وہ غصہ میں بڑبڑاتی ہوئی اپنا سامان سمیٹتی اور سوٹ کیس میں بھرتی رہی ’’کون رہ سکتا ہے ایسے جانور نما انسان کے ساتھ…دوسروں کے جذبوں کا کوئی خیال نہیں …بس ہمیشہ اپنی منواتا ہے یہ شخص…بد مزاجی کی انتہا ہو گئی…بات کرنا تو جیسے جناب کی شان کے خلاف ہے ‘‘دروازے کی گھنٹی زور زور سے بج رہی تھی مگراس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی… ’’رشتوں کا ذرا بھی احترام نہیں اس شخص کے دل میں …ایسا نہ ہوتا تو…‘‘اس نے سوٹ کیس بند کیا اور ایک طرف ڈال کر جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔
’’کون ہے ؟‘‘
اس نے جھنجھلا کر چہرے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کیا۔
’’کیا یہ احسن درّانی صاحب کا گھر ہے ؟‘‘
ایک نازک سی۱۷۔ ۱۸ سال کی لڑکی ایک چھوٹا سا بیگ کاندھوں پر لیے کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر سفرکی گرد اور عجب طرح کی پریشانی تھی۔ وہ اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی پھرجیسے ہوش میں آ گئی…
’’ہاں ہاں آئیے یہی گھر ہے۔ ‘‘اس نے دروازہ پورا کھول دیا
’’آپ…؟‘‘ اس نے جھجھک کر کچھ پوچھنا چاہا…مگر اس نے غصے سے ہاتھ ہلایا ’’نہیں نہیں میں مسز درّانی نہیں ہوں۔ سمجھیں آپ…اور آپ کون ہیں ؟ اچھا ٹھہرئیے احسن کو بلاتی ہوں ‘‘ اس نے چہرہ اندر کی طرف کر کے آواز دی… ’’باہر آؤ…کوئی تم سے ملنے آیا ہے۔ ‘‘
’’کون ہے بھئی…کیا مصیبت ہے …کوئی بھی منہ اٹھائے چلا آتا ہے۔ ‘‘وہ جھنجھلاتا ہوا کمرے سے نکلا۔
’’جی کہئے کیا کام ہے ؟‘‘ وہ اپنے پرانے اکھڑ پن سے بولا…
لڑکی اس کا چہرہ دیکھتی رہی…
’’بولئے نا کون ہیں آپ کیا کام ہے میں ہوں احسن درانی…‘‘
’’میں رابعہ درانی ہوں۔ ‘‘اس نے احسن کی طرف دیکھتے دیکھتے کہا…
’’تو پھر…؟‘‘ وہ الجھا کھڑا رہا۔
’’میں حیدر آباد سے آئی ہوں …‘‘ احسن درانی کی سوالیہ نظریں پھر بھی اس کے چہرے پر جمی رہیں۔
’’میں تحریم درانی کی بیٹی رابعہ ہوں ‘‘احسن کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا…
’’کیا کہا …تحریم…؟‘‘
’’ہاں بیٹی ہوں میں آپ کی‘‘ اس نے بیگ اپنے کاندھے پر بدلا۔
برابر میں کھڑی شہنا نے سوٹ کیس ہاتھ سے رکھ دیا اور چونک کر دونوں کو دیکھنے لگی۔
’’آؤ اندر آؤ…‘‘احسن اندر کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ ’’ کیسے آنا ہوا…؟‘‘
’’ارے عجیب ہو تم…آؤ رابعہ‘‘ اس نے لڑکی کا ہاتھ تھام کر صوفے پر بٹھا دیا اور پانی لینے اندر چلی گئی جب وہ پانی کولڈڈرنکس اور کچھ بسکٹ لے کر آئی تو رابعہ آنکھوں میں آنسو لئے دھیرے دھیرے بتا رہی تھی۔
’’ممی اب نہیں ہیں …‘‘ اس نے سسکی لی۔
’’جب تک ممی زندہ رہیں کسی نہ کسی طرح گھر چلاتی رہیں مگر اب…اب میرے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں … اور میں …بہت مجبور ہو کر آپ کے پاس بڑی مشکل سے حیدر آباد سے یہاں تک آئی ہوں اور…‘‘اس کی آواز آنسوؤں میں گھٹ رہی تھی۔
احسن درانی خاموشی سے اس کا چہرہ تکتے رہے۔ شاید وہ اس کے معصوم چہرے پر اپنی برسوں کی بچھڑی بیوی کا چہرہ دیکھ رہے تھے، اپنی تحریم کا چہرہ…جسے وہ کسی معمولی سی بات پر لڑ جھگڑ کر چھوڑ آئے تھے تب رابعہ دو سال کی تھی اور اتنے برسوں میں انہوں نے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی کہ وہ گھر بدل کر کہاں چلی گئی اور آج…کیا ایسے رشتے بھی مر جاتے ہیں ؟ پہلے اس رشتے کو اتنے پیار سے نبھایا دل سے چاہا جذباتی آبیاری کی اپنے طور پر ہر طرح خیال رکھا…اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں اس رشتے پر قربان کر دیں۔ مگر پھر چھوڑ کر برسوں بتا دئیے یہ نہ سوچا اس کا کیا ہو گا۔ جیسے کوئی تناور درخت جڑ سے اکھڑ ج ائے …جیسے کوئی دل کا حصہ مر جائے …کیا لوگوں کو خود پر اعتبار نہیں ہوتا…لوگ اپنے بنائے رشتوں پر قائم نہیں رہ سکتے تو رشتے بناتے ہی کیوں ہیں۔ تحریم کی موت کی خبر ان کے لئے بہت بڑا سانحہ تھی اور اب یہ رابعہ…وہ گرنے کے انداز سے صوفے پر بیٹھ گئے۔
چند دن رابعہ کے ساتھ گزار کر احسن کو یہ احساس ہوا کہ جیسے وہ تحریم کے ساتھ ہی رہ رہے ہوں۔ وہی ضد وہی خود داری وہی بے جا انا جو تحریم کی ذات کا اک حصہ تھی اور جو ہمیشہ ان دونوں کے جھگڑے کا سبب بنتی رہی…احسن اپنی بیٹی کے ساتھ محبت اور شفقت کا جو سلوک کرنا چاہتے تھے وہ کر نہیں پا رہے تھے یا شاید وہ جھجھک رہے تھے اور رابعہ بھی انہیں موقعہ نہیں دے رہی تھی…مگر شہنا ان کی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتی رہتی…رابعہ صبح صبح اخبار لئے بیٹھی تھی جب شہنا اس کے پاس آئی…
’’اچھا بھئی میں تو اپنے پارلر جا رہی ہوں شام تک آؤں گی تم دن بھر کیا کرو گی‘‘ اس نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا۔
’’کیا میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتی ہوں ؟ اس نے جھک کر چپل پہنتے ہوئے پوچھا…اس نے چھوٹے سے اسکرٹ پر ٹائٹ شرٹ پہنا ہوا تھا۔
’’ہاں ہاں ضرور…مگر میں شام کوواپس آتی ہوں۔ ‘‘
’’نہیں در اصل مجھے …ایک آفس میں کچھ کام ہے۔ ‘‘ اس نے رکتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بات نہیں تم چلو تیار ہو جاؤ…وہ یہ کہتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی رابعہ جب تیار ہو کر آئی تو احسن ناشتہ کر رہے تھے۔
’’کہاں کی تیاری ہے ‘‘…احسن نے سلائس پر جام لگاتے ہوئے چائے کا کپ اپنی طرف رکھا۔
’’سر…وہ…میں جاب کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘اس نے اتنے دنوں میں ایک بار بھی انہیں ڈیڈی کہہ کر نہیں پکارا تھا۔ انھوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ’’یہ پیپر میں ایک ایڈ ہے …ماڈلنگ کا‘‘…اس نے پیپراحسن کی طرف بڑھایا۔
’’تم…تم ماڈلنگ کرو گی‘‘ احسن کا موڈ خراب ہو گیا۔
’’کیوں اس میں کیا برائی ہے ہزاروں لڑکیاں کرتی ہیں۔ ‘‘ اس نے آرام سے ناشتہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہاں ہاں ہزاروں لڑکیاں کرتی ہیں مگر وہ کیا ہوتی ہیں ان کے ساتھ کیا کیا…‘‘ احسن کو غصہ کی زیادتی کی وجہ سے کھانسی آ گئی…شہنا نے آگے بڑھ کر انہیں پانی کا گلاس تھمایا اور ان کی پیٹھ سہلانے لگی ’’ارے کچھ نہیں ہوتا جانے دو نا…اپنی زندگی آپ جینا کیا غلط بات ہے کچھ لوگ اس لائن میں رہ کر بھی بہت اچھے اور اعتبار کے قابل ہوتے ہیں اصل بات تو اعتبار کی ہے تم اسے منع مت کرو…کرنے دو اسے جو یہ چاہتی ہے ‘‘…ساتھ ہی ساتھ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں احسن کو اشارہ کیا کہ وہ بات کو ختم کر دے۔
احسن جھنجھلا کر اٹھے اور کمرے میں چلے گئے ان کے اندر ایک طوفان اٹھ رہا تھا ان کی اپنی
بیٹی انہیں اس طرح ستارہی تھی مشتعل کر رہی تھی اور وہ کچھ نہیں کر پا رہے تھے ذہنی اذیت سے پریشان تھے رہ رہ کر اپنی بے خبری پر رنج ہو رہا تھا کہ انہوں نے کیوں تحریم کی یا رابعہ کی خبر نہ لی۔ کاش وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتے تو حالات کچھ اور ہی ہوتے۔
ماڈلنگ کے اس آفس میں ان کے اپنے کئی جاننے والے تھے اس لئے شام کو انہوں نے سوچا کہ بات کر کے ان کی خبر لے لیں۔ شام ہو رہی تھی تینوں لاونج میں ٹی وی کے آس پاس بیٹھے تھے رابعہ ٹی وی دیکھ رہی تھی مگر لاشعوری طور پر اس کا ذہن فون کی جانب تھا جہاں اس کے آڈیشن کا جواب آنے والا تھا اور تبھی گھنٹی بجی سبھی چونک پڑے احسن نے آگے بڑھ کر فون اٹھا لیا…
’’ہاں …بولو شیکھر میں بول رہا ہوں …انٹرویو ٹھیک رہا…اور آڈیشن ہاں …میں اسے جانتا ہوں … رشتہ داری…؟اُف جسٹ شٹ اپ…‘‘احسن نے فون پٹخ دیا اور گرنے کے انداز میں بیٹھ گئے ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا انہوں نے ایک جلتی سلگتی نظر ان دونوں پر ڈالی اور کمرے میں جا کر کمرہ بند کر لیا۔ شہنا نے رابعہ کی طرف دیکھا وہ بھی حیران نظر آئی۔ پھر بھی بات کافی حد تک ان دونوں کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ کونسا ایسا جملہ ہو گا جس نے احسن کا یہ حال کیا…
رات کو رابعہ خود کافی لے کر احسن کے کمرے میں گئی…تو وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹے تھے اور بیقراری سے پیر ہلا رہے تھے۔ وہ کافی رکھ کر سرہانے بیٹھ گئی۔ اور آہستہ آہستہ ان کے بال سہلانے لگی۔ احسن نے چند لمحوں بعد آنکھوں کے اوپر سے ہاتھ ہٹایا۔
اس کا معصوم چہرہ ان کے سامنے تھا۔
’’تم…آخر تم ماڈلنگ کیوں کرنا چاہتی ہو۔ تم کو میرے پاس کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ تمہیں اچھی طرح پال سکوں، تعلیم دلوا سکوں میں اچھی جاب پر ہوں رابعہ…ان کی آواز میں ان کے لہجے میں ایک بے بسی اور التجاء تھی۔
’’سرمیں جاب اپنے لئے نہیں کرنا چاہتی…‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’میں در اصل ارسل کے لئے یہ سب کر رہی ہوں۔ ‘‘
’’ارسل کون ہے …تمہارا دوست ہے وہ…؟‘‘
’’نہیں سر…وہ میرا بھائی ہے …آپ کا بیٹا…وہ مجھ سے ڈھائی برس چھوٹا ہے۔ ‘‘وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ اس کی آواز بھرا رہی تھی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔
’’میں نہیں چاہتی کہ اس کی ذمہ داری کوئی اور اٹھائے۔ میں اسے اچھے اسکول میں تعلیم دلوانا چاہتی ہوں ‘‘ احسن خاموشی سے لیٹے اس کی طرف دیکھ رہے تھے جو انکشافات پر انکشافات کئے جا رہی تھی پے درپے انہیں خبریں سنا رہی تھی۔ ان کے ذہن میں آندھیاں چل رہی تھیں۔
’’میرا بیٹا…میرا اپنا بیٹا اس دنیا میں سانس لے رہا ہے اور مجھے پتہ بھی نہیں …‘‘
’’ممی نے آپ کو اس لئے نہیں بتایا سر کہ آپ اسے ان کی کمزوری نہ سمجھ لیں۔ ممی بہت بہادر تھیں سر…آپ ذرا بھی نہیں ہیں۔ ‘‘وہ جھٹکے سے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی ان کے لئے بازگشت چھوڑ گئی۔
پہلے دن اسکرین ٹسٹ کے بعد واپس آ کر اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
’’کیا ہوا…؟‘‘
شہنا بدحواس ہو کر کچن سے نکل آئی۔ مگر وہ کارپٹ پر پڑی پیر پٹک پٹک کر روتی رہی بلکتی رہی۔
گھنٹی بجی دروازے پر احسن تھے …تھکے تھکے سے بریف کیس ان سے لیتے ہوئے شہنا نے رابعہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ گھبرا کر اس کی طرف بڑھے۔
’’ارے کیوں رو رہی ہو؟ کیا ہوا…کیا بات ہے …کچھ تو بولو…؟‘‘
وہ بیقراری سے پوچھ رہے تھے اسے سینے سے لپٹا رہے تھے …اس نے روتے روتے احسن کا سینہ بھگو دیا اور پھر اچانک ہی پر سکون ہو گئی۔
’’ڈیڈی!‘‘ میں ماڈلنگ نہیں کروں گی۔ ‘‘
اس کے لہجے میں قطعیت تھی۔ احسن حیرت سے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ وہ کمزور سی بچی جو قدم قدم پر انہیں حیرتوں کے جھٹکے دے رہی تھی… انہوں نے اس کا سرپھراپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے بالوں پر پیار کر کے آہستہ آہستہ بولے۔
’’تمہیں کوئی ضرورت نہیں نوکری کرنے کی میں جو ہوں تم کالج میں اپنا نام لکھوا لو آگے پڑھو…آج ہی ٹکٹ بک کراتا ہوں۔ ہم حیدر آباد چلتے ہیں ارسل کو لے کر آئیں گے وہ بھی یہیں رہے گا۔ ہم سب ساتھ مل کر رہیں گے تم دونوں ابھی پڑھو گے خوب پڑھو گے …میں ہوں نا…؟ میں ابھی زندہ ہوں تم فکر کیوں کرتی ہو کبھی مجھے پکار کے تو دیکھا ہوتا میں تو خود اپنی آگ میں جلتا رہا ہوں بیٹی۔ تمہاری ماں نے شہر بدل لیا گھر بدل لیا مجھے پتہ تک نہیں دیا مجھے اپنی کبھی کوئی خبر نہ دی میں تمہیں پاتا تو کیسے …ارسل کا تو تحریم نے کبھی مجھے بتایا تک نہیں … شاید میں اس لائق ہی نہیں تھا۔ یا پھر…وہ چپ ہو گئے۔ ‘‘
شہنا نے ان کی طرف دیکھا…جیسے کہہ رہی ہو ’’اور میں …؟‘‘
انہوں نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر اسے بھی خود سے قریب کر لیا۔ دونوں کو ایک ساتھ سینے سے لگا کر ایک لمبی پرسکون سانس لے کر آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...