ایک بہت بڑا برگد کا پیڑ تھا وہاں۔ ۔ وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ۔ ۔ بہت چھوٹا ایک نقطہ سا۔ ۔ جہاں نمک کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ ۔ اناج اور سبزیاں کھیتوں میں اگائی جاتی تھیں، پانی کوئیں سے گھڑوں میں بھرکے رکھّا جاتا تھا۔ وہاں اس برگد کے نیچے ایک اینٹوں کا چبوترا تھا جسے سیمنٹ لگا کر جوڑ دیا گیا تھا، اسے گاؤں کے لوگ ’’پکّا‘‘ کہتے تھے۔ اس پر صبحشام مزدور آ کر بیٹھتے تھے اور اکثر بچّے کھیلا کرتے اور ان بچّوں میں میں بھی شامل تھی۔ وہیں ایک بزرگ آ کر بیٹھتے تھے۔ سارے مزدور اور کاشتکار اپنی مشکلیں انھیں سناتے اور ان سے رائے لیتے۔ ۔ ۔ وہ سبکی بپتا سنتے اور اکثر ان کا حل بھی بتا دیتے تھے تمام محنت کش پریشانیوں کی گٹھری وہیں چھوڑ کر، بلکے بلکے پھلکے ہو کر اپنے اپنے گھر چلے جاتے۔ وہ سارے لوگ ان بزرگ کو بہت ساری دعائیں دے جاتے تھے۔ مجھے یہ بھیڑ بھاڑ اچھی نہیں لگتی تھی تو اکثر ان سے پوچھتی ’’آپ کیوں سنتے ہیں سب کی باتیں۔ ۔ ۔ ؟‘‘ مجھے ملال ہوتا۔ ۔ وہ اتنی دیر تک اس طرح کے لوگوں میں کیوں گھرے رہتے ہیں۔ ’’بیٹا۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ آہستہ آہستہ مجھے سمجھاتے۔ ان کی انگلیوں میں تسبیح لے دانوں کی گردش رک جاتی۔ ۔ ۔ ’’وہ لوگ مجھے اپنی الجھنیں پریشانیاں کچھ دیر کے لئے ہی سہی۔ ۔ ۔ دے دیتے ہیں ان کا بوجھ چند لمحوں کے لئیے ہی سہی۔ ۔ ۔ ۔ کم ہو جاتا ہے، ان سب کی زندگی کئی امتحانوں سے گزر رہی ہے بیٹی۔ ۔ اگر کچھ دیر کے لئے ہی میں ان کو سکون دے سکوں تو یہ اللہ کی عنایت ہے مجھ پر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں ان کے چہرے کیطرف دیکھا۔ ۔ ۔ تو اک نور کا ہالا ان کے چہرے کے آس پاس نظر آ رہا تھا۔ ۔ ۔ اور وہ نور کا ہالہ دن بدن روشن ہوتا گیا۔ اب زندگی ان کے بغیر گزار رہی ہوں تب بھی وہ نور کا ہالا میرے ارد گرد ہے اور اسی سے زندگی کی ہر جدّو جہد کا سامنا بھی کر رہی ہوں۔ زندگی کے مسائل۔ ۔ ۔ حوادث۔ اور جدّ و جہد کس کے ساتھ نہیں ہوتے۔ وقت کی آندھی سوکھے پتّے کی طرح اڑائے اڑائے پھرتی رہی۔ کبھی پڑھائی کی فکر کبھی نوکری۔ ۔ اور کبھی اپنیازدواجی زندگی کے اتار چڑھاؤ۔ ۔ یہ کسی ایک کا مسئلہ نہیں عام طور سے سبھی اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ بہر حال میں جس کمپنی میں ہوں وہیں نتاشہ بھی کام کرتی ہے۔ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا وہ مجھے اچھّی لگی۔ ۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ ۔ ۔ اور دوستی کی ابتدا ہو گئی۔ دوستی کے لئے تو خیر کوئی جد و جہد نہیں کرنی پڑتی۔ ۔ ۔ یہ تو ایک کشش ہے جو آپ کو خود بخود کسی ہستی کی طرف مائل کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ خیر بات نتاشہ کی ہے ہم آفس میں ایک دوسرے سے ملتے اپنی باتیں اپنی پریشانیاں بھی شئیر کرنے لگے۔ ۔ کبھی کافی کبھی لنچ۔ ۔ ۔ ساتھ ہونے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آفس کے کافی لوگ اس سے زیادہ قریب ہیں۔ ۔ وہ زیادہ خوبصورت تھی سب سے ہنس کر ملتی تھی۔ ۔ ۔ میری طرح لئیے دئیے نہیں رہتی تھی۔ یہ شاید جلن کا احساس تھا یا احساس کمتری۔ ۔ میں اس سے دور ہونے لگی۔ میں اس سے بلا وجہ خفا رہنے لگی۔ مگر وہ اسی طرح مخلص مسکراہٹیں بکھیرتی میرے کیبن میں آ جاتی۔ کبھی کافی لے کر اور کبھی یونہی ہنستی مسکراتی آ کر بیٹھ جاتی۔ ایک دن میں پھٹ پڑی۔ ’’تم اپنے گرد جو میلہ لگائے رکھتی ہو۔ ۔ مجھے اچھّا نہیں لگتا، تمہاری سیٹ کے پاس مستقل لوگ رہتے ہیں وہ لڑکیوں ہوں یا مرد۔ ۔ ہر کسی سے ہنس کر باتیں کرتی ہو۔ ۔ ہمارے سماج میں یہ سب اچھّا ہے کیا۔ ۔ ؟ بہتر ہو گا کہ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ ہنسنے لگی۔ ۔ جیسے کوئی بڑا کسی بچّے کی بے تکی بات پر ہنس پڑے۔ ۔ ’’تم کیا سمجھتی ہو۔ ۔ وہ سب میرے حسن کے قصیدے پڑھنے آتے ہیں۔ ۔ ؟ وہ جو میرے ارد گرد ہوتے ہیں وہ صرف اپنے مسائل سنانے آ جاتے ہیں اور میں صرف ان کی باتیں یکسوئی سے سن لیتی ہوں۔ ۔ ۔ ورنہ کس کے پاس وقت ہے ؟؟ کہ کسی کہ الجھنوں کو سنے ؟ مناسب رائے بھی دے دیتی ہوں جو بھی مجھ سے ممکن ہو اس مدد کو بھی تیّار رہتی ہوں۔ ۔ کچھ دیر کو ہی سہی۔ ۔ انھیں اپنی پریشانیوں دکھوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ۔ ۔ میری سیٹ کے پاس آ کر ہی سہی۔ ۔ ‘‘ وہ خاموش ہوئی۔ ۔ اور میں نے دیکھا۔ ۔ ایک نور کا ہالہ اس کے چہرے کے چاروں طرف روشن تھا۔ ۔ یہ چمک لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہی تھی۔ ۔ ۔ تب مجھے ایک بات سمجھ میں آئی کہ۔ ۔ ۔ پکّہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ اسکول میں گھر میں۔ ۔ برگد کے نیچے یا آفس میں۔ ۔ ۔ کہیں بھی۔ ۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...