بعد اس کے سبزہ پہاڑ اور کنارے دریا کا دیکھتے ہوئے خیر و صلاح سے بنبئی پہنچے۔ وہاں جا کر سب علیٰحدہ مکانوں میں اترے۔ پرنکل صاحب نے ازراہ عنایت فرمایا: تم کو مناسب ہے ہمارے مکان پر رہنا۔ میں نے ساتھ رہنا مناسب نہ دیکھا، کثرت صحبت کو موجب کمیٔ الفت سمجھا۔ کنارے سمندر کے قریبِ قلعہ ایک مسلمان کا مکان تھا، بندہ وہاں اترا۔ صندوق کپڑوں کا اس کے گھر رکھ دیا۔ دن بھر شہر کی سیر کرتا، رات کو وہاں سو رہتا۔ بستی بنبئی کی دو جگہ پر تھی، ایک اندرون قلعہ دوسری باہر تھی۔ قلعہ مستحکم و استوار ہے، پر تکیزوں کا بنایا ہوا۔ قبل ازیں وہ شہر انھیں کے عمل میں تھا، ان سے انگریزوں کے قبضہ میں آیا۔ اب صاحبانِ انگریز نے بازار و قلعہ و شہر بہت خوب بنایا۔گرد قلعہ کے دو کھائیاں گہری بنائی ہیں، پنیا سوت تک پہنچائی ہیں۔ دیوار قلعہ کی پختہ ہے، اندر اس کے بازار و شہر بستا ہے۔ صبح کو چوک میں ازدحام ہوتا ہے، رستہ شہر و بازار کا وسعت رکھتا ہے۔ ہمہ چیز بازار میں مہیا تھی، مچھلی اور انڈے کی زیادتی۔ ایرانیوں اور پارسیوں کے مکان نفیس بنے تھے، بلند۔ ایک کلیسا بھی وہاں تھا، فلک پیوند۔ کنارے دریا کے درخت ناریل کے ہرے ہیں۔ سوا ان کے اور درخت سبز لگے ہیں۔ وہ مقام نہایت وسعت و فضا کا ہے۔ عجب لطیف و طراوت فزا ہے۔ شام کو پارسی وہاں جا کر اپنے طور پر عبادت کرتے ہیں۔ انگریز بھی سیر و تماشا دیکھتے جاتے ہیں۔ بندہ بخدا سچ کہتا ہے وہ مقام ہر شام نمونہ روضہ رضوان ہوتا ہے۔ لعل باڑی نام ایک مقام کا ہے کہ نسیم جیو وارہٹیہ پارسی نے وہاں ایک مکان اور باغ بنوایا ہے۔ عجب جائے عشرت افزا ہے کہ سارا سامان امیرانہ و رئیسانہ اس میں مہیا ہے۔ جھاڑ و فانوس، تصویریں امیروں کی اور شبیہیں اور جانور مردے ہر قسم کے مصالح سے بھر کر وہاں رکھی ہیں۔ اکثر امیر شہر کے اس میں جا کر محفل ناچ رنگ کی جما کر عیش و عشرت کرتے ہیں۔ ان سیروں سے فراغت کر کے ماما ہرالی صاحبہ کے روضہ میں گیا۔ سراپا زیب و زینت تھا۔ ایک پتھر سونا اور جواہر جڑا رکھا عجب لطف رکھتا۔ پہاڑ بسبب رطوبت ہوا کے سبز ہو رہے تھے۔ چشم نظارہ طلب کو تازگی بخشی۔ باہر شہر کے ایک پہاڑ ہے، پارسی اپنے مردوں کی لاش کو لے جا کر اس پر پھینک آتے ہیں۔ چیل کوے گدھ اس کو کھا جاتے ہیں۔ پارسی لوگ آتش پرست ہوتے ہیں مگر امورات دنیوی میں عقل کامل رکھتے ہیں۔ کرانیوں میں بیشتر نوکر ہوتے ہیں اس لیے کہ صاحبان انگریز ان کو معتمد سمجھتے ہیں۔ جو ان میں زیادہ عزت رکھتے ہیں، جہاز کا کام کرتے ہیں۔ فقیر نے اکثر ان کو صاحب علم و لیاقت پایا۔ لباس ان کا سفید اور بہتر تھا۔ عورتیں ان کی عصمت و عفت رکھتی ہیں، بدی پر ہر گز مائل نہیں ہوتی ہیں۔ اندر شہر کے ایک آتش کدہ ہے، برسوں سے اس میں آگ جلتی ہے، کبھی سرد نہیں ہونے پاتی۔ سب پارسیوں نے متفق ہو کر یہ امر ٹھہرایا ہے کہ ہر روز ایک شخص بموجب حصہ کے صندل کی لکڑی مول لے کر اس میں جلاتا ہے۔ اعتقاد اس کا دل میں رکھتے ہیں، خلاف مذہب اپنے کو اس میں جانے نہیں دیتے ہیں۔
اتوار کے دن بائیسویں تاریخ اپریل 1838ء کے ایک چھوٹی کشتی پر سوار ہو کر جزیرۂ الف انٹا میں گیا۔ زبان ہندی میں نام اس کا گورہ پوری اور بنبئی سے چار کوس کا فاصلہ رکھتا۔ ایک پہاڑ دیکھا اس پر ہاتھی کے قد برابر ایک ہاتھی پہاڑ سے تراشا بنا اور ایک بت خانہ نفیس بھی پہاڑ کا ترشا ہوا تھا۔ اسی طرح اور بہت مکان گرے پڑے تھے اور بت بڑے بڑے پہاڑ کے ترشے نظر پڑے، عجیب و غریب تھے۔ اب شاہ لندن نے ایک شخص اس کی نگہبانی کے لیے مقرر کیا۔ قرینہ سے ایسا ثابت ہوتا کہ وہ مقامِ پرستش ہندؤوں کا تھا۔ زمانۂ سابق میں خوب تیار و آباد ہو گا۔ بعضوں کے کلام سے ثابت ہوا کہ شاہ اورنگ زیب عالمگیر نے ان بتوں کا توڑ ڈالا، بعضوں نے کہا نہیں پرتکیزوں نے اپنی عملداری میں اس بت خانہ کو کھودا۔ راست و دروغ بہ گردنِ راوی، میرے نزدیک قول دوسرا قرین صداقت ہے۔ اس واسطے کہ پرتکیزوں کو بت اور بت پرستی سے کمال نفرت ہے۔ یہ سیر و تماشا دیکھ کر شام کو ایک ناؤ پر سوار ہو کر اپنے مقام پر آیا۔ جب تلک میں بنبئی میں رہا، شام کو سیر کرتے ہوئے پریٹ کے کنویں تک ضرور جاتا۔ عورتیں ہندوؤں کی جو کنویں پر پانی بھرنے آتیں، صورت شکل میں فتنۂ روزگار تھیں۔ زیور اور ریشمی لہنگے پہنے چھم چھم کرتی آتیں، دیکھنے والوں کا ہوش اڑا لے جاتیں۔ جتنا حسن و جمال بنبئی میں تھا، ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آیا۔
تیسویں تاریخ اپریل کی ٹون ہال میں جو قلعہ کے اندر تھا، بندہ تماشا دیکھنے گیا۔ دو تین بت پتھر کے ترشے کھڑے تھے۔ ایسے خوب کہ پھر میں نے ویسے کہیں نہ دیکھے۔ کئی سطر عبارت ہندوی پتھر پر کُھدی۔ میں نے کیفیت حال بتوں کی استفسار کی۔ لوگوں نے یہ بات کہی: ایک انگریز سیاح ہندوستان سے ان کو لایا ہے، بطریق سوغات لندن لیے جاتا ہے۔ فی الواقعی استاد نے ان کو ایسا تراشا کہ ہر ایک قابل تماشا تھا۔
ایک دن پرنکل صاحب نے مالکم صاحب کے مکان پر میری دعوت کر کے بلایا۔ میں بموجب فرمانے ان کے کے مالکم صاحب کے مکان پر گیا۔ کئی صاحب اور بھی موجود تھے۔ مالکم صاحب اور سب مجھ سے با اخلاق پیش آئے۔ عزت سے بٹھلایا، اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ پھر مالکم صاحب نے پرنکل صاحب کی طرح میرے حال پر عنایت فرمائی۔ ازراہِ اشفاق یہ بات ارشاد کی، جو کچھ تم کو درکار ہو بے تکلف ہم سے ظاہر کرو تاکہ ہم اس کو حاضر کریں، تم سے شرمندہ نہ رہیں۔ میں نے کہا آپ کی عنایت میرے حق میں کافی ہے۔ دل میں کوئی آرزو نہیں باقی ہے کہ آپ سے بیان کروں۔ بعد ان باتوں کے میں نے پرنکل صاحب سے کہا کہ بندہ پرسوں قصد رکھتا ہے یہاں سے روانگی کا۔ یہ کہہ کر اپنے مقام پر آیا۔
چھبیسویں تاریخ اپریل کی پھر پرنکل صاحب کے پاس رخصت ہونے گیا۔ قصور اپنے ان سے بخشوائے۔ اس وقت وہ آنکھوں میں آنسو بھر لائے، میرے بھی آنسو نکل آئے۔ ہم دونوں بے اختیار روئے۔ پرنکل صاحب کے بھائی کلکتہ میں تھے، دو تین قطعہ خط ان کے نام لکھ کر مجھ کو دیے۔ میں رخصت ہو کر گھر آیا۔ راہ خشکی سے کلکتہ کا ارادہ کیا۔ سواری کے لیے گھوڑا تلاش کرنے لگا۔ وہاں گراں قیمت بکتا تھا، اس سبب سے نہ لیا۔