(سفر نامہ)
میں نے پہلا پاؤں بادلوں پر رکھ دیا۔ ۔ ۔ ایک نرم سی ٹھنڈک میرے اندر اتر آئی۔ ۔ ایک خوبصورت احساس سارے وجود میں تیرنے لگا۔ ۔ ۔ نرم سفید خنک بادل۔ ۔ ۔ وہ ایک خوبصورت شام تھی جب میں نے حیدرآباد میں قدم رکھّا۔ ۔ ۔
دنیا کے کئی شہر دیکھے، سعودی عرب کا شہر ریاض، امریکہ کا شہر شکاگو، انگلنڈد کا شہر لندن۔ ۔ ۔ ۔ ایران کا شہر تہران۔ ۔ ۔ مگر اپنے ملک کا اتنا خوبصورت شہر پہلی بار دیکھا۔ ۔
برسات کا موسم شروع ہو رہا تھا ہر طرف بادلوں کی دھند چھائی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ اور میں چل پڑی تھی ایک لمبی سیر کے لئے حیدرآباد کی سمت۔ ۔ ۔ وہ حیدرآباد جس کے بارے میں صرف سنا تھا یا پڑھا تھا۔ ۔ نظام حیدرآباد کی لائیبرئری کے بارے میں، حسین ساگر کے بارے میں اور ان شفّاف مو تیوں کے بارے میں۔ ۔ ۔ اور میں سوچ رہی تھی یہ سب کچھ قریب سے دیکھنا کتنا روح پر ور ہو گا۔ ۔ ۔
سب سے پہلے ہم حسین ساگر دیکھنے گئے یہ ایک خوبصورت جھیل ہے جو چاروں طرف شہر سے گھری ہوئی ہے، اس کے درمیان گوتم بدھ کا بلند مجسمہ استادہ ہے۔ ۔ ۔ ایک طرف لبنی باغ جہاں سبزہ کاٹ کر درمیان سے سڑک نکالی گئی ہے، ایک طرف بچوں کا پارک۔ ۔ جہاں ایک چھوٹی سی ٹرین چلتی رہتی ہے۔ ۔ جھیل میں مستقل کشتیاں رواں دواں تھیں۔ ۔ ۔ ہم نے کشتی کا ٹکٹ لیا اور روانہ ہوئے۔ ۔ ۔ چند لمحوں کے سفر کے بعد ہم گوتم بدھ کے مجسّمہ کے قریب پہونچ گئے، جو کہ اک ماہر نقّاش نے تراشا ہے، طویل القامت مجسمّہ پانی کے درمیان کھڑا مسکرا کر سب کو دعائیں دیتا دکھائی دیا۔ آس پاس خوبصورت فوّاروں سے پانی رواں تھا۔ ۔ ۔ وہاں سبزے پر کئی لوگ بیٹھے نظر آئے دل کے سکون کے لئے بہترین جگہ تھی یہاں فضا بڑی پر سکون اور خاموشی طاری تھی۔
دوسرے دن ہم لوگ سالار جنگ میوزیم پہونچے۔ ۔
اس میوزیم کی تعریف کے لئے میرے پاس الفاظ کم پڑ گئے ہیں۔ ۔ اس عمارت میں ایک پوری دنیا آباد ہے اندر داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ ہم ایک خوبصورت صدی میں آ گئے ہیں۔
میوزیم کا رقبہ کافی طویل تھا یہ ایک دن میں نہیں دیکھا جا سکتا تھا
یہ یقیناً ایک محل رہا ہو گا۔ ۔ ۔ بے شمار ہال، طویل راہداریاں بیچ بیچ میں صحن جن میں طرح طرح کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے ہر طرف سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ایک صحن کے سرے پر ایک قدّ آدم ٹی۔ وی لگا ہوا تھا ا س پر ڈرامے نشر کئے جا رہے تھے اکثر لوگ وہیں کرسیوں پر بیٹھے محویت سے پروگرام دیکھ رہے تھے۔ ۔ مگر ہم وہاں نہیں رک سکے کیونکہ وہاں بے شمار چیزیں ایسی تھیں جن کی کشش ہمیں کھینچے لئے جا رہی تھی۔
ٍٍروغنی تصویریں، چینی کے حسین پھولدار ظروف، سنگ مر مر کے حسین ترین مجسّمہ۔ ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ ایک کمرے میں گھڑیوں کا ذخیرہ تھا مختلف انداز اور مختلف زمانوں کی بے شمار گھڑیاں وہاں رکھّی ہوئی تھیں کہیں چینی کے فرشتے وقت اپنی پیٹھ پر اٹھائے کھڑے تھے اور کہیں کانسے کے جوکر وقت کو اپنے پیٹ پر سجائے کھڑے تھے۔ ۔ ۔ ۔ وہاں ایک بہت بڑا ہال تھا جو شاید ڈرائینگ روم کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ۔ ہر طرف خوبصورت صوفے لگے تھے اس کا رقبہ تقریباً 50/50 گز ہو گا چاروں طرف دیواروں پر عمدہ اور قیمتی تصویریں تھیں۔ ۔ بلکہ پینٹنگس کہنا زیادہ مناسب ہو گا،، ان میں مونا لیزا کی تاریخی پینٹنگ بھی مسکرا رہی رہی۔ ۔ اس کے علاوہ بھی کئی تاریخی تصویریں تھیں جن کے بارے میں ان کے نیچے تاریخ درج تھی۔ درمیان میں جو لکڑی کی منقّش میز رکھّی تھی اس پر بہترین کرسٹل کی شطرنج موجود تھی، جس کے اوپر ننھے ننھے مہرے بھی کرسٹل کے بنے ہوئے تھے۔ ہال کے آخری سرے پر ایک کانسے کا مجسمہ استادہ تھا اور وہ ڈبل تھا میں شاید سمجھا نہ سکوں۔ ۔ ۔ لیکن وہ عجیب و غریب مجسمہ تھا ایک طرف ایک سپاہی بڑی سی تلوار لئے زرہ بکتر پہنے ہوئے ہوئے تنا ہوا کھڑا تھا اس کے دوسری طرف ایک بڑا آئینہ لگا ہوا تھا۔ ۔ اور وہی مجسمہ دوسری طرف سے دیکھئے تو ایک نازک اندام دوشیزہ گھونگھٹ میں سلام کے لئے جھکی نظر آ رہی تھی۔ ۔ ۔ جس نے پیشواز پہنی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ اور اپنی مخروطی انگلیوں سے پیشواز کا دامن تھا ما ہوا تھا۔ حیرت حیرت۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف حیرت۔ ۔ ایک کمرے میں صرف بر تن تھے جن میں چاندی سونے سے لے کر چینی کانسے اور مٹّی تک کے بر تن سجے ہوئے تھے۔ ۔ چینی کی پیالیوں اور طشتریوں پر فارسی میں اشعار لکھے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ پلیٹوں میں فارسی کے قطعات موجود تھے۔ چاندی کے کانٹوں چمچوں پر مہارت سے نظام حیدر آباد کے نام کندہ تھے۔
اب حقّوں کی باری آئی تو دیکھا چینی کے کانچ کے چاندی کے ہر طرح کے حقّے سجے ہوئے تھے، ان کے پیندوں پر اشعار کندہ تھے
چاندی کی نیَ اور کانچ اتنا ہلکا جیسے چاندی کا ورق۔ ۔ ۔ حقّوں کے ساتھ ساتھ پائپ بھی سجے ہوئے تھے طرح طرح کے ڈیزائین، طرح طرح کے مٹیریل۔ ۔ ۔ ہاتھی دانت کے پائپ بھی موجود تھے اور کانچ کے بھی۔ ۔ لکڑی کے بے شمار۔ ۔ ۔ ان پر مہارت سے نقاشی کی گئی تھی، بیل بوٹے بنائے گئے تھے، سائیز بھی الگ الگ موجود تھے۔
پوری دنیا کے آرٹ کے نمونے وہاں موجود تھے، اکثر نقل بھی تھے مگر ایسے کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا تھا۔
ایک بہت بڑا ہال کتابوں سیسجا ہوا تھا جہاں اردو فارسی عربی کے قلمی نسخے موجود تھے سراج دکنی، اور ولی دکنی کے دیوان سجے ہوئے تھے کچھ کتابیں نظام حیدرآباد کی لکھی ہوئی تھیں۔ ہر قسم کے رسم الخط موجود تھے۔ قران پاک کی تفسیر قلم اور روشنائی سے لکھی ہوئی۔ ۔
پوری دنیا کے آرٹ کے نمونے سجے ہوئے تھے۔
ایک چیز کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی جسے میں آج تک بھول نہ سکی۔ وہ ایک مجسّمہ ہے جو کہ فرانس کے ایک ماہر نقّاش نے تراشا ہے، یہ ایک قدّ آدم مجسمہ جو کہ ابراہیم علیہ سلام کی بہو “ربیکا ” کا ہے
سفید اور شفّاف بالکل جیتا جاگتا سا محسوس ہوتا ہے اس مجسمّے کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے جسم پر ایک ہلکا سا دوپٹّہ پڑا ہوا ہے۔ ۔ اور وہ بھی سنگ مر مر سے تراشا ہوا۔ ۔ ۔
ماتھے سے ہونٹوں تک آتے آتے اس دوپٹہّ کی شکنیں اتنی واضح اور حیران کن ہیں کہ جو دیکھتا ہے وہ مبہوت رہ جاتا ہے۔ وہ کپڑا کمر سے نیچے تک جاتا ہے اور جھالر سی بن جاتی ہے، ، وہ حصّہ بھی سنگ مر مر سے بنا ہوا ہے وہ جھالریں پیر کی ایڑیوں تک آتی ہیں اور پیروں میں سینڈل بھی خوبصورتی سے تراش کر بنائی گئی ہے اس بے مثال مجسّمہ کی تاریخ بھی میں لکھ کر لائی تھی جو مضمون کی طوالت کے پیش نظر ابھی نہیں لکھ رہی ہوں۔ انشاء اللہ آئندہ رقم کروں گی۔ ۔ کمپنی باغ کی طرح ایٹ اسٹریٹ بھی حسین ساگر کا ایک کنارہ ہے، جس پر خوبصورتی سے ٹورسٹ کے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ رنگ برنگی کر سیاں، سفید جالی کے کنارے نصف دائرے کی شکل میں لگی ہوئی تھیں۔ اور یہ حصہ حسین ساگر کو چھو رہا تھا لوگ سیڑھیوں پر پانی میں پیر ڈالے بیٹھے تھے۔ ۔ دوسری طرف کی روشنیوں کا عکس پانی میں جھلملا رہا تھا۔ ۔ اور وہ منظر اتنا حسین تھا کہ جو میں بیان نہیں کر سکتی مگر آپ محسوس کر سکتے ہیں۔
میں اور میری بیٹی کافی لے کر وہاں بیٹھ گئے اور کنارے پر جلتی بجھتی روشنیوں کا جادو دیکھتے رہے۔ اور پھر رات اتر آئی۔
حیدرآباد سنڑل مال بھی بیحد خوبصورت ہے مگر اب تو ہر جگہ ایک سے ایک عمدہ مال بن گئے ہیں اس لئے اس کا ذکر نہیں کروں گی۔ ۔ مگر وہاں جو جودلری کی دوکانیں تھیں وہ اس قدر حسین تھیں، قطار سے سچے موتیوں کی لائینیں لگی ہوئی تھیں۔ ۔ اتنے سارے موتی میں نے ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ۔ ۔ ایک خوبصورت سجی ہوئی شاپ میں ایک کرسٹل کے بڑے سے پیالے میں سچے موتی بھرے ہوئے رکھّے تھے۔ ۔ ۔ ۔ وہ میں اب تک نہیں بھول سکی۔ ۔ ۔
اس دن صبح صبح بیٹی نے جگایا۔ ۔ ۔ ۔ اور بتایا کہ ہم “راموجی فلم سٹی ” دیکھنے جا رہے ہیں۔ 9بجے بس وہاں سے روانہ ہوئی دور دور تک سیاہ پہاڑیاں اور حدّ نگاہ تک سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہم اس علاقے میں داخل ہوئے جہاں ایک اونچی پہاڑی پر دور سے “رامو جیفلم سٹی “کا مخفف آر۔ ایف۔ سی۔ نظر آ رہا تھا۔
ہماری بس نہایت آرام دہ تھی اور میری بیٹی فارینا نے بس کے ٹکٹ لیتے وقت فلم سٹی کا ٹکٹ بھی لے لیا تھا اس لئے ہمیں کسی لائین میں نہیں لگنا تھا۔ ۔ ۔ آرام سے دوسری کھلی ہوئی بس میں بیٹھ کر آگے بڑھ گئے۔ وہ سرخ رنگ کی کھلی کھلی سی بسیں تھیں جو ہمیں پورا فلم سٹی گھمانے والی تھیں۔ وہ بسیں نہایت آرام دہ، جیسے ہم صوفے پر بیٹھے ہوں اور اوپر سرخ چارد تنی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ہر طرف سے پورا علاقہ نظر آ رہا تھا۔ ۔ سر سبز و شاداب۔ ۔ ۔ ایک گائیڈ نے ہمیں تاریخ بتا نا شروع کی، وہاں پر کئی مغلیہ محلوں کی نقل بنی ہوئی تھی ان محلوں میں فلم کی شوٹنگ ہوتی ہے اور ہمیں نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ویسے تو وہاں بہت ساری چیزیں قابلِ ذکر ہیں ایک ریستوراں مجھے بیحد پسند آیا جہاں بیرے مغلیہ دور کی سر پر پگڑی اور سفید پیشواز پہن کر کھانا سرو کر رہے تھے، کھانے کی پلیٹیں اور گلاس چاندی کے تھے کھانے میں بھی بہت ذائقہ تھا۔ ۔ ۔ ہم دونوں نے خوب کھانا کھایا اور آیس کریم بھی۔ ۔
بڑی بڑی سفید سیپیاں بنا کر اس میں سرخ پھول، سفید، نارنجی، پھول لگائے گئے تھے۔ ۔ ۔ چاروں طرف بے حد سجاوٹ تھی۔
٭٭٭