دہلی کا نقشہ اس نے اپنی اسکول کی کتابوں میں ہی دیکھا تھا، اور وہ راستہ کب اس کے پیروں تلے گزر گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کا سفر رات ہوتے ختم ہوا۔ وہ ایک بلند و بالا جگمگاتی ہوئی عمارت کے سامنے کھڑی آنکھیں پٹپٹا رہی تھی۔ اس کے لئیےیہ سب ایک خواب سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ وہ ایک خوبصورت پانچ ستارہ ہوٹل تھا جہاں انھیں اس کے پاسپورٹ بنّے تک قیام کرنا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب رات آئی توا پنے قیامت لے کر آئی۔ وہ تو ابھی ان با توں سے واقف بھی نہ تھی۔ ۔ ۔ ایک بچّی تھی وہ۔ رات گزرتی رہی خواب ٹوٹتے رہے، صبح ہوتے ہوتے وہ حقیقت کی دنیا میں سورج کی روشنی سے آنکھیں چرائے بیٹھی اسے فطری طور پر گھر کی یاد ستانے لگی۔ ۔ ۔
کون آ رہا ہے امّاں ’’اس نے اسکول کا بستہ پھینکا اور بلنگ پر رکھّی ڈلیا سے ایک سیب اٹھالیا۔ ’’ارے رک تو سہی۔ ۔ رکھ دے یہ سیب ’’اماں باورچی خانے سے چلّائی۔ ’’کیا اسمیں کچھ ہے ؟‘‘ اس نے گھبرا کر سیب واپس ڈلیا میں رکھ دیا۔ ’’نہیں بٹیا۔ ۔ ۔ ! تیرے ابّا کے کوئی ملنے والے آ رہے ہیں تو تھوڑے سے یہ پھل۔ ۔ ۔ ‘‘ انھوں نے چینی کا اکلوتا ڈونگا دھو کر ایک طرف رکھّا اور اس کی طرف دیکھ کر بولیں ’’تو نہا دھولے ذرا۔ ۔ اپنا عید والا جوڑا پہن لے۔ ۔ ۔ مہمان آ رہے ہیں نا؟؟‘‘ ’’عید والا؟‘‘ اس نے حیرت سے امّاں کی طرف دیکھا کہیں مذاق تو نہیں کر رہی ہیں۔ وہ جوڑا تو امّاں چھونے بھی نہیں دیتی تھیں کئی بار اس نے اپنی سہیلی کے گھر جاتے وقت پہنّے کی کوشش کی مگر ہر بار پھٹکار ہی ملی۔ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سلمی سے کہہ آؤں۔ ۔ ؟ وہ پھر باہر بھاگی۔ ۔ ’’نہیں رک جا۔ ۔ ۔ سن تو۔ ۔ ‘‘ امّاں پھر بے چین ہو کر پکاریں۔ ’’مگر امّاں۔ ۔ چائے کا سیٹ تو وہیں سے آئے گا نا؟ ’’نہیں آئے گا۔ ۔ میں نے تیرے لئیے جو رکھا تھا وہ نکال لیا ہے ’’وہ سر جھکا کر واپس باورچی خانے میں چلی گئیں۔ وہ کچھ حیران حیران سی امّاں کو دیکھے گئی۔ ۔ اس کو یاد تھا کہ بچپن سے ابّا کی قلیل آمدنی اور امّاں کے صبر سے یہ گھر چل رہا تھا نہ تو امّاں اپنے لئیے کوئی فرمائش کرتیں نہ ان دونوں کے لئیے۔ وہ سب کچھ محسوس کرنے لگی تھی مگر اپنی ساری حسرتیں دل میں رکھ کر چپ چاپ دال چاول کھا کر سو جاتی۔ سلمی اور سویرا کی امّی اکثر اسے دوپہر کے کھانے کے لئیے روکتیں مگر اس کی انا کو گوارا نہ ہوتا۔ ان کے گھر پر پکنے والے سالن کی خوشبو اسے کبھی کبھی بہت بے چین کر دیتی تھی مگر وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے وہاں سے بھاگ آتی۔
ابّا کے دوست آ گئے تھے آج اس کے گھر یہ پہ بھی سالن کی بہت اچھی سی خوشبو آ رہی تھی۔ کھیر بھی ایک عرصے کے بعد امّاں نے پکائی تھی مگر نہ جانے کیوں امّاں کی آنکھیں سرخ تھیں۔ ۔ ۔ شاید دھویں سے ؟ جی بھر کے سالن روٹی کھائی اس نے۔ ۔ ایک پیالہ کھیر بھی امّاں نے اس کا پیالہ دوبارہ بھرنا چاہا تو اس نے منع کر دیا۔ ۔ ۔ کتنا کھا سکتی تھی وہ؟ اس کی طلبی ہو گئی۔ ۔ ۔ کمرے میں ابّا نہیں تھے وہ جا کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟ انھوں نے اسے گھورتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔ ’’انیسہ۔ ۔ ‘‘ اس نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھایا۔ ’’بہت اچھا نام ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ پیالی تھماتے ہوئے اس کی انگلیاں ان کی موٹی بھدّی انگلیوں سے الجھ گئیں۔ اس نے کچھ شرمندہ ہو کر کچھ سوچا۔ نازش، سلمی سویرا۔ ۔ یہ ہوتے ہیں اچھّے نام۔ ۔ ۔ میرا نام تو کتنا پرانا پرانا سا ہے۔ ’’آپ کہاں رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘ اس نے یو نہیں بے تکا سا سوال کیا۔ وہ مسکرائے پیالی ہاتھ سے رکھّی۔ ۔ ’’دبئی میں۔ ۔ ۔ ‘‘ تب ہی اسے دوسرا سوال سوجھ گیا۔ ۔ ’’میں گڑیاں بنانا سیکھ تی ہوں دکھاؤں آپ کو۔ ۔ ؟‘‘ ’’ہاں دکھاؤ۔ ۔ ’انھوں نے اسے بغور سر سے پاؤں تک دیکھا، وہ تو بھاگنے کا بہانہ ڈھونڈ رہی تھی جھٹ پٹ بھاگی۔ ۔
’’امّاں کون ہیں یہ؟ عجیب طرح سے دیکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ میں نہیں بیٹھوں گی وہاں۔ ۔ ‘‘ وہ امّاں سے سٹ کر وہیں بیٹھ گئی۔ انھوں نے اسے ایک دم لپٹا لیا۔ ’’بیٹی اچھّے آدمی ہیں۔ ۔ ۔ مسلمان ہیں اور تیرے ابّا کو کام بھی دلوا رہے ہیں دوبئی میں۔ ۔ ۔ ‘‘ پیار سے اس کے بال سنوارے پھر بولیں۔ ’’عامرہ اچھّے اسکول جانے لگے گی۔ ۔ تیرے لئیے بھی کل جا کر اچھے سوٹ لے کر آؤں گی۔ ۔ یہ سب انھوں نے کیا ہے۔ ۔ برے آدمی نہیں ہیں بیٹا۔ ۔ ۔ ہر آدمی کا اپنا مزاج ہوتا ہے نا؟ تو تو میری بڑی سمجھدار بیٹی ہے۔ پھل کھائے گی؟ لے لے ’’انھوں نے کئی پھل اس کے سامنے رکھ دئیے ان کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔ ’’ہاں ہاں ٹھیک ہے پر تم رونے کیوں لگیں امّاں ؟‘‘ ’’ارے کچھ نہیں یہ بس یہاں دھواں ہو رہا ہے نا۔ ۔ ۔ ‘‘ آج گھر میں سلمی کے گھر جیسی خوشبو آ رہی تھی۔ ۔ اچھّے کھانوں کی خوشبو، پھلوں کی خوشبو۔ ۔ اچھّے دنوں کی خوشبو۔
شام کو چند لوگوں کی موجودگی میں اس تیرا برس کی بچّی کا نکاح ساٹھ برس کے عبدل مجید کے ساتھ ہو گیا۔ اور شام کو وہ لوگ دہلی کے لئے روانہ ہو گئے۔ چلتے وقت جب امّاں اس کی ضرورت کی چیزیں ایکسوٹ کیس میں رکھ رہی تھیں تو وہ اپنے جمع کئیے ہوئے وہ موتی لینے دوڑی جو وہ اکثر ٹوٹے ہوئے ہار اور بندوں سے جمع کیا کرتی تھی۔ ایک چھوٹا سا ڈبہ جس کا ڈھکن ٹھیک سے بند بھی نہیں ہوتا تھا۔ ۔ ۔ اس نے جلدی سے اٹھانا چاہا۔ ۔ ۔ ڈبّہ کھل گیا اور سارے موتی۔ ۔ فرش پر بکھر گئے۔ ۔ ۔ ابّا اسے پکار رہے تھے۔ ۔ ۔ وہ حسرت سے ان گرے ہوئے موتیوں کو دیکھتی ہوئی آ کر باہر کھڑی ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ وہ راستہ کب اس کے پیروں تلے گزر گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ ۔ ۔ ۔ اور رات میں ناجانے کون سا وقت تھا جب ساتھ برس کے عبدل مجید اس پر چھا گئے اور اس کی چیخیں نکل نے لگیں۔ ۔ نہ جانے کب تک وہ بے ہوشی کے سمندر میں تیرتی رہی اور کب ہوش میں آئی۔ یہ سب کچھ اس کی نازک ذہنیت کے لئیے ایک کربناک عذاب تھا۔ ہوٹل کے سامنے اس لٹی پٹی حالت میں جب شازیہ اسے دیکھا تو چونک گئی۔ ۔ ۔ اس چھوٹے سے اسکول کی یہ ذہین بچّی اب بھی کہیں اس کی یاد داشت میں تھی۔ اسکول کی نوکری چھوڑ کر اس نے اب ایک این جی او کا کام سنبھالا تھا۔ ’’کیا بات ہے بے بی۔ ۔ ؟ وہ قریب آ گئی اور انیسہ کو خبر بھی نہ ہوئی دل ہی دل میں اماں اور ابّا سے فریاد کرتی رہی۔ ’’ہیلو۔ ۔ ‘‘ شازیہ اس کے پاس ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی اس نے چونک کر دیکھا۔ ’’ڈر کیوں گئیں ؟ مجھے پہچانا نہیں ؟ میں تمہاری شازیہ میم۔ ۔ بھول گئیں ؟‘‘ وہ بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔ ۔ ۔ ۔ انکل نہیں آئے تمھارے۔ ۔ ؟ ’’وہ انکل نہیں ہیں۔ ۔ ‘‘ اس کے ہونٹوں سے چیخ کی صورت میں نکلا۔ ۔ ۔ ’’کون ہیں پھر؟؟؟‘‘ ’’پتہ نہیں کون ہیں۔ ۔ ۔ مجھے بچالیجئے میم۔ ۔ ۔ وہ مار ڈالیں گے مجھ۔ ‘‘ اس کے آنسوؤں میں روانی آ گئی۔ شازیہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے بے اختیار انیسہ کو گلے سے لگالیا۔ ’’اچھا تم رو نہیں۔ ۔ ڈرو نہیں بتاؤ مجھے تم یہاں کیسے آ گئیں ‘‘ پانی پیکر اس کے حواس بجا ہوئے تو اس نے جو بتا سکی وہ شازیہ کے گوش گزار کیا۔ ’’میم وہ بہت خراب ہیں۔ ۔ گندے آدمی ہیں۔ ۔ مجھے نہیں رہنا ان کے پاس انہوں نے بہت برا کیا میرے ساتھ‘‘ وہ شازیہ سے لپٹی جا رہی تھی۔ ’’اچھا سنو سب ٹھیک ہو جائے گا تم گھبراؤ مت میں کوشش کرتی ہوں ‘‘ وہ اسے گلے سے لگائے سوچتی رہی۔ اس کا واحد حل یہی تھا کہ پولیس میں شکایات کی جائے بچّی بہت چھوٹیتھی۔ کیس کافی مضبوط تھا۔ بس تھوڑا وقت چاہئیے تھا۔ ۔ ۔ وہ اسے اپنے کمرے میں سلا کر باہر آ گئی۔ کئی لوگوں سے فون پر بات کرتی رہی۔ کامیابی کی کافی امید تھی۔ دوپہر تک گہری نیند سے وہ اٹھی تو ایک برے خواب کی طرح اسے ساری باتیں یاد آ گئیں۔ اسے شازیہ میم پر پورا بھروسہ تھا وہ کمرے میں لیٹے لیٹے اپنے کو آزاد تصور کرتی رہی۔ ۔ ۔ اچانک اس کے ننھے سے ذہن میں ایک بجلی سی کوندھ گئی۔ ابّو کو دبئی میں نوکری نہیں ملے گی، عامرہ کا اچھے اسکول میں داخلہ نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ گھر میں سالن نہیں پکّے گا اور جو کوئی دوسرے ’’انکل‘‘ آئے اور ان کے ساتھ پھر آنا پڑا تو؟؟وہ شازیہ کے بستر سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آ گئی۔ ۔ ۔ سامنے اس کا کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ عبدل مجید حیران سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔ اسے دیکھ کر جلدی سے اس کے قریب آ گئے۔ ’’کہاں چلی گئیں تھیں ؟؟؟ انھوں نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اور ان کے ساتھ کمرے میں آئی اور دروازہ بند کر دیا۔
٭٭٭