آپی یہ والی پک دیکھیں کتنی اچھی آئی ہے۔ میرب نے مومنہ کو مھندی کی پکس دکھاتے ھوئے کہا۔
ہاں اچھی ھے۔
مومنہ نے مصروف سے انداز میں کہا۔
کیا آپی جب سے کتاب میں گھسی ہوئی ہیں۔
میرب نے مومنہ کے ہاتھ سے کتاب لے کر سائڈ پر رکھ دی۔
کیا ہے میرب تم مجھے کبھی سکون سے پڑہنے مت نھیں دینا۔ مومنہ نے خفی سے کہا۔
اچها آپی آپ نے ایک بات نوٹ کی۔
کونسی بات۔
مومنہ نے پوچها۔
ارمان بهائ آپ کو کتنا گهور گهور کر دیکهہ رہے تهے۔
میرب نے اپنی هنسی دباتے ہوئے کها۔
ویسے میرب شرم نام کی چیز نهیں ہے تم میں۔
مومنہ نے تکیہ کهینچ کر میرب کو مارا۔
آپی میں تو بس۔۔۔
تم تو چپ ہی رهو ۔جب بهی بولتی هو بالکل فضول بولتی هو۔
مومنہ نے میرب کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔
یہ بات مومنہ نے بهی محسوس کی تهی لیکن اسنے ظاهر نهیں هونے دیا تها۔
*********************************
آج اسے اس ریسٹرانٹ میں کام کرتے ہوئے ساتواں دن تها۔
حمزہ نے یهاں آتے ہی کام دهونڈا شروع کر دیا تها۔
آخر بهت مشکل کے بعد اسے ریسٹرانٹ میں ویٹر کی جاب مل گئ تهی۔
وہ اپنا بزنس شروع کرنا چاهتا تها لیکن اسکے لیئے اسے پیسوں کی ضرورت تهی جو کے اسکے پاس بالکل نهیں تهے۔
وہ دن رات ایک ایک پیسہ جوڑ کر جمع کر رہا تها۔
تم دیکهنا مومنہ میں بهت جلد ایک کامیاب انسان بن کر تمهیں لینے آئو گا۔
اس نے پر امید لهجے میں کها۔
*********************************
آپی جلدی کریں ویسے هی بهت دیر هو چکی هے۔سب لوگ گاڑی میں آپ کا انتظار کر رهے هیں۔مجهے تو لگتا هے بارات پہنچ جائے گی لیکن هم نهیں پہنچے گے۔
میرب نے کمرے میں آ کر مومنہ سے کها جو بیڈ پر بیٹهی اپنی سینڈل پہن رهی تهی۔
آج زویا کی بارات تهی سب لوگ ہال کے لئے نکل رہے تهے۔
تم چلو میں بس ایک منٹ میں آئ۔
مومنہ نے ڈوبتا لیتے هوئے کها ۔
بس جلدی سے آ جائیں۔
میرب یہ که کر کمرے سے چلی گئ۔
مومنہ نے ایک نظر اپنے آپ کو شیشے میں دیکها۔
لال رنگ کی کلیوں والی فراک جس پر سلور کام تها۔لمبے بال کهلے ہوئے تهے۔سلیقے سے کئے گئے میک اپ میں وہ بهت حسین لگ رهی تهی۔
آپی۔۔۔
میرب کی آواز پر وہ جلدی سے نیچے پہنچی۔
*********************************
ہال میں بارات کے آنے کا شور مچ گیا تها ۔
مومنہ نے بهی جلدی سے پہولوں کی پلیٹ لی اور بارات کو ویلم کرنے کی لیئے کهڑی هو گئ۔
اندر آتے هی ارمان کی نظریں کسی کی تلاش میں گهوم رہیں تهیں جیسے هی اسنے سامنے دیکها وہ کسی بات پر هنس رهی تهی ۔آج وہ اسے پہلے سے بهی ذیادہ خوبصورت لگ رهی تهی۔
مومنہ۔۔۔۔۔
اپنے نام کی پکار پر جب اسنے پیچهے مڑ کر دیکها تو ارمان بالکل اسکے پیچهے کهڑا تها۔
جی کوئ کام تها آپ کو ۔
مومنہ نے جهجهکتے هوئے پوچها اسے ارمان کی نظروں سے الجهن هو رهی تهی۔
آپ کو کچهہ بتانا تها۔
ارمان کا لهجہ بظاهر سنجیدہ تها لیکن اسکی آنکهوں میں شرارت تهی۔
جی کیا بتانا تها۔
مومنہ نے پوچها۔
آج آپ بهت خوبصورت لگ رہی ہیں۔
ارمان نے تهوڑا جهکتے هوئے کها۔
وہ مجهے امی بولا رهی تهیں۔
مومنہ کو سمجه نهیں آرها تها کے وہ کیا کهے اسی لیئے بهانہ بنا کر بهاگ گئ۔
ارمان کے قهقے کی آواز اسے دور تک سنائ دی تهی۔
رخستی کا وقت بهی هو گیا تها ۔سب کی آ نکهیں آنسوں سے بهری هوئ تهیں۔
سب نے اپنی دوعائوں میں زویا کو رخست کیا
***********************
امی آپ بهی چلتی اب دیکهنا زویا آپی ناراض هو جائیں گی۔
مومنہ نے چادر اڑهتے هوئے کها
بیٹا تمهیں پتا تو هے کے میرے پیر میں کتنا درد هے ورنہ میں ضرور چلتی۔
آرزو بیگم نے کها۔
میرب آبهی جائو۔
مومنہ نے وهی سے میرب کو آواز دی جس کی ایک گھنٹے سے تیاری ختم ہو نے کا نام نہیں لے رهی ۔
وہ لوگ زویا کا ناشتہ لے کر جا رهی تهیں۔
جی آپی آ گئ میں۔
میرب نے پهولے هوئے سانس کے بیچ میں کها ۔
شکر ورنہ تو مجهے لگا تها کے ناشتہ کے بجائے دوپہر کا کھانا لے جانا پڑے گا۔
آرزو بیگم کو خدا حافذ کهہ کر وہ دونوں زویا کے گهر کے لیئے نکل گئ۔
***********************
آپی مجھے تو لگتا ھے کہ سب سو رہے ھیں۔
میرب نے آس پاس دیکھتے ھوئے کہا۔
وہ لوگ ابھی زویا کا ناشتہ لےکر پہنچی تھیں لیکن گھر میں ھر طرف خاموشی کو دیکھ کر وہ لوگ سمجھ گئی تھیں کہ سب لوگ ابھی تک سو رہے ھیں۔
السلام و علیکم۔ ۔ ۔ ۔
دونوں نے سامنے دیکھا تو سکینہ(ملازمہ) کھڑی تھی۔
والیکم السلام ۔ ۔ ۔
سب لوگ کہاں ھیں۔
مومنہ نے پوچھا۔
بی بی جی سب لوگ تو ابھی سورھے ھیں۔وہ جی کل سب بھت تھک گئے تھے نااسی وجہ سے اگر آپ کھتی ھیں تو میں ابھی سب کواٹھا کر آجاتی ھوں ۔
سکینہ نے کھا۔
نھیں رھنے دو۔ھم یہی بیٹھ کر انتظار کر لیتے ھیں سب کے اٹھنے کا۔
مومنہ نے سب کے آرام کے خیال سے کھا۔
جی ٹھیک ھے آپ لوگ بیٹھیں جب تک میں آپ لوگوں کے لیئے کچھ لے کر آتی ھوں۔
سکینہ کھ کر کچن کی طرف چلی گئ۔
دیکھا آپی فضول میں آپ نے جلدی جلدی کاشور مچایا ھوا تھا یہاں توسب ابھی تک سورھے ھیں۔
میرب نے صوفے پر بیٹھ کر منہ بناتے ہوئے کھا ۔
کوئ بات نھیں اگر سے دیر سے آتے تو برالگتا۔
مومنہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
میرب نے منہ بسور کر اپنا موبائل نکال لیا۔
مومنہ کو بوریت ھو رھی تھی۔
اچھا میرب تم بیٹھو میں تھوڑی دیر میں آتی ھوں۔
مومنہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کھا۔
جی مجھے پتا ھے آپ کہاں جا رھی ھیں۔
میرب نے موبائل دیکھتے ھوئے مصروف سے انداز میں کھا۔
میرب کی بات سن کر ایک خوبصورت سی مسکان نے مومنہ کے لبوں کو چھوا۔
کسی نے اس منظر کو بہت دلچپسی سے دیکھا۔
مومنہ جب بھی اپنی پھپو کے گھر آتی تھی تو لازمی گھر کے پیچھے بنے باغ میں جاتی۔اسکو یہ باغ بھت پسند تھا ابھی بھی اسکا رخ اسی طرف تھا۔
مومنہ ابھی وھاں جا ھی رھی تھی جب کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے دیوار سے لگا دیا۔
اسے پہلے مومنہ چیخ مارتی کسی کے بھاری ھاتھ نے اسکی چیخ کا گلا دبا دیا۔
ڈر کے مارے مومنہ نے اپنی آنکھیں بند کر دیں۔جب اسے اپنے چھرے پر ھاتھ کی گرفت ہلکی محسوس ہوئی تو آھستہ آھستہ اسنے اپنی آنکھیں کھولیں۔
اور اپنے سامنے کو کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے پہلے تو حیرت ھوئ پھر اس حیرت کی جگہ غصے نے لے لی۔
مومنہ نے غصے میں ایک زور کا مکہ ارمان کے کندھے پر مارا۔
اف ظالم لڑکی۔۔ ۔ ۔
ارمان نے اپنا کندھا سھلاتے ھوئے کھا۔
ارمان بھائی یہ کوئ طریقہ ھے کسی کو ڈرانے کا۔
مومنہ کا غصہ کم نھیں ھوا تھا۔
یار میں نے تو صرف مذاق کیا تھا۔
ارمان نے معصومیت سے کھا۔
اور آپ کے اس مذاق کے چکر میں اگر میری جان نکل جاتی تو۔
مومنہ نے دونوں ھاتھ کمر پر رکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح کھا۔
خدا کا خوف کرو لڑکی کیوں فضول بول رھی ھو۔
اچھا ویسے اتنی صبح صبح کیوں ٹپک پڑی ھمارے گھر پر۔
ارمان نے مذاق میں پوچھا ۔
آپ کے علم میں اضافہ کروں تو ھم زویا آپی کا ناشتہ لے کر آئے تھے۔
مومنہ نے کھا۔
تو تمھیں کیا لگا تھا کے ھم بھابھی کوناشتہ نھیں دیں گے۔
ارمان نے حیرانی سے پوچھا۔
ارمان کی بات سن کر مومنہ کا دل کیا کے اسکا سر پھاڑ دے۔
یہ ایک رسم ھوتی ھے۔
مومنہ نے بھت تہمل سے کھا۔
وہ جی سب لوگ جاگ گئے ھیں آپ لوگ بھی آجائیں۔
اس سے پھلے ارمان کچھ کھتا سکینہ نے آکر انھیں اطلاع دی۔
وہ دونوں بھی اندر کی طرف چل پڑے۔
خوشگوار ماحول میں سب نے ناشتہ کیا۔
پھر وہ دونوں اجازت لے کر آ گئ۔
***********************
وقت کا کام ھے گزرنا اور وہ گزر ھی رھا تھا۔
حمزہ وہاں دن رات ایک کر کے محنت کر رھا تھا اور بے شک انسان کو اسکی محنت کا صلہ ملتا ھے۔
آج حمزہ نے اپنے بزنس کی بنیاد رکھی تھی۔
وہ صرف محنت سے ھی نھیں بلکہ اپنی دوعاؤں میں بھی اسنے اپنے رب سے مومنہ کو مانگا تھا۔
اور اسے یقین تھا کے اسکی دعا ضرور قبول ھو گی۔
***********************
اب تو کسی کو یاد بھی نھیں تھا کے کوئ حمزہ نام کا شخص بھی تھا۔
کیونکہ انسان کو وھی چیز یاد رہتی ھے جسے وہ یاد رکھنا چاہتا ھے۔
ارمان کے گھر والے ارمان کے کھنے پر مومنہ کا رشتہ لینے آئے تھے۔
مومنہ نے اپنے سارے فیصلے اپنے ماں باپ کے حوالے کر دیئے تھے لیکن ابھی وہ پڑھنا چاھتی تھی اسی لیئے ابھی صرف منگنی کرنے کا فیصلہ ھوا تھا باقی نکاح مومنہ کے پیپرز کے بعد طے ھوا تھا۔
اس مہینے کے آخر میں مومنہ کی منگنی منعقد ھوئ تھی۔
***********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...