کیا ہوا آصم مومنہ کا کچھ پتا چلا۔
حمزہ جو آصم کے بلانے پر آیا تھا اس سے پوچھنے لگا۔
ہاں حمزہ میں نے اپنے مخبر لگائے ہوئے تھے مومنہ کی تلاش میں ان کو شک ہے کہ مومنہ یہاں ہو گی۔آصم نے لیپ ٹاپ حمزہ کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
ی یہ تو کوئی ک۔۔کوٹھا ہے۔
حمزہ کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئ۔
ہاں میرے مخبروں کے مطابق تو مومنہ یہی ہے اب آگے تو وہاں جا کرہی پتا چلے گا۔
آصم نے دھیمی آواز سے کہا۔
چلو جلدی وہاں پر۔ مجھے جلد سے جلد مومنہ کے پاس پہنچنا ہے۔
حمزہ کی آواز میں بھت بےصبری تھی۔
دیکھو حمزہ یہ کوئ بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ ہم ایسے ہی منہ اٹھا کر چل پڑیں ۔ہمیں بھت سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانا ھوگا ورنہ مومنہ کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے تم سمجھ رہے ہو نا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ۔
آصم نے حمزہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
تم صحیح کہ رہے ہو ۔جلد بازی میں لیا کوئ بھی فیصلہ مومنہ کے لیئے مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن پلیز جو بھی کرنا ہوگا ہمیں جلدی کرنا ہوگا ۔
حمزہ نے کہا۔
تم فکر مت کرو میں جلدی سے ٹیم تیار کرواتا ہو انشاءاللہ بھت جلد تمھاری مومنہ تمھارے پاس ہوگی۔
آصم حمزہ کاشانہ تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا ۔
****************************
اے لڑکی چل اٹھ ۔
مومنہ غنودگی میں تھی جب کسے نے اسے جھنجھوڑا ۔
آہستہ آہستہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
کون ہیں آپ لوگ۔
مومنہ نے ان دو لڑکیوں سے پوچھا جو میک اپ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
چل چھوری جلدی سے اٹھ جا ۔ٹائم نھیں ھے ہمارے پاس۔ویسے ہی بائ غصے میں ہیں۔
ایک لڑکی نے مومنہ کو کھڑا کرتے ہوئے کہا۔
کیا کہ رہی ہو تم لوگ۔اور کیوں آئ ہو تم لوگ یہاں۔
مومنہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔
دیکھ چھوری ،زیادہ باتیں نہ بنا اور چپ چاپ یہاں بیٹھ جا اور ہمیں اپنا کام کرنے دے۔
دوسری لڑکی نے مومنہ کو زبردستی ڈریسر کے سامنے بٹھایا ۔
کون ہو تم لوگ اور کیوں میرے ساتھ زبردستی کر رہے ہو۔
جو لڑکی مومنہ کو زبردستی لپ اسٹک لگانے لگی تھی مومنہ اسکے ہاتھ جھٹک کر کھڑے ہوتے ہوئے چیخی۔
دیکھ چھوری آج تیری بولی لگے گی اسی لیئے بائ کا حکم ہے کہ تمھیں اچھے سے تیار کر دیں ۔ویسے تو تمھیں کسی میک اپ کی ضرورت نھیں ہے لیکن پھر بھی تھوڑا سا تیار ہوجا۔اب چل شاباش ہمیں تنگ نا کر اور آرام سے تیار ہوجا۔
ان میں سے ایک لڑکی بولتی ہوئ آگے بڑھی۔
خبر دار جو میرے قریب آئ ورنہ میں تمھارا سر پھاڑ دوں گی۔
مومنہ بولتی ہوئ پیچھے کی جانب ہوئ۔
جا شبو بائ کو بلا ۔یہ چھوری اسی کے قابو آئے گی۔
ہاں ٹھیک کہ رہی ہے تو۔
یہ کہ کر وہ لڑکی کمرے سے چلی گئ۔
پلیز مجھے جانے دو۔کیا بگاڑا ہے میں نے تم لوگوں کا۔
مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔
دیکھ اگر تو اس دن بائ کی بات مان لیتی تو تجھے بائ چھ سات دن تو آرام سے اس کمرے میں رکھتی لیکن جو تو نے بائ کے ساتھ بد تمیزی کی تھی اسی وجہ سے بائ نے آج ہی تیری بولی لگا دی ہے۔اب بھی اگر تو اپنی خیر چاھتی ہے تو بائ کی بات مان لے ۔
کیا آفت آگی ہے یہاں۔
اس سے پہلے مومنہ کوئ جواب دیتی بائ کی غصیلی آواز گونجی۔
سنا ہے چھوری تو آرام سے مان نہیں رہی ہے۔نہ تو مجھے یہ بتا آرام کی بات تجھے سمجھ کیوں نھیں آتی ہے۔
بائ نے مومنہ کے بال دبوچتے کہا۔
خدا کا واسطہ مجھے جانے دو۔آخر تم بھی تو ایک عورت ہو۔ایک عورت ہوتے ھوئے تم دوسری عورت کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو۔
مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔
چل بہت اچھے ڈائلاگ مار لیتی ہے تو اگلا آسکر ایوارڈ پکا تیرا ہی ہوگا۔اب چل شرافت سے تیار ہوجا۔
بائ نے مومنہ کو کرسی پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔
نہیں ہونگی میں تیار چاہے تم کچھ بھی کرلو۔ اس سے اچھا میں موت کو گلے لگا لو۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے بائ کے پڑنے والے تھپڑ نے مومنہ کو زمین بوس کر دیا تھا۔
بہت بولتی ہے تو۔تیری تو آج ساری بولتی بند کرتی ہوں میں۔بہت شوق ہے نہ تجھے مرنے کا تجھے تو میں ایسی زندگی دوں گی جو موت سے بھی بتر ہوگی۔
بائ نے مومنہ کو بالو سے پکڑتے ہوئے کھینچا اور وہ بھی بے جان گڑیا کی
طرح کھنچتی چلی گئ۔
یا اللہ ایسی زندگی سے اچھا آپ مجھے موت دے دیں۔
ایک آنسو مومنہ کی آنکھ سےٹوٹ کر بے مول ہوا۔
***********************
ایک لاکھ ، دو لاکھ،تین لاکھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھرے مجمعے میں یہ آوازیں گونج رہی تھیں۔
وہ بے جان بت کی طرح سر جھکائے ایک کونے میں کھڑی ہوئ تھی۔اس کا دل درد کی شدت سے پھٹا جا رہا تھا۔اسکی آنکھوں میں ایک نہ رکنے والا سیلاب تھا۔
وہ دل میں شدت سے اپنی موت کی دعا کر رہی تھی۔اسنے کبھی یہ تو نھیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ لوگ اسکے وجود کی قیمت لگائے گیں۔
اسکا دماغ سوچ سوچ کو پاگل ہو رہا تھا۔وہ دل میں شدت سے دعا کررہی تھی کہ اگر موت نہ سہی تو حمزہ ہی آجائے اسکی حفاظت کے لیے۔
جس سے تم نے اتنی محبت کی تھی دیکھو تو اس کا کیا حال ہوگیا ہے۔
مومنہ دل میں حمزہ سے مخاطب تھی۔
50 لاکھ ایک،پچاس لاکھ دو۔۔۔۔۔۔۔
مومنہ نے آس پاس نظر دوڑائی ۔اسے پتہ تھا کے اگر ابھی اسنے کچھ نھیں کیا تو وقت اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔اسے دور ایک میز پر چھری پڑی نظر آئ۔
پچاس لاکھ تین۔۔۔۔۔۔
ایک کڑور ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے مومنہ اپنے دل میں آئے خیال کو تکمیل پہنچاتی ،وہ آواز سنتے ہی مومنہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔
ہاں وہ وہی تھا۔ وہ دشمن جاں اسکی آنکھوں کے بالکل سامنے تھا بس تھوڑے سے فاصلے پر۔
وہ اسی کو دیکھ رہا تھا ۔سوٹ پہنے وہ بالکل فریش لگ رہا تھا لیکن اسکی آنکھیں،اسکی آنکھیں کئ راتوں سے جاگنے کی چغلی کھا رہی تھیں۔ مومنہ کو وہ تھکا ہوا بھی لگا۔ تھک تو وہ بھی گئ تھی۔
مومنہ کا دل چاہا کے بھاگ کر اس کے سینے سے لگ جائے اور رو رو کر اسے اپنے اوپر گزری ایک ایک اذیت کے بارے میں بتائے کہ کیا کچھ اس نے اکیلے سہا ہے اور اسکی اذیت کے بارے میں سنے کے اسکے بغیر کیسے یہ دن کٹے۔
ایک کڑور ایک
دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے پر ہی تھیں۔
،ایک کڑور دو،
دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی۔
ایک کڑور تین۔
آپ اس چھوکری کو حاصل کرنے میں جیت گئے ہیں۔اب یہ آپ کی ملکیت ہے۔
بائ نے حمزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
حمزہ نے نگاہیں مومنہ سے ہٹا کر بائ کو دیکھا اور چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔
جی تو آپ چیک لینا پسند کریں گی یا کیش۔
حمزہ نےایک ہاتھ مومنہ کے گرد باندھتے ہوئے کہا جیسے اسے احساس دلانا چاہ رہا ہو کہ اب اسکا حمزہ اسکے پاس ہے اسے پریشان ہونے کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔
مومنہ کے دل سے سارا ڈر سارے خدشات دور ہو گئے تھے کیونکہ اسے پتا تھا کہ اب اس کا محافظ آگیا ہے جو اسے ان سب سے بچا لے گا۔
ایک شکر آ آنسوں مومنہ کی آنکھ سےٹوٹ کر گرا۔
***********************
حمزہ ہمیں جلد بازی سے کام نہیں لینا ہے۔
گاڑی جیسے ہی رکی حمزہ گاڑی سے نکل کر تیزی سے اندر کی جانب بڑھنے لگا جب آصم نے اسے روکتے ہوئے کہا۔
میری مومنہ اندر ہے۔مجھے اس کے پاس جانا ہے جلد از جلد۔
حمزہ کی آواز میں بے چینی تھی۔
مجھے پتا ہے حمزہ لیکن تمھارا یہ جزباتی پن بھابھی کے لیئے خطرہ بھی بن سکتا ہے اور تم یہ بھی مت بھولو کہ اندر اور بھی بے قصور لڑکیاں قید ہیں جنہیں ہمیں بچانا ہے۔
آصم نے تحمل سے کہا۔
ھھم۔۔۔۔تم صحیح کہ رہے ہو میرا اٹھایا گیا ایک غلط قدم باقیوں کے لیئے مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔
حمزہ نے مانتے ہوئے کہا۔
اب ہمیں وہی کرنا ہے جو ہمارا پلین تھا اور حمزہ دھیان رکھنا سارا کام پلین کے مطابق ہونا چاہیے۔
آصم نے کہا۔
میں اور میری ٹیم یہی ہونگے اور تمھارا اشارہ ملتے ہی ہم اندر آجائیں گے۔
آصم کی بات سن کر حمزہ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
***********************
حمزہ کی نظریں مسلسل اِدھر اُودھر کا جائزہ لے رہی تھیں کہ صحیح موقع ملتے ہی وہ آصم کو انفارم کر دے لیکن سب سے پہلے اسے مومنہ کو یہاں سے نکالنا تھا وہ مومنہ کے لیئے کوئ رسک نہیں لے سکتا تھا۔
حمزہ نے بائ کو پیسے دیئے اور مومنہ کو لے کر اوپر کی جانب بڑھا۔
مومنہ نے کچھ کہنے کے لیئے لب کھولے ہی تھے کہ حمزہ نے اشارے سے اسے چپ رہنے کا کہا۔ابھی وہ صرف مومنہ کے لیئے کوئ صیف جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔
حمزہ اوپر کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ اسکی کسی کے ساتھ زور کی تکڑ ہو گئی جس کے نتیجے میں حمزہ کی جیب میں رکھا وہ بٹن دب گیا جس سے اسنے آصم کو اندر آنے کا اشارہ دینا تھا۔
حمزہ اس بات سے بے خبر اوپر بڑھ رہا تھا جب نیچے سے ایک دم فائرنگ کی آوازیں آنے لگ گئی۔
لگتا ہے آصم اور اسکی ٹیم آگئ ہے لیکن میں نے تو ابھی اسے اشارہ ہی نہیں دیا تھا۔
حمزہ ۔۔۔۔۔۔
حمزہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مومنہ چیخ کر اس سے لپٹ گئی خوف سے اس کا پورا جسم لرز رہا تھا۔
تم پریشان مت ہو میں تمھیں کچھ نھیں ہونے دوں گا۔
حمزہ ارد گرد کمروں کا جائزہ لیتا اسے ایک کمرے میں لے آیا۔
میں جب تک واپس نہیں آتا تم یہاں سے نکلنا نہیں اور ڈرنے کی بالکل ضرورت نھیں ہے میں ہوں تمھارے پاس۔
پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ حمزہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
حمزہ کہ کر پلٹا ہی تھا کہ مومنہ نے پیچھے سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے التجا کی۔
مومنہ میں تمھیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہا ۔میں بس ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ رہا ہوں لیکن اس کوٹھے میں اور بھی بھت بےبس لڑکیاں موجود ہیں جن کو ہماری مدد کی ضرورت ہے اور تمھیں پریشان ہونے کی کوئ ضرورت نھیں ہے تمھارا حمزہ تمھارے پاس ہے اسے تم سے کوئی الگ نھیں کر سکتا۔
حمزہ مومنہ کا گال تھپتھپا کر کمرے سے چلاگیا۔
***********************
وہ کونے کی دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوئ ڈر سے کانپ رہی تھی۔
نیچے سے مسلسل گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
وہ حمزہ کے جلد آنے کی دعا مانگ ہی رہی تھی کہ کمرے کا دروازہ ایک دم کھولا اور کوئ بھاگتا ہوا کمرے میں آیا اور دروازہ بند کرنے لگ گیا۔
مومنہ نے اپنی چیخ کا گلا گھونٹا اور ایک دم کھڑی ہو گئی ۔آنے والے کی پشت مومنہ کی طرف تھی۔
لیکن جب وہ پلٹا تو مومنہ کی رہی سہی جان بھی ہوا ہوگئ۔
شیخ اسکے سامنے پسینے سے شرابور کھڑا اپنے سانسیں درست کر رہا تھا۔
شیخ نے ابھی تک مومنہ کو نھیں دیکھا تھا لیکن جیسے ہی اسنے اپنی نظریں اوپر کی پہلے تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھلیں پہر اسکے بھرے پر مسکراہٹ ابھری۔
***********************
وہ کمرے میں بیٹھا شیراب سے لفت اندوز ہو رہا تھا جب نیچے فائرنگ کی آواز سن کر اسنے کھڑکی سے جھانکا ۔
ہر طرف افراتفری کا عالم تھا ۔کچھ لوگ پولیس کے لباس میں تھے جو سب کو گرفتار کر رہے تھے ۔
ہر کوئ اپنی جان بچانے کے لیئے فائرنگ کر رہا تھا۔
یہ دیکھ کر شیخ کے پسینے چھوٹ گئے۔
وہ بھاگنے کے لیئے سیریوں کی طرف بڑھا لیکن پولیس اہلکار کو اوپر کی طرف آتا دیکھ وہ سامنے کمرے میں چھپ گیا۔
لیکن جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مومنہ کو کھڑا دیکھ وہ خباثت سے مسکرایا۔
***********************
کیا ہوا حمزہ تم کچھ پریشان لگ رہے ہو۔
آصم نے حمزہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں یار وہ مومنہ اوپر کمرے میں ہے ۔کافی گھبرائ ہوئ ہے۔پتہ نھیں کیوں لیکن میرا دل گھبرا رہا ہے۔
حمزہ نے بولا۔
واٹ۔۔۔بھابھی اوپر ہیں لیکن ہمارے پلین میں میں تو تھا کہ تم پہلے بھابھی کو یہاں سے نکال لو گے پہر ہم حملہ کریں گے۔
آصم نے پریشانی سے کہا۔
ہاں لیکن تم لوگ آ گئے تو مجھے مجبورا اسے یہی ہی رکھنا پڑا ۔
ابھی بحس کا وقت نہیں ہے ۔تم جاؤ بھابھی کے پاس۔
آصم نے کہا۔
لیکن ۔۔۔
ہم یہاں سب سنبھال لیں گے لیکن تمھیں ابھی بھابھی کے پاس ہونا چاھیے۔
آصم نے حمزہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
حمزہ بھی اوپر کی جانب بڑھ گیا۔
***********************
خبردار۔۔۔۔۔میرے پاس مت آنا ورنہ میں تمھیں جان سے مار دوں گی۔
شیخ ایک ایک قدم اٹھاتا مومنہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔
مومنہ نے پیچھے ہوتے ھوئے کہا۔
ارے میری بلبل تم سوچ نھیں سکتی کہ تمھیں بیچنے کے بعد کتنا پچھتایا ہوں میں۔دیکھ لو دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اسی لیئے تم میرے سامنے ہو۔
شیخ نے آگے بڑھتے ہوئے کہ رہا تھا۔
دیکھو میں کہتی ہو وہی رک جاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔
شیخ کو بالکل قریب دیکھ مومنہ کے باقی کے الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔
اس سے پہلے شیخ مومنہ کو ہاتھ لگاتا کسی نے پیچھے سے اس کو پکڑ کر دور پھینکا۔
حمزہ۔۔۔۔۔
مومنہ نے آنکھیں کھولیں جو اسنے ڈر سے بند کردیں تھیں اور حمزہ کو سامنے کھڑا دیکھ بھاگ کر اس کے گلے لگ گئ اور بلک بلک کر رونے لگی۔
حمزہ نے مومنہ کو ایک طرف کھڑا کیا اور آنکھوں میں خون لیئے شیخ کی جانب بڑھا۔
اور کئ مکے اس کے منہ پر مار دیئے۔
ہمت کیسے ہوئی تیری کہ تو میری مومنہ کو ھاتھ بھی لگائے ۔بھت برا کیا ہے تو نے اب دیکھ میں تیرے ساتھ کرتا کیا ہوں۔
حمزہ نے اسکا سر دیوار میں مارتے ہوئے کہا۔
شیخ کا پورا منہ خون نہ خون ہو گیا تھا لیکن حمزہ نھیں رکا تھا اسکے سر پر خون سوار تھا۔
شیخ نے موقع دیکھتے ہی مومنہ کو اپنی گرفت میں لے لیا اور گن اس کے سر تان لی۔
حمزہ کے قدم وہی رک گئے تھے جب کہ مومنہ خوف سے گن کو دیکھ رھی تھی۔
اگر تو نے مجھے یہاں سے جانے دیا تو میں اسے چھوڑ دوں گا ورنہ تیرے سامنے اسکی جان لونگا۔
شیخ نے حمزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے۔تم یہاں سے جا سکتے ہو لیکن مومنہ کو چھوڑ دو ورنہ مجھ سے برا کوئ نھیں ہوگا۔
حمزہ نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے۔میں اسے تمھارے پاس بھیج رہا ہوں لیکن کوئ ہوشیاری نھیں کرنا ۔
شیخ نے کہتے ہوئے مومنہ کو حمزہ کی طرف دھکا دیا۔اس سے پہلے مومنہ زمین پر گرتی حمزہ نے اسے پکڑ لیا اور اپنے گلے سے لگا کیا۔
آنسوں حمزہ کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔مومنہ کا دور جانا ہی اس کے لئے
سوحانِ روح تھا۔
ٹھاہ۔۔۔۔۔۔۔
گولی کی آواز پر دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
حمزہ کو اپنا ہاتھ بھیگتا ہوا محسوس ہوا جو مومنہ کی کمر پر تھا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے مومنہ اس کے ہاتھوں سے گرتی چلی گئ۔
ح۔۔۔حم۔حمزہ۔۔ میں آ آپ سے بھ بھت پیار کرتی
ہوں۔میں آپ سے یہ کہنا چاھتی تھی لیکن میرے پاس ووقت نھیں ہے۔
مومنہ نے اپنی بند ہوتی آنکھیں بامشکل کھولتے ہوئے کہا۔
نھیںںںں۔۔۔۔۔۔
حمزہ زور سے چیخا۔
مومنہ اپنی آنکھیں کھولو تم مجھے چھوڑ کر کھی نھیں جا سکتی ہو۔تم نے اپنا تو اظھار کردیا میرا تو جواب سنو۔۔۔۔۔پلیز مت ستاؤ اپنے حمزہ کو مر جائے گا یہ تمھارے بنا۔
تم میری دعاؤں میں مانگی گئ وہ نعمت ہو جس کے لئے میں بھت تڑپا ھوں۔
پلیز آنکھیں کھولو۔
مومنہ نے بھت مشکل سے آنکھیں کھول کر حمزہ کو دیکھا۔
تم اپنی آنکھیں بند مت کرنا میں تمھیں ہاسپٹل لے کر جاتا ہوں تمھیں کچھ نھیں ہوگا۔
حمزہ یہ کہ کر کھڑا ہوا اور سامنے شیخ کو دیکھا جو اسے ہی مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
تم نے اچھا نھیں کیا شیخ ۔میں تمھیں آج زندہ نھیں چھوڑوں گا۔
حمزہ نے چیختے ہوئے کہا۔
ٹھاہ۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے حمزہ شیخ کی طرف بڑھتا ۔شیخ نے حمزہ پر گولی چلا دی جس سے حمزہ مومنہ کے قریب ہی گر گیا۔
بھت محبت کرتے ہونا تم دونوں ایک دوسرے سے تو میں نے سوچا کیوں نا تم دونوں کو ایک ہی ساتھ سولا دوں۔
شیخ ھنستا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
دونوں اپنی آنکھیں بامشکل کھولیں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔انھیں پتا تھا کے ایک دفع یہ آنکھیں بند ہو گی تو وہ ایک دوسرے کو کبھی نھیں دیکھ سکے گے۔
کیا ہوا اگر ایک ساتھ جی نا سکے لیکن ایک ساتھ مر تو سکتے ہیں۔
مومنہ نے بھت مشکل سے ہنستے ہوئے کہا۔
دونوں نے آہستہ آہستہ ہاتھ بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور آنکھیں بند کر لیں۔
***********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...