’’شا نو! کہتے ہیں کہ جذبے اپنا اثر ضرور ڈالتے ہیں ‘‘… وہ مجھے پچھلا کو ئی واقعہ سنا رہی تھی جذبہ اچھا ہو یا بر ا… مگر دوسرے پر اپنا اثر ضرور ڈالتا ہے۔
اگر ہم کسی کے با رے میں اچھی رائے رکھیں اور ایسے اچھے الفاظ میں یاد کریں تو وہ بھی بہر حال ہمیں اچھی ہی امیدوں میں یاد رکھے گا- اور جسے ہم قا بل توجہ نہ سمجھیں ‘ عام طور پر اُ سے بھی ہما را کو ئی خیال نہیں ہوتا … اور جب جذبے شد ید ہو جائیں ؟
تواثر بھی شد ید ہو جا تا ہے۔
اور یہی میرے سا تھ بھی ہوا۔
بہت بے ضرر سی بات تھی کہ وہ اچانک ہی کہیں نہ کہیں مجھے مل جا یا کرتا تھا- بس بالکل اچانک … اور عام طور پر اُس وقت جب بھی میں کسی مشکل میں ہو تی تھی- پتہ نہیں کیسے بس اچانک ہی …
’’لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے – اِرم …؟‘‘ مجھے حیرت تھی –
’’ ہاں شا نو … عام طور پر ایسا نہیں ہوتا … وہ سو چتی ہو ئی آواز میں بو لی مگر میرے سا تھ ہوا ہے …‘‘
’’اور مجھے جذبوں کی سچا ئی پر پو را یقین ہے ‘‘ -وہ آہستہ آہستہ جیسے نیند میں بول رہی تھی- اور میں اس کی بھا ری بھا ری پلکوں پر اُن لمحوں کا بوجھ محسوس کر رہی تھی جو بات اس کے دل میں نہ جا نے کب سےزخم بن کر رہ گئی تھی … جو آج میرے بے حد پوچھنے پر وہ بتا رہی تھی شا ید اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی … کسی جذبے کی کمی تھی جو اسے رہ رہ کر اتنی پر انی باتیں یاد آ نے لگی تھیں -یہ سب اُس پرانے شہر کی باتیں تھیں جہاں ہم دونوں سا تھ رہے تھے سا تھ پڑ ہے اور سا تھ ہنسے روئے تھے۔ ’’بس !نہ جا نے کیا ہوتا تھا …میں کہیں بھی جا رہی ہو تی تھی …
کسی بھی سڑک پر… کسی لائبر یری کسی پکچر ہال میں اور وہ اچانک ہی مل جا تا … اور میں اُس وقت ضر ور کسی نہ کسی مشکل میں گھری ہو تی تھی۔
کو ئی را ستہ کھو جا تا … تو وہ بتا تا … اگر لائبر یری میں دیر سے کو ئی کتاب نہ مل رہی ہو تی … تو وہ خاموشی سے بنا کچھ پو چھے وہی کتاب اوپر کی کسی ریک سے نکال کر مجھے تھما دیتا –
جب سہیلیوں کے سا تھ پکچر ہال میں ٹکٹ کی پریشانی ہوتی تو وہ .. ‘‘ ’’ہاں مجھے بھی یاد ہے … اُس دن رضیہ سلطان دیکھنے کے لیے ہم لوگ کس قدرایکسا ئٹیڈ تھے … اور ٹکٹ سے مایوس ہو گئے تھے تب کو ئی …‘‘
’’ہاں ‘‘ -اس نے میری بات کاٹ دی
’’تب بھی وہی تھا… بالکل وہی… ٹکٹ ہما رے ہا تھ میں تھما کر جانے کہاں چلا گیا تھا -‘‘
’’یاد ہے ہم نے پکچر ہال میں اسے کتنا ڈھونڈا تھا …؟
مگر وہ کہاں تھا – پھر میں بھول بھال گئی پڑھائی میں گھر گئی …‘‘
وہ تکیوں کے سہا رے تھوڑ ا بیٹھ گئی…
’’میں نے اس کے بارے میں اتنا کبھی نہیں سوچا مگر آج جب تم مل گئی ہو تو تمہارے چہرے کے پیچھے مجھے وہی چہرہ بار بار نظر آ رہا ہے … شا ید اس لیے کہ تم اُسی شہر کو چھوڑ کر آ ئی ہو … تمہارے پاس وہیں کی خو شبو ہے …یا شاید…‘‘
’’ایک بات پوچھوں اِرم؟ تم اپنی زندگی سے خوش تو ہو ..؟ ‘‘آخر وہ سو ال میرے ہو نٹوں پر آ ہی گیا جسے میں بہت دیر سے ٹال رہی تھی اور وہ ہنس دی … عجیب سی ہنسی … اور دیر تک ہنستی رہی…
’’ہاں شانو… میں خوش ہوں بہت خوش … میر اپنا گھر ہے مجھے چاہنے والا شوہر ہے … تمہیں تو معلوم ہے کتنی مشکلیں اٹھا کر اس سے مجھے اپنا یا ہے – تم تو جانتی ہو کتنا فساد کھڑ اہوا تھا جب شہروز نے اپنا پرپوزل بھیجا تھا -‘‘
’’ہاں مجھے یا دہے … مجھے تو وہ کل کی بات لگتی ہے کہ …‘‘میں اتنا ہی کہہ سکی تھی کہ وہ ہا تھ اٹھا کر بو لی … ’’تمہیں کل کی بات لگتی ہے شانو ؟ اس بات کو تو صدیاں بیت گئیں … شہروز کہیں کھو گیا ہے شا نو…‘‘وہ تھک سی گئی تھی آواز میں اک ایسی بے چا رگی تھی کہ میں لرز گئی…
’’تمہیں کیا ہوا ہے اِرم…؟‘‘
’’مجھے کچھ نہیں ہوا… شہروز کو ہوا ہے وہ مجھ سے بہت دور جا رہا ہے آہستہ آہستہ مجھے اپنے آپ سے الگ کر رہا ہے اس کی ایک ایک بات میں بیز اری ہے اور میں ان ننھی منّی زنجیروں میں جکڑی جا چکی ہوں … اب انہیں کیسے الگ کروں اپنے آپ سے …میں کیا کروں شا نو…؟‘‘
’’تم مجھے اُس اجنبی کے بارے میں اور بتاؤ …‘‘میں اس کا دھیان دوسری طرف کرنا چاہتی تھی…
’’پتہ نہیں کیوں بر سوں بعد مجھے اس کی یاد کیوں آ رہی ہے … شاید اس لئے کہ اُس نے ہمیشہ زند گی کی مشکلوں میں میرا سا تھ دیا ہے … اور اس وقت بھی میں مشکلوں میں گھری ہوں۔ ہاں شا نو … وہ فر شتہ ہی تو ہے … میرے لیے تمہیں یاد ہے ایک شام جب میں ہوسٹل سے اپنی لو کل گا رجین کے گھر جا رہی تھی تم نے بھی کئی بار منع کیا تھا کہ مو سم خر اب ہے آج مت جا ؤ مگر اُس دن میرا دل بہت گھبرا رہا تھا اور میں عفّت با جی کے گھر بچوں کے سا تھ دھیان بٹانے کی غرض سے چل دی تھی … را ستے میں پتہ ہے کیا ہوا تھا ؟‘‘ وہ پھر نہ جانے کہاں … پا نیوں کے سفر پر چل پڑی تھی …
’’رکشہ والا بہت تیز رکشہ چلا رہا تھا- اور اُس را ستے پر عجیب سا سناٹا اور ویر انی تھی میں بار بار اس کو آہستہ چلا نے کے لیے کہتی مگر وہ سن ہی نہیں رہا تھا میں بے حد گھبرا رہی تھی۔
اور اس گھبراہٹ میں پتہ ہے کیا ہوا -؟‘‘
’’کیا …؟ ‘‘میں بے اختیار پو چھ بیٹھی
’’میرا دوپٹّہ جو گلے میں لپٹا ہوا تھا اچانک ہی رکشے کے پہیے میں آ گیا- میرا دم گھٹ رہا تھا اور میری آواز بھی نہیں نکل رہی تھی … رکشہ والے نے خود بھی مٹر کر دیکھا اور گھبرا کر رکشہ رو کنے لگا تبھی …اسی وقت نہ جا نے کہاں سے وہ سامنے آ گیا … یقین کرو پہلے تو اس کی سائیکل مجھے نظر نہیں آئی جبکہ میں نے کئی بار ادھر اُدھر دیکھا تھا اور اچانک وہ سا منے تھا… رکشہ کے پاس کھڑا میرا دو پٹہ نکال رہا تھا پھر اس نے دوپٹہ جھاڑ کر میرے سر پر ڈال دیا … وہ لمحہ میں کبھی بھول نہیں اس کی … جب بھی مجھے یاد آ تا ہے احساس تشکّرسے میرا دل بھر آتا ہے – اُس وقت میں اپنے آپ کو کتنا بے بس محسوس کر رہی تھی اس کے یوں آ جانے سے جیسے میں معتبر ہو گئی- اس نے رکشہ والے کو بہت ڈانٹا اور پھر خاموشی سے ہما رے رکشہ کے سا تھ سا تھ سائیکل پر چلتا رہا …
اس نے مجھ سے کچھ نہیں پو چھا کچھ نہیں کہا… حالاں کہ شناسا ئی کے تقاضے وہ مجھے ڈانٹ بھی سکتا تھا یہی کہتا کہ مجھے اس مو سم میں نکلنے کی کیا ضرورت تھی مگر وہ بغیر کچھ کہے سنے عفت با جی کا دروازہ آنے سے پہلے ہی پلٹ گیا شکر یہ کا ایک بھی لفظ سنے بغیر … جیسے یہ سب اس کا ہی کام ہو اسی کا فرض ہو … جیسے وہ … بس آگے میں سوچ نہیں سکتی مگر تم خو دسوچو یہ کوئی بات ہو ئی …‘‘
’’مگر اِرم کیا تمہیں اُس سے محبت ہے ؟‘‘ میں نے ذرا رک کر کہا … ’’نہیں شانو … محبت بار بار نہیں ہوتی یہ جذبہ اتنا سستا نہیں ہے – محبت مجھے ضر ور ہے مگر وہ ساری کی سا ری شہر وز کے لیے ہے اور اس رشتے کے علا وہ کو ئی اور رشتہ … کو ئی اور رابطہ … میری سمجھ سے با لا تر ہے – اور مجھے وہ ملا تھا تب بھی میں شہر روز کوہی چاہتی تھی میرے خوابوں میں شہروز کے علا وہ کو ئی نہیں تھا دور دور تک کو ئی نہیں … اور یہ تم بھی جانتی ہو …‘‘
’’مگر تم اسے بھول کیوں نہیں پائیں …؟‘‘ مجھے بہت دکھ ہو رہا تھا –
’’کو ئی اپنے محسن کو بھول سکتا ہے ؟ اور اگر بھول سکتا ہے تو وہ بہت احسان فراموش انسان ہو گا- اور پھر وہ محسن جس نے مجھے جا نے بوجھے بغیر میری مدد کی بے لوث مد د…؟‘‘
’’پھر وہ کبھی ملا …؟ ‘‘مجھے حیرت تھی۔
’’ہاں … اس نے مجھے فون کیا تھا …جب میرا فا ئینل ایر تھا میں گھر جا نے کی تیا ری کر رہی تھی چپر اسی نے آ کر بتا یا میرا فون ہے میں حیران تھی- فون کس کاہو سکتا ہے – شہر وز تو ابھی مجھ سے مل کر گیا ہے – فون پر جب میں نے اسے ہیلو کہا … تو ایک گمبھیر سی آواز سنا ئی دی …’آپ اِرم بول رہی ہیں …؟‘
’جی…؟ ‘میں اب بھی حیران تھی کیونکہ آج سے پہلے میں نے اس کی آواز سنی ہی نہیں تھی میں تو بس اس کا چہرہ پہچانتی تھی خو بصورت آنکھیں سنہری رنگت لمبا قد … اک مہربان وجود… اور بس اس سے زیادہ غور سے میں نے اسے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا –
’میں بول رہا ہوں … جو ہر موڑ پر آپ کو مل جا تا ہوں …؟‘ اس کی آواز اُس کا لہجہ ایساجیسے کو ئی خو اب دیکھ رہا ہو…
’میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں … آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ‘اس کے لہجے میں حکم نہیں اک ملائم سی التجا تھی۔
مگر مجھے ایسا لگا کہ اگر میں اس سے مل لی تو یہ سارا طلسم ختم ہو جائے گا میں خوابوں اور تصوروں کی دنیا میں رہنے والی… اک اکیلی لڑ کی … جس کا سا را وقت کتا بیں پڑھنے اور تصویریں بنا نے میں گزر تا تھا … وہ حقیقت کے اجالے میں آ نے سے گھبرا رہی تھی۔
’نہیں پلیز… میں جس ما حول میں رہ رہی ہوں وہاں لوگ اس طرح کی دوستی پسند نہیں کرتے پھر میں تو ہو سٹل میں رہتی ہوں اور یہاں پر اس طرح کی دوستی اچھی نہیں سمجھی جا تی۔ ‘
’اور شہر وز…؟ ‘اس کے لہجے میں تجسّس کے سا تھ کو ئی ایسی بات تھی جو مجھے بری لگی۔
’شہر وز میرے دوست نہیں … میرے ہونے وا لے شو ہر ہیں … ہما ری شا دی بہت جلد ہونے والی ہے۔ ‘
’سو ری… اِ رم … ویری سو ری میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا -پھر بھی میں ملنا چاہتا ہوں آپ سے ‘
اور میں نے فون رکھ دیا … نہ جا نے کیوں میرا دل نہیں چا ہا کہ اور بات کروں اس کے بعد مجھے وہ ملا بھی تو بہت دور سے … صرف دیکھنے کے لئے – ’’کب… ‘‘میں پھر بول اٹھی … اس کی خاموشیجیسے گھٹن پیدا کر رہی تھی -اور میں سب کچھ جان لینا چاہتی تھی –
’’ شا دی کے ۱۵سال کے بعد … ابھی چند ماہ پہلے … ہم کئی لمحوں تک ایک دو سرے کو دیکھتے ہی رہے … پھر میں نے پو چھ ہی لیا …’آپ……؟‘
’ہاں … وہ مسکرایا … میں وہی ہوں ‘ ہم دونوں کے بیچ صد یاں بیت گئیں … یادیں زندہ ہو کر کھڑی ہو گئیں … اس کے ہاتھوں میں میرا الجھا ہوا دو پّٹہ تھا جسے وہ بڑے احترام سے مجھے اڑھا رہا تھا- اس کے ہاتھوں میں پکچر کے ٹکٹ تھے … اس کے ہاتھوں میں میری کتاب تھی
’کیسی ہیں آپ ؟ ‘پہلی بار اس نے میرا حال پوچھا …
کیا حال بتا تی اسے -زندگی کا کون سا کو نا تھا جو اسے دکھا تی … خاموشی سے سر جھکائے چائے بنا تی رہی …‘‘
’’ اور کو ئی بات نہیں ہو ئی …؟‘‘
’’ نہیں شا نو … بس ایک بات اور … کہ اس نے اپنے بیٹے کا نام بتا یا تھا مجھے … ‘‘ اِرم نے اپنی بیٹی سمیرا کو اٹھا کر دو سری طرف لٹا تے ہوئے کہا …
’’کیا نام ہے اس کے بیٹے کا …؟‘‘مجھے اس کی خاموشی سے اکتا کر پھر پو چھنا پڑا۔ ۔
’’سمیر … یہی نام ہے اس کے بیٹے کا ‘‘…وہ مسکرا ئی اور حسرت سے بولی ’’اور میں منتظر ہوں کے وہ پھر کہیں سڑک کے موڑ پر وہ آئے او ر پریشانیوں اور فکروں میں الجھا ہوا میرا دو پٹہ پھر سے میرے سر پر ڈال دے – کیا وہ مجھے کہیں پھر سے مل سکے گا- ؟ بو لو شا نو ؟ ‘‘ میں اس کے اس سو ال کا کیا جو اب دوں …؟
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...