قصہ مختصر بندہ سنہی سے نو کوس چلا، نراین گنج میں پہنچا۔ وہاں سے نو کوس کی منزل طے کرکے گنیش گنج آیا، پھرنو کوس کے بعد دہوبان میں اُترا، وہاں سے دس کوس چل کر چری بُدی میں پہنچا۔ پھردس کوس منزل کر کے جھبل پور میں مقام کیا۔وہ نواح دل کو بھایا۔ اُس پار جھبل پور کے دریائے نربدا تھا۔ میں شکارمیں مشغول ہوا۔ یہ دریا مقام پوجا ہے اور نہانے ہندوؤں کا ہے۔ فی الواقعی پانی اس کا مزیدار اور میٹھا ہے۔ ہندو راہونِ دور سے آکر اس دریا میں نہاتے ہیں، اپنے نزدیک اس پانی سے سارے گناہوں کو دھو جاتے ہیں۔ ایک دن میں نے نربدا پر مقام کیا، شکار کر کے کئی جانور پکڑ لایا۔ ایک جگہ گنجان درختوں کا سایہ اور خوب سبزہ تھا، اُتر کر شکاری جانوروں کا کباب بنا کر کھایا اور شب باش ہوا۔ بندہ جب نربدا پہنچا، گرمی کا غلبہ تھا۔ اسی سبب سے پانی دریا کا گھٹ گیا، یہاں تک کہ پہاڑ دریائی جونربدا میں تھا نظر آتا۔ کشتی کا رستہ مسدود تھا۔ دوسرے دن خاص جھبل پور میں آ کر ایک بنیے کی دکان پر اترا، راہ کی ماندگی سے سستایا۔ اُس دن ابر تھا، دل میں یہ خیال آیا کہ راہ کے چلنے سے ماندہ ہوا ہوں، بہتر یہ کہ ایک آدھ روز یہاں چین کروں۔ بنیے کی دکان کو صاف کروایا، عرقِ انگور پینے میں مصروف ہوا۔ گویون خوش آواز کو بلا کر راگ سننے لگا۔ آنب، خربوزے مول لے کر آپ کھائے، باقی گویوں اورنوکرکو تقسیم کردیے۔ اسی عیش ونشاط میں دو تین پیادے کوتوالی کے آ کر پوچھنے لگے: تم کون ہو، کیا پیشہ رکھتے ہو، کہاں سے آئے، کہاں جاتے ہو۔ میں نے کہا: مسافر ہوں، بنبئی سے آتا ہوں بنارس جاتا ہوں۔ تم کو میرے پیشہ اور مقام سکونت سے کیا کام، اس سے کیا غرض و انجام۔ وہ موذی تقریر بیجا سے باز نہ آئے، بلکہ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے: ہمارے ساتھ چلو تم کو کوتوال نے بلایا ہے۔ میں نے ان کا کلام پوچ و لچر سمجھ کر یہ کہا: اگر کوتوال کو تحقیقات منظور ہوئے، میرے پاس آ کر حال پوچھ جائے۔ میں اُس کے پاس ہر گز نہ جاؤں گا، اپنے عیش میں خلل نہ لاؤں گا۔ میں نے کسی کی چوری نہیں کی اور تھیلی نہیں کاٹی کہ کوتوال نے مجھ پر طلبی بھیجی۔ شام تک اُسی کیفیت میں رہا، رات کو کھانا کھا کر سویا۔ صبحی گھوڑے پر سوار ہو کر آگے چلا۔ انھی پیادوں نے آ کر روکا کہ کوتوال کا حکم نہیں تمھارے جانے کا۔ میں نے کچھ نہ سنا، اپنا رستہ لیا۔ دو کوس تک پیادے ساتھ آئے، بعد اس کے پھر گئے۔ ظاہراً معلوم ہوا کہ کوتوال جھبل پور کا مسافروں کو تہمت دزدی سے گرفتار کرتا تھا اور اُن سے دھمکا کرشوت لیتا تھا۔ مگر مجھ سے اُس کو کچھ وصول نہ ہوا۔ جھبل پور اگرچہ بہت وسعت نہیں رکھتا ہے مگر آباد اچھا ہے۔ کسی انگریز نے اُس کا چوک بنوایا ہے۔ بہت نادر نقشہ اُس کا ہے۔ چوطرفہ دیوار ہے، اندر اس کے دکانیں اور بازار ہے۔ ہر قسم کی چیز اُس میں رکھی ہے، شام کو آدمیوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ جھبل پور سے آگے رستہ ہموار ہے، دو طرفہ درخت آنب کے سایہ دار۔ مسافر سایہ میں راہ چلے۔ جہاں چاہے آنب کھائے اور ٹھہرے۔ اُس سال درختوں میں آنب لدے تھے۔ مسافر راہ چلتے آنب کھاتے جاتے۔ یہاں پہاڑ سیاہ بہت نظر آئے۔
میں جھبل پور سے چلا۔ نو کوس کے بعد سہوڑا میں پہنچا۔ پھر نو کوس چل کر دنیڑی آیا۔ وہاں سے آٹھ کوس چلا، سہا گنج میں گیا۔ وہاں سے دس کوس آگے بڑھا، مہیر میں پہنچا۔ مہیر موضع آبادان ہے، ایک راجہ ہندو حاکم ہے وہاں۔ اُس نے ایک چھوٹا سا قلعہ پختہ مضبوط بنوایا ہے، ہزاروں طوطوں نے اُس کی دیوار کے رندوں میں آشیانہ بنایا ہے۔ گرد قلعہ کے خندق گہری پانی سے بھری ہے۔ آدمی اُس موضع کے نادان، بدقطع اور احمق ہیں گویا حیوان مطلق ہیں۔ ایک شب بندہ وہاں رہا۔ صبحی پانچ کوس بڑھ کر امرپٹن میں آیا۔ یہاں بھی عمل ایک راجہ کا، انتظام ملک خاک نہ تھا۔ عملداری راجاؤں کی۔ انھی راہوں میں مسافر اکثر مارے جاتے ہیں۔ راہزن اسباب راہیوں کا لوٹ لے جاتے ہیں۔ کوئی شنوائی نہیں کرتا ہے کہ یہ کیا ظلم و فساد ہوتا ہے۔ امرپٹن میں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سو رہا۔ آدھی رات کو بیدار ہوا۔ ایسی چاندنی کھلی تھی کہ رات دن معلوم ہوئی۔ آدمی کو آواز دے کر جگایا۔ میں نے اُس نے دونوں نے جانا کہ تڑکا ہوا۔ وہاں سے اُسی وقت چل کھڑا ہوا۔ جب دو کوس نکل آیا دو آدمی جنگلی لٹیرے ملے۔ ایک ایک لاٹھی لوہا لگی ہوئی، کندھوں پر رکھے۔ آواز دی کہ اے مسافر! گھوڑا اور اسباب اپنا ہم کو دے، سیدھی طرح گھر کی راہ لے نہیں تو ہم تجھ کو مار ڈالیں گے، گھوڑا اور سب اسباب لے لیویں گے۔ میرے پاس چقماق بھری ہوئی اور سب ہتیار تھے۔ دل میں ہراس نہ لایا اُن کی اس گفتار سے بلکہ یوں جواب دیا: تم اپنی راہ جاؤ، میرے نزدیک مت آؤ۔ ورنہ ایک کو گولی سے ماروں گا، دوسرے کا تلوار سے کام تمام کر دوں گا۔ انھوں نے یہ سن کر دو کوس تک پیچھا کیا۔ میں بھی اُن کے مقابلہ سے غافل نہ ہوا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ یہ شخص ہوشیار ہے، اسباب اس کا لینا دشوار ہے، آپس میں کچھ صلاح کی اور اپنی راہ لی۔ میں درگاہ الٰہی میں شکر بجا لا کر آگے بڑھا، لیکن ابھی تک صبح صادق کا پتا نہ تھا۔ تب یہ بات ثابت ہوئی کہ چلتے وقت رات بہت باقی تھی۔ تھوڑی دور آگے چلا۔ دیکھا کہ ایک مہاجن راہ میں بیٹھا مع متعلقوں کے رو رہا ہے۔ میں نے پوچھا حال کیا ہے۔ اُس نے کہا میں ناگپور جاتا تھا۔ جب یہاں آ کر پہنچا دو ڈکیت آئے، اسباب میرا لوٹ لے گئے اور لاٹھی لوہے کی لگی ہوئی سے مجھ کو زخمی کیا۔ اب مجھے کچھ نہیں بن پڑتا، اگر کچھ خرچ پاس ہوتا گھر پھر جاتا یا منزل مقصود تک پہنچتا، سخت حیران ہوں، الٰہی کیا کروں۔ میں اس کا حال دیکھ بہت کُڑھا مگر کچھ نہ بن آیا۔ لاچار اپنا رستہ لیا۔
دس کوس چل کر نریمان میں آیا۔ سنا کہ ایک سوار سپاہی پیشہ پچاس سواروں کے ساتھ بڑے ٹھاٹ سے گوالیر سے نوکری چھوڑ کر یہاں آیا ہے۔ ارادہ نوکری راجہ کا رکھتا ہے۔ میں نہایت مشتاق دیکھنے اس کے کا ہوا۔ جا کر اُس کو اور اُس کے ہمراہیوں کو دیکھا۔ فی الواقع جوان وجیہ اور دیدارو تھا۔چنانچہ وہاں کے راجہ نے اُس کو پان سو روپے درماہے کا نوکر رکھا اور ہمراہیوں اس کے کا بھی درماہہ حسب لیاقت مقرر کیا۔ بعد اس کے قلعہ اور شہر کی سیر دیکھنے گیا۔ رستہ بازار کا تنگ تھا۔ مکان راجہ کا بہ نسبت اور مکانوں کے اچھا بنا، اگرچہ قابل تعریف نہ تھا۔ گرد قلعہ اور شہر کے خندق کی طرح چاروں طرف دریا ہے۔ پانی اُس میں پتھر اور پہاڑ سے آتا ہے، عجب کیفیت دیتا ہے۔ جب یہ سیروتماشا دیکھ چکا، سات کوس رہ نوردی کر کے منکونا میں آیا۔ بہ سبب گرمی اور نہ برسنے مینھ کے کنویں سوکھے تھے۔ حالات تشنگی شہدائے کربلا کے یاد آئے۔ چھ کوس کے بعد مئو میں پہنچا۔ اس ویرانے گانوں میں بھی پانی کا یہی حال تھا۔ وہاں سے سات کوس چلا، بن منا میں آیا۔ بعد اس کے درمن گنج میں پہنچا۔ چار کوس کا مفاصلہ تھا۔ درمنس صاحب نام کسو انگریز کا ہے، اُس نے یہ گنج ڈالا ہے، اس سبب سے نام اُس کا درمن گنج مشہور ہوا۔ یہاں سے عمل انگریزی تھا۔ پہاڑ پر سے رستہ چلتا ہے، ڈیڑھ کوس تک نشیب و فراز رکھتا ہے۔ جو کوئی اسباب اُس راہ سے لے جاتا ہے، وہاں کے پرمٹ میں محصول دینا پڑتا ہے۔ سابقاً ہندوستانی لوگ مقرر تھے، محصول ہر شے کا لے کر جمع کرتے۔ آخر انھوں نے تغلّب تصرف کیا۔ انگریزوں نے یہ عہدہ اُن سے نکال کر ایک سارجن کو بجائے اُن کے مقرر کیا۔ وہ لیاقت نوشت و خواند کی نہ رکھتا۔ فقط بسبب امانت داری کے معتمد علیہ سرکار کا ہوا۔ ہندوستانی عجب عقل ناقص رکھتے ہیں، اپنے ہاتھ سے اپنے پانو پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اگر چوری نہ کرتے کیوں اس عہدہ سے موقوف ہوتے۔ وہ پہاڑ رفیع الشان تھا۔ نشیب و فراز بیحد و پایاں رکھتا۔ آدمی بمشکل اس راہ سے جاتا۔ بگھی یا گاڈی کا ہر گز گزر نہ ہو سکتا۔ صاحبان انگریز نے جا بجا سے پہاڑ کاٹ کر رستہ برابر اور ہموار کیا، بلکہ اب بھی درست کرتے جاتے ہیں۔ اس سبب سے اب بگھی چھکڑے بھی اُس راہ سے جا سکتے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا، لوگوں نے آگے بڑھنے سے منع کیا کہ یہاں ایک شیر لاگو رہتا ہے، ہر روز ایک آدمی مارتا ہے۔ تم یہاں ٹھہرو آگے مت بڑھو۔ جب سو پچاس آدمیوں کا جماؤ ہو آگے جانے کا قصد کرو۔ پہلے میں نے اُن کا کہنا خیال نہ کیا کہ میرے پاس بندوق بھری ہے۔ اگر شیر سامنے آوے گا ماروں گا۔ سوا اس کے میں خوفناک مقاموں پر گیا، افضال الٰہی سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ یہاں بھی صدمہ سے بچوں گا مگر پھر قول سعدی شیرازی رحمہ اللہ کا یاد آیا، شعر:
گرچہ کس بے اجل نخواہد مرد
تو مرو در دہان اژدرہا
اس وجہ سے ٹھہر گیا۔ جب بہت لوگ جمع ہوئے، سب مل کر غُل کرتے ہوئے اُس پہاڑ ناہموار سے نیچے آئے، میں بھی اُن کے ساتھ آیا۔ چڑھاؤ اُتار سے تھک گیا، ایک درخت سایہ دار کے نیچے اُتر رہا۔ آدھی رات کو باران رحمت برسا، میں نے کمل اوڑھ لیا اور وہیں رات بھر بسر کی۔ صبحی اٹھ کر قصد چلنے کا کیا۔ اپنے زانو کے نیچے دو بچھوؤن سیاہ کو بیٹھے پایا۔ فضل الٰہی شامل حال تھا کہ انھوں نے ڈنک نہ مارا۔ میں نے چمٹے سے اُٹھا کر گھاس میں ڈالا پر جان سے ان کو نہ مارا۔ اگرچہ یہ امر خلاف عقل تھا مگر اُس وقت بمقتضائے وحدانیت یہی بہتر معلوم ہوا۔ وہاں سے چستی چالاکی سے سات کوس طے کر کے لال گنج کی سرا میں پہنچا۔ کئی منزل سے ایک صوبہ دار کسی راجہ کا نوکر مع رفیقوں اپنے کے ہمراہ ہمارے تھا۔ اسی طرح ایک کہار بھی دور سے ہمراہ ہمارے آتا۔ میرزا پور کا رہنے والا تھا۔ بہت دنوں کے بعد روپے اشرفی جمع کر کے اور کپڑے نفیس اپنی جورو کے لیے بنوا کر نوکری پر سے گھر اپنے آتا تھا۔ کم بختی نصیبہ سے یہ سمجھ کر کہ گھر قریب آ پہنچا، لال گنج کی منزل میں ہم سے جدا ہو کر شراب نوشی میں مشغول ہوا۔ ہم لوگ سرائے لال گنج ووہیں پہنچے تھے کہ کہار بھی آیا، زخمی روتے پیٹتے۔ میں حال پوچھا۔ کہا کیا کہوں، غضب ہوا۔ میرے سارے روپے اور اشرفیاں دو تین چوروں نے زبردستی چھین لیا اور مجھ کو کر کے ننگا نکال دیا۔ میں نے کہا تو نے ازراہ بے عقلی و احمقی ہمارا ساتھ چھوڑا جو اس مصیبت و تکلیف میں گرفتار ہوا۔ میں بسبب ماندگی راہ کے لاچار ہوا۔ نہیں تو ضرور ان رہزنوں کا پتا لگاتا۔
دل میں خیال آیا کہ عمل انگریزی میں بھی باوجود اس قدر انتظام کے ظلم صریح ہوتا ہے، پس اور حاکمون ہندوستان کو بسبب بے انتظامی کے الزام دینا بیجا ہے۔ اگر انگریز مثل اورنگ زیب عالمگیر کے رہزنوں کو جان سے ماریں تو البتہ اُس پیشہ والے رہزنی سے باز آئیں۔ فقط تہدید زبانی سے کام نہیں نکلتا ہے، انتظام قرار واقعی نہیں ہوتا ہے۔