بارہ کوس چل کردہ گانو میں آیا۔ وہاں سے نو کوس راہ چل کر اورنگ آباد پہنچا۔ تامس صاحب کپتان رسالے ساتویں کے نے چکس صاحب کو ایک خط لکھا تھا۔ وہ میرے پاس بندھا تھا۔ چکس صاحب اورنگ آباد میں رہتے۔ نظام کی پیدل فوج میں کپتان تھے۔ خیال آیا کہ ان کے پاس جاؤں، خط ان کا ان کو پہنچاؤں۔ پھر دل نے یہ کہا اگر تو خط ان کے پاس لے گیا، وہ اپنے مکان پر اتاریں گے۔ تکلیف مہمانداری کی اٹھاویں گے اور اس شہر میں دو تین روز رہنے کا ارادہ تھا۔ اس سبب سے یہ بہتر معلوم ہوا کہ پہلے کہیں اور اتروں، بعد اس کے خط ان کے پاس لے جاؤں۔ قریب دروازہ شہر پناہ کے ایک فقیر کا مکان تھا۔ وہ صاحب کمالوں میں مشہور وہاں تھا۔ میں بھی لباس بدویون عرب کا پہنے ہوئے تھا اور صورت فقیروں کی رکھتا۔ وہاں جا کر سلام کے بعد کہا میں مسافر اس شہر میں تازہ وارد ہوا ہوں، اترنے کی جگہ چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب نے جواب دیا کہ کیا مضائقہ اتر رہنے کا، اس درخت کے نیچے اتر؛ مگر میں مقدور مہمانی کا نہیں رکھتا ہوں۔ تم آپ اپنے کھانے پینے کی فکر کرو۔ میں غنیمت سمجھا، درخت کے نیچے کمل بچھا کر بیٹھا۔ رات بھر وہاں رہا۔
صبحی اٹھ کر دولت آباد جانے کا قصد کیا۔ اس واسطے کہ قریب دولت آباد کے مقبرہ شاہ اورنگ زیب عالمگیر اور مزار ولیون کامل کا تھا۔ اورنگ آباد سے دولت آباد نو کوس کا فاصلہ رکھتا۔ گٹھری کپڑوں کی اور لوٹا تانبے کا شاہ صاحب کے پاس لے جا کر کہا: میرا قصد ہے اورنگ آباد جا کر زیارت مزار عالمگیر اور ولیوں کا، لہذا امیدوار ہوں کہ ایک دو روز اسباب اپنا امانتاً آپ کے پاس رکھوں۔ انھوں نے کہا: ہمارا ہرج کیا، لیکن جس دن سے اس حاجی پاجی نے مجھ کو فریب دیا میں نے ہر کسی کی امانت رکھنا موقوف کیا۔ ایسا نہ ہو تم بھی ویسا کرو اور مجھ کو ستاؤ۔ میں نے پوچھا اس حاجی نے آپ کو کیا ایذا دی اور خدمت شریف میں کیا تقصیر کی۔ سابق ازیں ایک حاجی فقیروں کی صورت میرے پاس آ کر اترا۔ تمھاری طرح دولت آباد جانے کے وقت اپنا اسباب میرے تفویض کر گیا۔ جب وہاں سے پھرا سب اسباب اپنا لیا پھر اس کافر نے دغا دی۔ اشرفی اور روپوں کا دعوئے باطل کیا، محکمہ کوتوالی میں نالش کر کے مجھ کو گرفتار کروایا۔ ازانجا کہ جھوٹ کو سچ کے سامنے فروغ نہیں ہوتا، آخر دعوے بے جا سے شرمندہ ہو کر آپ ہی قید ہوا۔ اس سبب سے ڈرتا ہوں کہ مبادا تم بھی وہاں سے پھر کر دعویٰ روپوں کا کرو اور میری عزت پر حرف لاؤ۔ مجھ کو اس کلام سے شبہ ہوا کہ شاید یہ شخص چور ہے بصورت فقیر بنا۔ اس کے امتحان کے لیے کنارہ گیا، شیشے کی پچاس گولیوں کو روپے پیسے کی طرح ایک پتھر سے گول اور چپٹا کیا اور ایک روپیہ بازار سے خوردہ کر کے پیسے ان میں ملائے۔ ایک تھیلی میں رکھ کر مونھ اس کے پر لاکھ لگائی، اس پر مہر اپنی کر دی۔ اس کو گٹھری میں رکھ کر شاہ صاحب پاس لے گیا۔ بطریق امانت ان کے سپرد کر کے رخصت ہوا۔ انھوں نے گٹھری ہاتھ میں رکھ لی، گراں وزن سمجھ کر دو چار سواروں کے سامنے جو ساتھ ان کے بھنگ پیا کرتے تھے، یہ بات کہی۔ تم سب شاہد رہو، اس شخص کی گٹھری میں نہیں روپیا پیسا ہے۔ اگر آئندہ دعوے کرے بیجا ہے۔ میں نے کہا سچ یونہی ہے، سوا دو چار پیسے کے اس میں کچھ نہیں ہے۔ یہ کہہ کر راہی ہوا، دولت آباد جا پہنچا۔ راہ میں کئی سرائیں دیکھیں، شاہ عالمگیر کی بنوائیں۔ بسبب بے مرمتی کے ہر ایک جابجا سے ٹوٹی اور خراب پڑی۔ یقین کہ اورنگ آباد اور دولت آباد زمانہ سابق میں خوب آباد ہوں گے، اس لیے کہ اب تک نشان عمارتون قدیم کا ہے باقی۔ قریب اورنگ آباد شاہ عالمگیر نے ایک مکان عالیشان بنوایا ہے۔ چاروں طرف قطعات مستحکم رکھتا ہے۔ اندر اس کے ایک حوض، مقابل اس کے ایک مسجد فلک توامان ہے۔ رہتے ہیں اس میں قرآن خواں۔ مسافر وہاں جا کر ٹھہرتے ہیں، حوض سے پانی لے کر وضو کر کے نماز مسجد میں پڑھتے ہیں۔ میں بھی اس مکان میں گیا۔ سہ پہر تک بیٹھا رہا۔ بعد اس کے ایک ولی کے مزار پر گیا، نام اس کا فراموش ہوا۔ مجاور درگاہ کے ساتھ ہوئے، تربت تک لے گئے۔ گنبد کے اندر انڈا شتر مرغ کا لٹکتا، برابر اس کے جھبّا مقیش کا گلدستہ کی طرح لگا۔ چادریں پھولوں اور کمخاب کی تربت پر بچھیں، ایک طرف بتیاں اگر کی جلتیں۔ میں نے اندر جا کر فاتحہ پڑھا اور تھوڑی دیر ٹھہرا۔ تین روپے کی مٹھائی مول لے کر فاتحہ دے کر مجاوروں کو تقسیم کر دی، بعد اس کے کچھ خیرات بھی ان کو دی۔ انھوں نے تھوڑے پھول اور ٹکڑا چادر تربت کا پھاڑ کر مجھ کو تبرک دیا، میں اس کو لے کر باہر آیا۔ ہر چند ارادہ یہ تھا کہ سب ولیوں کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھتا مگر سوال اور تقاضائے مجاوروں سے تنگ آیا اور خوفِ صرفِ زائد سے باز رہا۔فقط اورنگ زیب کے مقبرہ پر گیا۔ گرد قبر کے کٹھرا لکڑی کا لگا۔ مقبرہ چنداں نفیس نہ تھا۔ میں دیکھنے اُس کے سے عبرت پذیر ہوا کہ یہ بادشاہ ہندوستان کا کتنے ملک زور شمشیر سے اپنے قبضہ میں لایا۔ اپنے زمانہ میں کس طرح غلبہ رکھتا تھا۔ اب خاک میں ملا۔ یارائے حس و حرکت، جنبش دست و پا کی طاقت نہیں رکھتا۔ دنیا عجب مقام ہے، ہر ایک کا یہی انجام ہے۔ یہ سوچ کر باہر آیا۔ تھوڑی دور چلا، ایک باغ نظر آیا۔ اس کے اندر جا کر دیکھا۔ ہر طرف دیوار پختہ رکھتا، ہر سمت مکان نفیس بنا۔ درمیان باغ کے مقبرہ زیب النسا دختر عالمگیر کا تھا۔ وہ سارا مع تربت کے سنگِ مرمر سے تیار ہوا۔ چھت اور فرش سنگ مرمر کا تھا۔ گرد قبر کے حوض بھی اُسی کا اور ہر طرف تربت کے فوارہ پانی کا۔ چنانچہ ایک فوارے میں میں نے منہ لگا کر پھونکا، دوسرے فوارے سے پانی نکلا۔ بہ سبب بے مرمتی کے گرد جمی تھی بلکہ ہر چیز میں شکستگی آئی۔ اغلب کہ اب بھی اگر کوئی درستی کرے، آب و تابِ اول پر آوے، فوارے بھی جاری ہوویں۔ اس لیے کہ ابھی تک نقصان سے بچے ہیں۔ سبحان اللہ جب تیار ہوا ہو گا، کیا نفیس بنا ہو گا کہ اب تک اس میں وہی رونق باقی ہے۔ طبیعت کو دیکھنے سے فرحت آتی ہے۔ ان دنوں نظام الملک آصف جاہ حاکم حیدر آباد سنگ مرمر وغیرہ وہاں کھدواتا ہے اور اپنے باپ کے مقبرے پر لگاتا ہے۔ اگر چندے یہی حال رہے گا، یہ مقبرہ ویران اور برباد ہو گا۔ ایک دن وہ تھا کہ باپ زیب النسا کا دبدبۂ عالمگیری اور کشور کشائی رکھتا، کسی کو دم مارنے کا امکان نہ تھا۔ آج وہ روز ہے کہ اُس کے لختِ جگر کے مقبرے سے پتھر کھودے لیے جاتے ہیں، خوف خدا دل میں نہیں لاتے ہیں۔ وہ کچھ خبر نہیں رکھتا۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ بموجب مذہب سلیمانی یوسف کمل پوش کے ہر امر ہر ایک وقت پر مقرر ہے، بُرا ہو یا بہتر۔ ایک وقت وہ تھا کہ یہ مقبرہ بنا، ایک یہ ایام ہیں کہ خراب ہوا۔ دنیا مقام پاداش ہے نہ جائے بود و باش۔ اے مغرور! غرّہ نہ کر اپنے کاموں کا کہ ایک وقت سزا پاوے گا۔ اس باغ سے باہر ہے ایک تالاب اور بہت سے باغ اور عمارات قدیمی۔ میں نے ان سبھوں کی گنتی نہ کی۔ سارا دن اُن مکانوں کی سیر میں آخر کیا۔
دوسرے روز حالِ عجیب ایک پہاڑ کا سنا کہ دیوؤں کا تراشا تھا۔ نہایت مشتاق ہو کر اس کی سیر کرنے گیا۔ پہاڑ دیکھا، آدھ کوس کے گھیر میں تھا۔ اُس پر مکانات عالیشان سہ منزلے پہاڑ سے ترشے بنے۔ ستون بھی پتھر کے تھے۔ بُت بڑے بڑے قد آدم بلکہ زیادہ اس سے، سنگ کوہ کے تراشے جا بجا کھڑے۔ ایسا ہی ایک طرف دیو ہرا پہاڑ کا ترشا بنا۔ ہاتھیون پیل قد کے سر پر رکھا۔ وہ بھی پہاڑ سے ترشے تھے۔ قد و قامت میں برابر ہاتھی کے تھے۔ اندر بت خانہ کے ایک بڑا بت سنگی رکھا۔ ہندوؤں میں کیلاس نام اس کا مشہور ہوا۔ برہمن اُس میں رہتے ہیں۔ شام کو چراغ اُس میں جلاتے ہیں۔ باہر سے وہ بت خانہ چھوٹا دکھائی دیتا ہے مگر بھیتر سے جگہ ہزاروں آدمیوں کی اور بہت وسعت رکھتا۔ تصویر جانوروں کی مثل بندر وغیرہ کے ترشی تھیں۔ بخدا میں نے ایسی مورتیں کہیں نہیں دیکھیں۔ در حقیقت یہ کام بشر کا نہ تھا۔ شاید جنات اور دیوؤں نے تراشا۔ حال اس کا سن کر میں قصّہ جانتا تھا، آنکھوں سے دیکھ کر یقین لایا۔ اگر لاکھوں آدمی برسوں تراشتے، ویسی صورتیں اور مکان ہرگز نہ بنا سکتے۔ اندر اُس بت خانہ کے نہر تھی، جاگہ نہانے ہندوؤں کی۔ ہندو ملکون دور دراز سے یہاں آ کر نہاتے ہیں۔ اپنے زعم میں گناہون تمام عمر سے اس غسل سے پاک اور مبرّا ہو جاتے ہیں۔ اسی سیر و تماشے میں پہر دن باقی رہا۔ میں اطراف پہاڑ کما ینبغی نہ دیکھنے پایا، اس لیے قصد شب باشی کا وہاں کیا۔ چھرّے بندوق سے کئی کبک شکار کر لایا، نمک ایک فقیر سے لے کر اُن کا کباب بنایا۔ روغنی روٹی کے ساتھ جو پاس بندھی تھی کھا کر پانی اس چشمہ سے پیا اور مقام کیا۔ رات کے وقت اکثر الّو اور چمگیدڑ اُڑتے اور وہ بت دیوؤں کی طرح ہیبت ناک نظر آتے مگر دیو و پری اصلی کا نشان نہ پایا۔ صبحی اُٹھ کر پھر سیر میں مشغول ہوا۔ اکثر مورتیں ایسی نظر آئیں کہ بعضی سر بعضی دھڑ نہ رکھتیں۔ دریافت ہوا کہ شاہ عالمگیر نے توپ کے گولوں سے اُن کو بے سروپا کیا، کسی کا سر اُڑ گیا، کسی کا پانو اُکھڑ گیا۔ مکانات ٹوٹے، ستون گرے پڑے۔ ایک سمت ایک مکان تھا ترشا پہاڑ کا۔ اس کے گنبد پاس کڑیاں ترشیں پتھر کی لگیں۔ بعینہ کڑیان چوبی معلوم ہوتیں۔ اُس میں ایک بت عظیم الشان تھا۔ وہ مکان کوٹھری بڑھئی کی کہلاتا۔ لوگوں سے معلوم ہوا جس کی یہ سب صنعت ہے اُسی کی یہ صورت ہے۔ ایک نجّار تھا، جس نے پہاڑ تراشا۔ تصویر ایک بخیل کی بڑھئی کی کوٹھری میں کھڑی بہت خوب بنی تھی۔ لاغری اور نحافت سے ہر جوڑ بدن کا نظر آتا۔ ایک روپیہ ہاتھ میں لیے مٹھی زور سے بند کیے تھا۔ دو ہندو وہاں رہتے تھے۔ ان سے میں نے حالات اُس پہاڑ کے پوچھے۔ چونکہ عقل و خرد نہ رکھتے، حال مفصل بیان نہ کر سکے۔ اسی قدر کہا کہ یہ دیوؤں کا کام ہے، ہزاروں برس سے بنا۔ اُس صحرا میں ایک تالاب بھی تھا اور میدان میں وسعت زیادہ۔ اس قرینے سے مجھ کو ثابت ہوا کہ سابق وہ مقام عملداری ہندوؤں میں آباد ہوا ہو گا۔ گردشِ زمانہ سے اب ویران ہوا۔ نام و نشان باقی نہ رہا۔ میں نے بہت ملکوں میں سفر کیا مگر ویسے بت اور بت خانہ اور پہاڑ کہیں نہ دیکھے۔ لہٰذا بندہ شائقوں کو اطلاع دیتا ہے کہ جو کوئی اورنگ آباد کی طرف جاتا ہے اس کو چاہیے کہ اس پہاڑ پر جاوے۔ سیر و تماشا وہاں کا ضرور دیکھے۔ اورنگ آباد سے اُتر طرف تھا۔ بارہ کوس فاصلہ رکھتا۔
وہاں سے پھر قلعہ دولت آباد میں آیا۔ صورت اُس کی یہ کہ ایک پہاڑ تھا انڈے کی طرح نیچے سے کم عرض اوپر سے چوڑا۔ حاکموں نے تراش کر اس کا قلعہ اور مکان بنوایا۔ جا بجا توپیں لگیں، بلندی میں ہمتائے چرخِ بریں۔ اگر اس قلعہ میں کوئی مثل انگریزوں کے بندوبست کرتا، کسی کو یارائے مقابلہ اُس سے نہ ہوتا۔ اب اس میں قبضہ نظام الملک کا ہے۔ ویران اور خراب پڑا ہے۔ حفاظت کے لیے برائے نام سو سپاہی نجیب دروازہ پر بیٹھے ہیں۔
عجب سپاہی کہ بندوقیں ان کی زنگ آلودہ، کپڑے کالے، میلے کچیلے پہنے ہیں۔ جب میں نے وہاں پہنچ کر اندر جانے کا قصد کیا، انھوں نے روکا کہ بے اجازت اور پروانگی نظام الملک کے کسی کو حکم نہیں اندر جانے کا۔ اس سبب سے میں اندر اُس کے جا نہ سکا۔ باہر سے بلندی اور وسعت اس کی دیکھتا رہا۔ گرد دولت آباد کے دیوار شہر پناہ پختہ ہے، آٹھ سات ہزار آدمی اس میں بستا ہے۔ جب فقیر ان سیروں سے فراغت کر چکا، اورنگ آباد میں جس فقیر کے مکان پر اُترا تھا آنے کا ارادہ کیا۔ راہ میں ایک عورت نوجوان مرہٹن پری زاد، زعفرانی اطلس کے کپڑے پہنے ہوئے ملی۔ نیزہ ہاتھ میں لیے ایک کمیت گھوڑے پر سوار جاتی تھی۔ شعر:
جمالش چو در نیم روز آفتاب
کرشمہ کناں نرگسِ نیم خواب
عجب حسن و جمال درخشاں رکھتی کہ دیدۂ خورشید نے اس کی طرف ٹکٹکی باندھی۔ چہرہ اس کا درمیان بالون عنبریں کے یوں چمکتا جیسے سورج کالی گھٹا سے نکلا۔ زیور خورشید طلائی بالوں میں گندھا عجب کیفیت دکھاتا۔ انداز اُس کا معشوقانہ تھا، دل دیکھتے ہی لوٹ جاتا۔ جدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھتی، فتنہ بپا کرتی۔ فقیر جونہی چار چشم ہوا، آئینہ ساں حیران ہو کر دیکھتا رہا۔ جب قریب آ پہنچی، میں نے بے اختیار شوق سے یہ بات کہی: اگر اجازت پاؤں کچھ آپ کی خدمت میں عرض کروں۔ نگاہ تیز سے میری طرف دیکھا اور اشارے سے حکم کیا۔ میں نے کہا: اُس مصور بیچوں پر صد آفریں کہ تیری یہ تصویر کھینچی نازنین۔ اس کلام سے وہ معشوقہ ہنس کر کہنے لگی: اے فقیر صاحب کمال! سچ بتا کہ عمل مرہٹوں کا ہندوستان میں کب ہوگا اور کتنے دنوں میں انگریزوں پر زوال آوے گا۔ میں نے کہا: اے جان! جب میرا نکاح تیرے ساتھ ہووے گا، عمل انگریزوں کا ہندوستان میں نہ رہے گا۔ اُس نے کہا: فقیر کو نہ چاہیے ایسی خوش طبعی اور استہزا۔ میں نے کہا: تمھاری خاطر نازک میں رنج نہ آوے۔ سابق میں رہتا تھا بیچ صحبت پریوں کے۔ ہر وقت ان کے جمال کا تماشائی اور ہم کلام تھا۔ شامت اعمال سے وہاں سے نکلا۔ پھر وہاں جانے کی آرزو رکھتا ہوں۔ خدا سے استمداد چاہتا ہوں۔ یعنی انگلستان میں تھا۔ وہاں کی رنڈیون پری وشوں کا جمال دیکھتا۔ اس وقت جو تجھ کو دیکھا، دل میں ولولہ آیا۔ اس سبب سے حرفِ شوق بے اختیار زبان سے نکلا۔ بعد اس گفتگو کے اُس معشوقہ رعنا نے ہوا کی طرح گھوڑا تیز کیا اور یوسف حلیم کمل پوش آہ و فغاں کرتا اورنگ آباد کی طرف چلا۔
جب قریب شہر آ پہنچا، ایک پرانا مقبرہ دیکھا۔ وسعت اور صفائی خوب رکھتا۔ دو تربوز مول لے کر پانی اُن کا پیا۔ اتنے میں ایک فقیر جو وہاں رہتا تھا ملا، بہت اخلاق سے پیش آیا۔ حقہ پانی سامنے لایا تخمیناً نود سالہ تھا مگر سن اپنا سو برس کا بتلایا۔ نور الٰہی پیشانی اس کی سے چمکتا۔ عقل و دانائی سے بہرہ کامل رکھتا۔ ایسا خوش زبان اور شیریں بیان تھا کہ بندہ صحبت اُس کی غنیمت سمجھا۔ اُس مقبرہ میں دو قبریں تھیں۔ ساتھ ساتھ اُس کے جا کر دیکھیں۔ حال قبروں کا پوچھا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے حال صاحب قبر کا اپنا سا پایا ہے۔ اس سبب سے یہاں رہنا اختیار کیا ہے۔ اسی گفتگو میں تھا کہ میں نے ایک تربوز اُس کے آگے رکھا اور تنباکو تھوڑا اپنے پاس سے نکال چلم بھر اس کے آگے کیا اور مستفسر حال اس کے کا ہوا۔ اُس مرد دانا نے مجھ کو فقیر جان کر کہا: اگرچہ میں یہ شیوہ و عادت نہیں رکھتا ہوں کہ کسی سے حال اپنا بیان کروں، لاکن تم کو زیادہ شائق پاتا ہوں قصہ اپنا کہہ سناتا ہوں۔ میری کیفیت یہ ہے کہ لڑکپن سے جوانی تک سایہ پدری میں فارغ البال اور آسائش سے رہا۔ سوائے تلاوت قرآن شریف اور تحصیلِ فنونِ سپہ گری کے پچیس برس تک کوئی کام نہ رکھتا۔ باپ میرا نظام الملک کی سرکار میں امتیازیوں میں نوکر تھا بلکہ اُس زمانہ میں کوئی بسبب آسودگی کے نوکری کی پروا نہ رکھتا۔ رئیس قدر دان جویائے اہل سیف و قلم کے رہتے، ہر ایک کی بقدرِ لیاقت عزت کرتے۔ سلطنت ہندوستان میں انگریزوں کا کچھ دخل نہ تھا، کوئی ان کا نام و نشان نہ جانتا۔ حسب اتفاق ایک میرے عزیز کی برات تھی، محفل رقص و سماع گرم ہوئی۔ میں بھی بمقتضائے قرابت شریکِ صحبت ہوا، ناچ ایک رنڈی کا دیکھتا رہا۔ نام اُس کا تراب کنور تھا۔ ایک بارگی تیر عشق اُس کے کا دل میں لگا۔ تمام رات اُس کے منہ پر ٹکٹکی باندھے رہا اور پوشیدہ اُس سے کہا کہ فلانے دن میں کسی باغ میں محفل جماؤں گا، دوست آشناؤں کو بلاؤں گا۔ چاہتا ہوں کہ تم بھی اُس دن شریکِ محفل ہو، حال دوستون پر مہربانی کرو۔ اُس نے کہا بہت اچھا ضرور آؤں گی۔ مجھ کو تو بے تابی تھی۔ بروز مقرر مجلس آراستہ کی۔ دوستوں کو تکلیف تشریف آوری کی دی۔ تراب کنور بموجب وعدہ آئی۔ رات بھر محفلِ عشرت گرم رہی۔ اس صحبت میں مجھ کو اُس پر اور زیادہ شیفتگی ہوئی۔ بہت سا زرِ نقد خرچ کیا۔ ذائقۂ وصال سے چاشنی یاب ہوا۔ دل یہ چاہتا کہ جس طرح سے قابو پاؤں اُس کے ساتھ نکاح کر لوں۔ والد بزرگوار نے یہ حال سنا۔ وعظ و نصیحت سے سمجھایا اور اس امر بےجا سے تابمقدور منع کیا۔ جب میرے خیال میں نہ آیا، لاچار انھوں نے بہت رُپیا خرچ کر کے اس رنڈی کے ساتھ میرا نکاح کر دیا۔ مدت تک میں عیش کرتا رہا، اُس کی صحبت سے حظ زندگی اُٹھاتا۔ بعد چند روز حضرت قبلہ گاہی نے کار سرکاری پر قضا کی، ساری جمع اُن کی میرے ہاتھ لگی۔ میں اس روپے کا ملنا غنیمت سمجھا، دوستوں کی مہمانداری میں مشغول ہوا۔ ایک سال میں سب اُڑایا۔ اس عرصہ میں اُس رنڈی کا دل ایک حریف ہم صحبت پر آیا، بد بات کا سامنا ہوا۔ چونکہ مجھ کو اُس کے ساتھ عشق تھا، حرفِ شکایت زبان پر نہ لایا۔ جب سب نقد و جنس خرچ ہو چکا، خوابِ غفلت سے سمجھ کر چونکا۔ ایک گھوڑا باقی تھا، اُس پر سوار ہو کر تلاش روزگار کو نکلا۔ سعی سفارش چاہنے لگا۔ سوائے بیس تیس روپے کے روزگار میسر نہ آتا۔ سخت حیران ہوا مگر اُس کو نہ اختیار کیا۔ اس وقت اس رنڈی نے بھی راہِ بے مروتی میں قدم رکھا۔ ترکِ محبت کا قصد کیا۔ میں نے کہا تجھ سے میرا نکاح ہوا ہے، تو نے مفارقت کا کس طرح ارادہ کیا ہے۔ جواب دیا ہم نے نکاح کو بالائے طاق رکھا۔ جب تک تو مال رکھتا، قابلِ صحبت تھا۔ اب اوقات گزاری کیوں کر کرے گا۔ دوست آشنا بھی جو شریکِ خوان تھے آنکھ چرانے لگے۔ لاچار بندے نے دنیائے دوں سے دل اٹھایا۔ اس گوشے میں بیٹھ رہا۔ نظم:
جہاں را ندیدم وفاداریے
نخواہد کس از بیوفا یاریے
بریدم ز ہر آشنائے شمار
بس ست آشنائے من آمرزگار
اب میں یہاں رہتا ہوں۔ خداوند تعالیٰ کو اپنا رفیق جان کر چاہتا ہوں کہ ساری عمر اس جا رہوں اور بعد مرگ یہیں دفن ہوں۔ حال ان دو قبروں کا یہ ہے کہ ایک قبر اس میں سے ایک رئیس زادہ کی ہے۔ دوسری قبر کتّے کی۔ میں نے کہا قبر کتّے کی آدمی کے برابر بنانا کیا ضرور تھی۔ تب اُس نے یوں حقیقت حال کہی کہ حیدرآباد میں ایک امیر صاحبِ ثروت تھا۔ سرکار نظام الملک سے در ماہہ بیش قرار پاتا۔ سوا اس کے پانسو گھوڑے اپنی سرکار میں داغ کروائے۔ بارگیر ان پر مقرر کیے۔ یہ فائدہ علاوہ درما ہے اس کے سے تھا۔ ایک بیٹا عاشق مزاج رکھتا۔ بعد مرنے اُس امیر کے سارا مال و متاع بیٹے کے ہاتھ لگا، وہ نوجوان اور کمسن تھا۔ چندا بائی کی ایک نوچی پر عاشق زار ہوا۔ تھوڑی مدت میں سب مال و اسباب لٹایا۔ جب نقد و جنس باقی نہ رہا، گھوڑوں کو بیچا۔ آخر چندو لال نائب نظام الملک نے اُس کی بد وضعی سے آگاہ ہو کر نوکری سے معزول کیا۔ ناچار یہ شخص بھی حیران پریشان ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ ملکون دور و دراز میں مثل شاہجہاں آباد، اکبر آباد وغیرہ بتلاشِ روزگار پھرتا رہا اور ایک کتّا ولایتی ساتھ لیا، نام اُس کا شیرا تھا۔ حسبِ اتفاق کہیں روزگار خاطر خواہ نہ ہوا۔ اورنگ آباد آ کر بسبب مفلسی کے گھوڑا بیچا اور کنجِ عزلت میں گوشہ نشین ہوا۔ نوبت فقر و فاقہ کی پہنچی۔ بہ سبب امارت مزاج کے طبیعت کسی سے سوال کرنے کو نہ چاہتی۔ کتّا ولایتی جو رفیق تھا۔ رات کو نکلتا، نان بائیوں کی دکان سے روٹی مونھ میں لے کر اپنے مالک پاس لاتا۔ نان بائی کتّے کی چالاکی سے حیران تھے۔ پتہ اور نشان نہ پاتے۔ اورنگ آباد میں شہرہ ہوا تیزی اور چالاکی کتّے کا۔ لوگوں نے پکڑنے اُس کے کا فکر کیا۔ وہ کتّا دن کو باہر نہ نکلتا اس سبب سے کسو نے اس کا پتا نہ پایا۔ بعد چند روز کے اورنگ آباد میں چکلہ دار نیا سرکار نظام الملک سے مقرر ہو کر آیا۔ اس گوشہ نشین کے بزرگوں اور حال ریاست اُس کے سے خوب آگاہ تھا۔ اس شخص نے ایک پرچہ کاغذ پر حال اپنا لکھا اور اس کے پاس بھجوایا۔ حاکم نے اطلاع پا کر بہت عزت سے اُس کو اپنے پاس بلایا۔ حسبِ لیاقت درماہہ مقرر کیا اور اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا۔ تائید بخت سے پھر امیر ہوا۔ تھوڑے دنوں بعد کتّا مرا، صاحب اپنے کو داغِ مفارقت دے گیا۔ اُس نے بہت ماتم کیا۔ عزّت و آبرو سے آدمیوں کی طرح یہاں دفن کیا اور مقبرہ بنوا دیا۔ برابر اُس کی قبر کے اپنے لیے قبر کی جگہ تجویز کی اور وارثوں سے وصیت کر دی کہ بعد از مرگ مجھ کو بھی یہیں دفن کیجیو، یہ قول میرا یاد رکھیو۔ نہیں تو فردائے قیامت تمھارا دامن گیر ہوں گا، درگاہ خدا میں تمھاری نالش کروں گا۔ انھوں نے اقرار کیا کہ تمھارا کہنا عمل میں آوے گا۔ بعد چند روز وہ بھی مر گیا۔ بموجب وصیت وارثوں نے اُس کو یہاں لا کر دفن کیا۔ ان دونوں قبروں سے ایک قبر اُس کی ہے، دوسری قبر کتّے کی۔ حال اس شخص کا میرے حال سے مشابہت رکھتا ہے اس سبب سے یہ فقیر یہاں کا مجاور ہوا ہے، تابہ زندگی یہیں رہے گا۔ بعد مرنے کے بھی یہیں دفن ہو گا۔ دوستوں سے وصیت کر چکا ہوں کہ بعد مرنے کے مجھ کو اسی مقبرہ میں دفن کر دیں، یہ کلام دھیان رکھیں۔ اُس شہر میں وہ مقبرہ کتّے کا مشہور تھا۔ میں نے یہ حال سن کر دل میں خیال کیا، کیا اچھا کتّا تھا کہ اپنے مالک کا حق نمک ادا کیا۔ بلکہ اس نے ایسی رفاقت کی کہ عزیزوں قریبوں سے نہ ہو سکتی۔ گو کتّا تھا پر سیرت میں آدمی سے اچھا تھا۔ خیال آیا میں بھی یہاں بیٹھ رہوں، اس درویش صاحب کمال سے جدا نہ ہوں۔ پھر دل نے کہا: اے یوسف کمل پوش! اوقات اپنی یہاں بیٹھ کر ضائع کرنا سیرون جہاں سے محروم رہنا ہے۔ لنجوں کی طرح بیٹھنا، اوروں کے ہاتھ تاکنا جواں مردی سے بعید ہے۔ تماشائے جہاں قابلِ دید ہے۔ چل پھر کر کوششِ بازو سے کچھ پیدا کیا چاہیے۔ غریب و غربا کو اپنی وجہ سے آرام پہنچانا چاہیے۔ مثل شیروں کے شکار کر کے آپ کھا اور اوروں کو کھلا۔ نہ اپنے تئیں گیدڑ کی طرح پست حوصلہ بنا۔ دل کے سمجھانے سے میں اُس ارادہ سے باز آیا۔ اپنے اوپر جبر کر کے اس فقیر سے رخصت ہوا۔
اورنگ آباد میں اس فقیر کے مکان پر آیا جس کے پاس گٹھری اور لوٹا چھوڑ گیا تھا۔ اُس سے ملاقات کی اور گٹھری اپنی مانگی۔ وہ ظاہر میں فقیر باطن میں چور تھا۔ شیطان کو تعلیم برائیوں کی کرتا۔ چیں برجبیں و ترش رو ہو کر کہنے لگا: تم اپنا اسباب لو، اسی وقت میرے مکان سے نکلو۔ تم چور اور راہزن معلوم ہوتے ہو۔ اگر نہ مانو گے، کوتوالی چبوترے میں کہہ دوں گا۔ قید ہو گے۔ ہر چند میں نے کہا: حضرت مجھ سے کیا قصور ہوا جو باعثِ خفگی ٹھہرا۔ انھوں نے کچھ نہ سنا، اُسی غصہ میں گٹھری لا دی۔ میں نے کھول کر دیکھی تھیلی پیسوں اور چپٹے شیشے کی، منھ پر لاکھ بدستور لگی تھی۔ مگر مہر میرے نام کی بالکل بگڑی۔ ظاہراً اُس درویش مکّار نے تھیلی روپے اشرفی کی سمجھی۔ لاکھ جس پر مہر میری لگی تھی توڑ کر تھیلی کھولی۔ جب اس میں کچھ جمع نہ دیکھی، شرمندہ ہو کر لاکھ بدستور جما دی۔ مگر مہر میری اُس کے پاس نہ تھی، وہ کیوں کر بن سکتی۔ اس سبب سے حرف مہر کے مٹے تھے۔ ہم دیکھتے ہی دریافت کر گئے کہ اس نابکار کو برد ہاتھ نہ لگی۔ اس لیے دل میں رنجش آئی۔ اصل یہ ہے کہ مجھ کو تجربہ اُس کی دیانت داری کا منظور تھا۔ ورنہ شیشے کی گولیوں کو چپٹا کر کے پیسوں کے ساتھ بھرنا کیا ضرور تھا۔ اب اے صاحبان عقل و شعور! ملاحظہ فرماؤ کہ ان لوگوں نے ظاہر میں فقیری کا جامہ پہنا ہے، باطن میں چوری اور غارت گریٔ خلق مدعا ہے۔ نہیں تو فقیر کو کیا کام تھا کہ میری گٹھری غائبانہ کھول کر دیکھتا۔ میں نے اکثر فقیرون ہندوؤں کو دیکھا کوئی اُلٹا درخت سے لٹکا، کوئی شدّت گرمی میں آگ میں بیٹھا۔ اسی طرح فقر ائے اہل اسلام کو بھی اپنے طور پر عبادت میں غرق پایا۔ آخر جب امتحان کیا، سب کا مکر و فریب پایا۔ جب وہ فقیر شیطان سیرت نہایت بدمزہ ہوا۔ اُس کے مکان کے قریب ایک کھنڈر تھا، اسباب اپنا بندہ وہاں اُٹھا کر لے گیا اور گھوڑے کی تلاش کرنے لگا۔ ایک شخص حیدرآباد کا رہنے والا نوکر نظام الملک کا اورنگ آباد میں تعینات تھا۔ اُس سے حال خرید و فروخت گھوڑوں کا پوچھا۔ اُس نے مجھ کو اپنا ہم وطن سمجھ کر بہت خاطر داری کر کے کہا: اندک صبر کرو اور چندے یہاں رہو۔ میں تمھارے لیے گھوڑا قدم باز ٹھہرائے دیتا ہوں۔ جہاں سے بنتا ہے تلاش کیے لاتا ہوں۔ پھر کہا ایک گھوڑا چہار سال فلانے جمعدار پاس ہے۔ ہاتھ پاؤں سے صاف ہے۔ مگر عیب نحوست رکھتا ہے۔ جو اس کو مول لیتا ہے، نوکری سے برطرف ہوتا ہے اور اس کے گھر کوئی مر جاتا ہے۔ اس لیے میں تمھارے واسطے نہیں لے سکتا۔ ورنہ بہت خوب ہے اور قیمت مناسب پر ٹھہر جاتا۔ جس نے ان دنوں اُس کو مول لیا تھا، نوکری سے چھٹ گیا اور لڑکے اُس کے نے انتقال کیا۔ اب وہ ارادہ رکھتا ہے کہ گولی بندوق سے اُس کو مار ڈالے۔ میں یہ سنتے ہی اُس کا طالب ہوا اور بیس روپے کو مول لیا۔ بہ جہت نحوست فہمی اُس شخص کے بھوکوں کا مارا تھا، میرے پاس دانہ گھاس پیٹ بھر کھا کر قد و قامت خوب نکالا۔ میں چند روز وہاں رہا۔ کوچہ و بازار کا تماشا دیکھا۔
ایک دن عالمگیر اورنگ زیب کی بی بی کے مقبرے پر گیا۔ فرش اور چھت سنگ مرمر کا تھا۔ اگرچہ بسبب کہنگی کے آب و تاب اولیٰ نہ رکھتا مگر تاہم بہتر اور نقشہ اُس کا مانند روضۂ تاج بی بی کے تھا۔ کاریگری اور صنعتوں کے سوا وہ صناعی میں اس سے کہیں زیادہ۔ اورنگ آباد پہاڑ کے نیچے بسا ہے۔ دیوار شہر پناہ اور دروازہ آمد و رفت کا پختہ بنا ہے۔ اب جا بجا سے اس میں بھی نقصان آیا۔ زمانہ سابق میں خوب آباد ہو گا۔ اس سر زمین میں میوے تروتازہ مثل نارگی و سیب وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس زمین کو تیار کرے، میوے ولایتی پیدا ہوویں۔ اس زمانہ میں مکان اور عمارت اس کی ٹوٹی پھوٹی ہے۔ رئیسوں سے نام و نشان نہیں باقی ہے۔ مگر رہنے چکلہ دار کے سے البتہ آبادی ہے۔ اس کے نوکرون ذی رتبہ سے جو وہاں رہتے ہیں سپید پوشی ہے۔ شام کو چوک میں جماؤ ہوتا ہے۔ ہنگامہ خرید و فروخت اسباب گرمی پاتا ہے۔ رنڈیاں سات سنگار کرکے اپنے اپنے کوٹھوں کھڑکیوں پر بیٹھتی ہیں، اپنے تئیں آراستہ کر کے راہیوں کو دکھاتی ہیں۔ مرد نوجوان تماش بین گھوڑوں پر سوار ہو کر بناؤ کر کے آتے ہیں، گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ رنڈیوں سے اشارے کنائے کرتے جاتے ہیں۔ ان کا حال دیکھ کر مجھ کو افسوس آیا کہ ان میں اور لندن کے لڑکے اور جوانوں میں فرق ہے زمین و آسمان کا۔ یہ لوگ اپنی اوقات بیجا باتوں میں برباد کرتے ہیں۔ وہ عاقل ایک لحظہ تحصیل علم و ہنر سے خالی نہیں رہتے ہیں۔ اسی سبب سے اِن کے لیے ہمیشہ ذلت و خواری بڑھتی ہے، اُن کے واسطے ہمیشہ رونق اور ترقی ہوتی ہے۔
بعد اس سیر و تماشے کے کپتان جاکس صاحب کے مکان پر گیا۔ ان کے نام کا خط تامس صاحب کا لکھا میرے پاس تھا۔ وہ اُس وقت گھر میں تشریف نہ رکھتے۔ کہیں گئے تھے۔ میں ٹھہر گیا، ان کے آنے کا منتظر ہوا۔ ایک ساعت کے بعد اپنی میم صاحب کے ساتھ بگھی پر سوار آئے۔ میرا حال پوچھ کر بہت عنایت سے پیش آئے۔ شکوہ و شکایت کرنے لگے کہ تم اتنے دنوں سے اس شہر میں آئے تھے، پہلے سے ہمارے پاس کیوں نہ چلے آئے، ہم تمھارے لیے خیمہ کھڑا کروا دیتے، مکانات عمدہ اور عجائبات اس شہر کے تم کو دکھلاتے۔ میں نے جواب دیا: میرے آنے سے تم کو یہ سب تصدیعہ ہوتا، اس سبب سے میں نے اب تک حاضر ہونے میں تامل کیا۔ شام کے وقت کھانا منگوایا۔ آپ مع میم صاحب کے میرے ساتھ کھانا کھایا اور نہایت اصرار سے مجھ کو کھلایا۔ ان کی میم مزاج خلیق رکھتیں۔ تھوڑے دنوں سے ان کے نکاح میں آئی تھیں۔ ان دونوں میاں بیوی نے میرے حال پر بہت عنایت فرمائی۔ ساری رات ان کی صحبت میں گزری۔