غلامی،… انسانی تمدن کے دامن کا قدیم تریم داغ ہے،… دُنیا کی تمام قدیم تہذیبوں اور عظیم الشان سلطنتوں کے استحکا م اور اُن کے معیشی نظام کا بہت کچھ انحصار غلامی کے ادارے پر تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے تقریباً دو ہزار سال پہلے کا مہذب و متمدن مصر صرف تہذیب و تمدن کا ہی نہیں، غلاموں کی خرید وفروخت کا بھی بہت بڑا مرکز تھا لیکن غلامی کے آثار اس سے پہلے بھی ملتے ہیں۔ سمیریوں کے بعض آثار بتاتے ہیں کہ وہ عورتوں کو غلام بنایا کرتے تھے اور غلام عورتوں کو ’’باہر سے آئی ہوئی عورتیں‘‘ کہا جاتا تھا۔ تورات میں لکھا ہے کہ ایک موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خاص واقعے کی خبر دی گئی تھی۔ یعنی فرمایا گیا تھا کہ ’’تیری اولاد ایک ایسے ملک میں جائے جو اُن کا ملک نہ ہوگا۔ وہاں لوگ اُسے غلام بنالیں گے اور چار سو برس تک وہاں رہے گی۔‘‘ (پیدائش،۱۵:۱۳) تورات کی اس پیش گوئی کا مصداق حضرت یوسفؑ اور اُن کے بھائی ہیں، جو مصر میں پہنچے… اور بنی اسرائیل کہلائے۔ مصر میں بنی اسرائیل کی آمد سے پیشتر ہی غلامی کا رواج عام تھا، اور کئی صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ عام طور پر متمدّن مصر کی اطراف و جوانب کے بدوی بالخصوص عبرانی اور کنعانی مصر میں غلام بنالیے جاتے تھے۔ اسی لیے جب سوداگروں کے ایک قافلے کا گذر اُس کنویں کے قریب سے ہوا جس میں حضرت یوسفؑ کو بھائیوں نے گرا دیا تھا، اور ایک آدمی پانی کی تلاش میں کنویں میں اُترا تو حضرت یوسفؑ کو دیکھ کر وہیں سے پکار ’’یا بشریٰ، ہذا غلام‘‘۔ (اے اہلِ قافلہ) خوشخبری ہو کہ (یہاں نیچے کنویں میں) ایک لڑکا ہے۔‘‘ گویا کسی لاوارث لڑکے کا کسی اہلِ قافلہ کو مل جانا اس بات کی دلیل تھی کہ اُس لڑکے کو بغیر کسی مزید استحقاق کے غلام بنایا جاسکتا ہے۔ یا بطورِ غلام فروخت کیا جاسکتا ہے۔ مصر ہی کی طرح یونان بھی،… جو جدید تہذیب و تمدن اور جدید علوم وفنون کا سرچشمہ اور نقطۂ آغاز کہلاتا ہے اور انسانی تہذیب کے قدیم مراکز میں سے ہے، اپنی متمدن زندگی کی معیشت کا انحصار غلامی ہی پر رکھتا تھا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عظیم مفکروں نے، جن کی قوتِ ادراک، فہم و فراست اور عقل وتمیز پر آج بھی انسانی دانش ناز کرسکتی ہے، غلامی کی روایات کو قطعاً حیرت کے ساتھ نہیں دیکھا۔ وہ فلسفی جنھوں نے صداقت، حسن اور خیر کے تصورات تک رسائی حاصل کی۔ ریاضی کی مقادیر اور اقلیدس کی اشکال کو دریافت کیا، فکرِصحیح کے اُصول مقرر کیے اور زندگی کے ہر خوب و ناخوب پر جی کھول کر بحثیں کی (مکالماتِ افلاطون)، … انسانی تہذیب کے جسم پر غلامی کے بدنما داغ کو نہ دیکھ سکے،… یہ اخلاقی ناسور اُنھیں انسانی تہذیب کے جسم کا ایک قدرتی اور فطری حصہ دکھائی دیا۔ قدیم دُنیا غلامی کے سہارے زندہ تھی، یہ شخصی غلامی (slavery)تھی۔ جو متمدن دُنیا کے تختِ رواں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھائے رکھتی تھی۔ یہ ایک ناگزیر حقیقت جسے اُس عہد کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے تمام اداروں کی توثیق حاصل تھی۔۱؎ طلوعِ اسلام کے وقت بھی اس وقت کی پوری مہذب دُنیا میں مروّج تھی۔ اسلام نے غلامی کو اس کے تاریخی وجوب (historical necessity) کے پیشِ نظر یکسر منسوخ تو نہیں کیا، کیونکہ ایسا کرنا تاریخی طور پر ناممکن (historical impossibility) تھا، تاہم اس کے لیے تقلیل اور تدریج کا اُصول اپنایا۔ غلاموں کے ساتھ برابری اور مساوات کے سلوک اور بات بات پر غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین،… اس عہد کے عظیم ترین انقلابی اقدامات تھے۔ اگرچہ غلامی ظہورِ اسلام کے بعد آنے والے کئی ادوار تک موجود رہی، لیکن اسلام کے قانونِ تدریج نے اسے اس طرح ختم کیا کہ غلاموں کو تخت و تاج اور علوم وفنون کا وارث بنا دیا۔ یہ اسلام ہی کی تعلیمات کا اثر تھا۔ کہ غلامی عملاً دُنیا سے مفقود ہوتی چلی گئی۔ اور اب اسے مہذب دُنیا کا شعور اور ضمیر کسی شکل میں بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ جدید دُنیا میں فکرِانسانی کی کجی اور ہوسِ اقتدار و مال وزر نے سیاسی بالادستی اور استعماریت کی صورت میں غلامی کی نئی شکلیں دریافت کرلیں، بہرحال غلامی شخصی ہو یاسیاسی، حیاتِ انسانی کے اخلاقی نشوو ارتقا میں حائل ہے۔
غلامی انسان کے اخلاقی جوہر کو برباد کردیتی ہے
غلامی انسانوں کے بہترین اخلاقی جوہر کو کس طرح برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ اسے علامہ اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
از غلامی دل بمیرد در بدن
از غلامی رُوح گردد بارِ تن
از غلامی ضعفِ پیری در شباب
از غلامی شیرِ غاب افگندہ ناب
از غلامی بزمِ ملت فرد فرد
این و آن با این و آن اندر نبرد
آن یکے اندر سجود این در قیام
کار و بارش چون صلوٰۃِ بے امام
درفتد ہر فرد بافردے دِگر
ہر زمان ہر فرد را دردے دگر
از غلامی مردِ حق زنار بند
از غلامی گوہرش نا ارجمند
کور ذوق و نیش را دانستہ نوش
مردۂ بے مرگ و نعشِ خود بدوش
غلامی سے دل جسم میں مرجاتا ہے اور رُوح جسم کے لیے بارِ گراں ہوجاتی ہے۔ غلامی میں جوانی میں بھی بڑھاپے کی سی کمزوری لاحق ہوجاتی ہے۔ غلامی میں شیرِبیشہ کے دانت بھی گرجاتے ہیں۔ غلامی میں قومیں فرد فرد ہوکر بکھر جاتی ہیں اور افراد ایک دوسرے سے برسرِپیکارہوجاتے ہیں۔ غلام قوم کے کاروبارِ حیات کی حالت نمازِ بے امام کی سی ہوجاتی ہے کہ کوئی سجدے میں ہے اور کوئی قیام میں۔ غرض افراد ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں،… اور ہر فرد کے دل میں ہروقت کوئی نیا دُکھ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ غلامی کی بدولت مردِ حق پرست بھی زنار باندھ لیتا ہے، غلامی اُس کے گوہر کو بے قیمت قرار دے دیتی ہے۔ غلام کور ذوق ہوجاتا ہے (اس کی حسیات اور اندازے غلط ہوجاتے ہیں) وہ زہر کو شربت سمجھ لیتا ہے۔ وہ مرنے سے قبل ہی مرجاتا ہے اور اس طرح جیتا ہے کہ گویا اپنی نعش کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہے۔
تاریخی اعتبار سے اقبال ایک محکوم قوم میں پیدا ہوئے تھے، لیکن اُن کی رُوح بیدار تھی، اور مسلمانوں کے لیے سیاسی آزادی کے حصول کی خواہش اُن کے باطن کا سب سے بڑا محشرستان تھی۔ یہی وہ آرزوئے حریت تھی جس نے اُردو زبان کو عظیم شاعری اور برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت کا خواب عطا کیا۔ اگر حقیقت پسندانہ تخیل اور تجزیے سے کام لیا جائے تو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کی شاعری کا تمام تر تاروپود۔ مسلمانوں کے اتحاد، اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور پوری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بالعموم آزادی کی خواہش سے تیار ہوا ہے۔ اُن کا گریۂ نیم شبی اور آہِ سحرگاہی۔ اُن کے اشکِ خونیں اور ان کی جگرکاوی،… سب کی علتِ غائی مسلمانوں کی پنجۂ ملوکیت واستعمار سے آزادی تھی۔ ان کی شاعری اور ان کی ذاتی علمی، ادبی اور سیاسی تحریروں کا ایک بہت بڑا حصہ آزادی و حریت کی تجلیل اور غلامی و محکومی کی مذمت سے عبارت ہے۔ وہ حرفِ راز جو اُنھیں ’جنوں‘ نے سکھایا تھا، اور جس کو زبان پر لانے کے لیے اُنھیں ’نفسِ جبرئیل‘ کی ضرورت تھی، یا ’خودی‘ یا ’آزادی‘ تھا… دیکھا جائے تو خودی اور آزادی ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں۔
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی!
دانشِ حاضر نے جس سحرِقدیم کو پھر زندہ کیا ہے۔ اس کے لیے اقبال نے چوبِ کلیم کو ضروری قرار دیا ہے۔ غرض یہ کلیمی، شبانی اور چوبِ کلیم، مردِ درویش کی حریت کیشی، انائے محکم کی بخود گزیدگی، خودی کی تیغِ تیز، عشق کا شورِ حشر انگیز… صوفیا کا سوزِ مشتاقی اور دو عالم میں نہ سما سکنے والا مردِ آفاقی… یہ سب نفسیاتی اور مابعد الطبیعیاتی معنوں میں خودی (ego or self) کے استعارے اور سیاسی معنوں میں آزادی و حریت کے اشارے ہیں۔ یوں تو اقبال نے جو کچھ کہا۔ ایجابی طور پر آزادی و حریت کے نفسی، تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مضمرات کی تشریحات کے طور پر کہا۔ لیکن سلبی طور پر، آزادی کی منفی صورت۔ محکومی اور غلامی کے بارے میں بھی اپنی شعری تخلیقی قوت کا ایک معتدبہ حصہ صَرف کیا ہے۔ تاہم غلامی و محکومی۔ یعنی بندگی کے موضوع پر اُنھوں نے ایک مکمل مثنوی ’’بندگی نامہ‘‘ بھی تصنیف کی، جو گلشنِ راز جدید کے ساتھ زبورِ عجم کے آخر میں بطور تتمے کے شامل ہے۔
بندگی نامہ
’بندگی نامہ‘… اقبال کی مختصر ترین فارسی مثنوی ہے، جو صرف ۱۶۸؍ اشعار پر مشتمل ہے لیکن اپنی بلاغت اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے اقبال کے کسی بھی دوسرے شہ پارے سے کم نہیں۔ اختصار کے باعث اُسے ہم اُن کی ایک کوچک (minor ) مثنوی ضرور کَہ سکتے ہیں لیکن اسے بھی اقبال کی شاعری میں وہی مقام حاصل ہے جو اُن کی کسی بھی دوسری اہم نظم کو حاصل ہوسکتا ہے۔ ’بندگی نامہ‘… ۱۹۲۷ء میں زبورِ عجم کے تتمے کے طور پر شائع ہوئی۔ اس سے اگلی تصنیف شہرۂ آفاق مثنوی جاوید نامہ ہے جس کا سنِ اشاعت ۱۹۳۳ء ہے۔ان دونوں مثنویوں میں کچھ ربط معنوی بھی ہے جس کی تفصیل آئندہ سطور میں بیان ہوگی۔ ’بندگی نامہ‘ بھی اقبال کی تمام بڑی اور اہم مثنویوں کی طرح مثنویِ معنوی کی بحر میں ہے۔ شاید اس موضوع پر یعنی محکومی اور بندگی کے موضوع پر … دُنیا میں اور کوئی نظم یا مثنوی نہیں لکھی گئی۔ اس لیے اس مثنوی کو بھی اقبال کا ایک منفرد فنی کارنامہ قرار دینا مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ مثنوی چار بڑے عنوانات (ابواب) پر مشتمل ہے؛ … یعنی
۱- بندگی نامہ (تمہید)
۲- دربیانِ فنونِ لطیفۂ غلامان
۳- مذہبِ غلامان
۴- در فنِ تعمیرِ مردانِ آزاد
دوسرا باب، دو ذیلی عنوانات، موسیقی اور مصوری پر مشتمل ہے۔ اس طرح پوری نظم چار ابواب اور پانچ ٹکڑوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ مثنوی کا آغاز ایک ڈرامائی صورتِ حال سے ہوتا ہے۔ ’’مہِ گیتی فروز‘‘ نے ایک بار خداوندِ دو عالم سے کہا کہ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب روزوشب کی گردش نہیں تھی اور مَیں وقت کے ضمیر میں سویا ہوا تھا۔ نہ میرے نور سے دشت ودر آئینہ پوش تھے، اور نہ میرے حسن کی کشش سے دریا میں موجوں کا خروش تھا، افسوس وجود کی اس نیرنگی اور افسوں طرازی پر، افسوس اس چمک دمک اور ذوقِ نمود پر، مَیں نے سورج سے چمکنا سیکھ لیا اور ایک مردہ خاک دان کو بھی چمکا دیا، وہ خاکدان جو منور تو ہے لیکن بافراغ نہیں۔ اس کے چہرے پر غلامی کے داغ ہیں۔ اس کا آدم یزداں کُش اور آدم پرست ہے۔ اے خدا! جب سے تُو نے مجھے اس عالمِ آب وگِل میں پیدا کیا ہے، مَیں اس کرۂ ارضی کے طواف سے خجل ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ دُنیا نورِ جاں سے واقف ہی نہیں بلکہ یہ دُنیا مہرو ماہ کی جلوہ سامانیوں کی مستحق ہی نہیں۔
در فضائے نیلگوں اُو را بہل
رشتۂِ ما نوریان از وَی گُسل
یا مرا از خدمتِ او واگزار
یا ز خاکش آدمِ دیگر بیار
اس آدم (یا اس کرۂ ارضی) کو فضائے نیلگوں میں گم کردے اور ہم درخشندہ سیاروں کا رشتہ اس سے منقطع کر دے۔ مختصر یہ کہ یا مجھے اس سیارے کی خدمت سے موقوف فرما، یا پھر اس کی خاک سے کوئی نیا آدم پیدا کر۔
اس تمہید کے بعد‘…غلامی کے اثرات کا نہایت مؤثر بیان ہے، جواس مضمون کے ابتدائی حصے میں نقل ہوا۔ اس کے بعد علامہ اقبال…’مہِ سیم گوں‘ ہی کی زبانی ایک عجیب و غریب جہنمی منظر کا نقشہ بیان کرتے ہیں، جس نے شاعرانہ استدلال کو تاثیر اور بلاغت کے نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے۔
ایک خوفناک جہنمی منظر
شورہ بُوم از نیشِ کژدم خارخار
مُورِ او اژدر گز و عقرب شکار
صرصرِ اُو آتشِ دوزخ نژاد
زورقِ ابلیس را بادِ مُراد
آتشے اندر ہوا غلطیدۂ
شعلۂ در شعلۂ پیچیدۂ
آتشے از دودِ پیچان تلخ پوش
آتشے تندرغو و دریا خروش
در کنارش مارہا اندر ستیز
مارہا با کفچہ ہائے زہر ریز
شعلہ اش گیرندہ چُوں کلبِ عقور
ہولناک و زندہ سوز و مُردہ نُور
درچنین دشتِ بلا صد روز گار
خوش تر از محکومیِ یک دم شمار!
(ماہِ سیمگوں کہتا ہے کہ اے پروردگار)…ایک ایسی سرزمین جو نیش ہائے عقرب کی کثرت سے خارخار ہو رہی ہو، جس کی چیونٹیاں اتنی بڑی ہوں کہ اژدہائوں کو ڈنک مارتی ہوں اور بچھوئوں کو شکار کرتی ہوں‘… اس سرزمین میں ایسی گرم ہوا چلتی ہو جو دوزخ نژاد ہو‘… بلکہ وہ ایسی ہوا ہو کہ ابلیس کی کشتی کے لیے بادِ مراد ہو‘…اُس سرزمین کی ہوائوں میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں، بلکہ شعلے میں شعلہ بل کھا رہا ہو، ایسی آگ جو بل کھاتے دُھوئیں کی چادر سے تلخ پوش ہو، اور آگ کے کناروں پر سانپ ایک دوسرے سے سرگرمِ ستیز ہوں، سانپ جن کے پھنوں سے زہر رس رہا ہو‘… اور وہ آگ ایسی ہو کہ جس کے شعلے پھاڑ کھانے والے کتوں کی طرح ہوں‘…ہولناک، زندہ کو جلا دینے والے‘…اوربے نُور، تیرہ و تار شعلے!(تو اے خدا) ایسے دشتِ بلا میں سو سال رہنا بہتر ہے‘… غلامی کے ایک (تاریک) لمحے سے!
ایک فنی تجزیہ
جیسا کہ اُوپر کی سطور میں بیان ہوا، ’’بندگی نامہ‘‘…۱۹۲۷ء میں زبورِ عجم کے تمتے کے طور پر شائع ہوئی ، قیاساً کہا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی ۱۹۲۷ء ہی میں یا اس سے کچھ عرصہ قبل لکھی گئی۔ اور زبورِ عجم کے بعد اقبال کی جو شعری تصنیف شائع ہوئی، وہ اُن کی عظیم الشان مثنوی جاوید نامہ تھی، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تین سال میں مکمل ہوئی، جاوید نامہ کا سال اشاعت ۱۹۳۲ء ہے۔ گویا اس کا آغاز ۱۹۲۹ء یا ۱۹۲۸ء میں ہوا ہوگا‘…یہاں ایک سول پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ’بندگی نامہ‘ کے فوراً بعد اقبال نے (فارسی مثنوی میں) جاوید نامہ لکھنا شروع کیا ہو…؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ جاوید نامہ لکھنے کی فوری تحریک اقبال کی متخیلہ کو ’بندگی نامہ‘ کے اسی جہنمی منظر سے ہوئی ہو…؟ اس میں شک نہیں کہ ایک طویل ڈرامائی نظم لکھنے کا خیال اقبال کے دل میں شروع ہی سے تھا۔ ڈانٹے کی نظم ’طربیۂ ایزدی‘ بھی ایک طویل عرصہ سے اقبال کے لاشعور میں تھی‘… ہو سکتا ہے ’بندگی نامہ‘ کا یہ بند لکھنے کے بعد اقبال کو محسوس ہوا ہو کہ وہ…’طربیۂ ایزدی‘ کی طرز پر…جنت اور دوزخ کے مناظر پر مشتمل ایک ڈرامائی اور بیانیہ مثنوی لکھنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جاوید نامہ میں جنت اور دوزخ کے مناظر کا بیان اس طر ح نہیں جس طرح ’طربیۂ ایزدی‘ میں ملتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ جاوید نامہ کی فنی اسکیم ’طربیۂ ایزدی‘ سے کلی طور پر مختلف ہے‘… علاوہ ازیں جاوید نامہ میں دوزخ یا دوزخی ماحول کے مناظر کم سے کم ہیں‘… اس لیے کہ اس میں بیان کیے گئے رُوحانی سفر کے دوران کہیں ’’رسمی دوزخ‘ ‘ واقع نہیں ہے، اس کے باوجود‘ … جاوید نامہ کا ایک ایسا ٹکڑا ضرور ہے جو ’بندگی نامہ‘ کے اس مذکورہ بالا بند سے بہت گہری مشابہت رکھتا ہے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ’بندگی نامہ‘ کے اس دوزخی منظر میں ’’زورقِ ابلیس‘…یعنی ابلیس کی کشتی کا ذکر ہے۔ لیکنجاوید نامہ میں ابلیس کشتی پر نمودار نہیں ہوتا‘…بلکہ گھٹا ٹوپ تاریکی سے اُبھرنے والے ایک شعلے سے نمودار ہوتا ہے، البتہ فلکِ زحل، پر بعض ارواحِ رذیلہ (مثلاً صادق و جعفر) کو قلزمِ خونیں میں زورق نشیں (کشتی پر سوار) دکھایا گیا ہے‘… جاوید نامہ کا وہ حصہ جو ’بندگی نامہ‘ کے اس بند سے مشابہت رکھتا ہے‘… قلزمِ خونیں‘…کا ایک مختصر سابیان ہے، جو ایک مکمل جہنمی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔
آنچہ دیدم، می نگنجد در بیان
تن زسہمش بے خبر گردد ز جان
من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم زخون
قلزمے، طوفاں برون، طوفان درون
در ہوا ماران چو در قلزم نہنگ
کفچہ شبگون، بال و پرسماب رنگ
موجہا درندہ، مانندِ پلنگ
ازنہیبش مردہ بر ساحل نہنگ
بحر، ساحل را امان یک دم نداد
ہرزمان کُہ پارۂ درخون فتاد
موجِ خون باموجِ خون اندر ستیز
درمیانش زورقے در افت و خیز
(اس کے بعد) میں نے جو کچھ دیکھا (اس کی ہولناکی) بیان میں نہیں آسکتی۔ جسم اُس کے خوف سے جان سے بے خبر اور بے گانہ ہو جاتا ہے، میں نے کیا دیکھا؟ میں نے خون کا ایک سمندر دیکھا، ایسا سمندر جس کے باطن میں بھی طوفان تھے اور ظاہر میں بھی طوفان تھے (اُس سمندر کے اوپر) ہوا میں سانپ اس طرح تھے جیسے اس سمندر میں نہنگ تھے۔ و ہ سانپ جن کے پھن کالے تھے اور بال وپر چاندی کی طرح چمکیلے تھے۔ اس سمندر کی موجیں چیتوں کی طرح پھاڑ کھانے والی تھیں۔ اس کے خوف سے دریائی جانور ساحل پر مُردہ پڑے تھے، سمندر‘…کنارے کو پل بھر چین نہیں لینے دیتا تھا۔ ہر گھڑی کوئی نہ کوئی چٹان اُس بحرِ خونیں میں گرتی تھی‘…موجیں موجوں سے ستیزہ کارتھیں‘… اسی سمندر میں ایک کشتی ہچکولے کھاتی ہوئی چلی آرہی تھی‘۔
ان دو مناظر میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے (بندگی نامہ)کا تعلق ایک شورہ بوم (سرزمینِ شوروخار زار) سے ہے، جب کہ دوسرا منظر (جاوید نامہ) ایک قلزمِ خونیں کی تفصیل بیان کرتا ہے، پہلے میں آگ کے شعلے او ر تاریکی ہے، دوسرے میں موجوں کا شور اور چٹانوں کے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے سے پیدا ہونے والے دھماکے ہیں، پہلے منظر میں آگ کے شعلے پھاڑ کھانے والے کتوں کی طرح دکھائے ہیں۔دوسرے منظر میں موجوں کو چیتے کی طرح پھاڑ کھانے والا بتایا گیا ہے۔ البتہ سانپ اور ان کے زہریلے پھن دونوں مناظر میں موجود ہیں‘… ایک منظر میں آگ کی سُرخی ہے۔ دوسرے میں دریائے خونیں کی سُرخی ہے، خوف اور ہولناکی۔ دونوں زبردست بصری یا تصویری قدرو قیمت (pictorial value) کے حامل ہیں‘… اور شاعر کی قوتِ بیان کی دلیل ہیں۔(تاہم چونکہ جاوید نامہ ایک طویل نظم ہے اس لیے اس میں منظر نگاری اور بیانِ واقعہ کی صورتیں کہیں زیادہ ہیں)
غلاموں کے فنونِ لطیفہ : موسیقی اور مصوری
مثنوی کے دوسرے باب کا عنوان’’دربیانِ فنونِ لطیفۂ غلامان‘‘ ہے۔ جس میں اقبال نے موسیقی اور مصوری کے حوالے سے غلاموں کے فنونِ لطیفہ کے معنوی مضمرات سے بحث کی ہے۔ اقبال کا نظریۂ فن اظہاری۲؎ اور مابعد الطبیعیاتی۳؎ ہے۔ اظہاری ان معنوں میں کہ یہ انا کی تخلیقی فعلیت کا براہِ راست اظہار ہے۔ اور ما بعد الطبیعیاتی ان معنوں میں کہ انا کی مادی میکانکیت سے آزادی اور اس کا ایک آزاد علیت۴؎ ہونا اس کی تخلیقی فعلیت ہی میں ظاہر ہوتا ہے، اقبال انحطاط پذیر قوموں کے فنون کو مرگ آموز، اور فعال و متحرک قوموں کے فنون کو حیات افروز سمجھتے ہیں اس سلسلے میں ان کا نقطۂ نظر واضح طور پر معیار پسندانہ (normative) ہے۔ فطرت پسندانہ (naturalistic) نہیں‘…وہ فن کو قوت و حرکت کا مظہر دیکھنا چاہتے ہیں، تا کہ ان کے ذریعے فرد اور معاشرے کی فعالیت زندہ رہے۔ وہ جمال میں جلال کی آمیزش کو ضروری سمجھتے ہیں۔
شاعر کی نوا ہو کہ مغنیّ کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
بے معجزہ دُنیا میں اُبھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہُ ہُنر کیا
’بندگی نامہ‘ میں پہلی بار اقبال نے غلاموں اور محکوموں کے فنونِ لطیفہ کی معنویت پر تفصیل کے ساتھ تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں غلامی کے افسوں کے بارے میں کیا بتائوں۔ غلامی کے فنون سرتا سرمرگ ساماں ہوتے ہیں۔
مرگ ہا اندر فنونِ بندگی
من چہ گویم از فسونِ بندگی
غلاموں اور محکموں کے فنون کے باے میں ان کا قطعی فیصلہ ہے کہ اُن کے فنون۔ زندگی کی حرارت اور شعورِ خلّاق کی روشنی سے عاری ہوتے ہیں۔ اس باب میں موسیقی کے عنوان سے غلاموں کے ذوقِ نغمہ پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:
نغمۂ اُو خالی از نارِ حیات
ہم چو سیل افتد بدیوارِ حیات
چُون دلِ اُو تیرہ سیمائے غلام
پست چُون طبعش نواہائے غلام
از دلِ افسردۂ اُو سوز رفت
ذوقِ فردا، لذّتِ امروز رفت
از نئے اُو آشکارا رازِ اُو
مرگِ یک شہر است اندر سازِ اُو
ناتوان و زار می سازد تُرا
از جہان بیزار می سازد تُرا
الخدر، این نغمۂ موت است وبس
نیستی در کسوتِ صوت است و بس
غلام کا نغمہ زندگی کی حرارت سے خالی ہوتا ہے، وہ زندگی کی دیوار پر سیلاب کے تھپیڑوں کا سا اثر کرتا ہے۔ غلام کی تو پیشانی بھی اُس کے دل کی طرح تیرہ و تار ہوتی ہے۔ اسی طرح غلام کا نغمہ بھی اُس کی طبیعت کی طرح پست ہوتا ہے۔ اُس کے پژ مُردہ دل سے سوز جا چکا ہے۔ اُسے کسی فردا کا انتظار نہیں، نہ ہی امروز اس کے لیے لذّتِ حیات کا سرچشمہ ہے۔ اُس کی بانسری واقعی اس کے راز کو آشکارا کر رہی ہے۔ اس کے ساز میں ایک شہر کی موت کا نوحہ چھپا ہوا ہے۔ یہ نغمہ تجھے کمزور اور نحیف بنا دے گا۔ تجھے دُنیا سے بیزار کر دے گا۔ خدا کی پناہ! یہ نغمہ ہے موت، بس! یوں سمجھنا چاہیے کہ اس نغمے میں ’’نیستی‘‘ نے آواز کا لباس پہن لیا ہے۔
قومیں اپنے ظاہری اعمال میں اپنے باطن کی دُنیا کو متشکل کرتی ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بیرونی دُنیا میں کوئی تبدیلی لانے سے پہلے اپنے اندر کی دُنیا میں تبدیلی لے آئو، عمومی معاشرتی رویے ہوں ، یا افراد کی تخلیقی سرگرمیاں‘ …ایک خاص حد تک معاشرے کی عمومی صورتِ حال کو بیان کرتی ہیں۔ محکومی اور غلامی کے اپنے تقاضے ہیں، زندگی اور انا کی آزاد فعلیت کا راستہ مسدود ہو جانے پر، ہر لمحہ ضمیر کی آواز کے کچلے جانے پر محکوموں میں ذوقِ حیات کے چشمے سُوکھ جاتے ہیں، یا ان میں جبلّت مرگ (death instinct) کا زہر گھل جاتا ہے۔ شعور باہر سے آنکھیں بند کر کے اندر دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ …اور اندر‘ …سوائے نیستی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ حیاتِ شاعرہ میں ’ظاہر و باطن‘ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ ظاہر باطن پر، اور باطن ظاہر پر اثر انداز ہے۔ غلام سرچشمۂ حیات سے منقطع ہو تا ہے:
بندگی از سرِّ جان ناآگہی ست
اسی باب میں اقبال نے مثالی نغمے کی خوبیاں بھی بیان کی ہیں، اور مولانا رومؒ کے حوالے سے صورت و معنی کے امتیاز و یگانگت پر بھی ایک مختصر سا استدراک نظم کیا ہے، مثالی نغمے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نغمہ باید تُندرَو مانندِ سیل
تا برد از دل غمان را خیل خیل
نغمہ می باید جنون پروردۂ
آتشے در خونِ دل حل کردۂ
از نمِ اُو شعلہ پروردن توان
خامشی راجزوِ اُو کردن توان
می شناسی؟ درسروداست آن مقام
’کاندرو بے حرف می روید کلام‘
نغمہ ہونا چاہیے۔ سیل کی طرح تند رَو، تاکہ دل سے غموں کے بوجھ اُتار سکے، نغمہ ہونا چاہیے جنوں کا پرورش کیا ہوا۔ ایسا کہ اس کے خون میں آگ گھلی ہوئی ہو، ایسا نغمہ کہ اس کے نم سے شعلے کو پروان چڑھایا جا سکے، اور خاموشی کو بھی اس کا حصہ بنایا جا سکے۔ تو جانتا ہے؟…کہ نغمے میں ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے جہاں بغیر الفاظ کے کلام پیدا ہوتا ہے۔
’کاندروبی حرف می روید کلام،…مولانا رومؒ کا مصرع ہے، ان کا پورا شعر ایک مناجات کا حصہ ہے، جس میں وہ ایک کردار کی زبان سے خداوند تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں:
اے خدا، بنما تو جان را آن مقام
کاندرو بے حرف می روید کلام
یعنی اے پرودگار ‘ … تو (میری) رُوح کو وہ مقام دکھا جہاں الفاظ کے بغیر کلام کی روئیدگی ہوتی ہے‘
یہ شعر مولاناروم کے لطیف ترین خیالات کا ترجمان ہے۔ اقبال نے اس کیفیت کو حیات آفریں نغمے کی خصوصیت قرار دیا ہے، کہ اس میں بلندی، یا تاثیر کے ایسے مقام پنہاں ہوتے ہیں جہاں کلام بے منّتِ حرف تراوش کرتا ہے، ایک موقعے پر اقبال کے ایک مداح نے اقبال کے اس تبصرے پر کہ ہندوستان کی موسیقی گرمی سے خالی ہے، جب یہ کہا کہ ہندوستان کی موسیقی بھی خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے۔ تو اقبال نے قوالی کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کرے‘‘۔ اس سلسلۂ گفتگو میں اُن سے مزید سوال کیا گیا کہ ’’کیا آپ کا مطلب ہے کہ وجد و حال کی کیفیت مصنوعی ہے‘‘؟ تو اس کے جواب میں اقبال نے جو کچھ کہا وہ موسیقی بالخصوص قوالی کے بارے میں اقبال کی بلیغ ترین تنقیدات میں سے ہے۔ اُنھوں نے کہا:
ان لوگوں(صوفیا) نے وجد و حال کو ایک cult(کسی فرقے کا مخصوص طرزِ احساس) بنا لیا ہے۔ یہ کیفیت واقعی اُن پر طاری ہوتی ہے لیکن جب وہ اپنے جوش و جذبات کو اس طرح فرد کرلیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا، اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔۵؎
موسیقی میں بھی اقبال کے نزدیک معنویت بہت اہم ہے‘ …موسیقی کی تجریدی معنویت جب تک حیات آفرینی کی معنویت پیدا نہیں کر لیتی، اقبال کے نزدیک شا یانِ سماعت نہیں رہتی، جب کہ ہمارے مطرب (موسیقار یا قوال) نے معنی(زندگی) کا جلوہ دیکھا ہی نہیں، بلکہ صورت سے دل بستہ ہے، اور معنی سے بھاگا ہوا ہے؛
مطربِ ما جلوۂ معنی ندید
دل بصورت بست و از معنی رمید
موسیقی کے بعد اس باب میں اقبال نے محکوموں اور غلاموں کی مصوّری کی طرف رجوع کیا ہے، ۱۹۲۸ء میں ’’مُرقّعِ چغتائی‘‘ کا مختصر پیش لفظ لکھتے ہوئے اُنھوں نے منکسرانہ انداز میں کہا تھا کہ وہ (مصوری کے موضوع پر) فنی انتقاد کے اہل نہیں، اگرچہ قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ اقبال کو مصوری کے تکنیکی پہلوئوں سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ان کی بصیرت اور غیر معمولی انتقادی نظر سے مصوری کے رموز و علائم اور اس کے جمالیاتی پہلو اوجھل نہیں ہو سکتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی معاصر مصورانہ کاوشوں کو غلاموں اور محکوموں کی مصوری کی علامت کے طور پر دیکھا، اور اُس میں اُنھیں شعلۂِ حیات کی حرارت دکھائی دی، نہ خودی کی ’قاہرانہ‘ خلاقی (دلبری بے قاہری جادوگری ست)۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُنھوں نے اپنے عہد کی مصوری کے زیادہ سے زیادہ موضوعات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی‘ …اور ’بندگی نامہ‘ میں اُنھیں موضوعات کو اُنھوں نے محکوموں کی مصوری کی مثال کے طور پر پیش کیا‘ …
ہم چنان دیدم فنِ صورت گری
نَے براہیمی درو، نے آزری
راہبے در حلقۂ دامِ ہوس
دلبرے باطائرے اندر قفس
خسروے پیشِ فقیرے خرقہ پوش
مردِ کوہستانیِ ہیزم بدوش
نازنینے در رہِ بُت خانۂ
جوگئےؐ در خلوتِ ویرانۂ
پیرکے از دردِ پیری داغ داغ
آنکہ اندر دستِ او گل شُد چراغ
مطربے از نغمۂ بیگانہ مست
بلبلے نالید و تارِ اوگسست
نوجوانے از نگاہے خوردہ تیر
کود کے برگردنِ بابائے پیر
اس طرح میں نے فنِ صورت گری کو دیکھا کہ نہ اس میں ’ابراہیمی‘ ہے ، نہ آزری…(اس فن کے موضوعات عام طور پر یہ ہیں) ایک تارکِ دُنیا راہب ہے جو ہوس کے جال کا اسیر ہے۔ ایک خوبصورت محبوب ہے جس کے سامنے پنجرے میں ایک پرندہ ہے۔ ایک بادشاہ ایک خرقہ پوش فقیر کی خدمت میں حاضر ہے۔ ایک کوہستانی آدمی نے کاندھوں پر لکڑیاں اُٹھائی ہوئی ہیں۔ مندر کی طرف جاتی ہوئی ایک خوبصورت عورت، ویرانوں کی تنہائی میں ایک جوگی…ایک بوڑھا جس کا سراپا دردِ پیری سے داغ داغ ہے اور جس کے ہاتھ میں چراغ بُجھ گیا ہے، ایک مطرب جو کسی اور کے نغمے سے مست ہے، بلبل نے فریاد کی ہے اور (مطرب کے ساز کا) تار ٹوٹ گیا ہے۔ ایک نوجوان ہے جو کسی کے تیرِ نگاہ کاشکار ہے، یا پھر ایک بچہ ہے جو ایک بوڑھے بابا کی گردن پر سوا ر ہے۔ (غرض یہ ہیں محکومانہ مصوری کے موضوعات)۔
ان سب موضوعات کو اقبال نے مضمونِ مرگ اور افسونِ مرگ قرار دیا ہے۔ اور ایک طرح سے ان موضوعات کو رَد کر دیا ہے۔ یہ سوال کہ اقبال نے معاصر مصوری کے ان موضوعات کا جائزہ کن ذرائع سے لیا، ایک اہم سوال ہے، ڈاکٹر محمد عبد اللہ چغتائی نے عبدالرحمن چغتائی کے عنوان سے اپنے ایک طویل مضمون میں مرقعِ چغتائی کی تدوین کے محرکات و مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے… ’’اسی ضمن میں ہم ایک روز علامہ اقبال کے ہاں گئے اور اُنھیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اس کتاب پر ایک ’’پیش لفظ‘‘ انگریزی زبان میں لکھیں گے، اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے شروع شروع میں انکار کیا، مگر با لآخر مان گئے‘‘۔۶؎
ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے واضح طور پر اس بات کا تاثر دیا ہے کہ چونکہ علامہ اقبال نے اس سے پیشتر مصوری پر کچھ نہیں لکھا تھا…اور مصوری کا کوئی مجموعہ بھی ان کے سامنے موجود نہیں تھا، اس لیے اُنھیں مرقعِ چغتائی کا ’پیش لفظ‘ لکھنے میں خاصا تأمل تھا۔ ڈاکٹر چغتائی کے اس تاثر کی تائید اقبال کے ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔ جو اُنھوں نے اپنے اس مضمون میں نقل کیا ہے۔ یہ خط جو اقبال نے ۷ دسمبر ۱۹۲۶ء کو ڈاکٹر چغتائی کو لکھا‘…اتفاق سے ’اقبال نامہ‘ میں بھی شامل ہے‘… اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کسی موضوع پر کچھ لکھنے سے پہلے اس کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے عادی تھے۔ اس خط میں وہ ڈاکٹر چغتائی کو لکھتے ہیں:۷؎
’’ڈئیر ماسٹر صاحب! السلامُ علیکم
اگر آپ کے پاس ہندوستانی مصوروں کی بنائی ہوئی تصویروں کا کوئی چھپا ہوا مجموعہ ہو تو ایک دو روز کے لیے مرحمت کیجیے۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر ایسا کوئی مجموعہ نہ ہو تو چند مشہور تصاویر کے نام ہی سہی۔ ان کے ساتھ ان کا مضمون بھی ہونا ضروری ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی مصور بالعموم کیسے مضامین اپنے فن کی نمائش کے لیے انتخاب کرتے ہیں‘‘۔
بنگالی اسکول کی تصاویر کے نام خاص کر چاہییں۔ اس کے علاوہ مغلوں کے آرٹ پر اگر کوئی کتاب ہو تو وہ بھی ساتھ لائیے۔
محمد اقبال لاہور۔‘‘
یہ خط جن چند حقائق کی نشاندہی کرتا ہے ، وہ یہ ہیں:
۱-ستمبر ۱۹۲۶ء سے پیشتر اقبال نے ہم عصر مصوروں کے کام کا بالا ستیعاب مطالعہ نہیں کیا تھا۔
۲-وہ تصاویر کے ساتھ اُن کا مضمون بھی چاہتے تھے۔ تا کہ جان سکیں کہ ’’ہندوستانی مصور بالعموم کیسے مضامین اپنے فن کی نمائش کے لیے انتخاب کرتے ہیں‘‘۔
۳-اُنھیں برصغیر میں مصوری کے دونوں اہم دبستانوں۔ یعنی بنگال اسکول، اور مغل اسکول کے نمونے درکارتھے۔ تا کہ دونوں کے تخلیقی انداز کا موازنہ کر سکیں۔
۴-اس زمانے میں مصوری کا زندہ ہم عصر دبستان بنگال اسکول ہی تھا۔ جس کی نمائندہ تصاویر کا اقبال بالخصوص مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔
اقبال کے اس خط اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کے بیان کی روشنی میں قیاساً یہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کی ہم عصر مصوری کے بارے میں اقبال نے ’بندگی نامہ‘ لکھنے سے کچھ ہی عرصہ پیشتر معلومات یکجا کیں۔ اگرچہ بظاہر ان کی فراہمی کی غرض مرقعِ چغتائی کا ’پیش لفظ‘ لکھنے کے لیے ’بیک گراونڈ‘ فراہم کرنا تھی‘… لیکن اس کا ایک اہم پہلو یہ نکلا کہ اس بہانے سے بر صغیر کی مصوری کے بعض ’’ٹائپ‘‘ موضوعات اقبال کے سامنے آگئے، یہ وہی موضوعات ہیں جن کا ذکر اُنھوں نے ’بندگی نامہ‘ میں کیا ہے،۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے جن ’ٹائپ‘ موضوعات کا ذکر کیا ہے، اُن میں ’’نازنینے دررہِ بُت خانہ‘‘ …اور…جوگیِ درخلوتِ ویرانہ…بنگالی اسکول کے موضوعات معلوم ہوتے ہیں‘…اسی طرح ’’دلبرے با طائرے اندر قفس‘‘۔’’مردِ کوہستانیِ ہیزم بدوش‘‘۔ اور سب سے اہم
پیرکے از دردِ پیری داغ داغ
آنکہ اندر دستِ او گل شد چراغ
ایسے موضوعات ہیں کہ ان کا سُراغ خود چغتائی کی تصاویر میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ مرقعِ چغتائی کے پیش لفظ میں اقبال نے چغتائی کی تحسین میں کسی طرح تامُل سے کام نہیں لیا۔ دیوانِ غالب کے مصور ایڈیشن کی اشاعت کو وہ بر صغیر کی جدید مصوری اور طباعت میں ایک ’’نادر کارنامہ‘‘ قرار دیتے ہیں، اور چغتائی کے فن کی تنقید میں تحسینِ ہُنر کے ساتھ ساتھ محتاط حوصلہ افزائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے اپنے الفاظ میں:
اس امر کے آثار نمایاں ہیں کہ پنجاب کا یہ نوجوان ہُنر مند اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتا ہے۔ ابھی وہ زندگی کی انتیسویں منزل طے کر رہا ہے، مستقبل ہی اس کا جواب دے گا کہ چالیس برس کی پختہ عمر میں اس کا کمال کیا رنگ اختیار کرے گا، اور کس درجے پر فائز ہوگا۔ اس عرصے میں اس کے فن سے دلچسپی رکھنے والے سارے اہلِ نظر اس کی ترقی کے منازل پر اپنی نظریں جمائے رہیں گے۔ (مرقعِ چغتائی: پیش لفظ)
اس تحسینِ ہُنر کے باوجود اس مختصر سے پیش لفظ میں اقبال نے اپنے نظریۂ فن کو رقم کرنے کے علاوہ واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے، کہ اسلام کی تہذیبی تاریخ میں ’’سوائے فنِ تعمیر کے استثنا کے … اسلامی فنونِ لطیفہ…موسیقی، مصوری، بلکہ کسی حد تک شاعری بھی…ہنوز ظہور کے طالب ہیں‘‘۔دوسرے الفاظ میں…اقبال نے بہزاد کے کارناموں سمیت تمام تر ایرانی مصوری… اور مغل اسکول کی عظیم مصورانہ روایات کو اسلامی رُوحِ تمدّن کا ترجمان ماننے میں تائل کیا ہے۔ لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ اسلام کے ہنوز نا زائیدہ فنون میں اقبال نے کسی حد تک شاعری کو بھی شامل کر لیا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی فنون کے لیے کسی بے حد مثالی ہیئت کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے۔ وگرنہ وہ مسلمانوں کی مصوری کے پورے ذخیرے کو رد نہ کر دیتے۔ ہو سکتا ہے اس ذہنی رویے کی تہ میں مسلمانوں کی مصوری میں مسجدِ قرطبہ، الحمرا اور تاج محل کے سے نقشِ جلی دیکھنے کی تمنا بھی کار فرما ہو۔ ’بندگی نامہ‘ کا یہی حصہ جس میں اُنھوں نے ’محکومانہ‘ مصوری، کے موضوعات کا جائزہ لیا ہے‘…اقبال کے تصورِ حُسن اور ان کے نظریۂ فنونِ لطیفہ کے بعض اجزا کا آئینہ دار بھی ہے، اقبال کے فلسفۂ جمالیات کی تشکیل و توضیح میں ہمیشہ اس مثنوی کے اس حصے پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ اپنے معاصر فنون اور ہنر مندوں کو وہ بے یقینی کا شکار قرار دیتے ہیں‘…اور ’بے یقین‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے لیے ’نقشِ نو‘ پیدا کرنا بے حد مشکل ہے، وہ خودی سے دُور، اور اس لیے رنجور ہے، اُس کا فنی نصب العین عوام الناس کے ذوق کی تسکین ہے۔
حسن را دریوزہ از فطرت کند
رہزن و راہی تہی دستے زند
حسن را از خود برون جستن خطا است
آنچہ می بائیست پیشِ ما کجا است
یک زمان از خویشتن رنگے نزد،
بر زجاجِ ما گہے سنگے نزد
از نگاہش رخنہ در افلاک نیست
زانکہ اندر سینہ دل بیباک نیست
خاکسار و بے حضور و شرمگیں
بے نصیب از صحبتِ رُوح الامیں
زندگی بے قوتِ اعجاز نیست
ہر کسے دانندۂ ایں راز نیست
(بے یقین) فطرت سے حسن کی بھیک مانگتا ہے، یہ راہزن ہے اور تہی دامنوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ حسن کو اپنی ذات سے باہر تلاش کرنا غلطی ہے، اس لیے کہ جو کچھ چاہییے، وہ ہمارے سامنے کہاں ہے۔ اس (بے یقین فنکار) نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی ذات کا رنگ ظاہر نہیں کیا، ہمارے (عمومی ادراکات کے) شیشے پر کبھی (خلاقانہ بصیرت) کا پتھر نہیں دے مارا۔ اس کی نظر وہ نہیں کہ اس سے آسمانوں میں رخنے ہو جائیں۔ اس لیے کہ اس کے سینے میں بیباک دل نہیں ہے،۔ یہ عاجزی پسند‘… بے حضور اور شرمگیں ہے‘…اسے’ رُوح الامیں‘ کی صحبت ہی میسر نہیں آئی۔ زندگی (دراصل) قوتِ اعجاز کے بغیر کچھ بھی نہیں‘…لیکن یہ وہ راز ہے کہ اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
مذہبِ غلاماں
مذہبِ غلاماں ’بندگی نامہ‘ کا تیسرا باب ہے، جس میں غلام و محکوم کی مذہبی زندگی کی کچھ جھلکیاں سامنے آتی ہیں۔ محکوم کی مذہبی زندگی‘…واردات سے خالی ہو کر رہ جاتی ہے، اس حقیقت کو اقبال نے مذہب اور عشق کے باہمی فراق سے تعبیر کیا ہے اہم ترین بات یہ ہے کہ محکوم اپنے دین (اخلاقی اور روحانی شخصیت) اور دانش (ادراکِ حقائق) کو بہت سستے داموں فروخت کر دیتا ہے، شاعرانہ تعبیر میں بدن کو زندہ رکھنے کے لیے ’جان‘ دے دیتا ہے۔ اگرچہ اُس کے ہونٹوں پر خدا کا نام ہوتا ہے لیکن اس کا اصل قبلہ‘… اُس کا آقا۔ اُس کا فرماں روا ہوتا ہے‘… وہ جیتا تو ہے ، لیکن ’زندہ‘ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اقبال کے الفاظ میں مرنا اور جینا بھی اعتبارات ہی ہیں:
مردن و ہم زیستن اے نکتہ رس
این ہمہ از اعتبارات است و بس
محکوموں کے ’آقاـ‘ اُن کو ’امروز‘ میں ایسے محو کرتے ہیں کہ اُنھیں ’فردا‘ کا منکر بنا دیتے ہیں ’فردا‘ اقبال کے ہاں زندگی کی تخلیقی فعلیت اور اس کے لا محدود امکانات کا استعارہ ہے، غلام و محکوم… حاضر و موجود کا اسیر ہے، زندگی کا وہ بُعد جو اسے مستقبل کے امکانات کے ساتھ وابستہ کر سکتا ہے، اس کی زندگی سے غائب ہے۔ محکوموں کو بعض اوقات خلعت بھی عطا ہوتے ہیں، بعض اوقات بعض امور میں زمامِ کار بھی اُن کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے، لیکن یہ سب کچھ اُنھیں خود سے محجوب رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تا کہ ان کا اصل جوہر ان پر منکشف نہ ہو سکے۔
مردانِ آزاد کا فنِ تعمیر
بندگی نامہ کا آخری باب ہے۔ ’’درفنِ تعمیر مردانِ آزاد‘‘۔ جس میں دراصل اقبال نے مسلمانوں کے فنِ تعمیر کی جمالیاتی رُوح کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ مرقعِ چغتائی کے پیش لفظ سے متبادر ہوتا ہے، اقبال نے تمام فنونِ لطیفہ میں صرف فنِ تعمیر کو ایسا فن قرار دیا ہے، جس میں اسلامی تمدن کی رُوح وسموئی جا سکی ہے، اس سلسلے میں اقبال نے ایبک اور سوری کے کارناموں کا حوالہ دیا ہے، ایبک کے کارناموں سے مراد یقینا دہلی کی مسجدِ قوت الاسلام ہے، جو قبلِ مغل تعمیرات میں ایک اہم اسلامی تعمیر ہے۔ اور قوت و شکوہ کا مظہر ہے، اسے اقبال نے ’’خویش را از خود برون آوردن‘‘۔ اور ’’خود را تماشا کردن‘‘ قرار دیا ہے، ان دونوں تصورات کو فنی معنوں میں اظہارِ ذات(self-expresssion) کے تصور کے قریب تر قرار دیا جا سکتا ہے۔
خویش را از خود برون آورہ اند
این چنین خود را تماشاکردہ اند
سنگہا با سنگہا پیوستہ اند،
روز گارے را بہ آنے بستہ اند
دیدنِ او پختہ تر سازد ترا
در جہانِ دیگر اندازد ترا
نقش سوئے نقش گرمی آورد
از ضمیر او خبر می آورد
ہمتِ مردانہ و طبعِ بلند
در دلِ سنگ این دو لعلِ ارجمند
(ان عمارات کو تعمیر کرنے والوں نے) اپنے آپ کو اپنے اندر سے باہر نکالا ہے، اور اس طرح اپنی ذات کا تماشا کیا ہے، پتھر کو پتھر سے اس طرح جوڑا ہے کہ ایک لمحے میں ایک عہد کو سمو دیا ہے۔ اس تعمیراتی مظہر کو دیکھنے سے (اے مخاطب) خود تجھے بھی (سیرت و کردار کی) پختگی حاصل ہوتی ہے، ان کا نظارہ تجھے کسی اور جہان میں لے جاتا ہے (در اصل) نقش ہمیں اپنے نقش گر کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ نقش اپنے نقش گر کے ضمیر کی خبر دیتا ہے (ان تعمیراتی مظاہر کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ) ہمتِ مردانہ اور طبیعتِ بلند …یہ دو قیمتی جوہر ہیں جو ان پتھروں ہیں چھپے ہوئے ہیں۔
اس خیال کو اقبال نے اپنی ایک نجی گفتگو میں بھی دہرایا ہے، پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم راوی ہیں کہ ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء کی ایک شام، جو اُنھوں نے بعض دوسرے احباب کے ساتھ علامہ اقبال کے ہاں گزاری، اس گفتگو کا محرک بنی، اس گفتگو میں اقبال نے مرقعِ چغتائی، کے پیش لفظ اور ’بندگی نامہ‘ میں بیان کیے ہوئے کچھ اہم خیالات کا اعادہ کیا، خیال رہے کہ یہ اُن کی وفات سے صرف چھ ماہ پہلے کی گفتگو ہے:
یہ واقعہ ہے کہ فنِ تعمیر کے سوا فنونِ لطیفہ میں کسی میں بھی اسلامی رُوح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے، وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آئی۔ البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بُت بھی تھے جن میں (قوت و ہیبت) کی ایک ایسی شان تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوت الاسلام، بھی پیدا کرتی ہے، بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوت الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اُس وقت ہوا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا۔ میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کے قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا، مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح سے چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔۸؎
اس سلسلہ گفتگو میں اقبال نے ’تاج محل‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
مسجد قوت الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کو ضعف آگیا ہے، اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے۔۹؎
تاہم ’بندگی نامہ‘ میں اقبال نے ’تاج‘ کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اسے ’’گوہرِ ناب‘‘ (the purest pearl) قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ تاج محل میں گزارا ہوا ایک لمحہ ’ابد‘ سے بھی پائندہ تر ہے۔ تاہم اقبال نے اسے قوت سے زیادہ عشق و محبت کا اظہار قرار دیا ہے۔
عشقِ مردان سرِّ خود راگفتہ است
سنگ را با نوکِ مژگان سُفتہ است
عشقِ مردان پاک و رنگین چون بہشت
می کشاید نغمہ ہا از سنگ وخشت
عشقِ(مرداں) نے تاج محل تعمیر نہیں کیا، بلکہ اپنا راز آشکار کیا ہے، گویا پتھروں کو پلکوں کی نوک سے پرویا ہے۔ عشقِ (مرداں) فردوس کی طرح پاکیزہ اور رنگین ہے۔ اور (اپنی قوتِ تخلیق سے) سنگ و خشت سے مر مریں نغمہ برآمد کر لیتا ہے۔
’بندگی نامہ‘ اقبال کی مختصر ترین مثنوی ہے، ہو سکتا ہے کہ اسے خوبصورت ترین مثنوی بھی کہا جا سکے، اس لیے کہ اس کے اختصار نے اس میں ایک ارتکاز اور تیکھا پن پیدا کر دیا ہے اس مثنوی کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس میں ہیئت اور بحر کے سوا دنیا کی کسی نظم کی تقلید نہیں کی گئی۔ یہ اس موضوع پر دُنیا کی واحد نظم ہے، آزادی اور حریت کے موضوع پر بے شمار نظمیں لکھی گئی ہوں گی۔ لیکن محکوموں اور محکوم لوگوں کی نفسیات، ان کی تخلیق اور ان کی مذہبی زندگی کیا ہوتی ہے؟ دُنیا کے کسی اور شاعر یا مفکر نے اس موضوع کو اس طرح سے نہیں چھوا۔ سر سید احمد خاں یقینا ’رسالۂ ابطالِ غلامی‘ میں غلاموں کی نفسیات پر علمی بحث کی ہے، لیکن اس نفسیات کے تمدنی مضمرات کو صرف اقبال نے ’بندگی نامہ‘ میں اپنی خوبصورت شاعرانہ تعبیرات کے ساتھ پیش کیا ہے،…!
اس نظم کو اقبال نے غلاموں کا نوحہ یا غلاموں کے لیے تحقیر کی لغت نہیں بننے دیا۔ اس نظم میں کہیں بھی المیہ گداز (tragic pathos) نہیں‘ … اس لیے کہ المیہ گداز نظم کے پڑھنے والے کو غلاموں کے ساتھ جذباتی تطبیق (emotional identification) کی طرف لے جاتا ، جو کسی طرح بھی اقبال کا فنی مقصود نہیں ہو سکتا تھا، یہ نظم غلاموں سے نفرت، کے جذبے کو نہیں اُبھارتی، البتہ اس نظم کے لفظی اور معنوی تاروپود میں غلام اور محکوم قابلِ رحم ضرور نظر آتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اقبال نے اتنی احتیاط برتی ہے کہ یونانی المیہ کی تمثیل کی طرح اس میں غلاموں کے لیے جذبۂ ترحم کو زیادہ بیدار اس لیے نہیں کیا کہ اس سے محکوم خود رحمی (self-pity) کا شکار ہو سکتے ہیں، جب کہ خود رحمی، خود شناسی اور بیداریِ باطن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ غلاموں کے لیے بھر پورا انداز میں جذبۂِ ترحم کو اُبھارنے کا ایک مقصد یہ بھی ہو تا کہ غلام قطعی معنوں میں مجبور ہیں، جب کہ اس کے برعکس اقبال کے بعض اشاراتی پیرایوں سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اگر غلام اپنی حالت کو بدلنے کی سعی نہیں کرتا، تو وہ بہت حد تک اپنی غلامی کا خود بھی ذمہ دار ہے…تاہم اس نظم میں غلامی اور محکومی کے لیے اقبال کی گہری اور شدید ناپسندیدگی کا اظہار جا بجا ہوتا ہے اور یہی اس نظم کا مرکزی جذبہ ہے۔
حواشی
۱- شخصی غلامی کے بارے میں اسلام کے انقلاب آفریں اقدامات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوسرسید احمد خاں کی تصنیف رسالہ در ابطالِ غلامی (مقالاتِ سرسیّد، حصہ چہارم)، مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور
۲- expressionstic
۳- metaphysical
۴- free causality
۵- علامہ اقبال کے ہاں ایک شام (اقبال کی شخصیت اور شاعری)، مجموعۂ مقالات از پروفیسر حمید احمد خاں صفحہ۱۸۔
۶- عبدالرحمن چغتائی: شخصیت اور فن مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔
۷- اقبال نامہ، جلد دوم، صفحات، ۳۳۱، ۳۳۲۔
۸- علامہ اقبال کے ہاں ایک شام، (اقبال کی شخصیت اور شاعری)، مجموعۂ مقالات از پروفیسر حمید احمد خاں صفحہ۱۸۔
۹- ایضاً صفحہ ۶۲۔