیتی ہیں ؎
سہما ہوا ہے دشت خود اپنے سکوت سے
مدت ہوئی کہ سحرِ صدا لے گئی ہوا
اب خاک بھی نہیں ہے سمندر کی گود میں
کاغذ کی کشتیاں تھیں بہا لے گئی ہوا
۰۰۰۰
کوئی نہیں تھا اپنی ہی آواز کے سوا
چاروں طرف میں سن کے صدائے جرس گیا
اپنی وفا پہ خود ہی ندامت ہے اب مجھے
یہ ابر کس چٹان پہ جا کر برس گیا
۰۰۰۰
چیخ ٹکرا کے پہاڑوں سے پلٹ آتی ہے
کون سہتا ہے بھلا وار مقابل کے سوا
خشک پتوں سے چھڑا لیتی ہیں شاخیں دامن
کس نے یادوں سے نبھائی ہے یہاں دل کے سوا
۰۰۰۰
جن آنکھوں کی اداسی میں بیاباں سانس لیتے ہیں
انہیں کی یاد میں نغموں کا یہ دریا نکل آیا
سلگتے دل کے آنگن میں ہوئی خوابوں کی پھر بارش
کہیں کونپل مہک اٹھی کہیں پتا نکل آیا
۰۰۰۰
زندگی بپھرے ہوئے دریا کی کوئی موج ہے
اک دفعہ دیکھا جو منظر پھر کبھی دیکھا نہیں
ہر طرف بکھری ہوئی ہیں آئینے کی کرچیاں
ریزہ ریزہ عکس ہیں سالم کوئی چہرا نہیں
ان اشعار میں دشت کا اپنے سکوت سے سہما رہنا، ہوا کا سمندر میں کاغذ کی کشتیوں کو بہا لے جانا، اپنی ہی آواز کو سننا، ابر کا چٹان پر برسنا، چیخ کا پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آ جانا، شاخوں کا خشک پتوں سے دامن چھڑالینا، آنکھوں کی اداسی میں بیاباں کا سانس لینا، سلگتے دل کے آنگن میں خوابوں کی بارش کا ہونا، زندگی کو بپھرے ہوئے دریا کی موج کہنا اور آئینے کی کرچیوں میں ریزہ ریزہ عکس کا نظر آنا ایسی تشبیہات و استعارات ہیں جو اپنے حسن اور پراسراریت کے سبب شعر کی معنوی کیفیت میں وسعت اور گہرائی پیدا کر دیتے ہیں۔
شکست خوردہ تہذیب، زندگی کے جبر، ہولناکی اور کسمپرسی کی غیر شائستہ فضا بشرؔ نواز کی غزل میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ شاعر کے خیالات سماجی رویوں اور رجحانوں سے ٹکراتے ہیں اور اس طرح اس کے یہاں کرب، ذہنی کشمکش، تنہائی، کسک اور ذاتی انتشار کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ نیز جب یہ اثرات شاعری بنتے ہیں تو کلیدی الفاظ کی مدد سے نئے نئے پیکروں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ بشرؔ نواز کے یہاں چہرہ اور آئینہ کلیدی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں اور نقش، پرچھائیں، عکس، نقاب، خواب اور صورت جیسے الفاظ ان کے تلازمات کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ داخلی آئینہ خانوں سے برآمد ہونے والی صورتوں کے مربوط اور متحد شعری اظہار میں یہ کلیدی الفاظ اور ان کے تلازمات اس طرح رو بہ عمل ہوتے ہیں کہ حقیقت سامع و قاری کے ذہن پر روشن ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
پاس آتے ہی بدل جاتے ہیں چہروں کے نقوش
دور سے ان چاند کے ٹکڑوں کو دیکھا کیجیے
۰۰۰۰
کس درد کے چہرے سے الٹوں میں نقاب آخر
ہر درد سے انجانے رشتے ہیں مرے دل کے
۰۰۰۰
آنکھوں کے آئینوں میں چتاؤں کا عکس ہے
وہ دھوپ تھی ہر ایک سراپا جھلس گیا
۰۰۰۰
ہر چہرے میں آتا ہے نظر اپنا ہی چہرہ
ہر موڑ پہ جیسے کوئی آئینہ کھڑا ہے
عکس ہر روز کسی غم کا پڑا کرتا ہے
دل وہ آئینہ کہ چپ چاپ تکا کرتا ہے
۰۰۰۰
کس طرح کناروں کو ہے سینے سے لگائے
ٹھہرے ہوئے پانی کی ادا تم بھی تو دیکھو
پہلے شعر میں پاس آتے ہی چہروں کے نقوش کا بدل جانا اور چاند کے ٹکروں کو دور سے دیکھنے کا مشورہ، دوسرے شعر میں دل کا ہر درد سے انجان رشتہ ہونا، تیسرے شعر میں آنکھوں کے آئینے میں چتاؤں کا عکس رہنا، چوتھے شعر میں ہر چہرے میں اپنا چہرہ دیکھنا، پانچویں شعر میں آئینہ کے مانند دل کا چپ چاپ تکا کرنا اور چھٹے شعر میں پانی کا کناروں کو سینے سے لگانا ایسا شعری اظہار ہے جو تحرک و تغیر کے حوالے سے زندگی کی تفہیم کی راہ ہموار کرتا ہے اور تحرک و تغیر سے شاعر کے فکری ربط و تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح یہ اشعار بھی دیکھیے ؎
کچھ رات ڈھلے روز جو آتی ہے فضا سے
کس ڈوبتے دل کی ہے صدا تم بھی تو دیکھو
۰۰۰۰
خاموش پتھروں کی طرح کیوں ہوا شہر
دھڑکن دلوں کی گر نہیں آوازِ پا تو ہے
۰۰۰۰
کیا عجب ہے کہ ہمیں جیسے یہاں اور بھی ہوں
ان اندھیروں میں اک آواز لگا کر دیکھیں
۰۰۰۰
یونہی نئی داستاں روز سنائے گی کیا
زندگی باتوں ہی میں ہم کو اڑائے گی کیا
جانے وہ کون ہے جو رات کے سناٹے میں
کبھی روتا ہے کبھی خود پہ ہنسا کرتا ہے
۰۰۰۰
چاہتے تو کسی پتھر کی طرح جی لیتے
ہم نے خود موم کی مانند پگھلنا چاہا
مذکورہ بالا اشعار میں صدا، دھڑکن، آواز، داستان، رات کا سناٹا، پتھر، موم وغیرہ الفاظ و استعارات حسِ سماعت کو متحرک کرتے ہیں اور مفاہیم کے نقوش کو گہرا کرتے ہیں۔ ان استعاروں نے شاعر کے جذبات و محسوسات کو سماعت کی مدد سے شعری پیکر میں تبدیل کر دیا ہے۔
بشرؔ نواز نے شعری پیکر کا استعمال محض لسانی خوبصورتی اور شاعرانہ فنکاری کے اظہار کے لیے نہیں کیا بلکہ انسان، زندگی اور کائنات کے اسرار کو ایک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈھونڈنے کے لیے کیا ہے۔ چنانچہ ان کے تجربات و مشاہدات پر چھائی ہوئی کیفیت ان کے فکر، اسلوب، شعری تنوع، حسن و جمال، تازگی اور معنویت میں اضافہ کرتی ہے۔
٭٭٭
مطبوعہ : سہ ماہی اسباق پونے، اپریل تا ستمبر ۲۰۱۸ء