کئی برس گزر گئے میں اِس حویلی کے پیچھے والے باغ میں کھڑا ہوں اور بچپن سے اس جگہ کی سر گر میاں دیکھ رہا ہوں۔ جب میرا قد چھوٹا تھا تو اُچکاُچک کر حویلی کے آنگن میں جھانک لیا کرتا تھا۔ ایک خوبصورت، چمکتی دمکتی لہراتی، قہقہے لگاتی دلہن کو دیکھا تھا میں نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ لہرا کر چلتی تو اس کی پازیب چھن چھن بولتی،یہ مدھُر آواز پوری حویلی میں گونج جاتی۔ ۔ ۔ کتنی بے فکر زندگی تھی۔ ۔ ۔ اس کی بھی اور میری بھی۔ ۔ ۔
تھوڑا لمبا ہوا تو میرے احساسات بھی بدل گئے۔ اِن خوشبو دار پتّوں میں جب ہوائیں سر سرا کر مجھے گُدگُداتیں تو ایک سرور کا احساس ہوتا میں لہرا تا۔ ۔ ۔ ۔ اور لہرا تا۔ ۔ میرے لمبے اور نرم بازو اب کبھی حویلی کی چھتوں تک پہنچ جاتے، یہاں کئی بزرگ بھی ہیں مگر وہ زیادہ خوش نہیں رہتے۔ ۔ ۔ جیسے میں رہتا ہوں۔ ۔ ۔ ہمیشہ خوش۔ ۔ ۔ ہلکی آواز میں گنگنا تا۔ ۔ ۔ جھومتا۔ ۔ ۔ لہرا تا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل چاہتا کہ ان سے پوچھوں۔ ۔ آپ خوش کیوں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے افسردہ کیوں رہتے ہیں ؟
مگر وہ مجھے منھ کہاں لگا تے۔ ۔ ۔ مجھ سے بڑے اور تجربے کار ہیں۔ ۔ بقول ان کے دنیا دیکھی ہے۔ ۔ ۔ تو میں اس نئی نویلی دلہن کی ہنسی اور پازیب کی جھنکار سن کر مسرور ہو جاتا۔ ۔ ۔ ۔ میرے اندر شگوفے پھوٹنے لگتے۔
صبح صبح جب اندھیرا پوری طرح ختم بھی نہ ہوتا، میں اٹھ جا تا۔ اپنے پیدا کرنے والے کی حمد و ثنا کرتا، اس کا شکر ادا کرتا جو مجھے رزق دیتا ہے جو ہواؤں اور بارش سے مجھے سیراب کرتا ہے جو دھوپ میں میری پر ورش کرتا ہے، وہ مجھے دیکھتا سنتا اور سمجھتا بھی ہے۔ میرے بزرگوں نے مجھے عبادت کرنا سکھا یا مجھے بے حد سکون ملتا ہے جب خاموش ہو کر سنّاٹے میں اس کو یاد کرتا ہوں۔
اذان ہوتے ہی وہ نئی نویلی دلہن بھی بیدار ہو جاتی ہے۔ وضو کرتی تو اس کی چوڑیاں اور کنگن کھنکتے۔ ۔ اس کی دبی دبی ہنسی تب بھی سنائی دے جاتی۔ بہت کوشش کرتا کہ اسے دیکھ لوں مگر ان آوازوں پر ہی گزارا کر لیتا۔
جب کوئی مہمان آتے اور باغ کی طرف والا دروازہ کھولا جاتا اور وہ انھیں سواری سے اتُار نے کے لئے ہنستی کھلکھلاتیآ کھڑی ہوتی۔ ۔ ۔ پھر سب سے گرم جوشی سے گلے ملتی، تب اس کو بہت دیر تک دیکھتا رہتا۔ ۔ ۔ اس کے لمبے گھنے کالے بال جو دوپٹے کے اندر سے کمر تک جاتے دیکھائی دیتے، اس کا چمکتا دمکتا گلاب چہرہ اندرونی خوشی سے تمتمایا رہتا لمبا قد بھرا بھرا جسم، اس کی جگمگا تی خوبصورت کالی آنکھیں سرخ ہونٹ۔ ۔ ۔
کئی دن تک اسی سرور میں رہتا تھا۔
شام ہوتے ہوتے چراغ جل جاتے۔ باغ میں بڑے سے حوض کے چاروں طرف قندیلیں روشن ہو جاتیں۔ ہر جانب نرم اور مدھم سا اُجالا پھیلنے لگتا۔ تب میں باغ کے پاس والے کمرے سے دبی دبی ہنسی کی آوازیں سنتے سنتے سو جایا کرتا۔
راجہ لوگوں کی بڑی باتیں۔ ۔ دروازے پر دو ہاتھی کھڑے رہتے، گھوڑوں کے اصطبل سے کئی گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آتی رہتیں، لوگ باتیں کرتے جس سے پتہ چلتا کہ کئی رنگ و نسل کے گھوڑے وہاں موجود ہیں۔
راجہ صاحب کبھی ہاتھی اور کبھی گھوڑوں پر سیر کو نکلتے۔ ان کے جاتے وقت جب نئی دلہن ان کے بازو پر ستاروں بھرا امام ضامن باندھتی تو اس کی ہنسی رُک جاتی۔ اس کے ہونٹوں پر دعائیں لرزنے لگتیں۔ آنکھیں نم ہونے لگتیں، راجہ صاحب اس کو اپنی باہوں میں سمیٹ کر بہلاتے۔ تب میں دعا کرتا کہ وہ کبھی کہیں بھی نہ جائیں نئی نویلی دلہن کی پلکیں کبھی نہ بھیگیں۔ وہ باغ والے کمرے کی چو کھٹ پر بیٹھ کر پتّے مٹھّیوں میں بھر لیتی، مجھے لگتا ان مٹھّیوں میں میرا دل دھڑک رہا ہے، وہ اپنی ہتھیلیاں ناک کے پاس لے جا کر خوشبو اپنی سانسوں میں اتارتی، تو میرا دل ناچنے لگتا۔ نرمی بڑھنے لگتی خوشی کے فوّارے سے پھوٹتے اور اس کی آنکھیں خوابناک ہو جاتیں۔
مگر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس کی شادی کو پانچ برس کا عرصہ گزر گیا تھا، ہنسی کی آواز اب شاذو نادر ہی سنائی دیتی۔ اندر سے بڑی رانی صاحبہ کی سرگوشیاں بڑھ گئی تھیں۔ اس خوبصورت رانی دلہن کو اولاد کے طعنے ملنے لگے تھے۔ جسے سن کر وہ باغ والے کمرے میں آ کر گھنٹوں درختوں پھولوں اور حوض کے شفّاف پانی کو تکتی رہتیں شاید دل ہی دل دعائیں کر تی ہوں گی۔ اللہ کو کیا منظور تھا یہ کون جان سکتا ہے۔
میں نے ایک دن اپنے بزرگ سے بات کرنی چاہی، در اصل وہ آپس میں بات کرتے تو مجھے تجسّس ہونے لگا تھا۔ ان لوگوں کی با توں میں مجھے پُر اسرار سرگوشیاں سنائی دیتیں۔ وہ باتیں راجہ صاحب کے دادا کے بارے میں تھیں۔ جن کو اولاد نہ ہونے کی بد دعا ملی تھی۔
ان کے ایک ہی بیٹے تھے جو اِن راجہ صاحب کے والد تھے، ان کے باقی دونوں بچّے عالم جوانی میں ختم ہو گئے۔ ۔ ۔ بس ایکیہی تھے جو سارا انتظام دیکھ رہے تھے۔
پرانے قصّے کیا تھے وہ میں سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ۔ ۔ مگر اپنے برا بر والوں یہی سنا تھا کہ بد دعا زبان سے نہ بھی دی جائے تو دل سے نکل کر عرش پر پہونچ جاتی ہے، کچھ لوگوں کے ساتھ اس قدر ظلم ہوا تھا کہ وہ گھر سے بے گھر کر دیے گئے اور تو اور وہ ان کے اپنے سگے بھائیتھے، معصوم تھے اپنی اور اپنے بچّوں کی جان بچانے کے لیے وہ در در بھٹکنے پر مجبور ہوئے تھے۔
یہ ساری باتیں اکثر بزرگ کرتے رہتے تھے، مجھے ان کی با توں سے ڈر محسوس ہوتا، کئی دن سہما رہتا تھا۔ بڑی رانی صاحبہ اپنے خدمت گاروں پر بہت ظلم کرتیں، کڑی دھوپ میں ان کو ننگے سر اور ننگے پیر کھڑا رہنے کا حکم دے دیتیں۔ ایک بار تو میں نے خود دیکھا تھا کہ انھوں نے اپنی خادمہ کے ہاتھ پر جلتا ہوا انگارہ رکھ دیا تھا جس سے اس کا ہاتھ مدتوں زخمی رہا تھا وہ نوکروں کو غصّے میں عجیب وہ غریب سزائیں دیتی تھی۔ کسی کے ہاتھ کو جلاتیں، کسی کے ہاتھوں کو بھاری بھر کم مسہری کے پائے کے نیچے دبا دیتیں اور اس پر دوسری لحیم شحیم عورت کو کھڑا ہونے کا حکم دیتیں۔ ۔ ۔ ان کی آواز سے سارے خادم کانپتے تھے۔ ۔ ۔ ۔
ایک دن اچانک جب باغ والے دروازے پر گاڑی آ کر رکی تو مجھے ایک بچّے کے رونے کی آواز آنے لگی۔ ۔ رانی دلہن کی گود میں ایک ننھا سا وجود دیکھ کر میری آنکھیں نم ہونے لگیں۔ حویلی میں اچانک رونق اور چہل پہلدکھائی دینے لگی لوگ بھاگ دوڑ کر رہے تھے غریبوں میں کپڑے بانٹے جا رہے تھے، صدقے دیے جا رہے تھے۔ رانی دلہن کی ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ مگر بڑی رانی صاحبہ کی سرگوشیوں کی آواز یہاں تک آ رہی تھی۔
’’یہ ہمارا خون نہیں ہے، بیوی کی با توں میں آ کر نہ جانے کسے اٹھا لائے ہیں ”
حویلی سجائی گئی تھی رشتہ دار عزیز سب تہنیت دینے آئے ہوئے تھے۔ کچھ خفا اور کچھ خوش نظر آ رہے تھے۔ مگر بچّہ ایسا تھا کہ سب کو پیار آ رہا تھا۔ ۔ ۔ اور تو اور جب وہ سرخ کپڑوں میں ننھی سی ٹوپی لگائے ہمک کر بڑی رانی کہ طرف آیا تو انھوں نے بھی گود میں لے کر کلیجے سے لگا لیا۔
وہ گول مٹول پیارا سا بچّہ جس کی صورت یہاں کسی سے نہیں ملتی تھی، وہ اپنی شکل آپ تھا۔
جب کچھ بڑا ہوا اور باغ میں کھیلنے آنے لگا تو میں سفید پھول اور نرم پتّے اس پر نچھاور کرتا۔ ۔ ۔ رانی دلہن دوڑ کر اس کو پکڑتی اور وہ کھلکھلا کر میرے سائے میں دوڑتا بھاگتا۔ ۔ ۔ کبھی حوض کے کنارے کبھی کسی درخت کے نیچے اور کبھی آ کر مجھ سے لپٹ جاتا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بہت سکون سا محسوس ہوتا تھا۔ ۔
حویلی کے حالات بدلنا شروع ہو گئے تھے۔
ہاتھی تو کب کے دروازے سے غائب ہو گئے تھے اور اب گھوڑے بھی کم ہو گئے، راجہ صاحب نے جیپ خرید لی تھی وہ اکثر شام کو بچّے اور اپنی دلہن کے ساتھ باہر گھومنے جاتے وہ ہنستی مسکراتی اپنے آپ کو بڑی سی گلابی چادر میں لپیٹ کر، بچّے کو سینے سے لگائے جیپ میں آ کر بیٹھ جاتی۔ باغ کا دروازہ کھول دیا جاتا اور جیپ باہر نکل جاتی۔ ۔ ۔ میں اپنے سفید پھول ان پر وار دیتا اور ان کی دائمی خوشیوں کی دعا کرتا۔
وقت رکتا نہیں وہ تو بہے جا تا ہے ابھی رات کااندھیرا باقی تھا میں آرام سے سویا ہوا تھا، اک چیخ سے میری آنکھ کھُل گئی۔
میں نے گھبرا کر حویلی کے اُوپر سے جھانکا تو روشنیوں کو اِدھر اُدھر جاتے دیکھا، سب کے پریشان چہرے دیکھے۔ وہ اس حویلی میں راجہ صاحب کا آخری دن تھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ کئی دن سے بیمار تھے اور پھر نہ جانے کیا کیا ہوا۔ ۔ رانی دلہن کی چوڑیوں کے ٹوٹنے سے میں لہو لہان ہو گیا،تن بدن میں خراشیں پڑ گئیں، ان کا سرخ چمکتا دُوپٹّہ اُتار کر سفید سوتی چادر میں لپیٹ دیا گیا۔ وہ حویلی کے صحن میں بچّے کو سینے سے لگائے سسک سسک کر رو رہی تھیں۔ میرے اندر گرم گرم سیّال سا اُبل رہا تھا مگر میں رو نہیں سکتا۔
پھر موسم بدلنے لگا تیز آندھیاں آتیں ڈھیروں سوکھے پتّے حویلی کے آنگن میں اور باغ والے کمرے کے سامنے بکھر جاتے۔ کام کرنے والے کم ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ کئی کئی دن صفائی نہ ہوتی۔ پتّے یونہی ادھر اُدھر اڑتے رہتے۔
بزرگ اب جھکنے لگے تھے ان کی زبانی بہت کچھ سنا میں نے، انھوں نے یہاں کے بہت سرد و گرم دیکھے، بدعّا تو عرش کے پائے ہلا دیتی ہے نہ جانے کتنا ظلم ہو چکا تھا، جس کا خمیازہ اب یہ معصوم بھُگت رہے تھے۔ وہ ظلم و زیادتیاں پرانے درختوں نے دیکھی تھیں اسی لئے وہ کبھینہیں ہنستے تھے۔ ان کے اندر دکھ کی دیمک لگ چکی تھی۔ انھیں نہ ٹھنڈی ہواؤں سے سرور آتا اور نہ پانی کی بوندوں سے گُدگُدی محسوس ہوتی۔ ایک دربان کی طرح حویلی کی اوٹ میں کھڑے کھڑے بوڑھے ہو رہے تھے۔
میں بھی اب تھکنے لگا تھا۔ میری باہیں بھاری ہو کر بوجھ بن گئی تھیں۔ بزرگ بھی کم ہو گئے تھے۔
رانی دلہن اب بوڑھی ہونے لگی تھیں۔ بڑی رانی بھی چل بسی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ بہت تکلیف اٹھا کر گئی تھیں سُنا تھا ان کے سارے جسم پر آبلے پڑ گئے تھے، کسی دوا سے آرام نہ تھا۔ ۔ ۔ وہ تڑپتی رہتی تھیں۔ ان کی دلخراش آوازیں مجھے سہما دیتی تھیں۔ ۔ ۔
وقت اور آ گئے بڑھ آیا۔ وہ بچّہ بڑا ہونے لگا تھا، اس کی تعلیم کے لئے نئی دلہن نے بہت کوششیں کیں مگر نا کام رہیں۔ ۔ وہ اپنا اثاثہ فروخت کرتا رہتا تھا۔ اس بات سے گھر میں کافی تکرار رہتی۔
انسانوں کے جنگل کی یہ عام بات ہے۔ خون چوس کر الگ ہو جانے والی جونکوں نے ان کو گھیر لیا تھا۔ اور چھوٹے راجہ ان لوگوں کے لئے ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھے۔
وہ رانی دلہن کی کسی نصیحت پر کان نہ دھرتا، اپنا اقتدار واپس پانا چاہتا تھا مگر اب زمانہ بدل چکا تھا حکومتیں بدل چکی تھیں، وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔
تیز آندھیوں میں کئی درخت زمیں بوس ہو چکے تھے۔ ۔ ۔ ان کی لکڑی کاٹنے کی آواز میرے اندر خراشیں ڈالتی تھی۔
میری سماعت رانی دلہن کی آواز کو تر ستی تھی۔ تب ایک دن وہ پھر ہنس رہی تھیں۔ ۔ ۔ آنسوؤں میں بھیگی ہنسی سے درو دیوار سج رہے تھے، اپنی جیسی سرخ کپڑوں میں لپٹی ایک نازک سیدولہن ان کے بازوں میں تھی، چھوٹے راجہ کی دلہن آ گئی تھی۔
میں نے بھی اپنا کمزور ہاتھ اٹھا کر اسے خوش آمدید کہا۔ کچھ نرم پتّے اس پر نچھاور کئے۔ ۔ ۔ کچھ دنوں تک حویلی میں گہما گہمی رہی، باغ والے کمرے کا دروازہ کئی بار کھلا۔ ۔ رانی دلہن نے کئی مہمانوں کو خوشی خوشی سواری سے اتروایا اور پھر شادی کے بعد رخصت بھی کیا۔ ان کی پرانی چال جیسے لوٹ آئی تھی وہ بے پناہ خوش تھیں۔ مگر کچھ دنوں بعد پھر وہی خاموشی سیچھا گئی نئی دلہن اکثر میکہ میں رہتیں۔
باغ والے حوض کے کنارے اب قندیلیں نہیں جلتی تھیں، اندھیرا ہی رہتا۔ حوض کا پانی بھی نہیں بدلا جاتا تھا پہلے جب رانی دلہن اپنے راجہ صاحب کے ساتھ شام کی چائے وہاں پیتیں تھیں تو حوض کا شفّاف پانی ہلکورے لیتا، ایک ٹک ان دونوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ مگر اب اس گدلے پانی میں جھرّیاں پڑنے لگیں تھیں۔
کبھی کبھی دن بھر کی تھکی چڑ یاں وہاں بیٹھ کر ہاتھ منھ دھو لیتیں، گھونٹ بھر پانی پی کر پھُر پھُرا تی ہوئی آسمان کی وسعتوں میں کھو جاتیں۔ رانی دلہن کو اب کم دیکھائی دینے لگا تھا۔ جھریّوں بھرا چہرا لئے کبھی کبھی آنکھوں پر انگلیوں کا چھجّا سا بنا کر صحن کے کونے سے مجھے دیکھتیں۔ شاید وہ مجھے پہچانتی تھیں۔ باغ والے کمرے کا دروازہ کھول کر اکثر خاموش کھڑی رہتیں۔ ۔ ۔ ۔
شاید ان کے رنج کا ساتھی میں ہی تھا۔ ۔ ۔ ۔
کم علمی کی وجہ سے ان کا بیٹا ٹھوکریں کھا تا اور وہ تڑپتیں
ایک روز جب یہ خبر آئی کہ شہر کی ساری جائیداد پر کچھ لوگوں نے زبر دستی قبضہ کر لیا ہے تو وہ سنبھل نہ سکا۔
اس دن بہت تیز آندھی آ رہی تھی، میں بار بار خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس آندھی کے شور میں اچانک کئی شور شامل ہو گئے۔
وہ بچّہ جو رانی دلہن کی گود میں پلا تھا، اپنا دل نہ سنبھال سکا اپنی ننھی سی بچّی کو اپنی دلہن کی گود میں چھوڑ کر لڑکھڑایا اور اچانک ڈھے گیا۔
آندھیوں کا شور بڑھ گیا۔ ۔ ۔ سارے پتّے میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ ۔ ۔ ۔ رانی دلہن کی چیخیں میرے اندر خراشیں ڈال رہی تھیں چھوٹی دلہن کے آنسو مجھے تڑ پا رہے تھے۔ ان کا درد ساریکائنات پر پھیل رہا تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے، دل خالی تھا۔ ۔ ۔ میں کیسے بر داشت کرتا۔ ۔ ۔ ایک چیخ سنی اور پھر کچھ یاد نہیں رہا۔ کیوں کہ میں تو یوکلپٹس کا پیڑ ہوں مگر آج میری شاخیں کلہاڑی سے کاٹ کر باغ والے کمرے کے سامنے سے ہٹائی جا رہیں میں وہاں چت پڑا ہوں میرے بدن پر آریاں چل رہی ہیں اندھیرے میں ڈوب رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ انجانے میں اُس بد دعا میں میں بھی شامل ہو گیا جو گھر والوں کے لئے تھی۔ ۔ اندھیرا گہرا اور گہرا ہو گیا۔ ۔ ۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...