بھوک اتنی شدید تھی کہ لگتا تھا یہ زندگی کا آخری دن ہے۔
’’کچھ صاف نظر نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘
صوفیہ نے بند ہوتی ہوئی پلکوں کو بمشکل کھولا اور عدیل کی طرف دیکھا جو ہاتھوں کا تکیہ بنائے پارک کی ہری بھری گھانس پر بے حس و حرکت پڑا تھا وہ ڈر سی گئی۔
عدیل…کیا ہوا تمہیں …؟وہ بیقراری سے آگے بڑھی اور اس نے عدیل کا شانہ ہلایا وہ ٹھنڈی سانس لیتا ہوا اٹھ گیا…اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر رہی تھیں ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی تھیں۔ چہرے پر مایوسیوں کے تاریک سائے پھیل رہے تھے …
’’کیا ہے …بولو…‘‘اس کی آواز میں کمزوری اور مایوسی گونج رہی تھی۔
ایسا کرتے ہیں …صوفیہ نے تھک کر سانس لی… مر جاتے ہیں۔
کیا…؟ عدیل نے چونک کر اسے دیکھا۔
ہاں عدیل ایسی زندگی کا کیا کریں …اسی طرح سسک سسک کر کیسے اور کب تک جئیں گے …کب تک ہم کھانے پینے کی چیزوں کو یوں ہی ترستے رہیں گے آخر کب تک وہ حد درجہ مایوس نظر آ رہی تھی۔
زندگی کا یہ بھی عجیب دور تھا۔ بہت اچھا وقت بھی گذارا تھا انھوں نے اور اسی لئے صوفیہ کسی طرح عدیل کو مزدوری کرنے نہیں دیتی تھی… مگر اب تو مایوسیحد سے بڑھ گئی تھی…جینا مشکل ہو گیا تھا اب وہ زندگی نہیں گزار رہے تھے بلکہ زندگی انھیں گزار رہی تھی۔
دونوں نے خاندان کی مخالفت کر کے شادی کر لی تھی اور چھوٹا سا سپنوں کا گھر بسائے اپنے شہرسے بہت دور چلے آئے تھے۔ شروع شروع میں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ عدیل نے کچھ جمع کئے ہوئے پیسوں سے اور صوفیہ کے زیور بیچ کر سر چھپانے کو ایک کمرے کا چھوٹا سا گھر خرید لیا تھا بس شاید یہی عقلمندی کی تھی انھوں نے جس کی وجہ سے انھیں گھر سے بے گھر کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک کمرے کا گھر جس میں بالکونی کو کور کر کے عدیل نے کچن بنا لیا تھا اس میں ایک باتھ روم جس میں ساتھ ہی ٹوائلٹ تھا اور کچھ نہیں تھا۔ مگر وہ گھر ان دونوں کے لئے جنت سے کم نہ تھا کیونکہ انھیں اور کسی بات کی فکر نہ تھی۔ جبکہ دیواریں بھی مخدوش تھیں لیکن بنواتا کون جیسا تھا بس ان کا اپنا گھر تھا گو کہ وہ اسے اپنیپسند کا رنگ بھی نہیں دے سکے تھے پھر بھی امیدیں بہت تھیں۔ سوچا تھا کہ عدیل کوئی ملازمت کریے گا یا صوفیہ کو کسی اسکول میں نوکری مل جائے گی مگر یہ سب اتنا آسان نہ تھا…نیا شہر نئے لوگ۔ عدیل نے کئی جگہ مزدوری بھی کی اپنی انا کو کہیں پیچھے ڈال دیا…لیکن کام بھی تو روز نہیں ملتا …اور بھوک تو روز ہی لگتی ہے۔ جب وہ شام کو تھکا ہارا گھر آتا اور صوفیہ اس کا منہ دیکھتی تو بغیر کسی سوال کے دال چاول کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ دیتی جو کہ ڈبے کے آخری کونے میں کہیں پڑے ہوتے پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ جب ہر ڈبے کا آخری کونہ بھی خالی ہو گیا۔ صوفیہ بھی برابر نوکری کی کوشش کر رہی تھی مگر نئے شہر میں چھوٹے سے چھوٹے اسکول میں بھی اسے نوکری نہ مل سکی جبکہ وہ گریجویٹ تھی اور اپنے شہر میں ایک اچھے خاصے اسکول میں ملازمت کر رہی تھی اور جہاں اس کی اور عدیل کی اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی اور پھر وہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور پھر…لیکن یہ ایک الگ کہانی تھی جس کی صرف یادیں باقی تھیں …یادیں …جس میں نشہ ہوتا ہے …بڑا دلنواز نشہ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے ایسا نشہ کرنے کو…مگر بھوک میں کوئی نشہ یاد نہیں آتا اب تو یہ حال ہے کہ کیسا نشہ کیسے خواب…اب تو ہر جگہ ایک ہی چیز نظر آ رہی تھی روٹی روٹی…اور صرف روٹی…صوفیہ کی مایوسی دیکھ کر عدیل کا دل بیٹھنے لگا…
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو صوفیہ…؟‘‘
میں سچ کہہ رہی ہوں میں تھک گئی ہوں ہار گئی ہوں عدیل…اس نے بڑی حسرت سے عدیل کی طرف دیکھا۔
اب جینے کا مطلب زندگی کی ذلّتوں کو گلے لگانا ہے اور ذلّت سے جینے سے اچھا ہے کہ…موت آ جائے …اور خود تو موت آنے سے رہی…اس کے لئے بھی کچھ کرنا پڑے گا عدیل…اس نے بڑی مشکل سے ہونٹوں پر مسکراہٹ سمائیاور عدیل کا ہاتھ تھام لیا۔
’’آؤ خودکشی کر لیتے ہیں۔ ‘‘صوفیہ نے بڑی ہمت کر کے کہا۔
عدیل ہنس پڑا…مگر اس کی ہنسی بھی اتنی ہی خالی تھی جتنی کہ اس کی جیب…اس وقت دونوں تھک کر پارک میں بیٹھے تھے جہاں ہر طرف پھول ہی پھول تھے وہ دونوں ہار سنگھار کے پیڑ کے نیچے بیٹھے تھے جو کہ پورا کا پورا نارنجی ڈنڈیوں والے سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی تھی مگر اس وقت ان کو دنیا کی سب سے اچھی خوشبو کی ضرورت تھی…کیا کھانے کی خوشبو سے اچھی بھی کوئی خوشبو ہوتی ہے ؟نہیں نا؟
کاش کہیں سے یہ خوشبو آ جائے …کاش!
پھر ایک لرزا دینے والا خیال عدیل کے دل میں آیا کہ اگر کسی طرح آج بھوک مٹ بھی جائے تو کل پھر لگے گی…اور یہی سوچ کر عدیل تڑپ کر بیٹھ گیا اس نے صوفیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں زور سے پکڑ لیا…
ہاں صوفی…اب برداشت نہیں ہوتا…مگر ہم زہر بھی کہاں سے لائیں …؟
’’ایساکرو عدیل اپنا گھر بیچ دیتے ہیں …‘‘صوفیہ نے دل کڑا کر کے کہہ دیا۔
گھر…؟عدیل کو لگا جیسے اس کے سرپرکوئی بوجھ آ گرا ہے …مگر وہ پل بھرمیں سنبھل گیا۔
پھر رہیں گے کہاں صوفیہ…
رہنا کہاں ہے …؟وہ استہزائیہ ہنس پڑی۔ مر جائیں گے اسی پارک میں پولیس کی گاڑی لے جائے گی…پھر چاہے جو بھی ہو…
عدیل سر جھکائے مجرموں کی طرح بیٹھا رہا…پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور صوفیہ کا ہاتھ پکڑ کر گھر کی جانب چل پڑا۔
سب کچھ طے ہو گیا…پاس کے ہوٹل والے نے دو لاکھ کا گھر صرف پچاس ہزار دے کر خرید لیا پچاس ہزار روپے دیکھے بھی انہیں زمانہ گزر گیا تھا آج اتنے پیسے ہاتھ میں آئے تو دونوں جیسے ہوش و حواس کھو بیٹھے … صوفیہ تو سسکیاں لے کر رونے لگی…عدیل نے کانپتے ہاتھوں سے ان پیسوں کو صوفیہ کے پرس میں ڈالا اور اسے کاندھوں سے تھام کر گھر سے باہر نکل آیا…ارمانوں سے لیا گھر خالی کر دیا…وہ سب سے پہلے صوفیہ کو لے کر اس کی پسند کے ریسٹورنٹ میں گیا جہاں دنوں نے کھانا کھایا پھر کافی منگوائی اور آنکھیں بند کر کے دیر تک خاموش بیٹھے رہے …نیند سیآنے لگی تھی شدید بھوک میں نیند کہاں پوری ہوتی تھی صوفیہ نے مخمور نگاہیں اٹھا کر عدیل کو دیکھا تو وہ بے پناہ خوبصورت نظر آ رہا تھا…اس کے چہرے پر سکون اور خوشیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اس نے اٹھ کر بل دیا اور صوفیہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا…کھلی ہوا میں وہ کچھ سوچنا چاہتے تھے …کوئی فیصلہ کرنا چاہتے تھے … ایک دن اور ایک رات وہ جی بھرکے خوشیاں منانا چاہتے تھے۔
ہوٹل میں کمرہ لینے کے لئے انہیں سامان کی بھی ضرورت تھی…اور وہ سارا سامان وہیں چھوڑ آئے تھے۔ اس نے بازار سے ایک نیا سوٹ کیس خریدا اور صوفیہ کے لئے ایک بہترین لباس …صوفیہ نے شوروم میں چاروں طرف گھوم کر ایک اچھا سا سوٹ خریدا…اور دونوں نے مسکراکرایک دوسرے کو دیکھا یہ کپڑے اب کون…اور کب پہنے گا…کیا خبر…؟صوفیہ نے ایک پرفیوم کی بوتل بھی لے لی۔
فائیواسٹار ہوٹل میں کمرہ لینے کے بعد جب وہ دونوں اندر آئے تو اک عجیب سی مسرت اور آزادی کا احساس ان کے ساتھ تھا…بسترپربیٹھ کر صوفیہ نے عدیل کے کاندھے پرسر رکھ دیا اور رونے لگی پھر روتی ہی چلی گئی…عدیل کچھ کہے بغیراس کا سرتھپکتا رہا…نرم سفیدتولیے سے اس کا چہرہ صاف کر کے اس نے اسے گلابی سوٹ پہنایا تو واقعی پرانی صوفیہ لوٹ آئی عدیل نے اسے پرفیوم میں نہلا دیا تھا…دونوں بچوں کی طرح خوش ہو رہے تھے عدیل نے بھی نئے کپڑے پہن لئے تھے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے …
خوب سوکراٹھنے کے بعد دونوں نہا کر شہر گھومنے نکل پڑے …
چلو آج سارا دن گھومتے ہیں شہر کو پیسوں سے دیکھتے ہیں …پیسوں سے شہر دیکھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ ہے نا صوفی…؟
دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گھومتے رہے …سارا دن گھوم کر تھک گئے اب پھرسمندر کے کنارے پہونچ گئے تھے پیسے بھی تقریباً ختم ہو گئے تھے نہ جانے کہاں کہاں گئے کیا کیا خریدا۔ اس وقت وہ کچھ یاد نہیں کرنا چاہتے تھے شام سمٹنے لگی تھی…سائے طویل ہونے لگے تھے۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک شیشی زہر کی بھی خرید لائے تھے …
دن بھر انھوں نے بچوں کی طرح ہنسی خوشی وقت گزرا تھا جس میں کوئی الجھن نہیں تھی خوب آئسکریم کھائی جھولے پر بیٹھے رہے …سمندر کے کنارے سپیاں چنیں …اور صوفیہ نے اپنے پرس میں رکھ لیں عدیل ہنس رہا تھا وہ مسکرارہی تھی…اونٹ کی سواری…ناریل پانی…آج وہ کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے …چاٹ بھی خوب کھا لی تھی…اب تو رات کے کھانے کی جگہ بھی نہ تھی…رات کے نو بج گئے تھے …روپئے بچ گئے تھے …سمندر کے پاس بیٹھا ہوا فقیر بڑی حسرت سے ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ صوفیہ نے بڑی فیاضی سے سو روپئے کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا تو وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا…مگر صوفیہ نے نوٹ اس کے دامن میں ڈالا اور آگے بڑھ گئی…
مگر رات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاموشی اتر آئی تھی دونوں کے بیچ۔ کیا سوچ رہی ہو…؟
کچھ نہیں ……
وہ اپنی ساری کشتیاں جلا چکے تھے اب کہیں جانے کا راستہ نہیں تھا…میں یہ سوچ رہی تھی کہ پانی کہاں ملے گا؟ صوفیہ نے آہستہ سے کہا۔
کیوں …وہ رہا نل تمہیں پانی چاہیے …عدیل نے اسے پیار سے چھوا۔
ہاں …اور تمہیں بھی…زہر پینے کے لئے … اس کے ہونٹوں پر مضمحل سی مسکراہٹ تھی۔ صوفیہ نے پرس سے بوتل نکالی اور عدیل کی طرف بڑھا دی… عدیل نے بوتل ہاتھ میں لے کر ایک لمحہ سوچا…پھر بازو گھما کر پوری طاقت سے سمندر کی طرف پھینک دی…صوفیہ نے حیران نظروں سے اسے دیکھا…اس نے اپنا سر صوفیہ کے کاندھے پر رکھ دیا…
’’صوفیہ…میرے اندر امید کی ایک کرن جاگی ہے ہم پھر گھر بنا لیں گے یہ مرنے کا کام خدا پر چھوڑ دیتے ہیں … وہی جو چاہے کرے …
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...