تیری حیات کا ہر لمحہ شادماں گزرے
بہار سجدہ کرے تو جہاں جہاں گزرے
زمرہ ویک اینڈ گزار کے واپس آ ئی تو عدن ابھی تک نہیں آئی تھی اس نے دوپہر تک انتظار کیا لیکن جب وہ دوپہر تک بھی نہیں آئی تو اس نے اس کا نمبر ملایا لیکن وہ بند جا رہا تھا اس کی جو حالت تھی اس کے پیش نظر زمرہ کیا س کے لیے فکر مندی لازمی تھی اسی طرح تین دن گزر گئے لیکن اس کا نمبر مسلسل آف جا رہا تھا اگلا جمعہ آ گیا تھا آج صبح سے ہی اس کا دل گھبرا رہا تھا اس نے یونی سے بھی آج آف کر لیا تھا اس نے نماز جمعہ ادا کی اور سورہ کھف کی تلاوت کر کے اللہ سے سب اچھا ہونے کی دعا مانگی تو اس کے سیل پہ رنگ ہوئی اس نے دیکھا تو عدن کا لنگ جگمگا رہا تھا اس نے شکر کا کلمہ ادا کیا اور ایک منٹ کی تا خیر کیے بنا کال اٹینڈ کی اور ساتھ ہی نان سٹاپ بولنا شروع ہو گئی ” عدن کی بچی پتہ میں کتنا پریشان رہی ہوں پورا ہفتہ، بے مروت کوئی ایسا بھی کرتا ہے کے پکڑ کے موبائل ہی آف کر دو بس اب جلدی سے واپس آ جاؤ میں تمہاری اچھی خاصی کلاس لینی ہے۔ ” اسے اپنی بات کے جواب میں صرف ہچکیوں کی آواز سنائی دی تھی
“آپا، عدن آپا چلی گئی ہیں ہم سب کو چھوڑ کے۔۔۔ آپ بس جلدی سے آ جاؤ اپنی دوست کا آخری دیدار کر لو۔ ” یہ الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو کسی نے اس کے کانوں میں انڈیلا تھا اسے لگا کے وہ مر گئی ہو جیسے اس کا سانس بند ہونے لگا ہو لیکن نہیں وہ زندہ تھی اس نے بے جان ہوتے جسم کے ساتھ ان کے گاؤں کا ایڈریس پوچھا تھا۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
انہیں گاؤں پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے لگے تھے مغرب کے بعد جنازہ تھا اور مغرب ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا اس کی نظروں کے سامنے اس کی عزیز از جان دوست ساری دنیا سے ناراض ہو کے اب پر سکون نیند سو رہی تھی یہ حسین آنکھیں جنہوں نے حسیب کے سا تھ کے سپنے دیکھے تھے آج بند تھیں یہ پھول جیسے خوبصورت ہونٹ جو حسیب کو دیکھ کے مسکرا اٹھتے تھے آج خاموش تھے لوگ کہہ رہے تھے پہلی دفعہ “کسی میت پہ اتنا نور دیکھا ہے حسیب میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں میری آہیں لگیں گی تمہاری وجہ سے میری دوست مجھ سے چھن گئی ہے بہن بھائی سے ان کی بہن چھن گئی ہے ماں باپ سے ان کی بیٹی چھن گئی ہی” جنازے کا وقت ہو گیا تھا وہ اسے لے کے جا رہے تھے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم کا کوئی حصہ نکال کے لے جایا جا رہا ہو
وہ اس کی امی اور بہن کے ساتھ لگ کے چیخیں مار مار کے روئی تھی۔
٭٭