مَیں ایک سیدھی سادی، دیانتدارانہ زندگی بسر کرتاہوں، میرے دل اور میری زبان کے درمیان پوری موافقت ہے۔ لوگ منافقت کی مدح وثنا کرتے ہیں۔ اگر شہرت، عزت اور ستائش حاصل کرنے کے لیے مجھے منافقت اختیار کرنی پڑے، تو مَیں گمنامی اور کسمپرسی کی حالت میں مرنا زیادہ پسند کروں گا۔ عوام کو جن کی گردن پر راون کی طرح کئی سر ہیں، اُن لوگوں کا احترام کرنے دو جو مذہب اور اخلاق کے متعلق عوام کے جھوٹے اور بے بنیاد نظریات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ مَیں اُن کے رسوم و روایات کے سامنے سرجھکانے اور ذہنِ انسانی کی آزادی کو دبانے سے بالکل قاصر ہوں، بائرن، گوئٹے اور شیلے کے معاصرین اُن کی عزت نہیں کرتے تھے۔ مَیں اگرچہ اُن کے مقابلے میں قوتِ شعری کے اعتبار سے کم ترہوں، پھر بھی مجھے فخر ہے کہ کم ازکم اس معاملے میں اُن کا ہمسر ضرور ہوں… دُنیا میری پرستش نہیں کرسکتی اور نہ مَیں اپنے آپ کو پرستش کے قابل سمجھتا ہوں، کیوں کہ مَیں تو فطرتاً خود پجاری ہوں، لیکن اگر میری رُوح کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے خیالات لوگوں پر ظاہر ہوجائیں، اگر وہ باتیں جو مرے دل میں پوشیدہ ہیں، سامنے آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ دُنیا میری موت کے بعد ایک نہ ایک دن ضرور میری پرستش کرے گی۔ لوگ میری کوتاہیوں کو بھول جائیں گے۔ اور آنسوئوں کی صورت میں مجھے خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔ [خط بنام عطیہ فیضی: اقبال از عطیہ بیگم (انگریزی)]
یہ سطور اُس خط سے مقتبس ہیں جو علامہ اقبال نے ۱۹۱۰ء میں حیدرآباد (دکن) کے سفر کے بعد عطیہ فیضی کے اس طعنے کے جواب میں لکھا کہ شمالی ہندوستان کے لوگ اُن کا (اقبال کا) کماحقہ احترام اور تعریف نہیں کرتے،… اس لیے ان سطور کو اقبال کی ذہنی تشکیل کے ابتدائی ادوار کی ایک جھلک قرار دینا چاہیے۔ لیکن ان سطور میں اقبال کی شخصیت کے بعض اہم پہلوئوں کے بارے میں خود اقبال کا تبصرہ، انھیں اقبال فہمی اور اقبال شناسی میں خاص اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال کی عملی زندگی اُن کے اپنے بیان کی پوری تائید کرتی ہے۔ اس خط کی روشنی میں اپنے بارے میں اقبال کے تبصرے کا تجزیہ یوں ہوگا:
۱- مَیں ایک سیدھی سادھی، دیانتدارانہ زندگی بسر کرتا ہوں۔
۲- میرے دل اور میری زبان کے درمیان پوری موافقت ہے۔
۳- اگر شہرت، عزت اور ستائش حاصل کرنے کے لیے مجھے منافقت اختیار کرنی پڑے تو (اس صورت میں مَیں) گم نامی اور کسمپرسی کی حالت میں مرنا زیادہ پسند کروں گا۔
۴- عوام الناس کی تعریف حاصل کرنے کے لیے مَیں اُن کی رسوم و روایات کے سامنے سرجھکانے اور ذہنِ انسانی کی آزادی کو دبانے سے بالکل قاصر ہوں۔
۵- مَیں قوتِ شعری کے اعتبار سے بائرن، گوئٹے اور شیلے سے کم تر ہوسکتا ہوں لیکن اس اعتبار سے ان کا ہمسر ہوں کہ اُن کے معاصرین کی طرح میرے معاصرین بھی میری عزت نہیں کرتے۔
۶- مَیں خود کو پرستش کے قابل نہیں سمجھتا کیونکہ مَیں فطرتاً خود پجاری ہوں، لیکن اگر میرے چھپے ہوئے خیالات لوگوں پر ظاہر ہوجائیں تو وہ میری کوتاہیوں کو بھول کر ضرور میری پرستش کریں گے اور مجھے آنسوئوں سے خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔
اقبال کو قدرت نے پیش بینی اور پیش گوئی کی جو زبردست صلاحیت دی تھی، وہ محولہ بالاسطور کے آخری حصے سے پوری طرح ظاہر ہورہی ہے، اُن کے افکار کے ظاہر ہوجانے پر، اُن کے کلام اور اُن کے افکار کو جو غیرمعمولی قبولیت اور مقبولیت حاصل ہوئی، اسے شاعری کی زبان میں ’پرستش‘ ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، اُن کے کلام میں دلگدازی اور رقت انگیزی کی حیرت انگیز صلاحیت ہے، اُن کے اشعار جس طرح انسانوں میں وفورِ جذبات کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں، اُس کے پیشِ نظر اقبال کی یہ پیشین گوئی بھی غلط نہیں کہ ’’(لوگ) آنسوئوں کی صورت میں مجھے خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔‘‘ تاہم ان سطور میں اقبال نے اپنی زندگی کی جس خصوصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ ایک سیدھی سادی اور دیانتدارانہ زندگی ہے، اس جملے کا پہلا حصہ نفسیاتی اور دوسرا اخلاقی معنوں کا حامل ہے۔ اگرچہ پہلے حصے پر بھی اخلاقی نقطۂ نظر سے حکم لگایا جاسکتا ہے، لیکن ’سیدھی سادی‘ سے مراد زیادہ تر طرزِ زیست ( mode of living) ہی لی جاسکتی ہے، اور ’دیانتداری‘ کا تعلق زندگی کی عملی اخلاقیات سے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال اپنی خاندانی روایات اور اپنے طبعی میلانات کی رُو سے ایک بے ریا اور بے تکلف زندگی بسرکرتے تھے، اُن کی زندگی میں کہیں بھی ریاکاری (pretesion) کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح اُنھوں نے معلومہ حد تک اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی قانوناً یا اخلاقاً کسی بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نہ ہی کبھی شہرت، عزت، ستائش کی خاطر منافقت سے کام لیا۔ اگر اُن میں ’منافقت کا جوہر‘ ہوتا تو وہ دُنیاوی اعتبار سے کہیں زیادہ کامیاب انسان ثابت ہوتے،… اہلِ منصب اور اربابِ ریاست سے اُن کے مراسم ضرور تھے، لیکن اُن مراسم کی خاطر اُنھوں نے اپنی ذہنی آزادی اور عزتِ نفس کو کبھی قربان نہیں کیا۔ وہ بیک وقت ایک حقیقت پسند اور خواب بیں (visionary) انسان تھے، اپنی ذاتی زندگی میں حقیقت پسند اور اپنی قوم و ملت کے لیے ایک ’خواب بیں‘… لیکن اس ’خواب بینی‘ میں بھی اُن کی نظر ہمیشہ خارجی اُمورِ واقعی اور معروضی حقائق پر ہوتی تھی، وہ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ ان میں سچا انکسار بھی موجود تھا، بائرن، گوئٹے اور شیلے کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمتر شعری صلاحیتوں کا حامل قرار دینا تو اُن کے انکسار کی بدولت ہے، اسی طرح جب اسرارِ خودی کی پہلی اشاعت کے بعد، استحکامِ خودی کے تصور اور خواجہ حافظ شیرازی پر جارحانہ تنقید کے باعث اُن کے خلاف نام نہاد صوفیا و مشائخ کی مخالفت میں شدت پیدا ہوگئی تو اُنھوں نے اپنے ایک خط میں اسی نوع کے انکسار سے کام لیتے ہوئے لکھا:
اگرچہ میں کوئی غیرمعمولی ذہانت اور فطانت رکھنے والا آدمی نہیں ہوں، اور نہ کوئی غیرمعمولی علم رکھتا ہوں، تاہم عام لوگوں سے علم اور سمجھ کسی قدر زیادہ رکھتا ہوں۔ جب مجھ کو اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے بیس سال کی ضرورت ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ عام لوگ جو دُنیا کی دماغی اور علمی تاریخ سے پورے واقف نہیں تھوڑے غوروفکر سے اس کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔
[مکتوب محررہ، ۱۰؍مئی ۱۹۱۶ئ، صحیفہ، اقبال نمبرص۱۷۰]
اُن کے دل اور اُن کے زبان (اور قلم) کے درمیان جو حیرت انگیز موافقت تھی، اُس کے اخلاقی مضمرات وثمرات سے قطعِ نظر، اُس کی نفسیاتی معنویت بھی کم اہم نہیں۔ اگرچہ اُن کے سوانح نگاروں میں سے بعض کا خیال ہے کہ اُن کو معاشی تگ و دو میں اپنے لٹریری کام کی طرف توجہ دینے کا زیادہ وقت نہیں ملتا تھا۔ لیکن عمومی صورتِ حال میں اُن کی پوری زندگی ایک بے پناہ تخلیقی عمل سے عبارت دکھائی دیتی ہے، جس میں از اوّل تا آخر شاعر کے دل (تخلیقی تجربے) اور زبان یا قلم (صیغۂ اظہار) میں حیرت انگیز حد تک کامل مطابقت دکھائی دیتی ہے۔ اُن کی زندگی میں اس حقیقت کے آثار و شواہد اُن کے عنفوانِ شباب ہی سے ملتے ہیں کہ وہ اپنے ہر خیال اور ہر جذبے کو موزوں اور مناسب پیرائے میں بیان کرتے چلے جانے کے عادی تھے۔ خیال اور اُس کے اظہار میں اُن کے ہاں کوئی فصل یا پردہ دکھائی نہیں دیتا۔ خیال اور اُس کے اظہار میں اُن کے ہاں ایک مکمل یگانگت دکھائی دیتی ہے۔ جدید نفسیاتی استعارے میں اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی ذات کے ’مکالمے‘ کو زندگی کی ہر سطح اور ہر دور میں جاری رکھا، اس خوبی نے اُن کے عملِ تفکر (thought process) کے جاری رہنے اور اُس کی نشوونما میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ اظہارِ خیال کے اعتبار سے اُن کی پوری زندگی میں ایک ارتجال اور بداہت (spontaneity) کا عمل جاری و ساری دکھائی دیتا ہے۔ تحلیلِ نفسی اور تحلیلی نفسیات کے نقطۂ نظر سے یہ اُن کی ذہنی صحت کی سب سے بڑی علامت تھی کہ اُن کا اندرونی مکالمہ، ایک دن کے لیے بھی، بلکہ شاید ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رُکا۔ مجلسی زندگی اور شاعری میں اُن کا مخاطب کوئی بھی رہا ہو۔ اُن کی ساری زندگی ’من و تو‘ کے مکمل اور بھرپور رشتے کی تصویر دکھائی دیتی ہے، اُنھوں نے اپنے ’تو‘ کو ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ اس ارتجال اور بداہت کا ایک بہت بڑا ثبوت اُن کے مکاتیب ہیں، جو بتاتے ہیں کہ انھوں نے کسی بھی خط کا جواب دینے میں کبھی تساہل نہیں برتا، کبھی غیرمعمولی تاخیر نہیں کی، کبھی کسی کے خط کو نظرانداز نہیں کیا، شخصی سطح پر یہی خوبی ایک ایسی خوبی ہے جو اُنھیں ذہنی اور اخلاقی طور پر ایک زندہ انسان ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ عام فہم الفاظ میں اُنھوں نے ’وقت کبھی ضائع نہیں کیا۔‘ اُن کا علم و فضل، اُن کی وسعتِ مطالعہ، اُن کے علمی و ادبی کارناموں کی ضخامت، اُن کے بروقت لکھے ہوئے خطوط اور اُن کی مجلسی زندگی کے احوال بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے زندگی کے کسی تجربے، کسی خیال اور کسی صورتِ حال کو فکری اور تخلیقی اعتبار سے ضائع نہیں ہونے دیا۔ بے شک اُنھوں نے دُنیاوی زندگی کو اپنا مطمحِ نظر نہیں بنایا، اور اپنی پوری زندگی ملتِ اسلامیہ کے احیا و اتحاد کے لیے وقف کیے رکھی، لیکن اُنھوں نے دُنیاوی زندگی کو حقیر اور ناقابلِ اعتنا گردانتے ہوئے اُسے رَدّ بھی نہیں کیا۔ اور اُسے قبول کرتے ہوئے کبھی اپنے انسانی وقار پر بھی آنچ نہیں آنے دی۔ اُنھوں نے وظائف بھی قبول کیے (شاید اُن کی انھیں ضرورت بھی تھی) لیکن اپنی زندگی اور اپنے فکری سفر میں وہ کہیں بھی ایک عام و ظیفہ خوار شاعر کی طرح دکھائی نہیں دیتے۔ مجلسی زندگی میں اُنھوں نے کہیں بھی جھوٹی انانیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اکبر الٰہ آبادی، مولانا حالی، اور مولانا گرامی کے ساتھ اپنے روابط میں اُنھوں نے ثابت کردکھایا کہ وہ بزرگی اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں۔ نواب مرزا داغ دہلوی، پروفیسر آرنلڈ اور علامہ میرحسن کے لیے اُن کے احترام اور محبت میں ان کے ہاں کبھی کمی نہیں آئی۔ جن معاصرین نے اُن سے اختلاف رائے کیا۔ اقبال نے اُ ن کے ساتھ مراسلت میں بھی تہذیب و شائستگی کے اعلیٰ معیاروں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا۔ اُنھوں نے اپنے کسی مخاطب کی کبھی تحقیر نہیں کی۔ لیکن کسی مخاطب سے کبھی مرعوب بھی نہیں ہوئے۔ وہ اعتراف کے قائل تھے، لیکن کسی سے مرعوب نہیں تھے۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی کی علمی فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے اقبال نے اُنھیں ’علومِ اسلامیہ کی جوئے شیر کا فرہاد‘ کہا۔ علمائے کرام کا وہ بالعموم بے حد احترام کرتے تھے اور کسی مسئلے میں استفسار کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ جس شہر میں بھی جاتے وہاں کے اہلِ کمال سے ملنا ضروری خیال کرتے تھے، اگرچہ وہ جہاں بھی جاتے اُن کی پذیرائی کا اہتمام پہلے سے ہوچکا ہوتا تھا۔ لیکن اگر اُنھیں اربابِ کمال کی خدمت میں خود حاضر ہونے کی ضرورت محسوس ہوتی تو ایک پل کے لیے بھی تامل نہیں کرتے تھے۔ علمی حوالوں کی تلاش میں وہ اپنے دوستوں کو مسلسل خط لکھتے تھے۔ ایک بیٹے کی حیثیت سے وہ عمر بھر اپنے والد کے تابعِ فر مان رہے۔ اسرارِ خودی اُنھوں نے اپنے والد ہی کے کہنے پر لکھی تھی۔ اُن کے والد نے اُن کو خدمتِ اسلام کی نصیحت کی تھی۔ اس نصیحت پر اُنھوں نے عمر بھر عمل کیا۔ اُن کے بڑے بھائی اُن کی تعلیم کی تکمیل میں اُن کے بہت بڑے محسن تھے۔ اقبال نے اُن کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ایک باپ کی حیثیت سے وہ بچوں کی مثالی تربیت کے قائل تھے اور اُنھیں عملی زندگی کا پورا پورا شعور دینا چاہتے تھے۔ وہ ساری زندگی مرجعِ خلائق رہے۔ لیکن اس پر کبھی نازاں نہیں ہوئے، نہ ملاقاتیوں کی کثرت نے اُن کے مزاج کو کبھی مکدر کیا۔ وہ ہر سوال کا جواب علمی نقطۂ نظر سے دیتے تھے، لیکن کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے تھے، یہ اور بات ہے کہ اُن کی ظرافت بھی علمی نکات سے مملو ہوتی تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزی نقطے کی حیثیت اختیار کرلیتے تھے۔لیکن دوسرے کے اظہارِ ذات کے حق کو اسی طرح تسلیم کرتے تھے، جس طرح اپنے حق کو، وہ نجی گفتگوئوں میں بھی ہر خیال کو اُس کے انسانی، نفسیاتی، تاریخی اور تمدنی پس منظر میں رکھ کر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ تحریر و تقریر میں اُن کے ہاں خیالات اور الفاظ کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اُن کی گفتگو میں خاموشی کے معنی خیز وقفے آتے تھے۔ اسی طرح اُن کے ’مکالمے‘ میں توازن اور گہرائی پیدا ہوتی تھی۔ اُنھیں اپنے آبائی وطن کشمیر سے بے حد محبت تھی، لیکن اُنھیں پوری اسلامی دُنیا سے عشق تھا۔ وہ سفر سے گھبراتے تھے لیکن اُنھوں نے بہت سے سفر کیے، وہ کنجوس تھے نہ مسرف، میانہ رَو تھے۔ غالباً وہ بہت کم کسی کے مقروض ہوئے۔ وہ مردم شناس تھے اور اُن میں پیش بینی کی غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ اُن کا ذہنی عمل فکروتخیل کے ایک انوکھے امتزاج سے عبارت تھا۔ اُن کا ذخیرۂ الفاظ بے حد وسیع تھا۔ لیکن اُنھوں نے الفاظ کو کبھی بے جا استعمال نہیں کیا۔ اُنھوں نے اپنی اولاد کو مسلسل اس بات کی تلقین کی کہ میری شہرت اور عظمت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے اندر ذاتی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ وہ ہر اعتبار سے خوش ذوق تھے اور فنونِ لطیفہ میں موسیقی سے لگائو رکھتے تھے۔ اُن میں کمزوریاں بھی تھی، لیکن اُنھوں نے اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی، تاہم اپنی کمزوریوں کی بے جا اور بلاضرورت تشہیر بھی نہیں کی۔ اُنھیں ماضی سے لگائو تھا، لیکن اُن کی نظر ہمیشہ مستقبل پر رہتی تھی۔ وہ فلسفے کے طالب علم تھے، لیکن فلسفے کو اُنھوں نے اپنے ذہن کی آزاد فعلیت پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کا کام بتاتا ہے کہ وہ مسلسل کام کرنے کے عادی تھے، اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اُن کا خط بے حد خوبصورت تھا، وہ اُردو میں خطِ شکستہ یا خطِ دیوانی میں لکھتے تھے اور بے حد روانی سے لکھتے تھے، یہی روانی اور حسنِ تحریر اُن کی انگریزی تحریروں میں بھی دکھائی دیتا ہے، وہ لکھ کر بہت کم کاٹتے تھے، لیکن کسی لفظ کا کاٹنا ضروری ہوتا تو اس میں دریغ بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ عصرِحاضر میں اسلام کے سب سے بڑے مفکر تھے، لیکن اُنھوں نے اپنے آپ کو ایسا کہا نہیں، بلکہ اپنے آپ کو فقیر اور قلندر جیسے منکسرانہ الفاظ سے یاد کیا ہے۔ اُن میں سچا عالمانہ انکسار تھا جو سچے عالمانہ وقار سے کبھی خالی نہیں تھا۔ اُن کی زندگی تصنع اور بناوٹ سے یکسر عاری تھی، لیکن وہ blunt نہیں تھے، بہت کم تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے تھے۔ ملنے جلنے والوں سے بے تکلفی کے باوجود حفظِ مراتب کے قائل تھے۔ اُن کی شخصیت کی سادگی بے حد مسحور کن تھی۔ اُن کی صحبت دل و دماغ کو آسودگی بخشتی تھی، وہ اپنی زندگی ہی میں شاعرِ مشرق کہلائے۔ لیکن عام محفلوں اور مشاعروں میں اُنھیں اپنے شعر سنانے سے گریز تھا۔ وہ اپنی جوانی میں گوئٹے اور غالب کے مداح تھے، لیکن بقیۃ العمر وہ مولانا روم کے مداح اور اُنھیں کے مستفیض رہے۔ اولیاء اللہ اور سلاطینِ اسلام (عادلین و مجاہدین)کے مزاروں پرحاضر ہونے کو اپنے لیے بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ اور ایسے مواقع پر اکثر اُن پر رقت طاری ہوجایا کرتی تھی۔ لیکن رسمی اور انحطاطی تصوف کے زبردست ناقد تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے اُن کی محبت عشق کا درجہ رکھتی تھی اور عشقِ رسولؐ اُن کی زندگی کا سب سے گہرا، سب سے شدید اور سب سے پائیدار جذبہ تھا، جس سے اُن کے تمام ذہنی اور فکری رشتے وابستہ تھے جس حیرت انگیز قوتِ فیصلہ اور بصیرت کے ساتھ اُنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ انگریزی استعمار اور عالمی رائے کے سامنے رکھا۔ اُس کی مثال بھی سیاسی انقلاب کی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ ایسی ہی قوتِ فیصلہ اور بصیرت کے ساتھ اُنھوں نے قائداعظم کو، جو برصغیر کی سیاست سے بوجوہ مایوس ہوکر، انگلستان میں ایک کامیاب قانون دان کی زندگی گذار رہے تھے، باربار ملت کی رہبری کی طرف متوجہ کیا۔ اُنھیں اسلامی تاریخ و تہذیب کے تمام آثار یکساں طور پر مسحور کرلیتے تھے۔ لیکن اُن کی انتقادی صلاحیتیں بھی ہمیشہ بیدار رہتی تھیں۔ اقوامِ عالم میں وہ جرمن اور ترک اقوام کو بہت پسند کرتے تھے۔ اُنھوں نے اپنے خیالات اُردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بیان کیے ہیں۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی اُن کی مادری زبان نہیں تھی۔ وہ غالب کے بعد اُردو کے __ اور مولانا روم کے بعد اسلامی تمدن کے سب سے بڑے شاعر ہیں، لیکن اپنے آپ کو شاعر کہنے اور کہلانے سے گریزاں تھے۔ وہ واقعی ایک انوکھے انسان تھے۔ انوکھے اور نادر الظہور! اُردو شاعری نے اُن سے بڑا انقلاب آفریں اور تاریخِ ادب نے ان سے بڑا عہد آفریں شاعر ابھی تک نہیں دیکھا۔
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں