ذکیہ نے دوسری بار چائے گرم کرنے سے منع کر دیا اور غصّے سے کمرے کا دروازہ زور سے بند کر کے چلی گئی۔ ’’بس۔ ۔ لاونج میں بیٹھی بڑ بڑا رہی ہو گی۔ ۔ میں کیا کروں آخر کیسے اس کی بات مانوں ؟؟؟؟ دل نہیں مانتا میرا۔ ۔ ۔ ‘‘ بھیّا دور گاؤں میں بیٹھے کیسے کیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ میں سیدھے جا کر ان سے کہوں۔ ۔ مجھے جائیداد کا حصّہ چاہئیے۔ ۔ ۔ کوئی بات ہوئی ذمہ داری تو کوئی اٹھائی نہیں اور حصّہ مانگنے کھڑا ہو جاؤں ؟؟ کیسی عورت ہے یہ۔ ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں یہاں آ رہا تھا بھیا مجھے رخصت کرتے وقت کیسے کپکپا رہے تھے جیسے ان کے جسم کا کوئی حصّہ کاٹ کر الگ کیا جا رہا ہو۔ ۔ ۔ مگر میں خوش تھا میری برسوں کی آرزو پوری ہو رہی تھی میں اپنی خوشی میں ان کے درد کو محسوس ہی نہیں کر سکا تھا۔ ۔ ۔ مگر آج جب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ جدائی کا درد میں نے بھی سہا ہے بس۔ ۔ ۔ اس وقت مجھے اظہار کرنا نہ آیا۔ ۔ ۔ ذکیہ تو میری زندگی میں بہت بعد میں آئی وہ بھی یہاں پڑھائی کے دوران، دوستی کیسے ہوئی۔ یہ اب پرانی بات تھی اب تو میری دو بیٹیوں کی ماں تھی، ہماری دوستی جب ختم ہو چکی تھی۔ ۔ ۔ ہمارے درمیان روز جھگڑے ہوتے ہنگامہ آرائی ہوتی اور بچیّاں سہم سہم کر کونوں میں دبک جاتیں۔ ان کے معصوم چہروں پر اک خوف اک بے چارگی ہوتی۔ میں اور ذکیہ کبھی اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں کرتے تھے۔ اس کا اصرار تھا کہ میں ہندوستان جا کر بھیّا سے اپنے ابّا کی جائیداد میں حصّہ مانگوں۔ ۔ اور میں جو اتنے عرصے میں بھیّا کی خیریت کے لئیے ایک فون نہ کر سکا اور اچانک۔ ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی میں اپنے آپ کو بیحد مجبور محسوس کرتا کتنے سارے خرچ منھ پھاڑے ہمارے سامنے کھڑے رہتے ہم دونوں ملازمت کرتے تھے مگر ہم نے اپنی ضرورتوں کو اس حد تک بڑھا لیا کہ پوری ہی نہیں ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ آخر کار میں چل پڑا۔ ۔ ۔ جس راہ پر وہ مجھے چلانا چاہتی تھی۔ بھیّا کو فون کر کے جب میں نے اپنے آنے کی خبر دی تو وہ جذبات کی شدّت سے کچھ بول ہی نہ سکے۔ ۔ ۔ خاموش رہ گئے۔ ۔ ۔ ’’بھیّا۔ ۔ ؟ آپ سن رہے ہیں نہ؟‘‘ ’’آں۔ ۔ ہاں تم سچ مچ آ رہے ہونا؟؟؟‘‘ ان کی آواز بھّرا رہی تھی۔ میں پہونچ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ان کے شفیق سینے سے لپٹا ہوا تھا ان کے جسم سے مجھے ابّا اور امّاں دونوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ ۔ وہ ایک دم ابّا جیسے ہو گئے تھے ویسے ہیسفید بال ویسے ہی دبلے پتلے۔ ۔ چہرے پر وقت سے پہلے ویسی ہی جھرّیاں۔ ۔ گاؤں کی سڑکیں بن گئی تھیں۔ ۔ ۔ دونوں طرف گھنے گھنے پیڑ ہمارے ساتھ تالیں بجاتے ہوئے چل رہے تھے۔ نہر کی پلیا پکّی بن گئی تھی چوڑی سی نہر کا پانی شل شل بہہ رہا تھا بچپن کی کتنی ساری یادیں آئیں اور پانی کے ریلے میں ساتھ ساتھ بہہ رہی تھیں، میں راستے کی خوشبو سے مد ہوش بیٹھا رہا، بھیّا مجھ سے باتیں کر رہے تھے ذکیہ اور بچّوں کے بارے میں، میرے کام کے بارے میں اور نہ جانے کیا کیا۔ ۔ مجھے جیسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ۔ ۔ میں جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہونچ گیا تھا۔ ذرّے ذرّے میں اپنا بچپن ہنستا کھیلتا دکھائی دے رہا تھا۔ ۔ ۔ دل کی تمام گرہیں ایک ایک کر کے کھل رہی تھیں میں جیسے اپنے آپ سے آزاد ہو رہا تھا۔ ۔ جی رہا تھا۔ ۔ ۔ ہنس رہا تھا، رو رہا تھا۔ گاؤں پہونچ کر ہم سب سے پہلے امّاں اور ابّا کی قبر پر گئے برسوں بعد میں ان کی یاد میں سسک سسک کر رویا، میں نے کبھی انھیں یاد نہیں کیا تھا۔ ۔ ۔ کبھی ان کی یاد میں اس طرح آنسوں نہیں بہائے تھے مگر آج جذبات کی شدّت میں روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئی تھیں، بھیّا میری پیٹھ سہلا رہے تھے وہ مجھے سہارا دیے ہوئے تھے۔ گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو ایک نرم اور خنک سی خوشبو نے میرے گال سہلا دئیے۔ ۔ ۔ فیّاض دوڑ کر مجھ سے لپٹ گیا، برامدے میں پلنگ پر ریاض باہیں پھیلائے بیٹھا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے حیرت سے بھیّا کی جانب نگاہ کی تو وہ نظریں چرا گئے۔ دوڑ کر اسے لپٹا لیا۔ ۔ ۔ گل مہر کے نیچے بھابی الگنی پر کپڑے پھیلا رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو جلدی سے کپڑے یونہی پھینک کر ہنستی ہوئی آئیں اور آ کر مجھے گلے سے لگا لیا۔ بھابی کے سامنے کے بال سفید ہو رہے تھے، رنگ کمھلا گیا تھا، ہاتھوں کی نسیں ابھر آئی تھیں۔ ۔ ۔ میری نگاہوں میں وہ خوبصورت، حسین ترین لڑکی آ گئی جو چند برس پہلے پائلیں چھنکاتی اس آنگن میں اتری تھی، گورا رنگ، سیاہ گھٹاؤں جیسے بال۔ ۔ گہرا کاجل لگائے سیاہ شرارتیسی آنکھیں۔ ۔ میں اس ادھیڑ عمر عورت میں اپنی بھابی ڈھونڈ رہا تھا۔ دونوں بچوں نے مجھے گھیر رکھّا تھا، بھابی نے دستر خوان بھر دیا تھا، بھیّا محبت سے مجھے ایک ایک چیز کھلا رہے تھے۔ ۔ ۔ باہر کسی نے آواز دی تو بھیّا اٹھ کر باہر نکل گئے۔ ۔ ۔ پھر ایک لڑکا مجھے بلانے آ گیا۔ ۔ ۔ باہر ’’ہری‘‘ کھڑا تھا۔ ۔ ۔ میرا پیارا دوست۔ ۔ ۔ میرا یار ’’ہری پرشاد‘‘ اور میں اس کی طرف بے تابی سے بڑھا تو وہ جھجھک گیا۔ ۔ ۔ شاید میری ظاہری حیثیت سے۔ ۔ ۔ میں نے اسے ایک دم گلے سے لگا لیا۔ ۔ ’’کیسے ہو دوست۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟‘‘ ’’بہت اچھّا کیہو کہ آئے گیؤ۔ ۔ ۔ ۔ بہت یاد کیا تمکا‘‘ اس نے کاندھے پر پڑے انگوچھے سے اپنے آنسو پوچھے اور معصوم سی ہنسی ہنس پڑا۔ ۔ ۔ ہم دیر تک ٹہل ٹہل کر باتیں کرتے رہے اسی نے ریاض کے پیر کی چوٹ کا بتایا۔ وہ پیڑ سے گر گیا تھا شروع میں گاؤں میں ہی علاج ہوا، شہر جا کر علاج کروانا بھیّا کے لئیے مشکل تھا، اس کے بعد وہ گئے بھی مگر ریاض کا چلنا پھر نا ایک طرح بند ہی ہو گیا۔ ۔ ۔ ایک آپریشن کی ضرورت تھی۔ ۔ ’’اچھّا کیہو تم آئے گئے، بھیّا بے چارے اکیلے پڑ گئے ہیں ‘‘ دوسرے دن اور کئی لوگوں سے ملا، ریاض کی میڈیکل رپورٹس دیکھیں۔ بھیّا سے شہر جا کر رہنے اور اس کے مستقل علاج کی بات بھی کی، رات ہو رہی تھی، باہر کسی نے آواز دی بھیّا اٹھ کر باہر چلے گئے، میں اپنی چائے کی پیالی لئیے ہوئے ہی باہر نکل آیا۔ وہ گاؤں کی طرف چلے گئے تھے ہری باہر کھڑا تھا مجھے دیکھ کر ہنس پڑا۔ ’’کیا ہوا یار۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’تمکا ہوش کہاں رہت ہے ؟ مار چائے پہ چائے اوکے بعد بیڑی سٹا سٹ مارے رہت ہو۔ ۔ ۔ اس نے میری بہترین برانڈ کی سگریٹ کا ’’بیڑی‘‘ کہہ کر ستیا ناس کیا۔ میں کھلکھلا کے ہنس پڑا۔ ایک مدّت کے بعد یہ ہنسی مجھے نصیب ہوئی تھی۔ ۔ میں نے دل ہی دل میں ذکیہ کو شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے میری جنّت لوٹائی۔ ’’ہوا کیا ہے ؟ ’’دین محمد منسی جی یاد ہیں تمکا؟؟ اور وہی جون بڑے مالک کے جمانے ما حساب کتاب دیکھت رہیں ؟؟ بڑے مالک ان کا گھر بنوائے دیہن رہے۔ ۔ کھیت بھی دیہن رہیں۔ ۔ ۔ ابھہن ہم ان کا دیکھا۔ ۔ پلیا پہ بیٹھے گُرُ گرُات رہیں۔ ۔ ان کا اٹھائے کے تپتا پہ بیٹھاوا چاہ پلاوا۔ ۔ ۔ تب جائے کے جان ماں جان آئی۔ مار رُوت رہیں۔ ۔ ‘‘ ’’مگر کس لئیے۔ ۔ ؟‘‘ ’’ارے میاں بی بی ماں لڑائی ہوت رہی لڑکے ان کا مارِن ہیں لاٹھی سے۔ ۔ بچراؤ کا۔ ۔ ‘‘ ’’مگر کیوں مارا ان کو۔ ۔ ؟ ’’وہی جائیداد کی کھاتر مارن ہیں۔ ۔ او تو سنت منئی ہیں لڑکے چاہت ہیں گھر دوار سب لڑکن کے نام لکھ دیں، بے چارے دین محمد کا کا تو اب کچھ نہیں بولت ہیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ پہلے کتنا ہنست بولت رہے مگر جانت ہو؟ دکھُ کا جھیلئے کا یہو ایک طریکہ ہے کہ آدمی چپ ہو جات ہے۔ ۔ ۔ مگر چُپ رہے یا بولئے۔ ۔ دکھی آدمی تو دکھی رہت ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘؟ وہ کیا فلسفہ کہہ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ جس نے میرے اندر ایک تڑپ سی پیدا کر دی۔ ۔ ۔ ۔ بھیّا تو بہت چپ رہنے لگے ہیں دین محمد کا بھی وہیقصّہ تھا جو عام طور سے جائیداد والوں کا ہوتا ہے، وہ جانتے تھے کہ اگر گھر بچّوں کے نام لکھا تو وہ اسے بیچ کر اڑا دیں گے سر چھپانے کی جگہ بھی نہ بچے گی، اسی لئیے بچّوں سے مار کھاتے رہے مگر گھر اور کھیت ان کے نام نہیں کیا۔ ۔ ۔ اور میں کیا کر رہا ہوں ؟؟؟ میرا سر چکرانے لگا تھا۔ ۔ ۔ میں اندر آ کر چپ چاپ لیٹ گیا۔ ۔ ۔ نہ جانے کب سو گیا۔ ۔ ۔ صبح روز کی طرح خوبصورت تھی میں بھابی اور بچوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا تب بھیّا آ گئے اور کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولے ’’یہاں آؤ میاں۔ ۔ ‘‘ وہ ابّا کی طرح بلانے لگے تھے مجھے۔ ۔ ۔ میں جا کر ان کے پاس بیٹھ گیا انھوں نے ایک فائیل میرے سامنے رکھ دی۔ ’یہ سب تمہارا حصّہ ہے اس میں سارے کاغذات ہیں آدھے کھیت دو باغ اور اس گھر میں بھی تمہارا حصّہ بنتا ہے۔ رہنے کو تو تم آؤ گے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ تو اگر مناسب سمجھو تو گھر کا حصّہ مجھے فروخت کر دو، باقی جیسا تم چاہو۔ ۔ ‘‘ میں اٹھ کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ اور ان کے ہاتھ تھام لئیے۔ ’بھیّایہ سب مجھے نہیں چاہیے۔ ۔ بس میں جب بھی آؤں میرا پلنگ اپنے پلنگ کے ساتھ بچھوائے گا۔ بھابی یونہی میرے لاڈ اٹھائیں۔ ۔ ۔ بچّے ایسے ہی مجھ سے فرمائشیں کریں۔ ۔ ۔ اور مجھے کچھ بھی نہیں چاہئیے۔ ۔ ۔ ۔ اور بھیّا۔ ۔ ۔ ۔ اگر کچھ حصّہ فروخت ہو سکے تو کر دیجئے اور ریاض کا علاج ٹھیک سے کروا دیجئے۔ ۔ میرے ویزے کی مدّت ختم ہو رہی ہے چھّٹی بھی۔ ۔ ۔ ورنہ میں خود۔ ۔ ۔ اگر یہاں ممکن نہ ہو تو میرے پاس آ جائیے۔ ۔ ۔ ‘‘ میری آواز بھّرانے لگی تو بھیّا نے فائیل رکھ کر مجھے گلے لگایا لیا، ہم دونوں بھائی جدائی کے صدمے سے نڈھال بیٹھے رہے۔ چلتے وقت کچھ چیزیں نکال کر میں نے اپنا والٹ ہری کی قمیض کی جیب میں زبر دستی ڈالا وہ ناراض ہونے لگا ’’ای کا کرت ہو؟؟؟؟‘‘ ’’پلیز۔ ۔ کچھ مت بولا ہری۔ ۔ ۔ ‘‘: اس نے بھیگی بھیگی نظروں سے مجھے دیکھا پھر ایک جیسے دو انگوچھے نکالے ‘‘ ای دیکھو ہم تمرے واسطے لائے۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے ایک انگوچھالے کر چوم کر آنکھوں سے لگایا اور گلے میں ڈال کر آنسو بھریہنسی ہنس دیا۔ ۔ ۔ میں واپس لندن آ گیا ہوں۔ ۔ ۔ سب کچھ ویسے ہی ہے۔ میں وہاں سے لازوال یادیں ساتھ لے کر آیا ہوں۔ میں نے اپنی بیٹیوں کو سوہاں کے قصّے سنائے بھابی کی دی ہوئی سوغاتیں انھیں اور ذکیہ کو دیں مگر ذکیہ نے وہ ساری کی ساری پھینک دیں۔ میں کیا کہتا۔ ۔ ۔ ؟ میرا لڑنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ ۔ بس ہری کی ایک بات میرے ساتھ چلتی ہے کہ دُکھ کا مقابلہ کرنے کا ایکیہ بھی طریقہ ہے کہ آدمی چُپ ہو جائے۔ ۔ ۔ اور میں چپ ہو گیا ہوں۔ ۔ ۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...