کاش کہ وہ لوٹ آئے مجھ سے یہ کہنے
میں کون ہوتا ہوں تم سے بچھڑنے والا
پتہ نہیں کیوں اس سے بات کرنے کے بعد اب افسوس ہو رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور جب وہ اگلے دن یو نیورسٹی بھی نہ آئی تو اس کا دل بے چین ہوا تھا لیکن اس نے پھر اگنور کر دیا۔ لیکن جب وہ اگلا ہفتہ بھی نہ آئی تو اس کا دل اسے دیکھنے کیلیے مچلنے لگا۔ وہ ہفتہ کی رات تھی جب اس نے خود سے اعتراف کر ہی لیا کہ حسیب جہانگیر کو عدن حاشر سے آخر محبت ہو ہی گئی تھی اور آخر کیوں نہ ہوتی چاہا جانا کتنا خوبصورت احساس ہوتا ہے اور جب ہم دو سال سے کسی کی آنکھوں میں اپنے لیے خاموش محبت کے رنگ دیکھتے آ رہے ہوں، ابن آدم اعتراف کر رہا تھا بنت حوا کی بیٹی سے محبت کا لیکن کب؟؟؟؟؟ اس کے اس دنیا سے جانے کے اگلے دن۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ صرف اس سے بچنے کے لیے یونی نہیں آ رہی تو اس نے اسے کال کرنے کا سوچا لیکن جب نمبر ملایا تو وہ آف تھا کوئی بات نہیں سوموار والے دن فیس ٹو فیس بات ہو جائے گی، اس نے سوچا۔ اس نے بہت مشکل سے اتوار کا دن گزارا تھا اور سوری کا خوبصورت سا کارڈ خریدا اور گولڈ کا نیکلس جس پہ باریک سا عدن حسیب لکھا تھا سپیشل آرڈر پہ بنوایا اسے پرپوز کرنے کے لیے۔ سوموار والے دن وہ ابھی کلاس میں داخل ہوا ہی تھا تو سب زمرہ کے گرد اکھٹے تھے اس نے بھی پاس جا کے پوچھا “ہیلو گائز کیا ہوا ہے؟؟؟”
“عدن کی فرائیڈے والے دن ڈیتھ ہو گئی ہے” اس کی کلاس فیلو جویریہ نے جواب دیا۔ وہ لڑکھڑایا تھا “تم مذاق کر رہی ہو نا؟؟؟”
اس نے جویریہ سے کہا
سب حسیب کی بات سن کے بے یقینی سے اسے دیکھنے لگے کہ اسے کیا ہوا اس کا رنگ ایسے ہو رہا تھا جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو زمرہ نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا تھا اور اٹھ کے کلاس سے باہر چلی گئی۔ حمزہ نے حسیب کو پکڑ کے کرسی پہ بٹھایا تھا “حسیب تم ٹھیک تو ہو نا؟؟” زاویار نے پوچھا تھا۔۔۔ اور اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی زور سے بھینچ لی جس کے اندر دو لفظ جگمگا رہے تھے۔ عدن حسیب۔ اسنے کرسی کی بیک پہ سر ٹکا کے آنکھیں موند لیں اووہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانا چاہتا تھا،
میری سانسیں گروی رکھ کے
کاش کوئی مجھے لوٹا دے
وہ گزرے وقت کی کچھ ساعتیں
جس میں پھر ایک بار
وہ مجھ سے اقرار محبت کرے
اور اس بار میں اس کے
حسین لبوں کو چوم لوں
اسے اپنا محرم بنا لوں
اسے اپنی محبت سے امر کر دوں
میں اپنی جان بھی اس پہ وار دوں
میں اس کی حسیں آنکھوں کے سارے
آنسو اپنے لبوں سے چن لوں
بس کوئی مجھے ایک بار پھر لوٹا دے
وہ گزرے وقت کی کچھ ساعتیں
٭٭٭
تشکر: ’کتاب‘ ایپ
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...