اقبال نے جن سلاطینِ اسلام کو اپنی شہرۂِ آفاق نظم جاوید نامہ میں ’آن سوئے افلاک‘ کا مقامِ بلند عطا کیا ہے، وہ نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور سُلطانِ شہید (سلطان ٹیپو) ہیں جو اپنے کردار کی صلابت، حُریّت پسندی اور خاراشگافی کی بدولت اقبال کے نزدیک بے حد مؤقراور لائقِ تحسین ہیں، آن سوئے افلاک،… جاوید نامہ کا آخری باب ہے، یہی وہ مرحلۂِ خاص ہے جس میں جنت الفردوس کی جھلک دکھائی گئی ہے، وگرنہ اس سے پیشتر جو کچھ بھی ہے وہ سیرِ افلاک یا سیرِ سیّارگان ہے، ہر سیّارے کی دُنیا اس سیّارے کا فلک ہے، جس کے اپنے مقامات و احوال ہیں اور اپنے کردار و اشخاص، لیکن ترتیب کے اعتبار سے یہ سب اس مقام یا مرحلۂِ خاص کی تمہید ہیں جسے اقبال نے ’آن سوئے افلاک‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے آغاز میں ’مقامِ حکیمِ المانوی نطشہ‘ ہے، اور اس کے بعد ’حرکت بجنت الفردوس ہے، جنت۔ الفردوس کا اولیں منظر ’قصرِ شرف النسا‘ ہے، یعنی گورنر (لاہور و ملتان) عبدالصمد کی صاحبزادی شرف النساء کا محل جو ایک ہاتھ میں قرآنِ کریم دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر سکھوں کے حملوں کے خلاف مدافعت کرتی ہوئی شہید ہوئی تھی۔ اس مقام کے بعد اقبال (زندہ رود) کو امیر کبیر حضرت سیّدعلی ہمدانی اور ملا طاہر غنی کشمیری کی زیارت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک طویل صحبت ہے جس میں زندہ رود شاہِ ہمدان اور غنی کاکشمیری سے جی بھر کر باتیں کرتا ہے، اس کے بعد ہندی شاعر بھر تریؔ ہری سے ایک مکالمہ ہے، اور آخر میں وہ مقامِ بلند ہے جہاں سلاطینِ اسلام سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس مقام کو حرکت بہ کاخِ سلاطینِ مشرق (نادر، ابدالی، سلطانِ شہید) کا عنوان دیا گیا ہے، اقبال نے انھیں رُومی کے الفاظ میں ’’خسروانِ مشرق ‘‘ کہا ہے:
خسروانِ شرق اندر انجمن
سطوتِ ایران و افغان و دکن
نادر آن دانائے رمزِ اتحاد
با مسلمان داد پیغام وداد
مردِ ابدالی، وجودش آیتے
داد افغان را، اساسِ ملتے
آن شہیدانِ حمیت را امام
آبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابندہ تر
خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر
عشق رازے بود، بر صحرا نہاد
تو ندانی، جان چہ مشتاقانہ داد
از نگاہِ خواجۂ بدر و حنین
فقر و سلطان، وارثِ جذبِ حسین
رفت سلطان زین سرائے ہفت روز
نوبتِ او در دکن باقی ہنوز
(’مولانا رُوم نے زندہ رود سے کہا کہ فقیروں کی صحبت کے بعد اب سلاطین کی صحبت کا رنگ بھی دیکھو) خسروانِ مشرق، جو دراصل ایران و افغانستان اور دکن کی شان و شوکت ہیں، انجمن آراستہ کیے ہوئے ہیں۔ نادر وہ بادشاہ ہے جس نے اتحادِ باہمی کے راز کو سمجھا اور مسلمانوں کو ایک بار پھر محبت اور دوستی کا پیغام دیا۔ اور ابدالی وہ مردِ میدان ہے جس کا وجود دراصل ایک آیت ہے، اس نے افغانوں کو ایک قوم ہونے کی بنیاد فراہم کی اور وہ محبت کے شہیدوں کا امام (ٹیپوسلطان) جو اپنی مردانگی اور حریت پسندی کی بدولت ہندو چین و رُوم و شام کی آبرو ہے،اس کا نام چاند سورج سے زیادہ روشن اور اس کی قبر کی مٹی مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندہ ہے۔ عشق ایک راز تھا۔ اس نے اسے دشتِ زندگی میں آشکار کر دیا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس نے کس بے تابی سے جان دی؟ اصل میں خواجۂ بد روحنین (حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم) کی نگاہِ کرم کا اثر ہے کہ فقرو سلطانی دونوں جذبِ حسینؑ کے وارث بن گئے ہیں۔ اگرچہ سلطانِ شہید اس دُنیائے فانی سے رخصت ہوا، لیکن اس کے نام کا نقارہ آج بھی دکن میں بجتا ہے، !
جیسا کہ بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے، اقبال (رومی کی زبانی) سلطانِ شہید کے بارے میں زیادہ پر جوش ہیں، یہ جوشِ بیان اور جوشِ عقیدت تادیر قائم رہتا ہے،… اس باب میں سب سے زیادہ جگہ (قدرتی طور پر اور بجا طور پر) سلطانِ شہید کو دی گئی ہے، اس سے کم احمد شاہ ابدالی کو اور سب سے کم نادر شاہ کو…بہر حال، یہ تینوں سلاطین فردوس کے سب سے دل کشا مقام پرانجمن آرا ہیں، اس سے پیشتر فردوس کے صرف ایک مقام کے حسن کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اور وہ قصرِ شرف النسا ہے، لیکن یہ ’کاخِ سلاطینِ مشرق‘ قصرِ شرف النسا سے کہیں آراستہ اور دلکشا ہے، اقبال کہتے ہیں کہ میرے حرف و صوت خام اور میری فکر نا تمام ہے، میرے بس میں نہیں کہ میں اس مقام کی کیفیات کو بیان کر سکوں۔ یہ وہ مقام تھا کہ فرشتوں کی آنکھیں اس کے مشاہدے سے روشن ہوتی تھیں اور وہ اس مقام کو دیکھ کر زندہ، دانا اور خبیر ہو جاتے تھے۔
قصرے از فیروزہ دیوار و درش
آسمانِ نیلگون اندر برش
رفعتِ او برتر از چند و چگون
می کند اندیشہ را خوار و زبوں
آں گل و سرو و سمن، آن شاخسار
از لطافت مثلِ تصویرِ بہار
ہر زمان برگِ گل و برگِ شجر
دارد از ذوقِ نمو رنگِ دگر
این قدر بادِ صبا افسون گراست
تامژہ برہم زنی، زرد احمراست
ہر طرف فوارہ ہا گوہر فروش
مرغکِ فردوس زاد اندر خروش
بارگاہے اندران کاخِ بلند
ذرّۂ او آفتاب اندر کمند
سقف و دیوار و اساطین از عقیق
فرشِ او از یشم و پرچین از عقیق
بر یمین و بر یسارِ آن وثاق
حوریان صف بستہ با زرین نطاق
درمیان بنشستہ بر اورنگِ زر
خسروانِ جم چشم، بہرام فر
(وہ) ایک محل تھا، جس کے دیوار و در فیروزے کے تھے، وسیع اتنا کہ آسمانِ نیلگوں اسی میں سمایا ہوا تھا۔ اس کی رفعت ہر کیفیت سے بالا تر تھی، اس کے بارے میں غور و فکر کرنے سے عقل کو اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ پھر وہ پھول اور سرو وسمن، وہ شاخسار، لطافت میں بہار کی تصویر تھے، پھول کی پتیاں اور درختوں کے پتے، ہر لمحہ ذوقِ نمو کی بدولت نیا رنگ دکھاتے تھے، بادِصبا وہاں ایسی جادوگر ہے، کہ پلک جھپکنے میں زرد… سُرخ ہو جاتا ہے، فوّارے ہر طرف موتی بکھیر رہے تھے، اور فردوس کا باسی پرندہ نغمہ سرا تھا۔ اس بلند محل میں ایک دربار تھا جس کا ذرّہ گویا آفتاب پر کمند ڈالتا تھا اس دربار کی چھت، دیوار اور ستون، سب عقیق کے تھے، فرش اس کا سنگِ یشب کا تھا اور اس میں پرچیں کاری عقیق کے ٹکڑوں سے کی گئی تھی۔ اس بارگاہ کے دائیں بائیں زرّیں کمر حُوریں صف بستہ کھڑی تھیں، درمیان میں ایک چاندی کے تخت پر وہ جمشید کی سی شکوہ اور بہرام کا سا طنطنہ رکھنے والے بادشاہ فرو کش تھے۔
اس منظر کی صورت گری میں اقبال نے فنی اعتبار سے بہت کاوش کی ہے، اور شاید جاوید نامہ میں یہی ایک مقام ایسا ہے جس پر ’فردوس‘ یا اس کے تصورات کا اطلاق کیا جا سکے… وگرنہ اس سے قبل کی سیرِ سیار گان کو کسی طرح بھی ’سیرِ فردوس ‘ نہیں کہا جا سکتا، واقعہ یہ ہے کہ جاوید نامہ کا روحانی سفر ڈانٹے (ڈوائن کامیڈی) کے سفر سے بہت کم مشابہت رکھتا ہے، ڈانٹے نے اسلامی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنم، برزخ اور فردوس کی سیر کی ہے، جب کہ اقبال جہنم اور برزخ کے تصورات کو چھوڑ کر چھ ستاروں (قمر، عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل) کے افلاک کی سیر کرتے ہیں۔ اور آخر میں ’آن سوئے افلاک‘ کا سفر اختیار کرتے ہیں۔
۲
بیسویں صدی کے آغاز میں ایشیائی اقوام میں قومی بیدای اور سیاسی آزادی کی تحریکیں کچھ ایسی حقیقتیں تھیں جن سے، اقبال کے نزدیک، رُوگردانی ممکن نہ تھی، ایشیا کی بیداری میں اقبال ایک نئی دُنیا کے ظہور کے امکانات دیکھتے تھے، اگرچہ ایشیا کی تقدیر کے بارے میں کچھ اندیشے بھی اُن کے ذہن میں ضرور پیدا ہوتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر وہ مغرب کے مقابلے میں ایشیا کی سیاسی انگڑائی کو خود عالمِ انسانیت کے لیے بھی ایک خوش آئند امکان تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ضربِ کلیم کو جسے اُنھوں نے خود ہی دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ، قرار دیا ہے، فرما نروائے بھوپال اعلیٰ حضرت سر حمید اللہ خان سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
زمانہ با اُممِ ایشیا چہ کرد و کند
کسے نہ بود کہ این داستان فروخواند
تو صاحبِ نظری، آنچہ در ضمیرِ من است
دلِ تو بیند و اندیشۂ تو می داند
بگیر این ہمہ سرمایۂ بہار از من
کہ گل بدستِ تو از شاخ تازہ ترماند
زمانے نے ایشیا کی اقوام و ملل کے ساتھ کیا کچھ کیا اور ابھی نجانے کیا کچھ کرے گا،… یہ ایک داستان ہے، اور اس داستان کو پڑھنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ تو صاحبِ نظر ہے، اس لیے جو کچھ میرے ضمیر میں ہے، تیرا دل اسے دیکھتا ہے، اور تیرا ذہن اسے پڑھ سکتا ہے(میرے یہ افکار ایک سرمایۂ بہار ہیں) مجھ سے یہ سرمایۂ بہار لے لے…کہ (بقولِ شاعر)تیرے ہاتھ میں پھول شاخ کی نسبت زیادہ تر و تازہ نظر آتا ہے۔
اس میں بھی شک نہیں کہ اقبال جب مشرق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد زیادہ تر ایشیا ہی ہوتا ہے، مثلاً ایک مختصر نظم میں یورپ اور ایشیا کا موازنہ کرتے ہیں۔
نہ ایشیا میں، نہ یورپ میں سوزوسازِ حیات
خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت
دلوں میں ولولۂِ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
(انقلاب: ضرب کلیم)
اس ’ولولۂ انقلاب ‘ کی ایک نوائے حیات انگیز تو خود اُن کی اپنی شاعری اور افکار ہی ہیں،…لیکن اس کا پر تو وہ خارجی احوال و ظروف میں بھی دیکھتے تھے۔ اسی لیے ایشیا کے مستقبل کے بارے میں اُن کے ہاں ایک گہری آرزو مندی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس آرزو مندی کا مرکزی نقطہ یہ خیال ہے کہ اس بیدار ہوتی ہوئی نئی دُنیا میں مسلمانوں کو تشکیلی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور ایشیا کی جن مسلمان قوموں کی طرف اُن کی نظر بار بار اُٹھتی ہے، اُن میں برِصغیر کے مسلمانوں کے علاوہ ملتِ افغانیہ بھی ہے جس کی اجتماعی شخصیت میں اقبال کو ایک فعال اور تاریخ ساز صلاحیت کے آثار دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ اقبال کے ہاں یہ احساس بھی شدید ہے کہ ملتِ افغانیہ، ابھی اُسی خوابِ نوشینہ میں ہے، جو ایشیا کی دوسری اقوام کی تقدیر رہا ہے، لیکن اُن کی نظر امکانات پر ہے، اس لیے اُنھوں نے محراب گل افغان کے نام سے بیس غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں جو ’ضربِ کلیم‘ میں بطورِ تتمہ شامل ہیں،…ملتِ افغانیہ کے ساتھ اس ذہنی وابستگی کی بدولت اقبال کی نظر بار بار اس کی تاریخ کی طرف جاتی ہے، اور اُن کے ذہن میں اس قوم کے بانی کی تصویر اُبھرتی ہے، جسے تاریخ احمد شاہ ابدالی کے نام سے یاد رکھتی ہے۔ اس لیے جن سلاطینِ اسلام کا ذکر اقبال کے ہاں محبت اور عقیدت کے ساتھ ملتا ہے، اُن میں شاید سرِ فہرست نام احمد شاہ ابدالی ہی کا ہے، جاوید نامہکی تصنیف سے پیشتر جب وہ نادر شاہ بادشاہِ افغانستان کی دعوت پر افغانستان گئے تو بابر اور محمود غزنوی کے مزارات کی زیارت کے بعد اُنھوں نے احمد شاہ ابدالی کے مزار کی زیارت بھی کی، اس موقعے پر اُن کے ذہن میں جو تاثرات اُبھرے وہ ان کی ایک مختصر فارسی مثنوی ’مسافر‘ میں شامل ہیں۔ اس پارۂِ نظم کا عنوان ہے ’’بر مزارِ احمد شاہ بابا مؤسسِ ملتِ افغانیہ‘‘… اس میں اقبال پہلی بار احمد شاہ ابدالی کو ایسا پر زور خراجِ عقیدت پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں:
تربتِ آن خسروِ روشن ضمیر
از ضمیرش ملتے صورت پذیر
گنبدِ او را حرم داند سپہر
بافروغ از طوفِ او سیمائے مہر
مثلِ فاتح آن امیرِ صف شکن
سکۂ زد ہم بہ اقلیمِ سخن
ملتے را داد ذوقِ جستجو
قدسیان ’تسبیح خوان‘ برخاکِ اُو
از دل و دستِ گُہر ریزے کہ داشت
سلطنت ہا برد وبے پروا گذاشت
نکتہ سنجِ عارف و شمشیرزن
روحِ پاکش بامن آمد درسخن
گفت می دانم مقامِ تو کجاست
نغمۂ تو خاکیان را کیمیاست
خشت و سنگ از فیض تو دارائے دل
روشن از گفتارِ تو سینائے دل
پیش ما اے آشنائے کوئے دوست
یک نفس بنشین کہ داری بوئے دوست
اُس روشن ضمیر بادشاہ کی تربت (کے بارے میں کیا کہوں) جس کے ضمیر میں ایک قوم متشکل ہوئی۔ آسمان اس کے مزار کے کے گنبد کو اپنے لیے حرم تصور کرتا ہے۔ اور سورج کی پیشانی بھی اس کے طواف سے چمک دمک حاصل کرتی ہے،… اس امیرِ صف شکن نے بھی فاتح (بہ تصریحِ اقبال: سلطان محمد فاتح، فاتحِ قسطنطنیہ) کی طرح اقلیم سخن میں بھی اپنا سکہ رائج کیا، اس نے ایک قوم کو ذوقِ جستجو عطا کیا۔ فرشتے اس کی خاکِ مزار پر تسبیح خواں ہیں۔ اس کا دل اور اس کا ہاتھ، دونوں موتی لٹانے والے تھے…اسی لیے اس نے سلطنتیں فتح کیں اور پھر اُن کو بے نیازانہ چھوڑ بھی دیا، وہ ایک نکتہ سنج، عارف اور شمشیرزن تھا، اس کی رُوحِ پاک مجھ سے ہم کلام ہوئی۔ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تیرا مقام کیا ہے (اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ) تیرا نغمۂِ شاعری خاکیوں کے لیے کیمیائی تاثیر رکھتا ہے۔ تیرے فیض سے سنگ و خشت میں بھی دل کی دھڑکنیں پیدا ہو گئی ہیں اور دل کا طورِ سینا تیری گفتار سے روشن ہے، اے کوچۂ دوست کے آشنا، ذرا ہمارے قریب آ، تھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھ کہ تجھ سے ہمیں بوئے دوست آتی ہے۔
اس تمہید کے بعد اقبال نے احمد شاہ ابدالی کی زبان سے ملتِ افغانیہ (اور ملتِ اسلامیہ) کو خود گری اور خودنگری نیز نظامِ کہنہ کی شکست سے نظامِ نو کی تعمیر کا پیغام دیا ہے،… دراصل یہ پیغام بھی ایک تمہید ہے، اس طویل خطاب کی، جس کا عنوان ہے خطاب بہ پادشاہِ اسلام اعلیٰحضرت ظاہر شاہ اَیَّدَ اللّٰہ بنصرہ،… بہرحال روحِ ابدالی اقبال سے مخاطب ہو کر کَہ رہی ہے:
اے خوش آن کواز خودی آئینہ ساخت
وندران آئینہ عالم را شناخت
پیر گردید این زمین و این سپہر
ماہ کور از کورچشمیہائے مہر
گرمیِ ہنگامۂ می بایدش
تانخستین رنگ و بو باز آیدش
بندۂ مومن سرافیلی کند
بانگِ اُو ہر کہنہ را برہم زند
کیا ہی اچھا ہے وہ جس نے اپنی خودی کو آئینہ بنایا اور اس آئینے میں دُنیا کو دیکھا۔ یہ زمین اور یہ آسمان بوڑھے ہو گئے ہیں۔ چاند بھی سورج کی کور چشمی سے تاریک ہو چکا ہے۔ اسے گرمیِ ہنگامہ کی ضروت ہے۔ تا کہ اس کا اولیں رنگ دوبارہ آسکے، بندۂ مومن اسرافیلی کرتا ہے، اس کی آواز ہر پرانی چیز کو توڑ دیتی ہے۔
۳
احمد شاہ ابدالی،… قیاساً ۱۷۲۲ء میں ملتان کے مقام پر پیدا ہوا۔ (ملتان میں پیدا ہونے کے عمومی نظریئے سے بعض مؤرخین نے اختلاف کیا ہے، میر غلام محمد غبار مصنف احمد شاہ بابائے افغان، نے ۱۱۴۳۵ھ(۱۷۲۲ئ) میں ہرات میں اس کی پیدائش بتائی ہے) یہ زمانہ افغانیوں کے انتشار کا زمانہ تھا، احمد شاہ کے عنفوانِ شباب میں نادر شاہ اپنی سلطنت کے استحکام و توسیع میں مصروف تھا۔ سولہ برس کی عمر میں نادر شاہ نے اسے اپنا یساول بنا لیا۔ بہت جلد اسے ’بنک باشی‘ یا افسرِ خزانہ بنا دیا گیا۔ نادر شاہ اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر تھا کہ سرِدربار اس کی تحسین میں کہا کرتا تھا کہ میں نے ایران تو ران اور ہندوستان میں احمد ابدالی جیسا جوہرِ قابل کہیں نہیں دیکھا۔ نادر شاہ نے اس کی کمان میں چار ہزار بہادر ابدالی سوار دے رکھے تھے، اور اسے اپنے خیمۂ شاہی کے دوسرے دروازے پر تعینات رکھتا تھا، کہا جاتا ہے کہ نظام الملک آصف جاہِ دکن نے (نادر شاہ کی فتح دہلی کے چند روز بعد) اپنی غیر معمولی قیافہ شناسی کی بنا پر احمد شاہ کے بادشاہ بننے کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ ۱۷۴۷ء میں نادر شاہ کو اس کے ایرانی امرا (صالح خاں اور محمد خاں) نے قتل کر دیا، یہ وہ واقعہ ہے جس نے افغانیوں پر اُن کی قومیت اور اُن کی ممکنہ آزادی کے دروازے کھول دیے، اُنھیں احمد شاہ کی شخصیت میں اپنی قوم کے لیے ایک مسیحا کی جھلک پہلے ہی سے نظر آتی تھی۔ نادر شاہ کے قتل نے احمد شاہ کی حیثیت کو اور مستحکم کر دیا تھا۔ وہ نئی افغان قومیت کا بانی بن سکتا تھا،… نادر شاہ کے قتل کے بعد ایک درویش (صابر شاہ) نے احمد شاہ کو بتاکید کہا کہ وہ اپنے آپ کو ’شاہ‘ کہنا شروع کردے، لیکن احمد شاہ نے اس وقت تک توقف کیا جب تک قبائلی سرداروں نے اسے اپنا بادشاہ منتخب نہیں کر لیا۔ اسی متذکرہ درویش نے اسے ’’بادشاہِ دُرِ دوراں‘‘ کا خطاب بھی دیا، تاہم احمد شاہ نے ازراہِ انکسار اپنے آپ کو ’’دُرِ دوراں‘‘ کی بجائے صرف ’’دُرِ دُرّاں‘‘ کہلانے پر اکتفا کیا۔ ایک عرصے تک اپنے ارد گرد کے علاقوں کو فتح کرنے اور اُن کا انتظام درست کرنے کے بعد احمد شاہ مشرقی علاقوں بالخصوص پنجاب کی طرف متوجہ ہوا۔ ملتان اور لاہور اس کی توجہ کا خاص مرکز تھے، ملتان اس لیے کہ اس کی جائے پیدائش بھی کہلاتا تھا، اور لاہور اس لیے کہ مغل سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا جس کی دولت مندی کے افسانے بہت مشہور تھے۔ لاہور (پنجاب) کو فتح کرنے میں احمد شاہ کو معین الملک (میر منو) گورنر لاہور کے ساتھ کئی معرکے پیش آئے۔ جن میں بالآخر فتح احمد شاہ ہی کو ہوئی،…اس کے کچھ عرصے بعد اسے دہلی فتح کرنے کا پھر خیال آیا، اس وقت دہلی پر عالمگیر ثانی کی حکومت تھی۔ مشرق اور جنوب میں انگریز نواب سراج الدولہ کو(۱۷۵۷ئ) میں شکست دے کر شمال اور شمال مغرب کی طرف بڑھ رہے تھے، اس پر آشوب دَور میں سیواجی کا لگایا ہوا پودا برگ و بار لارہا تھا۔ مرہٹے ایک زبردست طاقت بن چکے تھے، بظاہر اس اُبھرتی ہوئی طاقت کو دبانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ نادرشاہ کے حملے (۱۷۳۹ئ) اور سکھوں اور مرہٹوں کی شورشیں دہلی کی حکومت کو کمزور سے کمزور تر کرتی جا رہی تھیں۔ سبھی لوٹنے والے تھے اور سبھی روپے پیسے کے خواہاں تھے۔ بقولِ میر:
چور اُچکّے، سکھ، مرہٹے، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی اک دولت ہے یاں!
ان حالات میں قریب تھا کہ شمال مغربی ہند میں ہندو مرہٹہ ہمیشہ کے لیے چھا جائیں، اور مسلمانوں کی رہی سہی مرکزیت خاک میں مل جائے، امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۲ئ) نے مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے لیے معاشرتی اور عمرانی اصلاحات کے ساتھ ایک زبردست اور منظم تحریک چلائی اور احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہو کر مسلمان دشمن اور اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا تحفظ کرے۔ احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر کئی حملے کیے اور بالآخر دہلی کو بھی فتح کر ہی لیا، (عالمگیر ثانی کی طرف سے کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں ہوئی)…لیکن وہ جنگ جو برِصغیر کی تاریخ پر دوررس اثرات مرتب کرنے والی تھی، اور جس نے مرہٹوں کی عسکری طاقت کو، جسے زودیا بدیر مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونا تھا۔ آنے والے کئی ادوار کے لیے ختم کر دیا، پانی پت کی جنگ تھی جو احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان لڑی گئی،…یہ معرکہ جنوری ۱۷۶۱ء میں پیش آیا اور پانی پت کی تیسری جنگ کہلایا۔ اس مشہور جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی فوجوں نے مرہٹوں کو شکستِ فاش دی،… لیکن احمد شاہ نے دہلی کا تخت بدستور مغل حکمران کے پاس ہی رہنے دیا…اگرچہ اس کے عہد میں پنجاب میں سکھوں کا عمل دخل زیادہ وسیع نہ ہو سکا لیکن جونہی ابدالی کی فوجیں کابل کا رُخ کرتی تھیں، پنجاب میں سکھوں کی دہشت گردی شروع ہو جاتی تھی،…اس کے باوجود ہندوستان پر ابدالی کے حملوں کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے اور اس کا وجود شمال مغربی علاقوں کے مسلمانوں کے لیے سیاسی تقویت کا باعث رہا۔ چونکہ اس کی شخصیت میں درویشی اور سلطانی کا خوبصورت امتزاج تھا، اس لیے اقبال کے فکرو تخیل کے لیے اس میں بے حد کشش تھی، اس کی زندگی دلِ گداز اور بازو ئے شمشیرزن سے عبارت تھی، اس کی شخصیت میں ملتِ اسلامیہ کے لیے دردمندی کا سراغ ملتا ہے، اس نے دہلی کو فتح کرنے کے باوجود اس پر قبضہ نہیں کیا اور اپنی حدودِ سلطنت کو پنجاب تک محدود رکھا، اس نے ساری زندگی نادر شاہ کو ایک محسن کی حیثیت سے یاد کیا اور اس کے خاندان کے افراد کے ساتھ عزت و توقیر کا سلوک کیا۔ بحیثیت مجموعی احمد شاہ ابدالی کی شخصیت اٹھارہویں صدی میں مغربی اور جنوب مغربی ایشیا پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے، اس کی کشور کشائی اور سیاسی حکمتِ عملی سے ملتِ اسلامیہ کو فائدہ ہی پہنچا، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے برصغیر کے ان علاقوں کو مرہٹوں کی عسکری دستبرد کے امکانات سے محفوظ کیا۔ جنھیں آگے چل کر کم و بیش دو صدی بعد ایک مملکتِ خداد د کہلانا تھا۔ اس لیے اقبال کی دور رس نگاہیں ماضی کے جن محسنین پر بار بار رُکتی تھیں اُن میں احمد شاہ ابدالی بے حد اہمیت کا حامل تھا۔ یوں بھی اپنے جوشِ کردار، قوتِ عمل اور فقر پسندی کے اعتبار سے وہ اقبال کے لیے ایک مثالی شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اُنھوں نے احمد شاہ کو جاوید نامہ میں بہت نمایاں مقام دیا ہے۔
۴
ایک فنی شاہکار کی حیثیت سے جاوید نامہ اقبال کی تمام شعری تصانیف میں خصوصی امتیاز کا حامل ہے۔ یہ اقبال کے پختہ تر شعری اور فنی شعور کا ثمرہ اور ان کے فکری ارتقا کا حاصل ہے،اس لیے اس کی فکری اور فنی جہتیں یکسا ں اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن جاوید نامہ کا تمام فکری اور فنی تاروپود ایک ہی جذبے اور ایک ہی مرکزی خیال سے عبارت ہے، اور وہ ہے عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کی حیاتِ ثانیہ کو ممکن بنانے کی سعیِ بلیغ جس میں اقبال پوری زندگی ہمہ تن مصروف رہے۔ جاوید نامہ میں جن کرداروں کو اقبال نے حیاتِ جاوید عطا کی ہے، ان سب کی معنویت کا دارومدار بھی اسی ایک نکتے پر ہے کہ وہ کس حد تک اقبال کے افکار کو تمثیل و علامت کے علاوہ صراحت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔ جاوید نامہ میں اقبال نے تاریخ کو مستقبل پر پھیلا کر دیکھا ہے، اس پھیلائو کا حاصل وہ مطالب ہیں جو عہدِرواں میں اسلامی تمدن کی بقا و احیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان کرداروں میں، جنھیں جاوید نامہ کی حیاتِ سرمدی میں سب سے بلند مقام عطا کیا گیا ہے، جرمن فلسفی نیتشے، امیرِ کبیر حضرت سیّد علی ہمدانی، ملا طاہر غنی کاشمیری، ہندی شاعر بھر تری ہری اور سلاطینِ مشرق میں نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور سلطانِ شہید ہیں۔ اس خیالی یا تمثیلی ملاقات میں جو جاوید نامہ کے مرکزی کردار زندہ رود کو ان جلیل القدر ہستیوں سے حاصل ہوتی ہے، مولانا رُوم کو ہر موقع پر ایک رہبر اور تعارف کرانے والے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا خِ سلاطین میں جہاں اسلامی مشرق کے جلیل القدر سلاطین ہیں اور جو تمام لوازماتِ شاہانہ سے آراستہ ہے، رُومی کی جانب سے تعارفی کلمات کے بعد گفتگو کا آغاز نادر شاہ کرتا ہے، جو زندہ رود (یعنی اقبال) کو نکتہ سنجِ خاوری کے الفاظ سے مخاطب کرتا ہے، اسے اس کی فارسی گوئی کی دا دبھی دیتا ہے، اور اس سے ایران کا حال بھی دریافت کرتا ہے،… اس سوال کے جواب میں اقبال نے جو کچھ (زندہ رود کی زبانی) کہا ہے، اسے اسلامی تمدن کی تاریخ میں ایک زبردست تبصرے کی حیثیت حاصل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایران نے ایک مدت کے بعد آنکھیں تو کھولی ہیں، لیکن جلدی ہی ایک حلقۂِ دام میں گر گیا ہے، وہ اگرچہ خود تہذیب کا خالق ہے، لیکن اس وقت تہذیبِ فرنگ کا مقلّد ہے، اسے اپنے حسب و نسب پر فخر و مباہات اور تحقیرِ عرب سے فرصت ہی نہیں ہے۔ وہ پرانی قبروں سے زندگی مانگ رہا ہے۔ اس کا دامن کسی زندہ واردات سے خالی ہے، وطنیّت میں غلو کر کے وہ خود کو بھول رہا ہے اس نے رُستم کے عشق میں حیدر (علی المرتضیٰ) کو فراموش کر دیا ہے،…اس جواب کا اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے:
آنکہ رفت از پیکرِ او جانِ پاک
بے قیامت بر نمی آید ز خاک
مردِ صحرائی بہ ایران جان دمید
باز سوئے ریگ زارِ خود رمید
کہنہ را از لوحِ ما بسترد و رفت
برگ و سازِ عصرِ نو آورد و رفت
آہ، احسانِ عرب نشناختند
از تشِ افرنگیاں بگداختند
و ہ جانِ پاک جو اس کے (ایران کے) بدن سے رُخصت ہو گئی ہے، وہ قیامت برپا ہوئے بغیر واپس نہیں آسکتی۔ ایک مردِ صحرائی نے ایران کی خاک میں زندگی (کے پھول) اُگائے، لیکن (جلد ہی) اپنے ریگ زاروں کو لَوٹ گیا۔ اس نے ہماری (فکر و عمل) کی تختی سے قدامت (کے نقش) کو مٹا دیا تھا۔ وہ ایک نئے عہد کا سازو رخت لے آیا تھا۔ افسوس (اہلِ ایران نے) عربوں کے احسان کو نہ پہچانا اور فرنگیوں کی بھڑکائی ہوئی آگ سے پگھل گئے۔
اِدھر زندہ رود نے یہ الفاظ کہے اور اُدھر حکیم ناصر خسرو علوی کی رُوح ظاہر ہوئی جو ایک غزل مستانہ سنا کر غائب ہو گئی۔ جاوید نامہ میں اس علوی مبلغ اور شاعر کی صرف یہی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ یہ غزل اپنے مطالب کے اعتبار سے اقبال کے افکار سے بہت حد تک ہم آہنگ ہے، اور اس غزل کو جاوید نامہ کے لیے منتخب کرنے کا سبب بھی یقینا یہی ہے،…اس غزل کے بعد ابدالی زندہ رود سے سوال کرتا ہے، اس سوال میں ’آن جوان‘ سے مراد وہ افغان قوم ہے جس نے ابدالی کی سر کردگی میں تاریخ میں پہلی بار اپنے قومی تشخص کو دریافت کیا تھا۔
آن جوان کو سلطنت ہا آفرید
باز در کوہ و قِفارِ خود رمید
آتشے در کوہسارش برفروخت
خوش عیار آمد برون یا پاک سوخت
وہ جواں جس نے سلطنت پیدا کی تھی، پھر لوٹ کر اپنے پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں کی طرف چلا گیا تھا اور اس نے اپنے کہساروں میں آگ جلائی تھی۔ کیا وہ اس آگ میں خالص سونے کی طرح مزید نکھر گیا یاجل کر خاک ہو گا؟اس سوال کے جواب میں زندہ رود جواب دیتا ہے:
اُمتان اندر اخوت گرم خیز
او برادر با برادر در ستیز
ازحیاتِ اُو حیاتِ خاور است
طفلکِ دہ سالہ اش لشکر گراست
بے خبر خود خود را ز خود پرداختہ
ممکناتِ خویش را نشناختہ
ہست دارائے دل و غافل زِدِل
تن ز تن اندر فراق و دل زدل
خوش سرود آن شاعرِ افغان شناس
آنکہ بیند، باز گوید بے ہراس
’’اشترے یابد اگر افغانِ حُرّ
با یراق و ساز و با انبارِ دُر
ہمتِ دونش ازان انبارِ دُر
می شود خوشنود با زنگِ شُتر‘‘
’قومیں بھائی چارے کے اُصول پر سرگم عمل ہیں۔ لیکن اس (افغان) کا یہ عالم ہے کہ بھائی بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اس کی زندگی سے مشرق کی زندگی ہے۔ اس (قوم) کا دس سالہ لڑکا بھی لشکر گر ہے لیکن اپنے آپ سے بے خبر ہو کر خود سے خالی ہو گیا، اس نے اپنے امکانات کو نہیں پہچانا۔ سینے میں دل تو رکھتا ہے، لیکن دل سے بے خبر ہے اس کے جسم کو جسم کا اور دل کو دل کا فراق درپیش ہے۔ اس افغان شناس شاعر (خوشحال خاں خٹک) نے کیا خوب کہا ہے، وہ شاعر جو کچھ دیکھتا ہے، بے خوف و خطر کَہ دیتا ہے، وہ کہتا ہے ’’اگر کسی افغان کو سازو سامان اور موتیوں سے لدا ہوا اُونٹ مل جائے تو اس کی پستیِ ہمت موتیوں کے ڈھیر کو چھوڑ کر اُونٹ کی گھنٹی سے زیادہ لطف اندوز ہوگی،…
زندہ رود کا یہ جواب اور خوشحال خاں خٹک کے قول کا حوالہ ابدالی کے سلسۂِ خیال کے لیے مہمیز ثابت ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم (افغانیوں) کی فطرت میں اضطراب و بے قراری روزِ ازل سے ہے۔ در اصل اس مٹی کے ڈھیر (انسان) میں بیداری دل کی بدولت ہے۔ دل مرجائے تو جسم دگرگوں ہو جاتا ہے۔ دل کی دگرگونی سے جسم ہیچ رہ جاتا ہے۔ اس لیے (اے مخاطب)دل پر ہی نگاہ رکھ اور اس کے سوا کسی اور چیز سے وابستہ نہ رہ۔ ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے، اور ملت افغان اس پیکر میں دل کی حیثیت رکھتی ہے،… اس کے انتشار میں ایشیا کا انتشار، اور اس کی کشادِ کار میں ایشیا کی کشادِ کار مضمر ہے،… اگر دل آزاد ہے تو جسم بھی آزاد ہے۔ وگرنہ جسم تو ہوا کے راستے کا ایک تنکا ہے۔ اور بس ! لیکن جسم کی طرح دِل بھی کسی آئین کا پابند ہے۔ یہ کینے سے مردہ اور ’دین‘ سے زندہ ہو جاتا ہے۔ دین کی قوت مقامِ وحدت سے ہے اور وحدت جب ظاہر و مشہود ہوتی ہے تو ملت بن جاتی ہے۔
ابدالی کے اس طویل محاکمے میں مغربی تہذیب پر ایک بھر پور تنقید بھی شامل ہے،جو فی الحقیقت اقبال کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ احمد شاہ ابدالی کی زبان سے یہ تنقید اور بھی سخت اور معنی خیز ہو جاتی ہے، اس لیے کہ احمد شاہ ابدالی کے عہد میں برِصغیر میں فرنگی اپنا جال پوری طرح بچھا چکے تھے۔ احمد شاہ ابدالی اپنے محاکمے میں تہذیبِ مغرب کی قوت کا راز دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ افرنگ کی قوت علم و فن سے ہے:
شرق را از خود برد تقلیدِ غرب
باید این اقوام را تنقیدِ غرب
قوتِ مغرب نہ ازچنگ و رباب
نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب
نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ رُوست
نے زعریان ساق و نے از قطعِ موست
محکمی اورا نہ از لادینی است
نے فروغش از خطِ لاطینی است
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمین آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست
مانعِ علم و ہُنر عمامہ نیست
علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ
مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ
اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست
این کُلہ یا آن کُلہ مطلوب نیست
فکرِ چالاکے اگر داری بس است
طبعِ درّاکے اگر داری، بس است!
تقلید مغرب اہلِ مشرق کو اپنے آپ سے بیگانہ بنارہی ہے، چاہیے یہ کہ اقوامِ مشرق تہذیبِ مغرب کی تنقید (یاتجزیہ) کریں۔ مغرب کی قوت چنگ ورباب یا بے پردہ لڑکیوں کے رقص میں مضمر نہیں۔ یہ قوت لالہ رُو (خوبرو) ساحروں کی ساحری، اعضائے بدن کی عریانی یا بالوں کے کاٹنے میں نہیں۔ مغرب اگر محکم و مستحکم ہے تو یہ اس کی لادینیت یا لاطینی رسم الخط کی بدولت بھی نہیں۔ افرنگ کی قوت علم و فن سے ہے، یہی وہ آگ ہے جس سے اس کا چراغ روشن ہے۔ علم وحکمت کا تعلق لباس کی وضع قطع سے نہیں ہے، عمامہ علم و ہنر کے حصول میں رکاوٹ نہیں۔ اے شوخ و شنگ نوجوان! علم کے لیے مغز درکار ہے نہ کہ مغربی طرزِ لباس۔ اس راستے میں نظر کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے۔ کلاہ و سرپوش کی یہاں کوئی تخصیص نہیں۔ اگر تیرے پاس فکرِ چالاک اور طبعِ درّاک ہے تو یہ کا فی ہے۔
غالباًیہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں اقبال کے ہاں مغرب کی تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی قوت کا تجزیہ بھی ملتا ہے، ابدالی کے الفاظ میں اقبال کا یہ محاکمہ کتنا صحیح ہے کہ مشرقی اقوام ظواہر میں مغرب کی مقلد ہیں، نیز اُن تمام رسوم میں جو حظِ جسمانی اور نشاط پسندی سے تعلق رکھتی ہیں، مغرب کی تقلید کی جا رہی ہے۔ نہیں کی جا رہی تو علم و فن میں جو دراصل تہذیبِ فرنگ کی قوت کا اصل سرچشمہ ہے اور علم و فن کے لیے کسی لباس یا وضع قطع کی قید نہیں، اہلِ مشرق اپنے تہذیبی تشخص کو قائم رکھتے ہوئے بھی جدید علوم و فنون حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ علم و فن کے لیے مغز (ذہن) درکار ہے نہ کہ کسی مخصوص وضع کا لباس! اسی سلسلۂ کلام میں اقبال نے ترکوں کی مغرب پسندی کو بھی نشانۂِ تنقید بنا یا ہے، ابدالی ہی کی زبان میں کہتے ہیں:
ترکِ از خود رفتہ و مستِ فرنگ
زہرِ نوشین خوردہ از دستِ فرنگ
زانکہ تریاقِ عراق ازدست داد
من چہ گویم جز ’خدایش یار باد‘
بندۂِ افرنگ از ذوقِ نمود
می برد از غربیان رقص و سرود
نقدِ جانِ خویش در بازد بہ لہو
علم دشوارست می سازد بہ لہو
از تن آسانی بگیرد سہل را
فطرتِ اُو درپذیرد سہل را
سہل را جُستن درین دیرِ کہن
این دلیلِ آن کہ جان رفت ازبدن!
تُرک جو اپنے آپ میں نہیں رہا بلکہ مستِ فرنگ (شیدائے فرنگ) ہو گیا ہے۔ فرنگ کے ہاتھوں میٹھا زہر پی چکا ہے، چونکہ اس نے عراق کے تریاق…(عراق سے مجازاً مراد عرب، اور عرب سے مراد دینِ اسلام) کو ہاتھ سے دے دیا ہے، اس لیے اب میں اس کے سوا کیا کَہ سکتا ہوں کہ خدا ہی اس کا نگہبان ہو۔ تہذیبِ افرنگ کے (ذہنی) غلام ظاہری چمک دمک پرمرمٹے ہیں اور مغربیوں سے صرف رقص و سرود ہی سیکھ رہے ہیں۔ چونکہ علم کا حصول دشوار تھا، اس لیے اُنھوں نے رقص و سرود اور لہو و لعب ہی اختیار کر لیا۔ تن آسانی کی بدولت آسان کو اختیار کر لیا۔ ان کی فطرت آسان ہی کو پسند کرتی ہے۔ حالانکہ اس قدیم دُنیا میں آسان کی تلاش ثابت کرتی ہے کہ (تلاش کرنے والے کے) جسم سے جان رخصت ہو چکی ہے۔
اگرچہ زندہ رود کے ساتھ اپنے طویل مکالمے کے اختتام پر ابدالی مشرق کی تقدیر کو پہلوی و نادر (رضا شاہ پہلوی اور نادر شاہ) کے عزم و حزم کے ساتھ وابستہ کر تاہے، جوعصرِحاضر میں زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اقبال کے نقطۂ نظر سے رضا شاہ پہلوی اور نادر شاہ دوسری جنگِ عظیم سے قبل کے اسلامی مشرق میں مسلمانوں کے اقتدار اور سیاسی سر بلندی کی علامت تھے۔ یوں بھی ابدالی کے کردار کی نفسیات کا تقاضا تھا کہ وہ مشرق کی تقدیر کو ایران و افغانستان کے بادشاہوں کے عزم و ہمت سے وابستہ کرے،…!
اگرچہ احمد شاہ ابدالی…ایرانی فاتح نادر شاہ کا پرور دہ تھا، لیکن ایک قوم کا مؤسِس ہونے کے اعتبار سے، اور فقرو سلطانی کے انوکھے امتزاج کی بدولت وہ انیسویں صدی کے نصف اوّل میں ایشیائے کوچک اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوںکے لیے اُمید، حرکت و عمل اور عروج و اقتدار کی علامت دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے اسے مثنوی ’مسافر‘ میں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا، اور جاوید نامہ میں اسے سلاطینِ مشرق کی ایک نمائندہ علامت بنا دیا۔ اگرچہ ابدالی کے لیے برِ صغیر میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنا اور پنجاب میں سکھوں کی قوت کو ختم کرنا بوجوہ ممکن نہ تھا۔ تاہم اس نے افغانوں کو اُن کا قومی تشخص اور ایک آزاد اور خود مختار سلطنت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ برِصغیر کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی قوت میں اضافہ کیا۔ انیسویں صدی میں برِ صغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پرابدلی کی حکمتِ عملی کے اثرات بہت دور رس ثابت ہوئے۔ ملتِ اسلامیہ کی سر بلندی کے لیے اس کا جذبۂِ جہاد اور جوش عمل آج بھی ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے، وہ ایک درویش خو بادشاہ تھا جس میں بے شمار انسانی خوبیاں موجود تھیں۔ ایک عظیم فاتح ہونے کے باوجود اس کے ہاں ملک گیری کی وہ ہوس دکھائی نہیں دیتی جو اس جیسے فاتحین کی اوّلین خصوصیت ہوتی ہے۔ اقبال نے اسے جو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اسے کسی طرح بھی بے جا نہیں کہا جا سکتا۔