پاکستان ایرپورٹ پر اترتے وقت ہم سب بے پناہ خوش اور ایکسائٹیڈ تھے۔ ایک عجیب سی مسرت ہم سب کے دلوں میں لہریں لے رہی تھی کافی عرصے بعد ہمارا یہ خواب پوراہوا تھا اور ہم ساری دوستوں کا گروپ پاکستان کی سرزمین میں اترچکا تھا۔
ہم سات دوستوں کا یہ گروپ مختلف جگہوں کی سیاحی میں مشغول تھا دارصل ہماری تقریباً ساری ہی ذمہ داریاں پوری ہو چکی تھیں بچوں کی تعلیم شادیاں اور گھر کی تکمیل اب کچھ حق تو ہماری اپنی خواہشوں کا تھا۔ ہم لوگ اپنے پورے گروپ کے ساتھ ہندوستان کے مختلف صوبوں کی سیر کرتے ہوئے اب پاکستان پہونچے چکے تھے جو کہ اب ہمارا نہیں تھا پھر بھی ہمیں اپنا اپنا سا لگتا تھا۔
ایر پورٹ سے ہوٹل پہونچتے پہونچتے سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے اور ہوٹل پہنچ کرہم سب اونچی آواز میں اپنی پسند کے شہر دیکھنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ کسی کو کراچی دیکھنا تھا اور کسی کو لاہور دیکھنا تھا۔ کوئی حیدرآباد سندھ دیکھنا چاہتا تھا اور کسی کوٹکسلا جانے کی پڑی تھی۔
میں نے غور کیا کہ مسز روپا کچھ کچھ خاموش سی ہیں ان کی عمر تقریباً 65پنسٹھ برس کی تھی وہ ہم سب میں سینیر تھیں ہم سب ان کی عزت کرتے تھے دراصل اس گروپ کی بنیاد انہوں نے ہی ڈالی تھی ہم سب تو بیچ میں آ کر ان میں شامل ہوتے گئے۔
میں نے ان سے پوچھا۔ ’’آپ کون سی جگہ دیکھنا چاہتی ہیں ؟ رو پاجی؟ ‘‘
’’میں پنڈی جانا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’پنڈی کس طرف ہے یہ کوئی چھوٹا شہر ہے یا پھر کوئی گاؤں ؟‘‘
وہ میری نادانی پر مسکرائیں اور بولیں
’’میرا مطلب ہے راولپنڈی۔ جو لوگ یہاں رہتے ہیں وہ اسے پنڈی ہی کہتے ہیں۔
’’آپ کو کیسے معلوم کیا آپ پہلے آ چکی ہیں۔ ‘‘مجھے حیرت سی ہوئی وہ تھوڑی دیر خاموش مجھے دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
’’میں وہیں پیدا ہوئی ہوں اور وہیں پلی بڑھی ہوں۔ ‘‘
ان کی آواز بہت نرم اور اداس سی تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ 19برس کی تھیں تب ان کی شادی ہو گئی اور وہ کیرالہ چلی گئیں اب تو ان کی زبان بھی تامل ہو گئی ہے اور وہ کھانے بھی ساؤتھ انڈین ہی بنانے لگی ہیں جیسے کہ وہ وہاں کے مقامی لوگ بولتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ مگر وہ ہمیشہ چاہتی تھی کہ ایک بار وہ وا پس جائیں۔ اپنا بچپن کا ملک اور گھر دیکھیں اور اب جا کر انہیں یہ موقعہ نصیب ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب ہماری فلائٹ اسلام آباد پہونچی اور ہم سب ایرپورٹ کے باہر آئے تو سردی کی شدّت سے کانپ گئے۔ وہاں ایسی سردی تھیں جیسی کہ کسی ہل اسٹیشن پر ہوتی ہے۔ روپا کپور نے ہمیں بتایا کہ یہ شہر بہت بعد میں بسا ہے۔ یہ شہر تقسیمِ ملک کے وقت نہیں تھا۔ پہاڑیوں کو کاٹ کر بسا یا گیا ہے۔ وہاں کی سڑکیں بہت چوڑی تھیں بے حد خوبصورت شاپنگ مال تھے اور بے حد حسینروز گارڈن وہاں کی زینت بڑھا رہے تھے۔ ہم چاہ رہے تھے کہ اسلام آباد میں کچھ دن رک جائیں مگر مسز کپور راولپنڈی جانے کے لئے بے چین تھیں۔ راولپنڈی وہاں سے کافی قریب تھا مگر کوئی جانے کے لئے تیار نہ تھا۔
میں نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ مجھے ان کے ساتھ جانا چاہئے۔ وہ بہت زیادہ ایکساٹیڈ تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ46 چھیالیس برس کے بعد اپنا گھر دیکھیں گی۔ میں نے قریب کیفلاور شاپ سے ایک اچھا سا بکے بنوایا اور میں نے ان سے بتایا کہ یہ پھول میں اس گھر کے نئے مالک مکان کو دوں گی، ٹھیک ہے ؟وہ مسکرا دیں مجھے لگا کہ وہ میرے اس خیال سے بہت خوش ہو گئیں۔
جب ہم ٹیکسی لے کر چلے تو مسز روپا ہمیں اک گائیڈ کی طرح راستہ بتا رہی تھیں۔ اک پرانی بلڈنگ کو دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے دوست کنول ساہنی کا مکان ہے اور وہ دیوالی منانے یہاں آیا کرتی تھیں۔ پورے راستے وہ مجھے ایک ایک چیز بتا رہی تھیں ایک بہت بڑی جو ئیلر شاپ دیکھ کو انہوں نے بتایا کہ بہت چھوٹی سی دوکان تھی ان کے دور کے رشتے دارکی جن کا نام رتن سا گر تھا اور اب شایدیہ ان کے بچے چلا رہے ہوں گے۔
راستے میں ایک بہت بڑی اور پرانی حویلی دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئیں۔
’’ یہ مقبول خان چاچا کی حویلی ہے۔ میں اپنے بچپن میں یہاں بہت کھیلی ہوں بہت بڑا باغ ہے اس حویلی کے پیچھے۔ ‘‘
وہ اتنی زیادہ خوش تھیں کہ وہ میری طرف دیکھے بنا ہی ساری باتیں کر رہی تھیں وہ کسی بھی بلڈنگ سے اپنی نظر ایک لمحے کے لئے بھی ہٹا نا نہیں چاہتی تھیں شاید وہ یہ سوچ رہی تھیں کہیں یہ منظر پیچھے نہ ہٹ جائے اور وہ دیکھ نہ سکیں ڈرائیور چائے پینے رک گیا تو وہ ٹیکسی سے اتر گئیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر پیدل چلنے لگیں۔ وہ مجھے ایک ایک چپّہ دکھا رہی تھیں ……
’’یہ دیکھو ؟ ‘‘ انہوں نے ایک دو منزلہ مکان دکھا یایہ میری سہیلی فاطمہ کا مکان ہے ہم اور فاطمہیہاں کھیلتے تھے انہوں نے برابر کے پارک کی طرف اشارہ کیا ایک گھر کے سامنے وہ پھر ٹھہر گئیں۔
’’ تمہیں پتہ ہے۔ ؟ ‘‘وہ میری طرف مڑی اور اشارے سے بتانے لگیں۔ ’’یہ اللہ بخش چاچا کا گھر ہے ایک بار مما نے مجھے کھیر کا پیالہ دے کر ان کے لئے بھیجا تھا…‘‘ وہ اک لمحہ رُکیں،
’’اچانک اک شخص تیزی سے چاچا کے گھر سے نکلا اور مجھ سے ٹکرا گیا… ساری کی ساری کھیر …گرم کھیر میرے کپڑوں پر گر گئی۔ ‘‘
’’آپ انہیں جانتی تھیں ……؟‘‘
’’نہیں …اس وقت تو نہیں …وہ مسکرائیں شادی کے بعد اچھی طرح جان گئی ہوں اب وہ میرے شوہر ہیں۔ ‘‘
ہم ہنستے ہوئے اور آ گے بڑھ آئے …وہ بتاتی رہیں … ’’یہ ڈاکٹر سلیمیہ کاشی دادا… یہ پھر بھیا… اور یہ ممتازچاچا کا گھر ہے …‘‘
ڈرائیور گاڑی لے کر پیچھے آ رہا تھا مگر اب وہ ٹیکسی میں بیٹھنے کو ہاتھ کے اشارے سے منع کر چکی تھیں میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہی چل رہی تھی…اور اچانک وہ رک گئیں …
’’یہاں میراگھر …‘‘
یہ اک موڑ تھا جہاں پر اچھی خاصی پر رونق مارکٹ تھی بڑی بڑی شاپ، ویڈیو لائبریری اور شاندار ہوٹل چمک رہے تھے۔ انہوں نے رک کر چاروں طرف دیکھا ڈرائیور ٹیکسی روک کرا ترا آیا تھا۔
’’ میڈم۔ آپ کو یقین ہے یہ ہی وہ جگہ ہے …؟‘‘
’’ہاں … ہاں۔ مجھے یقین ہے۔ میں یہاں پیدا ہوئی ہون میں نے یہاں 19برس گزارے ہیں تم یہاں نہیں پیدا ہوئے ہو۔ (انہوں نے ڈرائیور کو جھڑک دیا)۔ میں غلطی کیسے کر سکتی ہوں … ‘‘انہوں نے بے چینی سے ہر طرف دیکھا عمارتوں کے پیچھے جھانکتی رہیں۔ انہیں یقین تھا کہ ان کا گھر یہیں پر ہے شاید ان نئی عمارتوں کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ ان کی حالت اس بچّے کی سی تھی جس کا نیا کھلونا پسندیدہ کھلونا کہیں کھو گیا ہو…وہ حیران پریشان ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔ اور بڑ بڑا رہی تھیں … ’’ارے میں اپنا گھر نہیں پہچانوں گی میرا گھر… پتہ ہے ایک بار برامدے میں فرش بن رہا تھا… یہاں پور ٹیکو میں ……تو میں دوڑتی ہوئی آئی اورگیلی سمینٹ… گیلی سمینٹ پر میرے پیروں کے نشان بن گئے اور پھر ڈیڈی نے اس پر سمینٹ نہیں کرنے دیا تھا، انہوں نے کہا یہ روپا کا گھر ہے اور روپا کے پیروں کے نشان اس گھر کی پہچان ہیں۔ بالکل انٹرنس پر میرے پیروں کے نشان تھے تم دیکھنا۔ ‘‘ وہ اس نئی بلڈنگ کے باہر بے چین کھڑی تھیں۔
میں نے بڑھ کر چوکیدار سے پوچھا۔ ’’ یہ ہوٹل کب بنا ہے۔ ‘‘
وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بولا کوئی ڈیڑھ دو برس ہو گیا جناب۔
’’ تم یہاں کب سے کام کر رہے ہو۔ ‘‘
’’بی بی صاحبہ جب سے یہ پرانی بلڈنگ توڑی جا رہی تھی تو میں مز دور تھا پھر یہاں کام مل گیا چوکیدار کا۔ ‘‘
روپا خاموش رہیں۔
’’کیایہاں پر کوئی پیلے رنگ کا دو منزلہ مکان تھا… ؟‘‘یہ تفصیل روپا مجھے سارے راستے بتاتی آئی تھیں۔
’’جی ہاں یہاں پر اس طرح کی عمارت تھی… کافی پہلے …‘‘
’’ اور اس کے داخلی دروازے پر پیروں کے نشان بھی تھے ‘‘مجھے بھی بہت بے چینی تھی ’’بی بی صاحب وہ تو ہم نہیں جانتے …جب وہ عمارت توڑی جا رہی تھی تو…‘‘
’’چپ رہو…‘‘روپا زور سے چلّائیں اور ٹیکسی میں جا کر پچھلی سیٹ پر گر گئیں۔ چوکیدار حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’وہ میری دوست کا مکان تھا۔ ہم انڈیا سے آئے ہیں ‘‘ میں نے اس کی حیرت دور کی اور آہستہ آہستہ ٹیکسی کی طرف بڑھی …وہ رو رہی تھیں کانپ رہی تھیں کچھ بول بھی رہی تھیں۔
’’ یہ میری زمین ہے …یہ میرا گھر ہے …میرے دادا جی نے بنا یا تھا… یہ میری روح ہے …میرے اپنے سب یہاں پیدا ہوئے یہیں ان کی موت ہوئی یہ زمینیہ پیڑیہ ہوا یہ پانی یہ سب ہمارا ہے۔ … بس ایک دن کوئی لائن کھینچ دیتا ہے۔
ایک۔ صرف ایک لائن… ایک سنگل لائن مجھے اجنبی بنا دیتی ہے۔ ایک لکیر ملک کو کاٹ دیتی ہے … دو ملک بنا دیتی ہے … مجھے فارنر بنا دیتی ہے میں اپنی ہی زمین پر فارنر ہو گئی، غیرملکی ہو گئی۔ کوئی سمجھ نہیں سکتا میرا دکھ میرا درد …‘‘آنسو ان کے بوڑھے رخسار پر بہ رہے تھے۔
میں خاموش تھی۔ بالکل خاموش۔ میں نے انہیں تھام لیا تھا وہ کانپ رہی تھیں۔
اور تب میں نے دیکھا کہ وہ پھول جومیں لے کر آئی تھی میں نے بے خیالی میں روپا کی گود میں رکھ دئیے تھے۔ گھر کی پرانی مالکن کی گود میں پھول مسکرا رہے تھے مگر وہ گھر جس کے داخلی دروازے پر ان کے قدموں کے نشان تھے وہ اب نہیں تھا… کہیں بھی نہیں تھا…!
دن کی دھوپ آہستہ آہستہ سمٹ رہی تھی ایک اور دن ختم ہو رہا تھا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...