’’پگلا گئے ہو کا تیواری۔ ۔ ۔ بھیا صاحب بے چارے سے کا مطلب؟ او کونو بات ما دخل نہیں دیت ہیں۔ ای سب چھوٹے بھیا صاحب کے ایماء پر ای سب جنے شیر ہوئی گئے ہیں ‘‘ سکھ رام نے انگو چھا جھاڑ کر کاندھے پر ڈالا اور مونڈھا کھینچ کر تیواری کی کرسی کے پاس لاکر بیٹھ گئے۔ ’’ارے بھائی ہیاں کبّو کو نو فرق ناہی رکھا گوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کو نو جات برادری ما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھیا صاحب سب کے گھر جات ہیں سب سے ملت ہیں اور تو اور سبکا اپنے گھر بلاوت ہیں۔ ای جھگڑا لپّا ان کا کام نا ہے ارے بھائی ہمارے بھیا صاحب تو دیوتا ہیں۔ ۔ ۔ دیوتا‘‘ ’’مگر یار بتاؤیہ سب ہوا کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہر سال تعزیے اٹھتے ہیں ہر سال محرّم منایا جاتا ہے پورا گاؤں مل جل کر سب کام کرتا ہے پھر آخر۔ ۔ ؟ ’’اب تم کا بتائی۔ ۔ بھیّا صاحب کے ابّا جون رہے ان کے جمانے سے سب کے تعزیہ ان کے امام باڑے مارکھّے جات رہے۔ ۔ نو محرم کا سب جنے اپنا اپنا چوک بنائے کے تعزیہ لے جات رہیں مگر دس محرم کا سب جنے ایک ساتھ اٹھاوت رہے۔ ۔ سب سے آگے بڑے بھیا صاحب کا تعزیہ، اور اوکے پیچھے چھوٹے بھیا صاحب اور پھر گاؤں والن کے۔ ۔ ۔ کبھی کو نو بات نہ بھئی تا جیہ چاہے چھوٹا ہوئے چاہے بڑا۔ ۔ ہے تو امام صاحب کا؟؟ مگر اب جمانہ تون بدل گوا ہے گاؤں کے پاسی چمار۔ ۔ نائی دھوبی سب منھک آوے لگے ہیں۔ ‘‘ ’’یار میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ ان کے آپس کا کیا معاملہ ہے۔ ۔ ‘‘ تیواری نے بات کاٹ کر پوچھا۔ ۔ ۔ اس بار وہ تھوڑی دیر کے لئیے چپ ہو گیا۔ ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب اندر کی باتیں ہیں۔ اگر کسی کوذرا بھی بھنک لگ گئی کہ ’’دونوں کوٹ‘‘ کی بات اس نے بتائی ہے تو اس کے لئے بھیّا صاحب کے سامنے سر اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔ مگر بغیر بتائے اس کا حل کیسے نکلے۔ ۔ یہ سوچ کر وہ کھنکھار اور تھوڑا بہت بتانے کا فیصلہ لے ہی لیا ’’دیکھو بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ! ہمکا جیادہ تو معلوم نہیں بڑے بھیّا صاحب اپنے چھوٹے بھائی سے پہلن سے الگ رہت رہیں۔ ۔ مکدمہ چلت رہا جائیداد کا۔ ۔ ۔ سامنے کچھ بات ناہی لاوت رہیں وجہ دار آدمی رہیں۔ اب او تو گئے مر۔ ۔ ۔ ای لڑکے لوگ ہیں کھون گرم ہے۔ ۔ ۔ بات بے بات لڑائی جھگڑا۔ ۔ تیوراری ای سب چھوڑو جاؤ بھیا صاحب سے پوچھو او سب قصہ بتائے رہیں۔ ۔ بہت عمدہ آدمی ہیں ‘‘ تیواری نیا نیا تھانے میں تعینات ہو کر آیا تھا۔ اتفاق سے سکھ رام اس کا ماموں زاد بھائی بھی اسی گاؤں میں رہتا تھا۔ تیواری گاؤں اور یہاں کی سیاست سے ناواقف تھا۔ اس کو سکھ رام سے کافی مدد ملی۔ ۔ اور محرم میں اچانک گڑبڑ کا احساس ہوتے ہی اس نے سارے عملے کو چو کس کیا۔ ۔ ۔ اور جلوس میں پہونچ گیا۔ ۔ ۔ اس وقت تو بات بن گئی۔ ۔ مگر انگاروں پر راکھ پڑ جائے تب بھی وہ اندر ہی اندر دھکتے رہتے ہیں، زرا سی ہوا چلتی اور نا جانے کتنے گھر خاکستر ہو جاتے۔ اسی لئیے تیواری گاؤں کے پرانے لوگوں سے ملتا رہا اور سارے معاملات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ درگا پر شاد گاؤں مکھیا ہونے کے ساتھ ساتھ اکھاڑے کا ماسٹر بھی تھا۔ ۔ ۔ اس کی دھاک جمی ہوئی تھی۔ بھیّا صاحب سے بھی بہت دوستی تھی مگر بات ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ جذباتی ہو گیا۔ ہوا یہ کہ جب پانچ محرّمکو علم کا پھریرا کھیت کے کنارے لگے ہوئے ببول کی شاخ میں الجھا تو کئی جگہ سے مسک گیا۔ ۔ ۔ اور بھیّا صاحب نے اسی وقت ببول کٹوا دیا۔ وہ پیڑ کافی پھیل چکا تھا اور ابھی کئی جلوس نکلنا باقی تھے۔ ۔ وہ کھیت درگاپر شاد کا تھا اور اس نے حفاظت کے لئیے ببول لگا رکھّے تھے۔ لیکن اگر اس جگہ وہ ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو بھیّا صاحب نے کیا۔ مگر وہ تو تھا نہیں۔ ۔ ۔ اور چھوٹے بابو صاحب نے جس طرح یہ واقعہ بیان کیا، وہ بپھر گیا۔ ۔ ***** ’’بھیا صاحب کی نظر میں ہندوؤں کی کوئی وقعت تو ہے نہیں۔ ۔ ۔ آج تمہارا ببول کٹوایا ہے کل باغ کو آگ لگوا دیں گے۔ ۔ ہم تو جانتے ہیں نا انکو۔ ۔ ۔ ۔ ارے درگا۔ ۔ ۔ کیوں بزدلی رکھا رہے ہو۔ ۔ ؟ مٹھی بھر مسلمان ہیں اس گاؤں میں۔ اس علاقے میں تم ہی سب سے زیادہ طاقت ور ہو۔ پوج لو۔ ۔ ۔ دکھا دو اپنی طاقت۔ ۔ ۔ تاکہ آئندہ ایسا ویسا کچھ نہ ہو سکے۔ ۔ ‘‘ ’’مگر چھوٹے بابو صاحب۔ ۔ ‘‘ وہ ہچکچایا ’’دیکھو بھئی ہم تو تمہاری طرف ہی ہیں اب تم اپنے آدمیوں سے بات کرو۔ ۔ جو مناسب سمجھو وہ کرو۔ ۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں تمہارے معاملات میں دخل دینے کی۔ ۔ ۔ تم خود سمجھدار ہو بھئی۔ ۔ اتنا بڑا تعزیہ رکھتے ہو۔ ۔ پھر بھی پیچھے پیچھے چلنا پڑتا ہے۔ باجے پر پیسہ خرچ کرتے ہو اتنے سارے لوگوں کو کھانا بھی کھلواتے ہو۔ ۔ ۔ پھر بھی ان کے برابر نہیں۔ ۔ جب چاہیں تمہارے پیڑ کٹوا دیں۔ ۔ تمہارے کھیت اجڑوا دیں یا تمہارا باغ پھنکوا دیں۔ ۔ ‘‘ وہ آگ لگا کر اٹھے اور زمان خانے میں چلے گئے۔ ۔ ۔ درگا پر شاد تھوڑی دیر بیٹھا ان کی ساری با توں پر غور کرتا رہا۔ ۔ اس کے اندر شعلے بھڑکنے لگے۔ ۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ اس کی ماں نے شادی کے سات برس بچّے کی آس میں کاٹ دیے تھے اور پھر نو محرّم کو امام بارگاہ کے سامنے رو روکر اسے مانگا تھا۔ اور جب وہ گود میں آیا تو سب سے پہلے وہاں لے کر آئی تھیں۔ وہ دونوں میاں بیوی ساری رات امام بارگاہ کے صحن میں بیٹھے شکر ادا کرتے رہے تھے۔ وہ سب کچھ بھول گیا۔ ۔ کتنی بار بھیّا صاحب اس کو اپنے گلے لگا یا تھا انکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا چکا تھا۔ وہ یہ بھی بھول گیا اس کے پتاجی محرم کے تعزیے کس اہتمام سے اٹھوایا کرتے تھے۔ عشرے کے دن سہ پہر تک وہ بھی ان کے ساتھ بھوکا پیاسا رہتا تھا۔ ۔ ۔ وہ سب بھول گیا۔ نفرت غالب آ گئی، سیاست اپنا کام کر گئی۔ چھوٹے بابو اپنے ہر کاروں کو سارا کام سمجھا کر نو محرم ہی کو فیض آباد نکل گئے۔ وہ صبح بہت اداس تھی، درگا پر شاد اپنے آدمیوں سے کئی بار میٹنگ کر چکا تھا۔ ۔ ۔ ہتھیار لباسوں۔ اور تعزیہ کے نیچے لگی ہوئی چادر میں چھپائے گئے تھے۔ ۔ وقتِ ضرورت نکالے جا سکتے تھے۔ ۔ اک سرد سی خاموشی ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ گیارہ بجتے بجتے بھیّا صاحب نے جلوس اٹھوا دیا۔ سب سے پہلے علم امام بارگاہ سے باہر آیا۔ ۔ پھر اور سارے تبرّکات ایک کے بعد ایک اٹھائے گئے اور پھر تعزیہنمودار ہوا۔ ۔ ۔ جلوس کر بلا کی سمت روانہ ہوا۔ ۔ ۔ ’’آج شبّیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے ظلم کی چاند پہ زہرا کے گھٹا چھائی ہے ‘‘ میر انیس کے مخصوص مرثیہ کی آواز نے فضا کو اور سو گوار کیا۔ ۔ دوسری طرف درگا پر شاد کے سارے آدمی تیّار تھے، آج اس کے دل میں عقیدت کا کوئی جذبہ نہ تھا۔ ۔ اگر تھا تو صرف نفرت اور انتقام کا جذبہ۔ ۔ ۔ اچانک دروازے کے باہر کوئی بھاگتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ ۔ ۔ سامنے کچّی زمین پر دھول اڑ رہی تھی۔ ۔ ۔ دھول چھٹی تو درگا پر شاد کی نظر اس بچّے پر پڑی جس کا چہرہ جذبات کی شدّت سے سرخ ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ وہ راحیل تھا، بھیا صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا۔
’’درگا چچا۔ ۔ ۔ اس نے پھولتی سانسوں کو سمیٹا۔ ۔ اور پھر بولا۔ ۔ ’’درگا چچا۔ ۔ امی جان بتا رہی تھیں کہ آپ لڑائی کرنے جا رہے ہیں ؟۔ ۔ ۔ ۔ آپ سب کو مار دیں گے۔ ۔ ۔ ’’اس نے کرتے کی آستین سے آنکھیں صاف کیں ’’آپ کو پتہ ہے ؟ جب کر بلا کے میدان میں امام حسین (علیہ السلام) اکیلے رہ گئے تھے۔ ۔ تو ایک چھوٹا سا بچّہ ان کی مدد کرنے آیا تھا۔ ۔ ۔ اور جب اس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تو دشمنوں نے اس کی کلائیاں کاٹ دی تھیں۔ ۔ ۔ مگر لڑائی بند نہیں ہوئی تھی۔ ۔ مگر آج آپ لڑائی بند کر دیجئے۔ ’’اس نے اپنے دونوں چھوٹے چھوٹے ہاتھ آگے بڑھائے۔ ۔ ۔ اور بولا۔ ۔ ‘‘ لیجئے آپ بھی میری کلائیاں کاٹ دیجے۔ ۔ مگر لڑائی بند کر دیجے۔ ۔ چاچی جی بھی امّی کے ساتھ فریادی ماتم کر ہی ہیں امام باڑے میں۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ بولتے بولتے تھک کر چپ ہوا اور منّت بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ ۔ درگا پر شاد اس بچے کی لمبی بلکوں پر جمی دھول دیکھ رہا تھا، اچانک ایک درد کی لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا۔ ۔ ۔ اس کے اندر ایک نہر سی بہنے لگی۔ ۔ ۔ وہ نہر بہت شفّاف اور بہت خنک تھی جس میں اس نے اپنا اور بھیّا صاحب کا بچپن دیکھا۔ ۔ اپنے ماتھے پر لگی چوٹ اور امّی جان کے ہاتھوں سے لگایا مرہم دیکھا۔ ۔ ۔ ان کی گود میں بیٹھ کر اپنے آپ کو نوالہ کھانا کھاتے دیکھا۔ ۔ ۔ ا سکول کے زمانے میں اپنے لئیے بھیّا صاحب کو لڑائی کرتے دیکھا۔ ۔ اس کے اندر کی آگ سرد ہوتی گئی۔ ۔ ۔ اس کے اندر ایک نرم سی کونپل پھوٹنے لگی۔ ۔ ۔ باہر سے اندر کی طرف آتے ہوئے تیواری نے بچّے کو گود میں لینا چاہا۔ ۔ جب تک درگا پر شاد نے بڑھ کر پہلے اس کے کالے کرتے کی آستینیں برابر کیں اور پھر اسے گود میں لے کر زور سے بولا۔ ۔ ۔ ’’چلو۔ ۔ ۔ اٹھاؤ جلوس۔ ۔ ۔ پیچھے رہنا خبر دار کوئی آگے نہ نکلے۔ ۔ ‘‘ اپنا جز بات سے دہکتا چہرا اور آنسو راحیل کے بالوں میں چھپا کر وہ خود بھی آگے بڑھ آیا۔ ۔ ۔ باجے والے آگے پھر ماتم کرتی انجمن اس کے پیچھے گاؤں کے سارے تعزیے۔ ۔ ۔ اور آخیر میں درگا پر شاد آہستہ آہستہ گاؤں سے نکالا اور کر بلا کی جانب چل پڑا نہر پر ہمیشہ کی طرح سب ایک ساتھ چلتے ہوئے پہونچے۔ ۔ جلوس خیریت سے کر بلا پہونچا۔ ۔ تعزیے دفن ہوئے۔ ۔ مٹی ہو گئی شام ہونے لگی تھی ایک وحشت ناک سنّاٹے نے سبکو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا، دھول کے بگولے ادھر ادھر گھوم رہے تھے، نہر کا پانی اداسی سے بہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ لوگ ٹکڑیوں میں واپس جا رہے تھے۔ ۔ بھیّا صاحب نے جاتے جاتے مڑ کر دیکھا۔ ۔ درگا پر شاد سر جھکائے ہوئے منڈیر پر بیٹھا تھا۔ ۔ ۔ بھیا صاحب واپس پلٹے اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھّا اور اپنی نرم آواز میں بولے ’’چلو درگا۔ ۔ امّاں فاقہ شکنی کے لئیے انتظار کرتی ہوں گی۔ ‘‘
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...