الغرض صبحی وہاں سے سات کوس چلا۔ میرزا پور آ کر ایک سرا میں اُترا۔ عجب سرا کہ مکان اُس کے معدن حرارت، بھٹیاریاں ڈائنوں کی صورت میلے کپڑے پہنے۔ سیکڑوں چیلڑ اُس میں بھرے۔ صفائی ستھرائی کی یہ حالت تھی کہ رینٹ ہونٹوں تک لٹکتی۔ کوئی اپنے سر کے بال کھجلاتی، کوئی اپنے چوتڑوں پر ہاتھ دوڑاتی۔ مسافر اپنی شامت سے اگر وہاں آ نکلا، عذاب دوزخ میں گرفتار ہوا یعنی ہر ایک اپنی طرف بلاتی ہے۔ ایک مکان تاریک و تنگ میں اُتارتی ہے۔ وہاں مچھر ہجوم لاتے ہیں۔ ہڈی چمڑا زخمی کر ڈالتے ہیں۔ میں بھی اس سرا میں اُترا۔ ایک تو گرمی مکان اور تکلیف مچھروں سے حیران تھا، دوسرے لید اور گوبر کی بو دماغ کو پریشان کرتی۔ طرفہ اُس پر یہ کہ ہر ایک بھٹیاری آدھی رات تک آپس میں لڑی۔ ان وجہوں سے نیند آنکھ میں حرام ہوئی۔ یہاں کی تکلیف سے لندن کی سرا یاد آئی کہ وہاں کیا کیا آسائش تھی۔ مسافر جب وہاں پہنچتا ہے، ایک شخص سپید پوش دروازے تک آتا ہے۔ بڑی عزت اور تکلف سے دو منزلے مکان بلند میں لے جاتا ہے۔ شیشہ آلات درودیوار میں لگے، کوچ مخملی بچھونوں کی ہر چہار طرف بچھے۔ ہوا کھڑکیوں کی راہ سے جو آتی ہے، مانند نسیم بہشت روح میں قوت دیتی ہے۔ مکھی یا مچھر کا ہر گز اُس میں نام و نشان نہیں۔ نیچے کے مکان میں میزوں پر ہر طرح کے کھانے چنے ہوئے بصد تزئین۔ مسافر کو جس کھانے کی تمنا ہے، میز پر مہیا ہے۔ جب کھانے کی نوبت آئے، ایک پری زاد سامنے بیٹھ کر بین بجائے۔ بعد فراغت کے شراب وین خوشبودار اور میوے ہر قسم کے مزیدار لا کر کھلاتی ہے۔ صبح کے وقت ایک رنڈی نہایت حسین سرہانے آ کر ملائم آواز سے آہستہ آہستہ جگاتی ہے اور آواز “امروز روز خوش” کی مسافر کے کان میں سناتی ہے۔ سوا اُس کے اور پریاں پوشاک نفیس پہنے سامنے آتی ہیں، تراش خراش میں ایک سے ایک نرالے انداز دکھاتی ہیں۔ علاوہ اس سے کوچ گاڈی فرش مخملی وغیرہ کی سواری کے لیے ہر جگہ ملتی ہے۔ ایک دن میں سو کوس کی منزل پر بے رنج و تکلیف پہنچا سکتی ہے۔ مسافر سفر میں ایسی آسائش پاتا ہے کہ گھر بھول جاتا ہے۔ ان سراؤں کو اگر بہشت کہوں بجا ہے اور اگر باغ ارم سے تشبیہ دوں روا ہے۔ انگریز لوگ اگر ہندوستان کے مکانوں اور سراؤں کو ناپسند کریں، ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ لندن کے مکانوں یا سراؤں سے یہاں کا کوئی مکان اور سرا نسبت نہیں رکھتا ہے۔ ؏
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
اُس نواح میں چار کوس کے بعد ہر چیز ملتی ہے، بلکہ جا بجا بستی ہے۔ یہاں اگر مسافر سارا دن چل کر بہ ہزار خرابی سرا میں پہنچے، عذاب دوزخ اور سخت بلا میں مبتلا ہوئے۔ بھلا انگریزوں کو یہ سرا کیوں کر بھاوے جب ہم ہی لوگوں کو پسند نہ آوے۔
قصہ مختصر بندہ ایک دن سیر و تماشے کے لیے وہاں رہا۔ بازار اور دریا کی سیر کو گیا۔ ایک جگہ ایک فقیر فربہ لحیم و جسیم ہندو مذہب بیٹھا تھا، سر سے پانو تک ننگا۔ عورتیں ہندوؤں اور مہاجنوں کی اس کے عضو تناسل کو پوج رہی تھیں، اپنے نزدیک گویا عبادت کرتی تھیں۔ کوئی بہت ذوق و شوق سے اُس کو ہاتھ میں لے کر چومتی، کوئی چاول اور پھول اُس پر چھڑکتی۔ وہ فقیر ننگا عجب صاحب نصیب تھا کہ اندر کے اکھاڑے میں بے پروائی سے بیٹھا، نظارہ جمال پری زادوں کا کرتا۔ ایک نے ان پریوں میں سے گاڈھ دودھ میں قند کا چورہ ملایا، بہت خوشامد و لجاجت سے اُس بے حیا کو پلایا۔ مجھ کو یہ ماجرا دیکھ کر بے اختیار غصہ آیا، یہی جی چاہا کہ اس مردک بے شرم کو ایک لاٹھی ماروں اور رنڈیوں کو اُس کے پاس سے ہٹا دوں۔ پھر جو غور کیا یہ امر مناسب نہ سمجھا، ناچار صبر کیا۔ اس واسطے کہ وہ رنڈیاں بہت حسن اعتقاد سے لنگ پوجتی تھیں، صورت تہدید میں اُس نابکار کو رنج ہوتا اور وہ بھی آزردہ ہوتیں۔ مزاحمت کرنا مناسب نہ دیکھا بلکہ دل میں خیال آیا کہ میں بھی سپہ گری اور دوا دوش ملکوں کی چھوڑوں، ننگا ہو کر اپنے تئیں مہا پرش بناؤں اور ان رنڈیوں حسینوں سے اپنا لنگ پجواؤں، زندگی کا مزہ اور لطف پاؤں۔ نوکری میں اذیت ہے پر اس فقیری میں عجب کیفیت ہے۔ پریاں اطاعت میں حاضر رہتی ہیں، دودھ اور موہن بھوگ لا کر کھلاتی ہیں۔ بھلا یہ مزہ نوکری میں کہاں۔ اِس سے اُس سے تفاوت زمین و آسمان۔ ہندو عجب بے تمیز ہوتے ہیں کہ اپنی جوروؤں کو برہنہ مکار فقیروں پاس بھیج کر لنگ پجواتے ہیں۔ چاہیے تھا اُن کو اس امر بیجا سے روکنا سو برعکس بخوشی اجازت دیتے ہیں۔ ننگے آدمی سے مرد آنکھ بچا جاتے ہیں۔ حیف ہے کہ اس کے پاس رنڈیاں جا کر لنگ پوجیں۔ یہ کیا حرکت لچر ہے اور کیسی رسم ابتر ہے۔ خیر بندہ یہ حال دیکھ کر سرا میں آیا، لوگوں سے یہ قصہ نقل کیا۔ ایک بھٹیاری نے کہا: تم نے ابھی کیا دیکھا، یہ تو ذرا سی بات ہے۔ اگر فلانے گھاٹ پر چھپ کر جاؤ دیکھو ان کی کیا کیا حرکات ہے۔ میں نہایت مشتاق ہوا، رات کو اس گھاٹ پر جا کر مخفی بیٹھا۔ ڈیڑھ پہر رات گئے دو تین جوگی مسنڈے نوجوان مٹھائی ہاتھ میں لیے آئے اور دو تین حسین رنڈیاں مہاجنوں کی بیبیاں ساتھ لائے۔ ایک دونگی پر سوار ہو کر دریا کے پار گئے، ایک باغ میں نفیس بچھونا بچھا کر چین سے بیٹھے۔ بندہ بھی چالاکی کر کے ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر پار اُترا۔ کرائے اُس کے کا ایک روپیہ دیا۔ اُن کی آنکھ سے چھپ کر ایک کنارے بیٹھ رہا۔ انھوں نے مجھ کو نہ دیکھا۔ پہلے سبھوں نے مل کر مٹھائی کھائی، بعد اس کے اُن میں اور رنڈیوں میں بات چیت کی نوبت آئی۔ یہاں تک ہنگامہ عیش و نشاط گرم ہوا کہ جوگیوں نے اُن سے مساس کیا۔ آخر طرفین سے قوائے شہوانی جوش میں آئیں، جوگیوں نے ساق بلوریں اُن پریوں کی ہاتھ میں لے کر کمر سے کمریں ملائیں۔ کیفیتیں صحبت کی اُٹھائیں۔ جام وصال اُن کے سے بادہ نوش ہوئے، ساری فقیری اور جوگ بھولے۔ جب فراغت کر چکے، اس پار آئے۔ رنڈیاں اپنے اپنے گھر گئیں۔ جوگیوں نے ایک درخت کے نیچے آسن مارے اور مونگے کا مالا ہاتھ میں لے کر رام رام جپنے لگے۔ یہ ماجرا دیکھ اول دل میں آیا کہ ضرور ہی ان حرام زادیوں کے حال سے ان کے وارثوں کو خبر کرنا چاہیے۔ پھر یہ سمجھا کہ اگر یہ حال جا کر اُن سے کہوں، وہ بے عقل ہیں۔ شاید برخلافی مذہب باعث خصومت جان کر آمادہ مقابلہ ہوں۔ ناحق بات بڑھے، حاکم تک پہنچے۔ بہرحال اس مقدمہ میں سکوت کرنا بہتر معلوم ہوا، سرا میں آیا۔ ہندو عجب عقل ناقص رکھتے ہیں کہ ننگ و ناموس کا کچھ خیال نہیں کرتے ہیں۔ یعنی ازراہ حماقت جوگیون طویل القامت بدمستوں کو صاحب کمال جانتے ہیں، بے تکلف اپنی جوروؤں کو ان کے پاس بھیج کر خراب کرواتے ہیں۔