آج تقریباً ایک ہفتہ کے بعد ٹھیک سے بیٹھ کر آرام سے آئینہ دیکھنے کی مہلت ملی تھی صبح کے دس بجے ہوں گے۔ کمرے کا مشرقی دریچہ کھول دیا تھا، بڑی نرم سی خوشگوار، سبک ہوا چہرے کو چھو رہی تھی اچانک ہی میں چونک پڑی۔ ۔ ارے تو کیا میں بوڑھی ہو رہی ہوں ؟؟؟ سنبھل کر آئینہ مضبوطی سے پکڑ لیا پوری آنکھیں کھول کر دھیان سے دیکھا، واقعی چہرہ بجھا بجھا سا تھا، میں افسردہ سی پلنگ کے کنارے ٹک گئی۔ ایک بار پھر آئینے کو گھورا مگر بھلا گھورنے سے اس کا پارہ تھوڑی مر جاتا ہے۔ یہ تو آجکل کی لڑکیاں پرا ئیمری کلاس سے نکلیں اور پہونچ گئیں بیوٹی بارلر۔ ۔ ۔ نہ جانے کیا کیا کرواتی ہیں تھریڈنگ، ہیر ڈریسنگ۔ ڈایٹنگ اور خدا جانے کیا کیا۔ ۔ نہیں سیکھیں گی تو گھر داری۔ ۔ برتن نہیں دھوتی ہیں کہ ہاتھوں کا ستیا ناس ہو جائے گا۔ کھانا ان سے نہیں پکتا۔ کپڑے دھوئیں گئی تو ناخون ٹوٹ جائینگے۔ ایک ہم ہیں ساری زندگی کام میں لگے رہے نوکروں کے ہوتے باورچی خانے میں گھسے رہے، جلد کا حال خراب کر لیا۔ میاں جی کی خوشنو دی میں بریانی کوفتے بناتے رہے، ان کے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھونا اپنی خوش نصیبی سمجھتے رہے۔ ۔ ۔ دنیا بھر کے کام لاد لئیے اور۔ ۔ ۔ گالوں کو بے رونق کیا۔ ۔ ۔ میاں دیر میں آئے تو پیشانی پر سلوٹیں۔ ۔ بچوں نے ضد کی تو تیوری چڑھ گئی۔ ۔ اور تو اور۔ ۔ جب امّاں بی کو زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی تو پھر کیا اندر کا سارا پانی جل کے خاک ہو جاتا۔ ۔ ۔ بس اس ضد پر تو پہلے سے اپنے کو ٹھیک ٹھاک کرنے کے لئے بیوٹی پارلر ضرور جانا ہے۔ ۔ ۔ کوئی خرچہ ورچہ نہیں دنیا کسی کو۔ ۔ ۔ اس بار جی بھر کے اپنی ذات پر خرچ کرنا ہے۔ ۔ ۔ میاں صاحب بھی تو اب نظر بھر کے نہیں دیکھتے۔ ۔ فرصت کہاں ؟ اور وجہ تو یہی ہے کہ میری صورت ہی ایسی ہو گئی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ نند صاحبہ اپنا گھر چھوڑ کے آ بیٹھی ہیں۔ ۔ ۔ ان کا خرچ الگ، کپڑے لتّے بناؤ کھلاؤ پلاؤ جان مارو۔ ۔ ۔ ۔ مگر کس کو فکر؟؟ ہم سے اب نہ ہو گا میں کہیے دیتی ہوں اس بار میں کہے دیتی ہوں اس بار میاں جی سے صاف بات کرنی ہے مجھے عید سے پہلے کم از کم دس ہزار اپنے لئیے لینے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ چاہے کہیں سے بھی دیں۔ ۔ ۔ مجھے نہیں پتہ۔ ۔ ۔ چہرہ ٹھیک ٹھاک کروانا ہے۔ بال ترشوانا ہے اور ہاں پیڈی کیور مینی کیور بھیکرواؤں گی۔ ۔ مگر پھر سارے خرچوں کا سوچ کر ٹھنڈے پسینے آنے لگے کہاں سے ہو گا یہ سب؟؟؟ بھلا حسنِ جہاں سوز کا خرچہ کہاں سے نکلے گا۔ اب ایک بار پھر نا امیدی کا کالا سمندر تھا اور میں اکیلے آدمی کو بہکانے کے لئیے شیطان بھی تیّار ہی بیٹھا رہتا ہے۔ ۔ ۔ اکیلے اس لئیے کہ ساس اور نند کے پاس بیٹھ کر وقت ضایع کرنے سے اچھا اکیلے بیٹھنا لگتا ہے۔ سو ہم نے پکّا ارادہ کر لیا۔ ۔ ۔ اس بار امّاں بہن کو کچھ دینے کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ اور ایک عزم سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تھوڑی بہت ڈسٹینگ کی رمضان میں کھانے سے تو فرصت ہی مل جاتی ہے۔ ۔ ۔ کئی بار سوچا قران اٹھا لوں تلاوت کر لوں۔ ۔ ۔ مگر ذہن میں جملے ترتیب دینے تھے، کس طرح میاں کو قائل کرنا ہے کہ اس بار ’’ان لوگوں کو پیسے نہ دیں۔ ۔ ۔ شام کے لئیے چنے بھگو دئے۔ ۔ ۔ نند صاحبہ شام کو اکثر کوئی اچھی ڈش بنا دیتی تھیں۔ ۔ چلو اس سے بھی مجھے فرصت ہو گئی۔ شام کو گھنٹہ دو گھنٹہ امّاں کے پاس بیٹھ کر ہی کمرے میں آتے ہیں۔ ۔ ۔ چلو یہ تو کوئی بات نہیں بس میں ٹھیک سے ان کو قائل کر لوں۔ ۔ ۔ کسی طرح میری پریشانی سمجھ جائیں تو اور بہن کو دینے والے پیسےروک کر مجھے دے دیں۔ پہلے میں ہوں۔ ۔ ۔ سوچتے سوچتے نیند آنے لگی اور وہیں ڈر ائنگ روم میں ہی سو گئی آنکھ کھلی تو دیکھا میاں جی سامنے بیٹھے مجھے دیکھ رہے تھے چہرے پر پریشانی تھی۔ ’’کیا ہو گیا۔ ۔ یہاں کیوں سو گئیں ؟؟‘‘ ’’بس وہ ڈسٹنگ کر رہی تھی نیند آ گئی‘‘ چلو کمرے میں لیٹ جاؤ۔ ۔ اب تو افطار کا وقت بھی قریب ہے۔ ۔ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟؟ وہ فکر مندی سے پیشانی چھو کر دیکھ رہے تھے ’’ہاں ٹھیک ہوں بس۔ ۔ ‘‘ میں آہستہ آہستہ اٹھ کر کچن کی طرف گئی۔ دیکھا دونوں ماں بیٹی افطار اور کھانا بنا چکی تھیں اب پلیٹیں نکال رہی تھیں۔ ۔ مجھے دیکھ کر بولیں ’’کیا ہوا دلھن؟؟ کیسی طبیعت ہے ‘‘ ’’ٹھیک ہوں ‘‘ میں نے لٹھ سا مار دیا اور کمرے میں چلی آئی بستر پر ڈھیر ہو گئی۔ ۔ آہ کتنا آرام ملا۔ ۔ ۔ صوفے پر تو کمر تختہ ہو گئی تھی۔ یہ الگ بیٹھے اخبار دیکھ رہے تھے۔ ’’سنئیے۔ ۔ ‘‘ ’’ہاں جی بولئیے ‘‘ انھوں نے اخبار کا کونہ ہٹا کر مجھ پر نظر ڈالی۔ ’’وہ میں یہ کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ کہ امّاں بی اور نگہت آپا کو جو پیسے۔ ۔ ‘‘ پوری بات منھ سے نکلی بھی نہیں تھی کہ وہ ایک دم اخبار رکھ کر میرے قریب آ گئے بولے ’’کتنی عظیم ہو تو شیریں۔ ۔ تمہارا نام ہی شیریں نہیں تم سچ مچ شیریں زبان ہو۔ ۔ کتنی فکر ہے تمکو امّاں اور باجی کی۔ ۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ۔ بلکہ میں تو سمجھ رہا تھا تم عید کے پیسے دینے نہیں دو گی مگر میں غلط تھا۔ ۔ مجھے معاف کر دو شیریں میں نے تمہارے لئے ایسی بات سوچی بھی کیسے ؟‘‘ انھوں نے ہتھیلیوں میں میرا چہرہ تھام لیا تھا اور بول رہے تھے کتنا چاند سا چہرہ ہے میری بیگم کا کسی میک کے آپ کے بغیر چمکتا ہے ‘‘۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...