عید کی ساری شاپنگ بستر پر بکھری پڑی تھی، عالیہ نے ایک نظر سامنے رکھّے ہوئے بیگس پر ڈالی ابھی تو بہت سارا سامان بیگ میں ہی پڑا تھا، ڈیکو ریشن، کشن کور، کٹ کور، کٹ گلاس کا سامان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے کھلنے کی تو ابھی باری ہی نہیں آئی تھی۔
وحید کے آنے میں بس اب دو دن ہی باقی تھے وہ چاہتی تھی کہ اس کے آنے سے پہلے سارا گھر سج جائے، اک نئی تازگی اک نیا احساس جو وحید کو اس کے پاس زیادہ سے زیادہ دن گزارنے پر مجبور کر دے۔
نئے ڈیزاین والے مہنگے بوتیک اس کے لئیے تو عالیہ سارا بازار خرید لینا چاہتی تھی۔ الماری میں سے خریدے ہوئے کپڑے بھرے تھے مگر پھر بھی وہ ڈھیر سارے نئے خرید لائی تھی۔ اسٹائیلش جوتے، بر انڈیڈ کمپنیوں سے میک آپ کا سامان اور نہ جانے کیا کیا الم غلّم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ابھی بھی دل نہیں بھرا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دروازے کی گھنٹی بجی تو وہ چونک گئی۔
’’وہ مدرسے والے آئے ہیں چندہ لینے ‘‘ شبّو نے روبٹّے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’’ارے بھئی کہہ دو گھر پر کوئی نہیں ہے بعد میں آئیں ‘‘ اس نے جھنجھلا کر کشن دوسری طرف پھینکا اور ڈریسنگ ٹیبل کا سامان سیٹ کرنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بر سات کی شامیں ویسے ہی اداس ہوتی ہیں۔ تیز بارش سے جل تھل ہو رہا تھا۔ ایک سیلی سی ٹھنڈ کہ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے باہر گاڑی نکالی ہی تھی کہ سامنے گیٹ کے پاس بیٹھے ہوئے علیم الدین پر نظر گئی۔ وہ بری طرح کھانس رہے تھے۔ عالیہ نے ایک نظر ان پر ڈالی اور گاڑی تیزی سے باہر لے گئی، علیم الدین اسے دیکھ کر الرٹ ہو گئے تھے۔
کافی سامان لے کر جب وہ واپس آئی تو رات کی سیاہی پھیلنے لگی تھی۔ شبّو لیونگ روم میں کارپٹ پر بیٹھی اونگ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی، ’بی بی جی! بّا طبیعت بہت خراب ہے ‘‘ اس کی آواز میں آنسو بول رہے تھے۔ ’’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کسی ڈاکٹر کو دیکھا لینا کل جا کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کیا ہو سکتا ہے ’’مگر بی بی جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اس معصوم کو تو مانگنے کا بھی سلیقہ نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلا دیے۔ عالیہ نے چند نوٹ اس کے ہاتھوں پر رکھے اور اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا مصیبت ہے ہر وقت مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے ان لوگوں کو ’’ اس نے کوفت سے سر جھٹکا اور اندر جا کر اپنا لایا ہواس سامان سیٹ کرنے بیٹھ گئی۔
صبح صبح وحید کے آ جانے سے گھر میں رونق سی ہو گئی۔ بچّوں نے پورے گھر میں ادھم مچایا ہوا تھا۔ وہ خو دبھی بچوں کے ساتھ بچّہ بن بیٹھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک خوشگوار سی چہل پہل ہر طرف نظر آ رہی تھی۔
شبو بار بار چائے بنا رہی تھی حالانکہ خود اس کا روزہ تھا مگر مالک لوگوں کو جو بھی چاہئیے وہ اس کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔
ساتھ ہی ساتھ وہ صبح کے لئیے شیر خرمہ بریانی کا مصالحہ بھی بناتی جا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں متوّرم اور رنگ پیلا پڑ رہا تھا۔ لیکن کسی کے پاس اس کی اداسی کا سبب جاننے کے لئیے وقت نہیں تھا۔ شام ہوتے ہوتے وحید کے دوستوں سے لیونگ روم بھر چکا تھا۔ علیم الدین گیٹ پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ اندر چاند رات کی خوشی میں عبادتوں کے بجائے جام چھلک رہے تھے۔
ہر ایک اپنے آپ میں مگن تھا۔ بلند و بانگ قہقہوں سے سارا گھر گونج رہا تھا۔ شبّو نے کئی بار آ کر بات کرنے کی کوشش کی مگر مایوس ہو کر اپنے کواٹر میں چلی گئی۔ ایک بار عالیہ نے وحید سے ہلکی آواز میں بتایا کہ علیم کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ایک بار اسے دیکھ لیں مگر وہ اپنے ایک پرانے دوست سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ‘‘ ارے ہزار دو ہزار دے دو جا کر کسی کو دکھا لے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقت کس کے پاس ہے جانم‘‘ اور بے ہنگم ہنسی ہنستے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئے۔
وحید چودھری اپنے گاؤں سے شہر پڑھنے کے لئیے آئے تھے اسی وقت سے علیم ان کی خدمت پر معمور تھے جب وحید نے شادی کی تو گھر میں ایک عورت کام کے لئیے چاہئیے تھی اس لئیے۔ اس نے اپنی بیوی اور بچی کو بھی یہیں بلا لیا تھا۔ بیوی کے انتقال کے بعد وہ اور بھی اکیلا ہو گیا۔ شبّو اس کی زندگی کا سہارا تھی اور اس کا بھی دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ بس بیٹی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی بن گئے۔ وحید چودھری اپنی تعلیم ختم کر کے ملک سے باہر چلے گئے تو عالیہ کے لئیے وقت گزارنا مشکل ہو گیا ایسے میں شبّو نے ان کا بہت ساتھ دیا۔
مگر اس کا ساتھ دینے والا اس وقت کوئی نہ تھا۔ وہ اپنے باپ کو قطرہ قطرہ مرتے دیکھ رہی تھی۔ اور ادھر عید کا جشن چل رہا تھا۔ عید کی صبح آسمان بادلوں سے بھرا تھا۔ پھر زور شور سے بارش شروع ہو گئی۔ اس کے باوجود ہر طرف عید کی نماز کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ لوگ مجمع کی صورت میں مسجد کا رخ کر رہے تھے۔ خطبہ شروع ہو چکا تھا۔
’’رمضان کے اس مبارک مہینے میں ہر رات آسمان سے ندا آتی ہے کہ خیر چاہنے والے خوش ہو جا اور برائی کے طالب رک جا اور اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حضورؐ پاک کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرما، عید کی خوشیاں منانے سے پہلے ہم اپنے آس پاس دیکھ لیں کوئی غریب بے سہارا تو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑوسی بھوکا تو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدقہ فطرہ اور زکوۃ اسی لئیے عائد کی گئی کہ کوئی مسلمان بھائی کم از کم عید کے دن رنج کی حالت میں نہ رہے۔ ‘‘ بارش نے زور پکڑ لیا تھا۔ علیم الدین کی سفید جالی دار ٹوپی جو شبّو نے کل دھو کر ڈالی تھی الگنی سے اڑ کر کیچڑ میں جا پڑی تھی۔
علیم الدین نے جب آخری ہچکی لی تو نماز شروع ہو چکی تھی۔ شبّو سرونٹ کواٹر کے دروازے کو تھامے سسکیاں لے رہی تھی۔ مالکوں کو نیند سے جگانے کی ہمّت نہیں تھی اسمیں۔ وحید چودھری کے گھر والے سکون کی نیند سور رہے تھے۔ دوپہر کو اٹھ کر تیّار ہی تو ہونا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عید کے لئیے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...