جو لوگ دن رات، کھلے اور چھپے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پروردگار سے اس کا اَجر ضرور مل جائے گا۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (ان لوگوں کے برعکس)جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اُسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ)ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکر بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اُسے چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اگر (سود سے ) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اُسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی)چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب تم اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے۔ پھر وہاں ہر شخص کو اس کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا اے ایمان والو! جب تم کسی مقر رہ مدت کے لیے اُدھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور لکھنے والا فریقین کے درمیان عدل و انصاف سے تحریر کرے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی قابلیت بخشی ہو اُسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔ اور تحریر وہ شخص کروائے جس کے ذمہ قرض ہے۔ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور لکھوانے میں کسی چیز کی کمی نہ کرے (کوئی شق چھوڑ نہ جائے ) ہاں اگر قرض لینے والا نادان ہو یا ضعیف ہو یا لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کا وَلی انصاف کے ساتھ اِملا کروا دے۔ اور اس معاملہ پر اپنے (مسلمان) مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ آئیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بناؤ کہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ اور گواہ ایسے ہونے چاہئیں جن کی گواہی تمہارے ہاں مقبول ہو۔ اور گواہوں کو جب (گواہ بننے یا)گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے اور معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مدت کی تعیین کے ساتھ اسے لکھوا لینے میں کاہلی نہ کرو تمہارا یہی طریق کار اللہ کے ہاں بہت منصفانہ ہے جس سے شہادت ٹھیک طرح قائم ہو سکتی ہے اور تمہارے شک و شبہ میں پڑنے کا اِمکان بھی کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین تم آپس میں دست بدست کر لیتے ہو، اسے نہ بھی لکھو تو کوئی حرج نہیں۔ اور جب تم سودا بازی کرو تو گواہ بنا لیا کرو نیز کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے اور اگر ایسا کرو گے تو گناہ کا کام کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ ہی تمہیں یہ احکام و ہدایات سکھلاتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے کو کوئی کاتب نہ مل سکے تو رہن با قبضہ(پر معاملہ کر لو) اور اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے (اور رہن کا مطالبہ نہ کرے )تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت ادا کرنا چاہئے۔ اور اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گنہ گار ہے اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ آیت در اصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے … صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروّت، اُخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوتِ قلبی، خود غرضی، منافرت، بے مروّتی اور بخل جیسے اخلاقِ رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت در اصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔
اے ایمان والو سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو
قرآن: سورۃ آل عمران: 130
اور ان کو سود لینے کے سبب سے حالانکہ اس سے منع کیے گئے تھے اور اس سبب سے کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
قرآن: سورۃ النساء: 161
یہ در اصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے در اصل دو طرح کے ہوتے ہیں:
(1) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے۔
(2) اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرحِ سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔
حضورﷺ تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور آپﷺ کی امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام انسانیت میں خیر اور بھلائی پھیلانے کا ذریعہ بنیں نہ کہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔ امت مسلمہ ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل اقتدار کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز کا نظام قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
سود اور سود کے استحصالی نظام کے خلاف کلمہ جہاد بلند کرنا کیوں ضروری ہے ؟ آئیے قرآن و سنت نبویؐ کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
الذین یاکلون الربوٰالایقوموں الاکما یتخبط الشیطان من المس(سورہ بقرہ آیت نمبر۲۷۵پارہ نمبر۳رکوع نمبر۶)
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھو کر اسے مخبوط (حواس باختہ) بنا دیا ہو”
یعنی قیامت کے روز سود خور اس فالج زدہ شخص کی طرح کھڑے کیے جائیں گے جیسے کسی کو کوئی شیطان یا جن چھو جائے اور اس کے ہوش و حواس جاتے رہیں قیامت کے دن جس کو فالج زدہ کھڑا دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ سود خور ہے۔ اور اس حرام خوری کے باعث آج قیامت کے دن اس کے اوسان خطا کر دیے گئے ہیں۔ پھر فرمایا ” یہ حالت ان کی اس لیے ہو گی کہ انھوں نے (حلال اور حرام کو یکساں کر دیا ہے ) کہ جیسے سودا ہے ویسے ہی سود ہے ”
سود خوروں کو اس لیے شیطان کے مس شدہ کی طرح ہوش و حواس سے عاری کھڑا کیا جائے گا کہ جب ان کو کہا جاتا تھا کہ سود چھوڑ دو تو وہ کہتے تھے بھئی سود لینا ایک نفع ہی تو ہے جیسے تم کاروبار میں نفع حاصل کرتے ہو۔ ہم قرض کے ذریعے مال کما تے ہیں۔ چونکہ انھوں نے سود اور تجارت کو سود کے بربر اور سود کو تجارت کے بربر قرار دے دیا تھا اور ایہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے باعث قیامت کے دن انھیں شیطان زدوں کی طرح کھڑا کیا جائے گا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ” اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا” (سورۃ البقرہ )
اور جو سود کو ترک نہ کرے وہ پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔ اللہ نے مسلمانوں کو سود ترک کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ” اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر تم سچے مسلمان ہو۔ ” اللہ تعالیٰ کا یہ واضح حکم بھی تمام لوگوں کے لیے موجود ہے کہ تم نے سود کا لین دین اور سود کا نظام نہ چھوڑا تو پھر تیار ہو جاؤ کہ تمھارے خلاف اور تمھارے استحصالی نظام کے خلاف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہو چکا ہے۔
حضرت عبداللہ بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ شدید (جرم) ہے بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہے
(جامع الصغری جلد ایک ص ۲۵۶، کنزالعمال جلد ۴، مشکوۃالمصابیح حدیث ۲۸۲۵)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے اژدہوں سے بھرے ہوئے گھر اور اژدھے پیٹوں سے باہر بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ سود خور ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر اردو جلد ایک پارہ سوم)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں ) برابر ہیں۔(مسلم: جلد دوم ص ۲۷کتاب البیوع، باب لعن آکل الربوا و مُوکِلہ قدیمی کتب خانہ، الترغیب والترھیب جلد اول ص ۵۳۹، الدر المنشور، )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: ”(سود کے گناہ کے ) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے ” ‘ (ابن ماجہ بحو آلہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث)
سود خور کو قیامت کے دن خون کی نہر میں کھڑا کیا جائے گا
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’رات میں نے خواب دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس سر زمین کی طرف لے گئے، پھر دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ خون کی ایک نہر پر پہنچے، اس نہر میں بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور بعض روایتوں میں ہے کہ وہ بیچ میں تیر رہا تھا، اور نہر کے کنارے ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر تھے، نہر میں کھڑا یا تیرتا ہوا شخص جب باہر نکلنے کے لئے کنارے کی طرف بڑھتا تو کنارے پر کھڑا ہوا شخص پتھر پھینک کر اس کے منہ پر مارتا اور اسے اسی پرانی جگہ پر واپس کر دیتا جہاں پر وہ پہلے کھڑا تھا، جب جب وہ کنارے آنے کوشش کرتا کنارے پر کھڑا شخص اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کہ میں نے اپنے ساتھی(حضرت جبرئیل علیہ السلام) سے پوچھا: یہ شخص کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا: یہ شخص جسے آپ نے خون میں کھڑا دیکھا ہے وہ سود خور ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا، آج اس کو اس کے اسی جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ (رواہ البخاری فی البیوع مختصرا، وفی الصلاۃ مطولا، انظرالترغیب والترھیب: 2:743)
سود انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے
سود خور کے لئے آخرت میں چند سزاؤوں اور عذاب کے تذکرہ کے بعد آئیے چند دنیوی مضرتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو، لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کونسی چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، نا حق کسی شخص کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہونا، غافل عفیفہ مومنہ عورتوں پر الزام لگانا۔‘‘ (صحیح البخاری حسب ترقم فتح الباری: 4/ 12, صحیح مسلم: 1/ 64)
اس طرح کی تباہی اور بربادی کے بے شمار واقعات معمولی تلاش و جستجو پر آپ کو سننے کو مل جائیں گے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ایک حدیث میں فرمایا: ’’جب کسی بستی میں زنا اور سود عام ہو جائے تو اس بستی والوں نے اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔‘‘ (رواہ الحاکم عن ابن عباس و قال: ھذا حدیث صحیح الاسنادووافقہ الذہبی، انظرالمستدرک: ۳۷ ج۲
اس معنی کی حدیث مسند ابو یعلیٰ میں بھی بسند جید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ (دیکھئے الترغیب والترہیب۷۴۶،ج ۲)
آپﷺ نے فرمایا: ”سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے ”
(مسند احمد، دارمی، بحو آلہ مشکوٰۃ: ح ۲۸۲۵کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث، کنزالعمال جلد ۴، جامع الصغریٰ جلد ایک ص ۲۵۶)
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہﷺ نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہِ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروّت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپﷺ نے ساری زندگی صحابہ کرامؓ کو اُخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسانِ عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے: (سورۂ آل عمران کی آیت 103 میں اور سورۂ انفال کی آیت 63 میں ) اور یہ چیز رسول اللہﷺ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زرپرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔
دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے ۔
آپﷺ نے فرمایا کہ ”: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہو گا۔ اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا” (نسائی: کتاب البیوع، باب اجتناب الشبہات فی الکسب)
اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر اُلجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جا سکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کر سکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی ((Letter of Credit یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ(Commercial Interest) کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے، بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اُصول ہے کہ” مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں ”
اسلام سلامتی اور نفع بخش دین ہے۔ اور استحصالی کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر شکل کے خلاف ہے چونکہ ربو (سود) معاشی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اس لیے اسلام نے اسے کلیتہً حرام قرار دیا ہے۔ سود صرف دنیائے اسلام کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں معاشی ناہمواریوں کی بنیاد ہے چنانچہ سود سے پاک بینکاری کا تصور ہمیشہ اقتصادی ماہرین کی سوچوں کا مرکز رہا ہے اور اس ضمن میں خود مغربی دنیا میں بھی تجربات ہو رہے ہیں۔ علم معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ کہ سرمایہ ہمیشہ بچتوں سے آتا ہے۔ اور بچتیں ترقی یافتہ ممالک میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص اسی متوسط طبقے سے آتی ہے۔ سودی بینکاری نظام کا ایک استحصالی پہلو یہ ہے کہ ایک جائزہ کے مطابق بینک کے ڈپازٹ بیس ہزار روپے یا اس سے کم رقم جمع کروانے والے چھوٹ کھاتہ داروں کے ہوتے ہیں مگر جب انہی ڈیپازٹ سے قرضہ جات کا اجرا ہوتا ہے تو صرف چھ سے سات فیصد قرضہ جات غریب اور متوسط طبقے کے حصے میں آتے ہیں جبکہ قرضے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سماجی و سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ (جو ایسے عذاب میں مبتلا ہیں ) انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں:۔ (مسند احمد ابن ماجہ)
فائدہ:۔ اسلام میں سود کی حرمت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، جو شخص مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ اسلام میں سود حرام ہے۔ بلکہ اس اجمالی حقیقت سے تو غیر مسلم بھی ناواقف نہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ سود خوری کا طریقہ کوئی آج دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ اسلام سے پہلے جاہلیت میں بھی اس کا سلسلہ جاری تھا۔ قریش مکہ، یہود مدینہ میں اس کا عام رواج تھا اور ان میں صرف شخصی اور خاندانی ضرورتوں کے لیے نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے بھی سود کا لین دین جاری تھا۔ ہاں نئی بات جو آخری دو صدی کے اندر پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے یورپ کے بنئیے دنیا میں برسراقتدار میں آئے ہیں تو انہوں نے مہاجنوں اور یہودیوں کے سودی کاروبار کو نئی نئی شکلیں اور نئے نام دیئے اور اس کو ایسا عام کر دیا کہ آج اس کو معاشیات و اقتصادیات اور تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا اور سطحی نظر والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آج کوئی تجارت یا صنعت یا کوئی معاشی نظام بغیر سود کے چل ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ فن کے جاننے والے اور ماحول کی تقلید سے ذرا بلند ہو کر وسیع نظر سے معاملات کا جائزہ لینے والے اہل یورپ کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ سود معاشیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ایک کیڑا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں لگ گیا ہے جب تک اس کو نکالا جائے گا دنیا کی معاشیات اعتدال پر نہ آ سکے گی۔
ہر مسلمان کو علم ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں سود کے حوالے سے انتہائی سخت وعیدیں ہیں جو کہ کسی دوسرے گناہ کے متعلق نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں سب سے پہلی آیت جس میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے وہ سورہ روم کی یہ آیت ہے۔ ’’جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اس کے دینے والے در حقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں ’’۔ (الروم۔ 39)۔ اسلام میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اسلامی سلطنت میں کافر امن و امان سے رہ کر اپنے تمام مذہبی معاملات کی پابندی کر سکتا ہے۔ لیکن سود کا کاروبار کرنے کی اس کو بھی اجازت نہیں ہے۔ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا، اسی ضمن میں جنت اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تاکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حق الیقین کے بعد عین الیقین کا مقام بھی حاصل ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذاتی مشاہدہ کی بنا پر لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک منظر بھی دیکھا جس کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر سے نظر آتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں جو اس لرزہ غیز عذاب میں مبتلا کیے گئے ہیں