نمائش آ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علی گڑھ میں رہنے والوں کو کسقدر انتظار ہوتا ہے اس آواز کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آواز کا سحر میں کئی برسوں سے دیکھ رہی ہوں۔ نمائش نہ ہوئی سچّے خواب ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک چھوٹا سا شہر گنتی کی بازار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام کے لئیے مال بھی ہیں مگر جو لوگ ان نام نہاد مال میں گئے ہیں وہ اصلیت سے واقف ہیں۔
یہاں اگر مسلم یونیورسٹی نہ ہوتی تو یہ شہر خالی ہاتھ ہوتا۔
نمائش کے آ جانے سے اس شہر کی رونقیں بڑھ جایا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر ایک پر امید نظر آتا ہے خاص کر بچّے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے تو خواہ خاتون خانہ ہوں یا گھر کے بزرگ حضرات سبھی کو نمائش سے دلچسپی ہوتی ہے۔ کسی کو وہاں آنے والے میرٹھ کے جھنڈا ہوٹل نظیر ہوٹل کے کھانے کا انتظار ہوتا ہے کوئی حلوہ پراٹھا کھانے کے لئیے بے چین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کپڑوں اور کشمیری شالوں کا شوق رکھنے والی خواتین کئی کئی چکّر لگاتی نظر آتی ہیں وہاں اور وہیں راجستھانی سوٹ کی دوکانوں پر بھی ویسی ہی بھیڑ نظر آتی ہے۔
کوئی بدایوں کے پیڑے لینے کے لئیے چکر لگا رہا ہے تو کسی کو وہاں کی نان خطائیاں کھینچ لاتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قالین پرانا ہو گیا ہو تو بدلنے کے لئیے نمائش کا انتظار کرتی نظر آتی ہیں تو کوئی وہاں بیڈ شیٹ اور لکڑی کے سامان کے لیے چکر لگاتا نظر آتا ہے۔ مرادآباد کی جگمگاتی ہوئی دوکانیں تو بس دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آرٹی فیشل جولری کی دوکانیں دور سے چمکتی نظر آتی ہیں۔ اور ان دوکانوں پر لڑکیوں اور بچوں کا ہجوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دور سے نظر آتا ہے۔
بچّے جب ضد پر آتے ہیں تو کوئی تاویل نہیں سنتے آخر مجھے بھی ہونا پڑا، نمائش روانہ ہوئی تو پہلے اے۔ ٹی۔ ایم سے اچھّی خاصی رقم بھی نکالنا پڑی۔ اب پہلے والا زمانہ تو رہا نہیں کہ پچاس روپئیے لے کر جاؤ اور دنیا بھر کا سامان خرید لاؤ۔
کچھ یاد کر کے آپ ہی مسکراہٹ آ گئی۔ نمائش کی بھیڑ بھاڑ میں بھی یادوں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذہن کہیں پیچھے چلا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیچھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیچھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک چھوٹا سا گاؤں جہاں گومتی ندی بہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہیں کنارے ایک پہاڑی ہے جس پر ستھّن کا میلہ لگا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ستھّن اس گاؤں کا نام ہے۔ کیا بتائیں کیسی کیسی یادیں جڑی ہیں اس میلے سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جگمگاتی ہوئی روشنیوں کی یادیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھلکھلاتی ہوئے چہروں کی یادیں میٹھی میٹھی خوشبوؤں کی یادیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھاگتے دوڑتے قدموں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مزار پر جلتی ہوئی اگربتّی کی خوشبوؤں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوالی کی تان میں ایک مسحور کن کیفیت کی یادیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ستھن کی اس پہاڑی پر ایک مزار ہے اسی مزار پر ہر برس عرس ہوتا ہے اور زبردست میلہ لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمام دوکانیں بھی اونچی پہاڑیوں پر لگتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان پر چڑھنے اترنے کا اپنا ایک مزا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تب زندگی اتنی تھکی ہوئی نہیں تھی نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
کیسے مزے سے اڑتے پھرتے تھے۔
اپنے گھر میں سب سے زیادہ مجھے میلے کا انتظار رہتا تھا۔ اور جب میلہ لگ جاتا تو پھر جانے کی ضدیں شروع ہو جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابّی سمجھاتے بھی ’’ارے بٹیا ٹھیک طرح سے لگ تو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر بھیج دیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مگر مجھے تو یہیں ڈر رہتا کہ کہیں میرے بغیر گئے میلہ چلا نہ جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر وہ دن بھی آ جاتا جب بابا ہمیں میلہ لے کر جاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں خرچ کرنے کے لئیے پانچ روپیے ملتے تھے۔ صرف پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان سے ہم ڈھیروں چیزیں خرید لیتے تھے کھانے پینے کی چیزیں لینا ہمیں سختی سے منع تھیں۔
ابی کا کہنا تھا جو کھانا ہو ہمیں بتا دو ہم معیاری دوکان سے منگوا دیں گے۔ میلہ کی دھول میں بکتی چیزیں صحت کے لئیے سخت مضر تھیں۔
ہم کھلونے لیتے رنگ برنگے کاغذ کے پھول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چکریاں پلاسٹک کے ناشتہ دان ننھے چائے کے برتن۔ چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیاں جن پر پھول بنے ہوتے۔ مختلف رنگوں کے کلپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب خرید لیتے مگر پیسے ختم نہیں ہوتے تھے۔ بابا مٹھائی کی دوکان پر رک جاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’کھاؤ گی بٹیا؟‘‘
’’نہیں ابّی نے منع کیا ہے۔ ‘‘ میں دوسری طرف دیکھنے لگتی‘‘
’’ارے انھیں کون بتائے گا؟ تم کھالو جو جی چاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیسے ہیں ہمارے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ سخی ہوتے۔ مگر دل نہ مانتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس غصّہ اس بات پر آتا کہ یہ مٹھائیوں کی دوکانیں اتنی سجا کر کیوں رکھتے ہیں ؟مزار پر قوّالیاں سننے کھڑی ہو جاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’سہانی رات تھی اور پر سکوں زمانہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اثر میں ڈوبا ہوا جذب عاشقانہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرِ لا مکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہا وہ چلے نبی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اب تک یہ مصرعے بھول نہیں سکی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی بچّے سوفٹی کی دوکان پر تھے۔ میرے ہاتھوں میں بھی ایک کون تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر دیکھتی رہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اسے سامنے کھڑے ایک لڑے کو تھما دیا جو حسرت سے دوکان دیکھ رہا تھا۔
اوہ چورن تو رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچّوں کو وہیں مصروف چھوڑ کر میں واپس فوّارے والی لائین کی طرف بھاگی۔ جہاں چورن کی کئی دوکانیں تھیں کیونکہ سال بھر یہ کہیں نہیں ملتا تھا۔
آلو بخارہ اور انار دانے کا چورن لے کر واپسی کے لئیے چل پڑی اور پرس میں پیسے دیکھنے چاہے تو سارے پیسے ختم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کونے میں پانچ روپیے کا سکہ جھانک رہا تھا۔ مطلب میں آرام سے ستّھن کے میلہ جا سکتی ہوں ؟ مجھے ہنسی آ گئی اور چال میں بچپن کی مستی اور بے فکری بھر گئی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...