[ایک تجزیاتی مطالعہ]
تخلیقی محرکات اتنے گوناگوں، تَہ در تَہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ تخلیق کی ظاہری یا فوری معنوی دلالتوں میں اُن کو تلاش کرنا بعض اوقات بالکل بے سود ہوتا ہے، یہ کہنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے کہ کوئی تخلیق۔ مثلاً کوئی نظم یا تصویر۔ ایک خاص صورت کیوں اختیار کرلیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بھی تخلیقی تجربہ عام طور پر اپنی ہیئت اور اپنا آہنگ اپنے ساتھ لاتا ہے، لیکن ہیئت اور آہنگ کو متشکل کرنے کی مثال تخلیقی پیکر کو پتھر کی سنگینی سے آزاد کرانے کی سی ہے، فن کار کو اپنے تخلیقی تجربے کے لیے ہیئت اور آہنگ کو بہرحال خود ہی متشکل کرنا پڑتا ہے، اور ایسا کرنے میں وہ لاشعوری محرکات سے آزاد نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی محرکات کے نقطۂ نظر سے کسی تخلیق کا تجزیہ کچھ ایسا بے ثمر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ آہنگ ہو یا ہیئت، الفاظ ہوں یا مطالب، بہرطور ایک زندہ ذہنی عمل سے اُبھرتے ہیں اور یہ زندہ ذہنی عمل فرد کی تخلیقی انا سے اُبھرنے کے باوجود کسی عہد اور کسی معاشرتی صورتِ حال ہی میں صورت پذیر ہوتا ہے۔ اور جہاں تک لاشعوری تخلیقی محرکات کا تعلق ہے، وہ تخلیقی فرد کے لاشعور تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے ریشے تو نسلوں اور اقوام کے اجتماعی لاشعور کی دوریوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
اقبال کے تخلیقی شعور نے جس عہد میں آنکھ کھولی، وہ شاعری کی حد تک توانائی کی کمی کا عہد تھا۔ اس عہد اور غالب کی شاعری میں داغ و امیرمینائی کی غزل کا ایک جیتا جاگتا عہد حائل تھا اور غزل کے دائرے پھیلنے کی بجائے سمٹ رہے تھے، حالی اور آزاد کی جدید نظم گوئی وجود میں آچکی تھی اور نئے ذہنوں پر اُس کے اثرات یقینا مرتب ہورہے تھے۔ لیکن حالی و آزاد کی نظمیں ایک شعوری اور افادی عمل کی پیداوار تھیں اور تخلیق کے لاشعوری سرچشموں سے کہیں بہت قریب واقع نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اُردو شاعری کی روحِ خلاق اپنے اظہار کے لیے نئی وسعتوں اور نئی گہرائیوں کو دریافت کرلینے کے لیے بے چین اور مضطرب تھی۔ یہ نئی وسعتیں اور گہرائیاں غزل کے ایک شعر کی مرتکز تَہ داری (concentrated centrality) میں نہیں سمٹ سکتی تھیں۔ یہ طلب سمٹائو کی نہیں بلکہ پھیلائو کی تھی، وہی پھیلائو جو کسی طویل اور مہتم بالشان نظم ہی میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
طویل نظم کا تصور اُردو شاعروں کے لیے بالکل نامانوس یا اجنبی بھی نہیں تھا، مثنوی اور قصیدہ طویل نظم ہی کی شکلیں ہیں، ایک بھرپور مرثیے کو بھی طویل نظم ہی کہا جائے گا لیکن نظم کے جدید تصور کے ساتھ طویل نظم ابھی اُردو شاعری میں اپنی فنی بنیادوں کو دریافت نہیں کرپائی تھی۔ مسدسِ حالی یقینا ایک طویل نظم تھی جس میں اُردو شاعری پہلی بار ایک طویل مکالمے کی صورت سے آشنا ہوئی۔ اس میں خودکلامی بھی تھی، مخاطبت بھی اور آہنگ بھی۔ اسی لیے یہ نظم اُس وقت بھی زندہ تھی اور آج بھی ایک زندہ نظم ہے، یہ معنوی طور پر بھی ضخیم تھی، اس لیے کہ اس کے معنوی رشتے تاریخ میں بہت دور تک پھیلے ہوئے تھے، لیکن یہ نظم نغمے سے زیادہ مخاطبت (وعظ) سے اُبھری تھی، اس کی رِثائیت نے اس میں ایک جذباتی گہرائی بھی پیدا کردی ہے، لیکن بذاتِ خود یہ نظم بھی اس بات کا اشارہ تھی کہ اُردو شاعری کی طویل نظم کے لیے نئے سے نئے پیرائے تلاش کرنے چاہییں۔ اقبال جن کے طالب علمانہ شعور پر یقینا حالی اور آزاد کی منظومات سایہ فگن رہی ہوں گی، اپنی ابتدائے شاعری میں حالی اور آزاد سے زیادہ داغ کو قابلِ تقلید سمجھتے تھے۔ خیال رہے کہ حالی کے ساتھ آزاد کا ذکر یہاں محض ضمناً اور تبعاً ہے وگرنہ حالی کے اثرات کے مقابلے میں آزاد کے اثرات ایسے قوی دکھائی نہیں دیتے کہ اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کی شعری اور ادبی صورتِ حال میں اُن کا ذکر لازمی کیا جائے، یہ اور بات ہے کہ ایک محدود زمانی سیاق و سباق میں حالی کے ساتھ ساتھ آزاد کی نظمِ جدید کے مؤثرات کو بھی کلی طور پر خارج از بحث قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کوئی طویل نظم تخلیق کرنے کی خواہش اقبال کے دل میں زمانۂ طالب علمی ہی سے موج زن تھی۔ کوئی ایسی نظم جسے طوالت اور معنوی گہرائی کے اعتبار سے، نیز وسعتِ موضوع کے اعتبار سے دُنیا کی عظیم الشان نظموں مثلاً ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ، ڈانٹے کی طربیۂ ایزدی، یا گوئٹے کی منظوم تمثیل فاؤسٹ کے ہم پلہ اور مماثل قرار دیا جاسکے، یہ خواہش یقینا مغربی ادب کے مطالعے کا نتیجہ تھی، لیکن اس خواہش کی تَہ میں مشرق کی عظمت کو شاعری میں اُجاگر کرنے کا خیال بھی اپنی ابتدائی صورتوں میں ضرور کارفرما تھا۔ اقبال کے زمانۂ طالب علمی کے ایک رفیق، میرغلام بھیک نیرنگ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
ہاں، ایک بات ضرور لکھنے کے قابل ہے، ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم باربار پیش کیا کرتے تھے۔ ملٹن کی مشہور نظم (paradise lost) اور (paradise regained) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ واقعاتِ کربلا کو ایسے رنگ میں پیش کروں گا کہ ملٹن کی (paradise regained) کا جواب ہوجائے گا مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہ ہوسکی۔ مَیں اتنا اور کَہ دوں کہ اُردو شاعری کی اصلاح و ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر باربار آیا کرتا تھا۔ [اقبال کے بعض حالات، غلام بھیک نیرنگ۱؎]
اُردو شاعری کی اصلاح و ترقی اور اس میں مغربی رنگ پیدا کرنے کا خیال اُس عہد کی علمی و ادبی دُنیا کا ایک عمومی رویہ تھا۔ حالی اور آزاد کی نظم گوئی اور حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری نے اس خیال کو باقاعدگی سے پروان چڑھایا تھا، لیکن طویل نظم لکھنے کا خیال اقبال کی اپنی ذہنی زندگی کی پیداوار تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اُردو شاعری اقبال کی شاعری کے وجود میں آنے سے پہلے، وہ کچھ نہیں تھی جو کچھ خود اقبال اسے دیکھنا چاہتے تھے۔ فکروابلاغ کی سطح پر ایک ایسی ضخامت (a certain magnitude) جو شاعری کو ایک ہمہ گیر لہجہ اور آفاقی اپیل عطا کرتی ہے، ابھی نمو پذیر نہیں تھی، یا اُس کی نموپذیری ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ اس صورتِ حال میں مرزا غالب کی شاعری ایک خاموش مگر یقینی اثر کے طور پر مسلسل اپنا کام کررہی تھی، غالب نے جو طرزِ شاعری ایجاد کیا تھا۔ اس میں یہ طاقت تھی کہ مستقبل کے شعری اسالیب کی صورت پذیری کو متاثر کرسکے۔ خود غالب کے ہاں بھی ہمیں شاعری اور شاعری کے اسالیب میں کسی بڑی یا اساسی تبدیلی کی دبی دبی خواہش کا احساس ہوتا ہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ:
بقدرِ ذوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
غزل کی ہیئت سے بالاتر ہوکر کسی نئے شعری پیرایۂ اظہار کی دریافت یا تخلیق کی خواہش کا نتیجہ ہے۔ حالی شاعری میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت کے احساس میں برابر کے شریک تھے، اور وہی اس تبدیلی کا نقطۂ آغاز بھی بنے۔ غرض اپنے عہد کی عمومی ادبی فضا کے زیراثر، اور خود اپنے اندرونی تخلیقی تقاضوں کی روشنی میں، شاعری میں ایک نئے لہجے، نئے پیرایۂ اظہار اور نئے طرزِ احساس کی ضرورت کا احساس اقبال کو شروع ہی سے تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فردوسِ گم گشتہ، (ملٹن)، ڈوائن کامیڈی (ڈانٹے) اور فاؤسٹ (گوئٹے) جیسی طویل نظمیں یا تماثیل پڑھتے ہوئے اقبال کے دل میں اس خواہش کا اُبھرنا بالکل فطری تھا کہ اُردو شاعری کے دامن کو بھی ایسی عظیم تخلیقات سے مالامال کیاجانا چاہیے۔ اسے ہم نوجوان اور طالب علم اقبال کی ادبی ambitions ہی کَہ سکتے ہیں کہ وہ واقعاتِ کربلا کو نظم کرکے اُردو شاعری میں ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ یا فردوسِ بازیافتہ کا جواب پیدا کرنا چاہتے تھے۔ واقعاتِ کربلا کو نظم کرنے کا خیال اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اقبال ابھی طویل نظم کو صرف رزمیہ (epic) کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس وقت تک مراثی انیس کی رزمیہ اور رثائی دُنیا سے آشنا ہوچکے ہوں اور واقعاتِ کربلا میں اُنھیں ایک طویل اور عظیم نظم کا مواد دکھائی دیتا ہو۔ اقبال شروع ہی سے وسیع المطالعہ تھے اور اُردو شاعری کے تمام اہم اور قابلِ ذکر پیرائے اور اسالیب بہت جلد ان کے سامنے آگئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انیس کی شاعری کو بیانیہ شاعری کے ’موڈل‘ (model) کے طور پر دیکھتے ہوئے اقبال نے مسدّس کی ہیئت کو موزوں، فطری اور مکمل یا کم ازکم فوری طور پر موزوں پیرایۂ بیان خیال کیا ہوں۔ اس لیے کہ اوّلیں نظم جو اُنھوں نے لکھی، وہ نظم جس نے اُنھیں ادبی حلقوں میں بطورِ شاعر متعارف کرایا، ہیئت کے اعتبار سے مسدّس ہی کی شکل میں تھی، یعنی ’ہمالہ‘! ہوسکتا ہے کہ مسدّس کی ہیئت کا ماخذ انیس کے مرثیوں کی بجائے حالی کی مسدّسِ مدوجزرِ اسلام ہو، اگر میر غلام بھیک نیرنگ کی روایت میں واقعاتِ کربلا کو نظم کرنے کی خواہش کا تذکرہ نہ ہوتا تو یہ بات زیادہ قرین قیاس ہوتی کہ اقبال کی اوّلین نظم کی ہیئت کے انتخاب میں حالی کی مسدّس نے ضرور کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہے۔ اتنی بات یقینی ہے کہ اقبال اس وقت فارسی کی عظیم صوفیانہ نظموں مثلاً منطق الطیر، مثنویِ معنوی اور گلشنِ راز وغیرہ سے اس حد تک متاثر نہیں ہوئے تھے کہ مثلاً مولانا رُوم کے طرز کی مثنوی لکھنے کی خواہش اُن کے دل میں پیدا ہوتی۔
بانگِ درا کی پہلی اور اقبال کی پہلی مشہور نظم ’ہمالہ‘ میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جن کی روشنی میں اقبال کی اس نظم کو اُن کی طویل نظم لکھنے کی خواہش کے حوالے سے بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ قرائن کچھ اور نتائج کے استنباط میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس نظم پر اوّلین تبصرہ مدیر مخزن سرعبدالقادر کا ہے، جو کئی اعتبارات سے قابلِ توجہ اور قابلِ تجزیہ ہے۔ اقبال کے طالب علمانہ دورِ شاعری کا تذکرہ کرتے ہوئے سرعبدالقادر لکھتے ہیں:
اتنے میں ایک ادبی مجلس قائم ہوئی جس میں مشاہیر شریک ہونے لگے اور نظم و نثر کے مضامین کی اس میں مانگ ہوئی۔ شیخ محمد اقبال نے اس کے ایک جلسے میں اپنی وہ نظم جس میں ’’کوہِ ہمالہ‘‘ سے خطاب ہے، پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ مذاقِ زمانہ اور ضرویاتِ وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی اور کئی طرف سے فرمائشیں ہونے لگیں کہ اسے شائع کیا جائے۔ مگر شیخ صاحب یہ عذر کرکے کہ ابھی نظرِثانی کی ضرورت ہے، اسے اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اس وقت چھپنے نہ پائی۔
[بانگِ درا: دیباچہ]
دیباچہ بانگِ درا کا یہ اقتباس بھی پورے دیباچے کی طرح بہت اہم اور معنی خیز ہے، اس میں نظم ’ہمالہ‘ کی ایک مختصر سی تنقیدی تحسین (critical appreciation) موجود ہے، جسے ایک نظر میں یوں دیکھا جاسکتاہے:
۱- نظم ’ہمالہ‘ میں انگریزی خیالات تھے۔
۲- فارسی بندشیں (نوعیت یا کثرت کے اعتبار سے) قابلِ توجہ تھیں۔
۳- اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔
۴- مذاقِ زمانہ اور ضرورتِ وقت کے موافق ہونے کے سبب نظم بہت مقبول ہوئی سرعبدالقادر کے اس بیان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ادبی مجلس کے مذکورہ جلسے میں سرِمحفل اقبال سے اس نظم کو شائع کرنے کی فرمائشیں بھی ہوئیں اور غالباً کسی نے اس نظم کا مسودہ بغرضِ اشاعت طلب بھی کیا لیکن اقبال، نظرِثانی کی ضرورت کا عذر کرتے ہوئے ’’اسے اپنے ساتھ لے گئے۔‘‘ اس واقعے کا اگلا حصہ بھی سرعبدالقادر ہی کے الفاظ میں سننے کے لائق ہے:
…اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ مَیں نے ادبِ اُردو کی ترقی کے لیے رسالہ مخزن جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ اس اثنا میں شیخ محمد اقبال سے میری دوستانہ ملاقات پیدا ہوچکی تھی۔ مَیں نے اُن سے وعدہ لیا کہ اس رسالہ کے حصۂ نظم کے لیے وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں گے، پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا کہ مَیں اُن کے پاس گیا اور مَیں نے ان سے کوئی نظم مانگی۔ اُنھوں نے کہا ابھی کوئی نظم تیار نہیں، مَیں نے کہا ’ہمالہ‘ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیے۔ اُنھوں نے اس نظم کے دینے میں پس وپیش کی کیوں کہ اُنھیں یہ خیال تھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ مگر مَیں دیکھ چکا تھا کہ وہ بہت مقبول ہوئی۔ اس لیے مَیں نے زبردستی وہ نظم اُن سے لے لی۔ اور وہ مخزن کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل ۱۹۰۱ء میں نکلا شائع کردی، یہاں سے گویا اقبال کی اُردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا۔ [بانگِ درا: دیباچہ]
اگرچہ نظم ’ہمالہ‘ کو اشاعت کے لیے دینے میں اقبال کے پس و پیش کا ظاہری سبب یہی ہے کہ اقبال کے نزدیک اس میں کچھ خامیاں تھیں اور ابھی نظم پر نظرِثانی کی ضرورت تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صورتِ حال واقعی یہی تھی؟ یا یہ محض ایک ’معاشرتی عذر‘ تھا اور نظم کو اشاعت کے لیے نہ دینے کا اصل سبب کچھ اور تھا؟ اقبال ریاکاری سے ہمیشہ دور رہے اور اُن کے اِس عذر کو سخن سازی پر محمول کرنا بے جواز ہوگا۔ اس لیے کہ یہ نظم بعینہٖ وہ نہیں، جو پہلی بار مخزن میں شائع ہوئی۔ بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں خاصی ترمیم کی۔ یہ اَمر یقینی ہے کہ اس نظم کو پہلی بار اشاعت کے لیے دیتے ہوئے اقبال کے ذہن میں اس کے الفاظ و تراکیب پر نظرِثانی کا خیال موجود تھا۔ لیکن اس نظم کا غائر مطالعہ بتاتا ہے کہ اقبال کے تأمل کا سبب محض نظرِثانی کی ضرورت کا احساس نہیں، بلکہ کچھ اور بھی تھا،… نظم ’ہمالہ‘ کا سارا معنوی تاروپود اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ صرف ایک نظم کے طور پر نہیں، بلکہ کسی طویل نظم کے ابتدائیے کے طور پر لکھی گئی تھی۔ لیکن ادبی حلقوں میں فوری مقبولیت اور سرعبدالقادر کے اصرار نے اسے ایک مکمل نظم بنادیا اور وہ نظم نہ لکھی جاسکی جس کے لیے ’ہمالہ‘ ایک خوبصورت اور ڈرامائی ابتدائیہ ہوسکتی تھی، اس نظم کی اُٹھان بتاتی ہے کہ یہ نظم صرف آٹھ بندوں میں ختم ہوجانے کے لیے نہیں لکھی گئی تھی:
اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے
تو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے
جس نظم کا موضوع یا ایلیٹ کے الفاظ میں نسبتِ خارجی (objective correlative) ہمالہ کا سا عظیم الشان سلسلۂ کوہ ہو، اس نظم کی فنی اور موضوعی غایات صرف آٹھ بندوں میں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ یہ یقینا کسی طویل نظم کا موضوع ہے۔ فرض کیجیے کہ کوہِ ہمالہ سے متعلق یہ سلسلۂ خیال فنی اعتبار سے کافی بھی ہو، تب بھی نظم میں مناظرِ فطرت کے بیان سے انسانی تمدن کی تاریخ کی طرف گریز کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ نظم کا آخری بند ہی ’گریز‘ کا وہ ٹکڑا ہے جس میں شاعر کا روئے سخن دُنیائے فطرت سے انسانی زندگی کے احوال کی طرف مڑتا دکھائی دیتا ہے۔ نظم کا آخری بند پکار پکار کر کَہ رہا ہے کہ میں اختتامی بند نہیں بلکہ گریز کا ٹکڑا ہوں، اس بند میں ایک بار پھر کوہِ ہمالیہ سے تخاطب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نظم میں ایک نیا موڑ آگیا ہے، اور یہاں ایک نئے سلسلۂ خیال کا آغاز ہوتا ہے:
اے ہمالہ! داستاں اُس وقت کی کوئی سنا
مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اُس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگِ تکلف کا نہ تھا
ہاں، دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو!
کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ یہ نظم اس بند پر ختم ہوجائے جس میں شاعر کوہِ ہمالیہ سے اُس وقت کی داستاں سنانے کا مطالبہ کر رہا ہے، جب اس کا دامن آبائے انساں کا مسکن بنا۔ (وادیِ گنگ و جمن میں انسانی تمدن کا آغاز ہوا) ہمالیہ کی زبانی اُس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا سننا (یا سنانا) چاہتا ہے جس پر رنگِ تکلف کے غازے کا داغ نہ تھا اور تصور سے قدیم ایام کی تصویر دکھانے اور گردشِ ایام سے پیچھے کی طرف دوڑنے کا تقاضا کررہا ہے؟ نظم کا یہ اختتام کسی طرح سے بھی ’اختتام‘ نہیں بلکہ کسی نئے سلسلۂ کلام کا نقطۂ آغاز لگتا ہے، میر غلام بھیک نیرنگ کا یہ بیان کہ اقبال کے دل میں طویل نظم لکھنے کی خواہش ایامِ طلب علمی ہی سے موجزن تھی، نظم ’ہمالہ‘ کو اشاعت کے لیے دینے میں (نظرثانی کی ضرورت کے عذر کے ساتھ) اقبال کا مسلسل پس و پیش اور نظم کا آخری بند، جوہر اعتبار سے گریز (point of departure) یا گریز کا ٹکڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب چیزیں مل کر اِسی ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ’ہمالہ‘ اپنی اُس شکل میں جس میں اسے شاعر نے تخلیق کیا، نظم نہیں بلکہ کسی طویل نظم کا ابتدائیہ تھی جو نہ لکھی گئی یا نہ لکھی جاسکی۔ نظم کے آخری بند کے تمام معنوی قرائن بتاتے ہیں کہ اقبال کے دل میں برِصغیر کی تاریخ کے کسی ابتدائی باب یا ابواب کو نظم کرنے کا ارادہ ضرورتھا، جو پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ہوسکتا ہے وہ برِصغیر کی ابتدائی تاریخ کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد برِصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کو قلم بند کرنا چاہتے ہوں۔ ایک طویل نظم کی صورت میں!