اُردو کے پہلے بڑے نقاد اور نظم گوئی میں اقبال کے پیش رَو۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اُردو شعریات کی زرخیز زمین میں واقعاتی اور فطری شاعری کے تصور کا جو بیج بویا تھا، اسے اقبال کی آبیاری نے ایک تناور اور بارآور درخت بنادیا۔ ایک ادبی نصب العین اور تنقیدی معیار کی حیثیت سے حالی کے فطری شاعری کے تصور کی اپنی حدود ضرور تھیں، جن سے، وقت آنے پر، شعروادب کا آگے گذر جانا ناگزیر تھا، اس لیے کہ دوسرے تخلیقی فنون کی طرح شاعری میں جو چیز تخیئلی یا فنی صداقت کہلاتی ہے، اس کی گنجائش صرف واقعاتی یا ’’فطری‘‘ شاعری کے مخصوص تصور میں کچھ زیادہ نہیں ہوسکتی تھی، … اسی لیے اقبال کی شاعری جو واقعیت اور مثالیت کے امتزاج سے اُبھری، اور جس نے فکر اور جذبے کی غیرمعمولی وسعت اور گہرائی کو اپنے اندر سمو لیا، حالی کے تصورِ شاعری سے بہت آگے کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کی شاعری کا ایک حصہ حالی کی واقعاتی اور فطری شاعری سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتا ہے، اور یہ وہی حصہ ہے جسے ہم بیانیہ شاعری کی کسی قدر وسیع اصطلاح کے ذیل میں لاسکتے ہیں۔ بیانیہ شاعری کی ایک بہت بڑی روایت اُردو اور فارسی شاعری میں مثنوی کی صورت موجود رہی ہے، اور اقبال کے فن کی ایک جہت اُن کی مثنوی نگاری بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے نہ صرف یہ کہ بیانیہ شاعری کی اس عظیم الشان روایت سے رشتہ منقطع نہیں کیا بلکہ اسے اپنے فن کا ایک اہم حصہ بھی بنایا۔ حکیم سنائی، مولانا رُوم اور محمود شبستری کی مثنویاں ہمیشہ ان کے رُوبرو رہیں۔ نہیں کہاجاسکتا کہ اُنھوں نے فردوسی اور نظامی کے فن سے کتنا اثر قبول کیا، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ اُن کی وسعتِ نظر فارسی مثنوی نگاری کی پوری روایت کو محیط تھی،… اسی طرح مغرب کی طویل نظموں کا بھی، جن میں ڈانٹے کا طربیۂ ایزدی،… ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ اور گوئٹے کا فاؤسٹ بطورِ خاص شامل ہیں، اُنھوں نے حکیمانہ تجزیہ کیا تھا، غرض دُنیا کی تمام عظیم الشان بیانیہ شاعری، جو حکیمانہ خیالات کی حامل اور جذبے کے اظہار کی نادر صورتوں کو شامل تھی، شعروادب کی دوسری تمام قابلِ قدر اور قابلِ ذکر اصناف کے علاوہ، ان کے تخلیقی شعور میں رچی ہوئی تھی۔
ہماری شعری روایت، یہاں تک کہ ہمارے جدید تر تنقیدی معائیر میں بھی،… مثنوی اور غزل کی شاعری کو یہ کَہ کر ایک دوسرے کی ضد سمجھا گیا ہے کہ مثنوی کی (بیانیہ) شاعری خارجیت سے عبارت ہے اور غزل سراسر داخلیت کی شاعری ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن تخلیقی اظہار کی خود اپنی رمزیت اس قطعی تقسیم کو غیرواقعی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور امتیاز کو بھی ملحوظ رکھا جاتا رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ بیانیہ شاعری سیدھی اور سپاٹ اور تَہ داری سے یکسرعاری ہوتی ہے۔ جب کہ غزل۔ (یعنی داخلیت)۔ کی شاعری رمزوایما، اشاریت اور علامت آفرینی سے کام لیتی ہے اوّل تو یہ امتیازات محض عقلی، فنی اور اعتباری ہیں کہ ان سے اصناف کی عمومی تفہیم اور تجزیے میں آسانی رہتی ہے، عملاً ادب میں اس تقسیم پر کامل طور سے پوری اُترنے والی مثالیں کم ہی ہیں… اور اگر اس طرح کا کوئی بُعدالمشرقین تھا بھی تو اقبال کی خلاّقی اور ترکیبی صناعی نے اسے محو کردیا تھا۔ یہ بات اقبالیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اقبال کی نظموں میں تغزل کے عناصر ان کے نظمیہ آہنگ میں اجزائے ترکیبی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی غزلوں کا آہنگ بعض اوقات نظم کے مزاج اور ہیئت کو چھو لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال نظم کو صرف بیانیہ شاعری تک محدود نہیں سمجھتے تھے اور نہ غزل کو صرف و محض داخلی واردات کا پابند خیال کرتے تھے۔ ہر خلاّق شاعر کی طرح وہ اصناف کی کڑی تقسیم کے قائل نہیں تھے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اقبال کی شعری ہیئتیں اپنے اندر فنی تکمیل کی پوری شان رکھتی ہیں… لیکن موضوع کی اہمیت، خیال کا تقدم اور تخلیقی تجربے کی وحدت اور جامعیت اُنھیں اصناف کی وضعی تقسیم کا پابند نہیں بناسکتی تھیں اسی لیے جب ہم اقبال کی بیانیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر نہ اصناف کی رسمی تقسیم ہوتی ہے اور نہ بیانیہ شاعری کی وہ محدود تعریف جو تنقید اور تدریس کی عملی ضروریات سے پیدا ہوتی ہے۔
اقبال کو بیانِ واقعہ پر جو بے مثال قدرت حاصل ہے اس کے نظائر دُنیا کے انگشت شمار بڑے شعرا کے ہاں ہی ملیں گے۔ اقبال کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بیانِ واقعہ کو سپاٹ اور بے تَہ نہیں ہونے دیتے، دُنیا کی اعلیٰ درجے کی بیانیہ شاعری میں بھی یہ ایک کمی ضرور محسوس ہوتی ہے کہ وہ اکثر وبیشتر ابعاد سے خالی ہوتی ہے، وہ فردوسِ گم گشتہ کا خالق ملٹن ہو یا پانچ عظیم الشان مثنویوں کا شاعر نظامی، پہلوداری اور معنوی گہرائی سے اکثر عاجز نظرآتے ہیں۔ ڈانٹے کی ’طربیۂ خداوندی‘ میں علامات کا ایک نظام ضرور دریافت کیا گیا ہے لیکن پہلی نظر میں وہ بھی ایک لہجے اور ایک تَہ کی شاعری نظر آتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مغرب میں ڈانٹے اور مشرق میں اقبال ہی ایسے شاعر ہیں جنھوں نے خارجی واقعیت کے بیان کو لطیف رمزیت اور معنوی گہرائی سے مملوکیا ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بیانیہ شاعری سے آخر ہماری مراد کیا ہے… بالخصوص اقبال کی شاعری کے مطالعے میں یہ اصطلاح کس حد تک ہمارا ساتھ دے سکتی ہے، مطلق معنوں میں تو شاعری کی ہر نوع ایک طرح کا ’بیان‘ ہی ہے، چاہے وہ خارجی واقعیت کا ہو یا داخلی (جذبے، فکر اور تخیل کی) صداقتوں کا لیکن بطور اصطلاح کے اس لفظ کی ایک دشواری یہ ہے کہ اس کے تضمنات ہمیں ارسطو کے تصورِ محاکات (imitation) کی طرف زیادہ لے جاتے ہیں بہ نسبت تخلیقی اظہار (creative expression) کے تصور کے۔ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اقبال محض فطرت کی نقالی کو کسی صورت بھی فن میں مستحسن خیال نہیں کرتے لیکن یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہوگا اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بیانیہ شاعری صرف فطرت کی نقالی کے مترادف ہوتی ہے… یہ تو شاعر کی اپنی افتادِ طبع اور فنی رویّے پر منحصر ہے کہ وہ بیانِ واقعہ (narration) کو صرف محاکات تک محدود رکھتا ہے یا اسے تخلیقی اظہار کا پیرایہ بھی دیتا ہے، ہومر کی اوڈیسی، ڈانٹے کا طربیۂ خداوندی، فردوسی کا شاہنامہ، نظامی کا خمسہ، ملٹن کی فردوسِ گشتہ، گوئٹے کا فاؤسٹ، کیٹس کی سینٹ ایگنیز کی شام اور اقبال کا جاوید نامہ ہرگز ہرگز نقالی کے ضمن میں نہیں آتے حالانکہ یہ سب اساساً بیانیہ شاعری ہی کے شاہکار ہیں۔ غرض بیانِ واقعہ اور تخلیقی اظہار اجتماعِ ضدین نہیں کہ ناممکن ہو۔ فن کی دُنیا میں اقبال کا نصب العین ’فطرت کی غلامی سے آزاد‘ ہونا اور زندگی میں ’فطرت کو مسخر‘ کرنا ہے، لیکن ان دونوں تصورات میں فطرت کو معکوس سمت میں سفر کرنے کی کوئی تلقین یا اشارہ بھی مضمر نہیں۔ فطرت کو تسخیر کرنا فطرت کو نیست ونابود کر دینے کے مترادف نہیں، نہ ہی فطرت کی غلامی سے آزاد ہونے سے مراد فن کو کلی طور پر غیرفطری بنانا ہے۔ جس طرح زندگی کے معاملے میں اقبال یہ چاہتے ہیں کہ فطرت کی طاقتیں برتر انسانی مقاصد کی تکمیل کے کام آئیں اسی طرح فن کے معاملے میں بھی ان کا معیار یہ ہے کہ فطرت کے اجزا کو برتر تخلیقی مطالب کے کام آنا چاہیے۔ مغرب کے رُومان پسند شعرا کی طرح فطرت کی اسیری اور فطرت کی پرستش اقبال کے فنی مقاصد سے کبھی ہم آہنگ نہیں رہی۔ البتہ مظاہرِ فطرت کے ساتھ اقبال بھی ویسی ہی ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں۔ جیسی دُنیا کے تمام بڑے شعرا، خلاّق ذہنوں اور روشن ضمیروں نے محسوس کی ہے۔ انسان پوری کائنات کو مسخرکرلے تب بھی فطرت کا حسن اس کے دل کو لبھاتا رہے گا اور فطرت کا جلال اسے متحیر کرتا رہے گا۔ ملکیت اور تسخیر کسی چیز کے حسن کو زائل نہیں کردیتے۔ موضوعات کے اعتبار سے اقبال کی بیانیہ شاعری کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱- فطرت: فضا بندی اور منظر آفرینی
۲- صورتِ واقعہ: محاکاتی اور ڈرامائی
۱- فطرت: فضابندی اور منظر آفرینی
فطرت اور مظاہرِ فطرت اپنے خارجی شئون اور وجودی رمزیت کے ساتھ اقبال کی شاعری کا سب سے وسیع پس منظر ہیں، اِنھیں پیش منظر میں آتے یا پیش منظری مطالب و مرایا کے ساتھ آمیز ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اقبال کی اوّلین نظمیں ہوں یا اُن کی طویل حکیمانہ اُردو فارسی نظمیں اور مثنویات، فطرت ہر مقام پر اپنی جمالیاتی اور وجودی رمزیت کے ساتھ جلوہ گر ہے، یہ اور بات ہے کہ اس رمزیت کا تعین خود شاعر کے مزاج اور زندگی اور کائنات کے بارے میں اس کے مجموعی مگر غیرمبہم نقطۂ نظر اور اس کے فکری ارتقا کے مدارج سے ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر فطرت کے بارے میں اقبال کا رویہ بیک وقت شاعرانہ اور حکیمانہ ہے، ایک سطحی فطرت پر ست شاعر کی طرح وہ فطرت کے ہر مظہر کو قابلِ اعتنا خیال نہیں کرتے، بلکہ انتخابی عمل کے قائل ہیں۔ فطرت کے بارے میں اُن کے ذہنی ارتقا کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
۱- فطرت پسندی، ۲-فطرت سے ہم آہنگی اور ۳-تسخیرِ فطرت۔ لیکن اس مضمون میں ہمارا اصل مدعا اس ذہنی ارتقا کا مطالعہ نہیں، بلکہ تقسیمِ موضوعات کے طریقِ کارکو اختیار کرتے ہوئے اس قدرتِ کلام کا تجزیہ ہے جس کا اظہار اقبال کے بیانِ واقعہ میں ہوتا ہے۔
فطرت کے دو بہت بڑے ارضی مظاہر، جن کے ساتھ انسان کا تعلق روزِ اوّل سے ہے، کہسار اور سمندر ہیں۔ کہسار اپنی رفعت، جذالت اور سنگینی کے باعث اور سمندر اپنی ایک طرح کی لامتناہیت، وسعت اور گہرائی کے باعث، انسان کو ہمیشہ حیرت واستعجاب وسعت اور ارفعیت کے احساسات سے آشنا کرتے رہے ہیں۔ صفحۂ ارض پر دونوں فطرت کے جلیل القدر مظاہر ہیں اور انسان صدیوں سے ان کے اسرار کو کھولنے اور ان کی قہرمانی پر قابو پانے میں کوشاں ہے، انسان کے لیے ان کا وجود حسن بھی ہے، طاقت بھی اور نامعلوم و ناقابلِ گرفت کا خوف بھی۔ سمندر زندگی کا سرچشمہ ہے اور کرۂ ارض کو پوری طاقت اور قہرمانی سے گھیرے ہوئے ہے، اس لیے انسان کے اجتماعی لاشعور کے ساتھ اس کا تعلق بہت ’’گہرا‘‘ ہے۔ لیکن ماہرینِ نفسیات کی رائے ہے کہ انسانوں کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو ’’کوہستانی‘‘ (یعنی کہسار پسند) ہیں اور ایک وہ جو ’’بحری‘‘ ہیں یعنی سمندر کو پسند کرنے والے۔ شعروادب اور تخلیقی فنون میں بھی یہ دونوں مظاہر علامات و اشارات کے بہت بڑے سرچشمے ہیں۔ اُردو اور فارسی شاعری میں مجموعی طور پر سمندر، دریا، موج، ساحل، طوفان اور قطرہ و گوہر کی علامات زیادہ ہیں، دشت و صحرا (جو ایک اعتبار سے سوکھے ہوئے سمندر ہیں) اس سے بھی زیادہ علامت خیز اور خیال انگیز ہیں۔ دشت اور سمندر (جو ایک دوسرے کا ظاہری اور معنوی تکملہ ہیں) اُردو اور فارسی شاعری میں علامات کے بڑے ماخذ ہیں۔ ہماری شاعری میں کوہساروں کا ذکر بھی یقینا ہے۔ لیکن ایسا دلفریب اور معنی خیز نہیں جیسا دشت و دریا کا تذکرہ… ہماری شاعری میں اس دشت و دریا پسندی کی نفسیاتی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں، اس کا تجزیہ ایک الگ مطالعے کا متقاضی ہے۔ لیکن جہاں تک اقبال کے ذوقی میلانات کا تعلق ہے، وہ اس معاملے میں بھی انفرادیت کے حامل ہیں۔ وہ پانی کے بہائو اور آبشاروں کے ترنم کو یقینا پسند کرتے ہیں لیکن سمندر کے مقابلے میں ان کا ذوقِ نظر کہساروں کے مشاہدے سے زیادہ اہتزاز حاصل کرتا ہے اس لیے کہ کہسار ان کے نزدیک محکمیت، مقاومت، ارفعیت اور اپنی ذات میں خود مکتفی ہونے کی علامت ہیں:
بہ خود گزیدہ و محکم چون کوہساران زی
چون خس مزی کہ ہوا تند و شعلہ بیباک است
’اپنے آپ میں مرتکز ہوکر پہاڑوں کی طرح محکم زندگی بسر کر، تنکے کی طرح نہ جی کہ ہوا تیز اور شعلہ بے باک ہے۔‘ اگرچہ یہ ایک اتفاق ہے، لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اقبال کی اوّلین نظم کوہسارِ ہمالہ کے بارے میں ہے۔ اس کی وادیوں میں کالی گھٹائیں خیمہ زن ہیں، اس کے دامن کا چشمہ اس کے لیے آئینۂ سیال ہے، اور موجِ ہوا کا دامن اس آئینے کے لیے رُومال کاکام کرتا ہے… یہ کوہسار گویا عناصرِ فطرت کی بازی گاہ ہے۔
آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگِ رَہ سے گاہ بچتی، گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر، دل سمجھتا ہے تری آوازکو
لیلیِ شب کھولتی ہے آکے جب زلفِ رسا
دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
گو اس نظم کا آخری شعر بتاتا ہے کہ اقبال نے کسی طویل نظم کی تمہید کے طور پر لکھا ہے لیکن اقبال نے اس نظم کے ذریعے پہلی بار کوہساروں کی دُنیا کے حسن و جلال کی ایک اجمالی جھلک دکھلائی ہے۔ یہی ہمالہ آگے چل کر مثنوی اسرارِ خودی میں ایک ’کردار‘ کی صورت اختیار کرلیتا ہے:
آب زد در دامنِ کہسار چنگ
گفت روزے با ہمالہ رودِ گنگ
اے ز صبحِ آفرینش یخ بدوش
پیکرت از رودہا زنار پوش
حق ترا با آسمان ہمراز ساخت
پات محرومِ خرامِ ناز ساخت
طاقتِ رفتار از پایت ربود
ایں وقار و رفعت و تمکیں چہ سود؟
زندگانی از خرامِ پہیم است
برگ و سازِ ہستی از موجِ رم است
پانی نے کوہسار کے دمن پر پنجہ مارا۔ یعنی ایک روز دریائے گنگا نے ہمالہ سے کہا۔ تو صبحِ آفرینش سے برف کا بوجھ کاندھے پر اُٹھائے ہوئے ہے اور تیرے پیکر پر، ندیوں کی زُنّاریں ہیں۔ خدا نے تجھے بلندی اور رفعت میں آسمان کا ہمراز بنا دیا ہے۔ لیکن تیرے پائوں کو خرامِ ناز سے محروم کردیا ہے۔ قدرت نے تیرے پائوں سے رفتار کی طاقت چھین لی ہے اس عالم میں تیرا یہ وقار یہ بلندی اور یہ تمکنت کیا معنی رکھتی ہے؟ زندگی خرامِ مسلسل سے عبارت ہے۔ زندگی کا سازوسامان تو مچلتی ہوئی موج کا دوسرا نام ہے۔
پہاڑ کو دریا کے اس طعنے نے برافروختہ کیا اور اس نے کہا… تیری وسعت میرا آئینہ ہے، تیرے جیسے ہزاروں دریا میرے سینے میں موجزن ہیں۔ یہ خرامِ ناز جس کا تم ذکر کررہے ہو اصل میں سامانِ فنا ہے… جو بھی اپنے مقام سے گذرا فنا ہونے کے ہی لائق تھا، تو اپنے آپ سے آگاہ نہیں، اسی لیے اپنے نقصان پر فخر کررہا ہے۔
زندگی بر جائے خود بالیدن است
از خیابانِ خودی گُل چیدن است
قرن ہا بگذشت و من پا در گلم
تو گمان واری کہ دور از منزلم
ہستیم بالید و تا گردون رسید
زیرِ دامانم ثریا آرمید
ہستیِ تو بے نشان در قلزم است
ذروۂ من سجدہ گاہِ انجم است
چشمِ من بینائے اسرارِ فلک
آشنا گوشم ز پروازِ ملک
’’تازِ سوزِ سعیِ پہیم سوختم
لعل و الماس و گہر اندوختم
در درُونم سنگ و اندر سنگ نار
آب را بر نارِ من نبود گزار‘‘
زندگی اپنے مقام پر نشوونما پانے کا نام ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں خودی کے باغ سے پھول چننے کا نام ہے۔ صدیاں گزر گئیں اور میرے پائوں زمین میں دھنسے ہوئے ہیں۔ تو شاید یہ سمجھتا ہے کہ مَیں اپنی منزل سے دور ہوں۔ میری ہستی نے نشوونما پائی اور آسماں تک پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ خوشۂ پرویں نے میرے دامن میں آرام کیا۔ تیری ہستی سمندر میں جاکر بے نشان ہوجاتی ہے، جب کہ میری بلندی کو ستارے بھی سجدہ کرتے ہیں میری آنکھ آسمانوں کے اسرار دیکھتی ہے اور میرے کان فرشتوں کی آواز سنتے ہیں۔ میں سعیِ پہیم کی آگ میں ایسا جلا کہ لعل و الماس اور گوہر سے دامن بھرلیا۔ میرے دل میں پتھر اور پتھر میں آگ ہے… اس آگ پر پانی کا گذر نہیں ہوسکتا۔
نظم ہمالہ سے لے کر اسرارِ خودی کے اس مکالمے تک کوہسار کی علاماتی معنویت میں جو ارتقا واقع ہوا وہ ظاہر ہے… ہمالہ کے علاوہ اقبال کی شاعری میں جن پہاڑوں کا ذکر ہوا ہے، وہ دماوند، الوند، البرز، کوہِ اخم اور طور ہیں، لیکن ان کا ذکر سرسری ہے، کوہساروں کے دوسرے متعلقات وادیوں اور غاروں سے بھی اقبال کو خاصی دلچسپی ہے، اُردو کا ایک شعر خاصا معنی خیز ہے۔
مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کر دے تو اسے چاند کی غاروں میں نظر بند
پہاڑوں اور غاروں کے کچھ مناظر جاوید نامہ میں بھی ملتے ہیں (عارف ہندی کہ بہ یکے از غارہائے قمر خلوت گرفتہ و اہلِ ہند، اورا جہان دوست می گویند)… اقبال کے بیانیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھیں تفصیل و اطناب پر پوری گرفت حاصل ہے۔ منظر آفرینی اورفضابندی کے لیے جتنی تفصیل ضروری ہوتی ہے اتنی ہی کام میں لاتے ہیں اور جہاں اختصار برتتے ہیں وہاں بھی ایک ماہر مصور کی طرح چند لکیروں اور ایک دو رنگوں سے تصویر میں گہرائی پیدا کردیتے ہیں۔ جاوید نامہ میں چاند کی ایک غار کا منظر یوں بیان کیا ہے۔
من چو کوران دست بردوشِ رفیق
پا نہادم اندران غارِ عمیق
ماہ را از ظلتمش دل داغ داغ
اندرو خورشید محتاجِ چراغ
وہم و شک برمن شبیخوں ریختند
عقل و ہوشم را بدار آویختند
تا نِگہ را جلوہہا شد بے حجاب
صبحِ روشن بے طلوعِ آفتاب
وادیِ ہر سنگِ او زنار بند
دیوسار از نخلہائے سربلند
از سرشتِ آب و خاکت این مقام
یا خیالم نقش بندد در مقام
در ہوائے او چومے ذوق و سرور
سایہ از تقبیلِ خاکش عینِ نور
نے زمینش را سپہرِ لاجورد
نے کنارش از شفقہا سرخ و زرد
مَیں نے اندھوں کی طرح اپنے رفیقِ سفر کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس گہرے غار میں قدم رکھ دیا۔ (وہاں ایسا اندھیرا تھا کہ) خود چاند کا دل بھی اس ظلمت سے داغ داغ تھا، اس گہرے غار میں اگر سورج اُترتا تو اسے بھی (راستہ دیکھنے کے لیے) چراغ کی ضرورت پڑتی۔ مجھ پر اوہام و شکوک نے ہلہ بول دیا، اور میرے عقل و ہوش کو گویا سولی پر چڑھا دیا۔ یہاں تک کہ اچانک آنکھوں نے روشنی محسوس کی۔ صبح کا سا سماں تھا لیکن بغیر سورج کے… اس مقام پر ہر پتھر اور ہر چٹان نے زنّار باندھی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے درخت دیووں کی طرح سے تھے۔ (مَیں نے سوچا) آیا یہ جگہ دُنیا کے آب و خاک سے تعلق رکھتی ہے۔ یا محض میرے خیال نے خواب میں نقشہ باندھا ہے۔ اس جگہ کی ہوا میں شراب کا سا نشہ تھا وہاں سایہ بھی عینِ نور تھا۔ نہ اُس کی زمین کے لیے نیلا آسمان تھا، نہ اس کے اُفق شفق کی وجہ سے سرخ یا زرد تھے۔
اس منظر میں ہیبت اور تحیر… تشویق اور اہتزاز سے ’واقعیت‘ اور ڈرامائیت کا ایک خاص رنگ پیدا کیا گیا ہے۔ ہیبت اور جلال کا ایسا ہی ایک ملا جلا منظر طاسینِ مسیح میں رئویائے حکیم طالسطائی (جاوید نامہ)کے آغا ز میں نظر آتا ہے۔
درمیانِ کوہسارے ہفت مرگ
وادیِ بے طائر و بے شاخ و برگ
تابِ مہ از دود، گردِ او چوقیر
آفتاب اندر فضائش تشنہ میر
رودِ سیماب اندران وادی روان
خم بہ خم مانندِ جوئے کہکشان
پیشِ اُوپست و بلندِ راہ ہیچ
تند سیر و موج موج و پیچ پیچ
سات اموات کے اس کہسار کے درمیان (یعنی اس مرگ آشام پہاڑ کے دامن میں) ایک وادی تھی بے بہار اور بے شاخ و برگ، جہاں پرندوں کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ اس وادی کے گرد دھوئیں سے چاندنی بھی سیہ فام تھی۔ اس فضا میں سورج بھی آئے تو پیاسا مرجائے، اس وادی میں پارے کی ایک نہر بَہ رہی تھی۔ کہکشاں کی ندی کی طرح بل کھاتی ہوئی۔ اس کی روانی کے آگے بلند و پست سب برابر تھے۔ تند اور موج در موج اور بل کھاتی ہوئی ندی تھی وہ۔
اقبال کی بیشتر تصاویر اور مناظر مرکب اور بو قلموں ہیں۔ کبھی رنگوں کی ترکیب اور کبھی ضدین کا تقابل ان تصاویر کو دلچسپ اور فنی معنویت کا حامل بناتا ہے، غارِ قمر کی منظر نگاری میں مطلق ظلمت اور مطلق روشنی کا تقابل تھا، جن کے سرچشمے دیکھنے والے کی آنکھ سے اوجھل ہیں اسی منظر میں گہرائی اور بلندی کا تقابل بھی موجود ہے۔ رویائے حکیم طالسطائی میں کوہسارِ ہفت مرگ کی دھواں دھار اور ٹھہری ہوئی فضا اور سیماب کی چمکتی ہوئی اور بل کھاتی ہوئی تیز روندی کا تقابل ہے۔ ضدین کا تقابل اور مختلفات یا متنوعات کا موازنہ جو اقبال کے ذہنی عمل کی ایک خصوصیت ہے، منظرآفرینی اور فضابندی میں اکثر قائم رہتا ہے۔ اقبال نے ایک اور کوہستانی مقام کا ذکر بھی بڑی محبت اور دل سوزی کے ساتھ کیا ہے۔ مثنوی ’مسافر‘ میں خیبر اور اس کے مضافات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
خبیر از مردانِ حق بیگانہ نیست
در دل او صد ہزار افسانہ ایست
جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر
یاوہ گردد در خم و پیچیش نظر
سبزہ در دامانِ کہسارش مجو
از ضمیرش بر نہ آید رنگ و بو
سر زمینے کبکِ اُو شاہین مزاج
آہوئے او گیرد از شیران خراج
در فضایش جرّہ بازان تیز چنگ
لرزہ بر تن از نہیبِ شان پلنگ
’خیبر مردانِ حق سے بیگانہ نہیں،… اس کے سینے میں ہزاروں کہانیاں مدفون ہیں۔ اس کے راستوں سے پیچیدہ راستے مَیں نے کہیں نہیں دیکھے، ان راستوں کے پیچ و خم میں نظر بھی بھٹک جاتی ہے اس کے پہاڑوں کے دامن میں سرسبزی اور شادابی کی تلاش نہ کر اس کے باطن سے رنگ و بو کے گل وگلزار کم ہی پھوٹتے ہیں۔ (لیکن) یہ سرزمین ایسی ہے کہ اس کے تیتر بھی شاہین کا سا مزاج رکھتے ہیں۔ اس کے غزال شیروں سے خراج لیتے ہیں۔ اس کی فضائوں میں بازوں کے پنجے تیز تر رہتے ہیں۔ باز، جن کے خوف سے شیر اور چیتے بھی لرزہ براندام رہتے ہیں۔
کوہساروں سے وابستہ تصورات (images) میں سے جو تصور اقبال کے تخیل کو سب سے زیادہ وجد میں لاتا ہے اور اُنھیں ایک خاص نفسی اہتزاز عطا کرتا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں لالہ و گُل (خصوصاً گُلِ لالہ) کا کِھلنا ہے۔ گُلِ لالہ کی سرخی کے بغیر دامنِ کوہسار کی تصویر ان کے نزدیک نامکمل ہی رہتی ہے۔
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغِ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
برگِ گُل پہ رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور اس موتی کو چمکاتی ہے سورج کی کرن
متحرک تصویر آفرینی (cinematography) کے نقطۂ نظر سے یہ ایک مکمل تصویر ہے۔ کوہ ودمن کا ایک مجموعی منظر جس میں چراغِ لالہ سے روشنی ہے، پس منظر میں مرغِ چمن کی نغمہ طرازی… مقامِ نظر ذرا اور قریب ہوا تو پھولوں کے پیکر اور ان کے رنگ بھی اُجاگر ہوئے… تصویر اور واضح اور قریب تر ہوئی تو برگِ گُل پر شبنم کا موتی دکھائی دیا جسے سورج کی کرن مزید چمکا رہی ہے۔ باغ وراغ اور گلزار وخیاباں کے متعلقات میں گُلِ لالہ اقبال کا محبوب ترین ذہنی پیکر یا تصور (image)ہے۔
چوں چراغِ لالہ سوزم در خیابانِ شما
اے جوانانِ عجم، جانِ من و جانِ شما!
لالۂ صحرایم از طرفِ خیابانم برید
در ہوائے دشت و کہسار و بیابانم برید
زداغِ لالۂ خونین پیالہ می بینم
کہ این گسستہ نفس صاحبِ فغان بود است
پیامِ مشرق کا پہلا حصہ جو قطعات پر مشتمل ہے۔ ’لالۂ طور‘ کے عنوان سے معنون ہے جو شاعر کی اپنی ذات کی علامت ہے۔ اسی کتاب کی ایک نظم کا عنوان ’لالہ‘ ہے… جس کا پہلا شعر ہے۔
آن شعلہ ام کہ صبحِ ازل درکنارِ عشق
پیش از نمودِ بلبل و پروانہ می تپید
میں (لالہ) و ہ شعلہ ہوں کہ بلبل و پروانہ کی نمود سے پہلے صبحِ ازل عشق کے پہلو میں بھڑکتا تھا… ساقی نامہ میں اقبال نے لالہ کو۔ شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن کہا ہے۔ لالہ کے ساتھ اقبال کی کامل تطبیق (identification) بالِ جبریل کی نظم ’لالۂ صحرا‘ میں نظر آتی ہے۔
یہ گنبدِ مینائی، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی تنہائی
بھٹکا ہوا راہی مَیں، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، مَیں شعلۂ سینائی
کوہسار اور دشت و باغ کے بعد اقبال کی وابستگی آبِ رواں سے نظر آتی ہے۔ یہ آبِ رواں ان کی شاعری میں آبشار، جوئے تنک آب اور آبِ جو سے بڑھ کر دریا اور سمندر کم ہی بنتا ہے۔ سمندر کا بیان جاوید نامہ میں صرف ایک دو جگہ ہی ہے اور وہ بھی عام سمندر نہیں بلکہ قلزمِ خونیں ہے… لیکن قلزمِ خونیں سے پہلے آبِ رواں کا تذکرہ مقصود ہے۔ اوّلیں نظموں میں ’ایک آرزو‘ میں اقبال فطرت سے ہم کنار ہونے کی بے پایاں خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس نظم میں چار شعر آبِ رواں کی تصویر کشی میں صرف ہوئے ہیں:
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گُل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
ندی اور کہسار کے تصور سے پیوستگی… جس کا نقطۂ آغاز ہمالہ کے دامن میں بہنے والی ندی ہے۔ ’ساقی نامہ‘ کے ان شعروں میںمکمل ہوتی ہے:
وہ جوئے کہستاں اُچکتی ہوئی
اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اُچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رُکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
جاوید نامہ میں دریا اور سمندر کے مناظر دو جگہ اُبھرتے ہیں…ایک فلکِ زہرہ پر دریائے زہرہ، اور دوسرے فلکِ زحل پر قلزمِ خونیں۔ دریائے زہرہ برف پوش پہاڑوں کے پیچھے واقع ہے جس کے بارے میں رُومی زندہ رود کو بتاتے ہیں:
آن کہستان، آن جہانِ بے کلیم
آن کہ از برف است چون انبارِسیم
درپسِ اوقلزمِ الماس گون
آشکارا تر درونش از برون
نے بموج و نے بہ سیل او را خلل
در مزاجِ او سکونِ لمیزل
وہ کوہستان… وہ پہاڑ کہ جسے کوئی کلیم میسر نہیں آیا۔ وہ جس کی چوٹیاں برف کی سفیدی سے چاندی کے انبار معلوم ہوتی ہیں، اس کے پیچھے ایک نیلگوں سمندر ہے، جس کا باطن اس کے ظاہر سے بھی زیادہ آشکار ہے… اس سمندر میں نہ موجیں اُبھرتی ہیں نہ طوفان آتے ہیں۔ اس کے مزاج میں ایسا سکون ہے جو کبھی زائل نہیںہوتا۔
بحر بر ما سینۂ خود وا کشود
یا ہوا بود و چو آبے وا نمود
قعرِ اُویک وادیِ بے رنگ و بو
وادیِ… تاریکیِ اُو تو بہ تو
پیر رُومی سورۂ طٰہٰ سرود
زیر دریا ماہتاب آمد فرود
کوہ ہائے شستہ و عریان و سرد
اندرون سرگشتہ و حیران دو مرد
سمندر نے ہمارے لیے اپنا سینہ کھول دیا۔ یا شاید یہ ہوا تھی کہ پانی کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ اس سمندر کی گہرائی میں ایک بے رنگ و بو وادی تھی۔ ایسی وادی کہ جس میں تاریکیاں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی تھی۔ اس مرحلے پر پیر رُومی نے سورہ طٰہٰ پڑھنی شروع کردی۔ (تب) چاند نیچے۔ سمندر میں اُتر آیا۔ (اُس وادی میں) پہاڑ تھے روئیدگی کے بغیر۔ عریاں اور ٹھنڈے۔ ان میں ہمیں دو مرد حیران اور پریشان نظر آئے۔
ان خیالی مناظر میں سب سے خوفناک منظر۔ قلزمِ خونیں۔ لہو کے سمندر کا ہے جس نے زندہ رود (اقبال) کو بھی چند لمحات کے لیے دہشت زندہ کردیا۔ شاعر اس کے بیان سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے:
آنچہ دیدم می نہ گنجد در بیان
تن زسہمش بے خبر گردد زجان
من چہ دیدم؟ قلزمی دیدم زخون
قلزمے، طوفان برون، طوفان درون
در ہوا ماران چو در قلزم نہنگ
کفچہ شبگون، بال و پر سیماب رنگ
موجہا درّندہ مانندِ پلنگ
از نہیبش مردہ بر ساحل نہنگ
بحر ساحل را امان یک دم نداد
ہر زمان کُہ پارۂ در خون فتاد
موجِ خون با موجِ خون اندرستیز
درمیانش زورقے در اُفت و خیز
جو کچھ مَیں نے دیکھا۔ وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ اس کے خوف سے جسم، رُوح سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ مَیں نے کیا دیکھا۔ ایک سمندر دیکھا خون سے لبریز۔ ایسا سمندر کہ جس کے اندر بھی طوفان تھے اور باہر بھی طوفان تھے۔ ہوا میں سانپ لہراتے تھے اور اُنھیں کی طرح سمندر میں نہنگ (سمندری بلائیں) مچلتی تھیں۔ ان کے پھن کالے اور پر پارے کی طرح چمکیلے تھے۔ موجیں شیروں کی طرح پھاڑ کھانے والی تھیں، ان کے خوف سے نہنگ ساحلوں پر ہی مرجاتے تھے۔ طوفان کے تھپیڑوں سے ساحل پر ایک لمحے کے لیے بھی سکون نہیں تھا۔ لحظہ بہ لحظہ چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر سمندر میں گرتی تھیں (اور شور برپا کرتی تھیں) خونیں موجیں ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اور اُنھیں موجوں میں ایک کشتی ہچکولے کھارہی تھی۔
ان مثالوں سے بخوبی اس اَمر کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ اقبال جب منظر آفرینی کی طرف مائل ہوتے ہیں تو ان کا کوئی بھی نقش پارہ شاہکار سے کم درجے کا نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ سمندر کے بیان سے اقبال کو کچھ زیادہ انشراح حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے نزدیک فطرت کے مقاصد کی نگہبانی یا بندۂ صحرائی کرسکتا ہے یا مردِ کہستانی! ساحلوں پر رہنے والے اور سمندر کی موجوں سے لڑنے والے کردار شاید اقبال کی نظر میں کچھ زیادہ نہیں جچتے۔ اس کا سبب عین ممکن ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ ہو کہ سمندر سے تعلق رکھنے والے سمندر ہی کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ سمندر کی موجوں سے لڑتے رہنے میں ان کی اتنی توانائی صرف ہوجاتی ہے کہ وہ مقصد آفرینی کے چنداں قابل نہیں رہتے۔ تاہم استعارے اور علامات کی حد تک موج و دریا اقبال کی پسندیدہ علامات ہیں۔ بہرحال اقبال کی بیانیہ شاعری میں فطرت اور اس کے مظاہر کا بیان خاص اہمیت کا حامل ہے فطرت کہیں نقطۂ آغاز ہے، کہیں نقطۂ اختتام اور کہیں رہوارِ خیال کو تازہ دم کرنے کے لیے راحت کا ایک وقفہ۔ بانگِ درا کی بیشتر نظمیں فضا بندی سے شروع ہوتی ہیں مثلاً… ’گورستانِ شاہی‘ کی منظربندی کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے:
آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
صبح صادق سورہی ہے رات کی خاموش میں
کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربطِ قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
باطنِ ہر ذرّۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے
ہر چند کہ اقبال کی منظر آفرینی خارجیت (objectivity) کے تمام قرائن رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود اقبال جس بھی منظر یا مظہر کو بیان کرتے ہیں اس میں ایک طرح کی داخلیت ضرور پیدا کردیتے ہیں۔ اس طرح کہ وہ منظر یا مظہر ایک زندہ اور سانس لیتی ہوئی حقیقت دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسے اقبال کا وصفِ خاص ہی خیال کرنا چاہیے۔ ورنہ بہت کم شعرا ہیں جو بے جان واقعیت کو اپنے اعجازِ فن سے زندہ کردکھاتے ہوں۔ یوں تو اقبال کی تمام تر شاعری منظرآفرینی اور فضابندی کے حسن سے آراستہ ہے۔ لیکن بعض مناظر ایسے ہیں کہ بیانیہ شاعری ان پر بجا طور پر ناز کرسکتی ہے۔ ان میں سے چند مناظر پر فطرت کے بیان کو ختم کیا جاتا ہے۔
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہوگئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
تاروں کا خموش کارواں ہے
یہ قافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہیں کوہِ و دشت و دریا
قدرت ہے مراقبے میں گویا
(ایک شام: دریائے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر)
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب
کوہِ اضم کو دے گیا رنگ، برنگِ طیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دُھل گئے
ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں،
آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں
(ذوق و شوق)
ساحلِ دریا پہ مَیں اِک رات تھا محوِ نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اِک جہانِ اضطراب
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیرخوار
موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجمِ کم ضَو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب
(خضرِ راہ: شاعر)
۲- صورتِ واقعہ (situation): محاکاتی اور ڈرامائی
صورتِ واقعہ (situation) میں خود واقعہ (event) بھی شامل ہے، ان دونوں کے بیان کے لیے ہمارے ہاں محاکات کی اصطلاح رائج رہی ہے،… محاکات میں حکایت اور روایت )بطورnarration ) کا مفہوم بھی شامل ہے، غیر ڈرامائی بیان میں ڈرامائی عنصر بھی محاکات ہی سے اُبھرتا ہے،…مشرق و مغرب کی تنقید میں شاعری کی ایک تعریف مدتوں مروّج رہی ہے یعنی یہ کہ شاعری محاکات یا لفظی مصوری کا دوسرا نام ہے، ظاہر ہے کہ شاعری کی تمام جزوی تعریفات کی طرح یہ بھی ایک اُدھوری تعریف ہے، تاہم اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اگر شاعری ہر طرح کے بیان… اور اظہار (expression) کو جامع ہے تو اس میں صورتِ واقعہ کا بیان ازخود شامل ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی صورتِ واقعہ کبھی سادہ (simple) نہیں ہوگی، اس کو متشکل کرنے میں کئی طرح کے عوامل کارفرما ہوں گے، ان عوامل کو گرفت میں لاتے ہوئے صورتِ واقعہ کا بیان ہمیشہ مرکب (complex) ہوجاتا ہے۔ اس میں کردار، فضا، موڈ، مکالمہ، رنگ، روشنی غرض وہ تمام اجزا آجاتے ہیں جو کسی بھی صورتِ واقعہ کو مکمل کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ اقبال کو صورتِ واقعہ کے بیان پر بھی اتنی ہی گرفت حاصل ہے جتنی منظریا مفرد اشیا کے بیان پر…! بلکہ منظر اور صورتِ واقعہ اکثر باہم پیوست نظرآتے ہیں… یہاں ہم صورتِ واقعہ کی ایک مثال سے بحث کریں گے… بانگِ درا کی ایک نظم ’غلام قادر رُہیلہ،… محاکاتی اور ڈرامائی طرزِ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں کرداروں کی داخلی کیفیات نے بیانِ واقعہ میں نفسیاتی گہرائی پیدا کردی ہے۔ یہ صورتِ واقعہ بنیادی طور پر ایک کردار (غلام قادر رُہیلہ) سے وابستہ ہے، لیکن واقعہ اور کردار دونوں ایک دوسرے کی رُونمائی میں معاون ثابت ہوتے ہیں، … صورتِ حال… تاریخ کا ایک سنگین (grim) لمحہ ہے، جس میں ایک انحطاط پذیر طبقہ (جس کی نمائندگی اس طبقے کی خواتین کررہی ہیں) ایک وحشیانہ قوت کے مقابل ہے،… نظم کا آغاز ایک اور واقعہ کے اجمالی ذکر سے ہوا ہے جو زیرنظر واقعہ کا معنوی ’دیباچہ‘ ہے۔
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوکِ خنجر سے
دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے
بھلا تعمیل اس فرمانِ غیرت کش کی ممکن تھی
شہنشاہی حرم کی نازنینانِ سمن بر سے
بنایا آہ! سامانِ طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے
لرزتے تھے دلِ نازک، قدم مجبورِ جنبش تھے
رواں دریائے خوں شہزادیوں کے دیدۂ ترسے
یونہی کچھ دیر تک محوِ نظر آنکھیں رہی اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مغفر سے
کمر سے اُٹھ کے تیغِ جانستاں، آتش فشاں کھولی
سبق آموزِ تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
رکھا خنجر کو آگے۔ اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا،
تقاضا کررہی تھی نیند گویا چشمِ احمر سے
بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
پھر اُٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا
کہ غفلت دور ہے شانِ صف آرایانِ لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اس واقعے میں کہانی یا حکایت (story)کا مزاج نمایاں ہے،… لیکن اس واقعے میں شاید اتنی ڈرامائیت مضمر نہیں جتنی اس کے مرکزی کردار غلام قادر رہیلہ کے انداز و اطوار سے پیدا ہوگئی ہے،… رہیلہ نے تیموری حرم کو ایک آخری موقع اپنے آپ کو justify کرنے کا دیا ہے،… اور اس نے نیند کا بہنا کیا ہے۔ لیکن تیموریوں کا انحطاط اتنا کامل اور تیموری حرم کے لیے صورتِ حال کی تبدیلی اتنی اچانک ہے کہ وہ رہیلہ کی اس ڈرامائی پیشکش کے مفہوم کو سمجھنے سے ہی عاری رہتا ہے۔ رہیلہ کی شخصیت، اندازِ گفتگو اور طرزِ عمل کی تصویرکشی میں اقبال نے وہ سب فنّی حربے استعمال کیے ہیں جو ایک ڈرامائی شاعر کو زیبا ہیں۔ اس سنگین اور دہشت ناک منظر میں اقبال نے حزن و ملال کے عناصر کو شامل کرکے صورتِ حال کو انسانی اور فنی اعتبار سے ’گوارا‘ بنایا ہے،… اور اس حزنیہ سُر کے ذریعے… رہیلہ کے اپنے تبصرے سے قطعِ نظر… اس واقعے کو تمدنی تنقید کا حصہ بنا دیا ہے۔
صورتِ واقعہ کے بیان اور کردار نگاری کے مرکب اظہار میں اقبال کی بہت سے نظمیں مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً ابوالعلامعرّی… نادر شاہ افغان… جنگِ یرموک کا ایک واقعہ، سیرِفلک وغیرہ… اقبال کا بیانیہ ہمیشہ ابعاوی (dimensional) ڈرامائی، بوقلموں اور مرکب ہوتا ہے،… مظاہر،کردار اور واقعات کی خارجی صورت پذیری… داخلی محرکات اور تاثرات سے لبریز ہوتی ہے،… اقبال کبھی تو اپنے لیے ڈرامائی علیحدگی (detachment) پسند کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ان کی ذات صورتِ حال میں پوری طرح شامل (involved)رہتی ہے۔ صورتِ حال کی معنویت کو پوری طرح اُجاگر کرنے کے لیے وہ تبصرے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ تبصرہ کبھی کرداروں کی زبان سے ہوتا ہے اورکبھی خود شاعر کی جانب سے، بحر اور ردیف و قافیہ کا انتخاب، آہنگ اور لہجے کا زیروبم صورتِ واقعہ کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔ رمز و ایما، تفصیل و اطناب آغاز و انجام، موڈ (mood)اور رفتار (tempo) منظر اور پس منظر… غرض ’بیانیہ‘ کے تمام اجزاو عناصر اور آئین و ضوابط ہر حال میں اقبال کے پیشِ نظررہتے ہیں اور وہ جس چیز سے چاہتے ہیں زیادہ اور جس سے چاہتے ہیں کم کام لیتے ہیں۔ ان معنوں میں وہ ’کاملِ ابلاغ‘ کے شاعر ہیں اور ابہام کو صرف فنی ضرورت کے تحت مناسب جگہ دیتے ہیں… بیانیہ شاعری کی طویل تاریخ میں اقبال… ہومر، ڈانٹے… اور فردوسی و نظامی کے ہم سخن اور ہم آئین ہیں۔