تیرھویں تاریخ فروری 1838ء کےجہاز ہمارا شہر اسکندریہ میں پہنچا۔ جہاز سے اتر کر مع دوست و احباب روانہ شہر ہوا۔ کنارے دریا کے لڑکے عرب کے گدھے کرائے کے لیے ہوئے کھڑے تھے۔ ہر وضع و شریف کو ان پر سوار کر کر لے جاتے۔ ہر چند ابتدا میں اُس سواری سے نفرت ہوئی، لیکن بموجب ہر ملکے و ہر رسمے کے آخر ہم نے بھی گدھوں کی سواری کی اور سرا کی راہ لی۔ گلی کوچے تنگ اور راہی بہت تھے۔ اس لیے لڑکے گدھے والے آگے بجائے بچو بچو کے یمشی یمشی پکارتے، لوگوں کو آگے سے ہٹاتے، نہیں تو گذرنا اُس راہ سے دشوار تھا۔ بندہ راہ بھر اُس شہر کا تماشا دیکھتا چلا۔ کنارے شہر کے محمد علی شاہ مصر کے دو تین مکان بنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک قلعہ قدیمی تھا، وہیں اُس میں توپیں ناقص از کار رفتہ پڑیں۔ محمد علی شاہ بادشاہ مصر کا ہے۔ بہتّر برس کی عمر رکھتا ہے۔ بہت صاحب تدبیر و انتظام ہے، جہاز جنگی اُس کے پُر استحکام۔ صفائی اور سب باتوں میں مثلِ جہازِ انگریزی۔ مگر افسروں جہاز کی پوشاک نفاست میں بہ نسبت جہازیوں انگریزی کے کم تھی۔ عقلِ شاہ مصر پر صد ہزار آفریں کہ ایسی باتیں رواج دیں۔ غرض کہ دیکھتا بھالتا گدھے پر سوار سرا میں پہنچا۔ اسباب اُتارا۔ پھر سیر کرنے کنارے دریا کے آیا۔ کپتان ملریز جہاز کے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے نہایت اشتیاق سے یہ بات فرمائی کہ آؤ میں نے ذکر تمھارا یہاں کے بڑے صاحب سے کیا ہے اور تمھاری تلاش میں تھا۔ بندہ بپاسِ خاطر اُن کی ہمراہ ہو کر بڑے صاحب کی ملاقات کو گیا۔ بڑے صاحب اور میم اُن کی نے نہایت عنایت فرمائی اور وقت شام کے دعوت کی۔ بندے نے قبول کر کے مان لی۔ بعد اس کے صاحب موصوف سے یہ غرض عرض کی کہ میں ارادہ رکھتا ہوں یہاں کے مکانوں اور عجائبات کو دیکھوں۔ کوئی آدمی ہوشیار اپنا میرے ساتھ کیجیے کہ ایسے مکانات اور اشیائے عجیب مجھ کو دکھلاوے۔ انھوں نے ایک آدمی رفیق اپنا میرے ساتھ کیا۔ نام اس کا مصطفیٰ تھا کہ یہ شخص اچھی طرح سے سب مکان تم کو دکھلائے گا۔ میں نے مصطفیٰ کے ساتھ باہر آ کر پوچھا۔ وطن تیرا کہاں ہے اور نام تیرا کیا۔ اس نے کہا وطن میرا حبش ہے اور نام مصطفیٰ۔ ہندی زبان میں بات کی۔ مجھے حیرت تھی کہ رہنے والا حبش کا ہے اردو زبان کیونکر جانتا ہے۔ پھر اس نے چٹھی نیک نامی اپنی کی دکھلائی۔ اُس میں تعریف چستی اور چالاکی اُس کی لکھی تھی کہ یہ شخص بہت کار دان اور دانا ہے۔ ساتھ ہمارے ہندوستان، ایران، توران، انگلستان، فرانسیس میں پھرا ہے۔ میں نے چٹھی دیکھ کر اُس سے حال لندن کا پوچھا کہ آیا وہ شہر تجھ کو کچھ بھایا۔ کہا وصف اُس کا ہرگز نہیں قابلِ بیان ہے۔ فی الواقعی وہ ملکِ پرستان ہے۔ جن کا میں نوکر تھا انھوں نے لندن میں تین ہزار روپے مجھ کو دیے تھے۔ میں نے سب پریزادوں کی صحبت میں صرف کیے۔ یہ سن کر ہم سب ہنسے اور اُس کے ساتھ باہر آئے۔ وہ باہر نکل کر دوڑا۔ عرب بچوں کو جو گدھے کرائے کے اپنے ساتھ رکھتے، دو چار لات مکّے مار کر اپنے ساتھ مع تین گدھوں تیز قدم کے لایا۔ مجھ کو اور ہیڈ صاحب اور پرنکل صاحب کو ان پر سوار کر کے چلا اور گدھوں کو ہانک کر دوڑایا۔ اتنے میں ہیڈ صاحب کا گدھا ٹھوکر کھا کر گرا اور ہیڈ صاحب کو گرایا۔ وہ بچارے گر کر بہت نادم اور شرمندہ ہوئے۔ مصطفیٰ نے دو تین کوڑے اس گدھے والے کو مارے، وہ بلبلا کر زمین پر گرا۔ زمیں کا چھلا اُچھل کر ہیڈ صاحب کے کپڑوں پر پڑا۔ وہ بہت ناخوش ہوئے اور جس سرا میں اترے تھے، پھر گئے۔ میں نے مصطفیٰ سے کہا اس قدر ظلم و بدعت بے جا ہے۔ کہا قوم عرب بد ذات اور شریر ہوتے ہیں، بغیر تنبیہ کے راستی پر نہیں آتے۔ میں نے کہا تم بھی اسی قوم سے ہو، انھیں کی سی خلقت رکھتے ہو۔ جواب دیا اگرچہ وطن میرا بھی یہی ہے مگر میں نے اور شہروں میں رہ کر خُو یہاں کی سر سے دور کی ہے۔ پھر میں نے مصطفیٰ سے کہا میرا قصد ہے حمام میں نہانے کا۔ وہ ایک حمام میں لے گیا، اندر اس کے حوض بھرا پانی کا تھا۔ راہ فواروں سے پانی بہتا۔ کئی ترک کنارہ اُس کے بیٹھے لطف کر رہے تھے۔ کوئی قہوہ، کوئی چپک پیتا۔ بندہ نے موافق قاعدہ مقرر کے وہاں جا کر کپڑے نکالے۔ پانچ چھ حمامی مالشِ بدن میں مشغول ہوئے۔ اپنی زبان میں کچھ گاتے جاتے مگر مضامین اس کے میری سمجھ میں نہ آتے۔ جب وہ ہنستے، میں بھی ہنستا، جب وہ چپ رہتے، میں بھی چپ رہتا۔
میں نے کہا مصطفیٰ سے کہ ان سے کہہ دے موافق رسم اس ملک کے بدن ملیں۔ کسی طرح سے کمی نہ کریں، ان رسموں سے مجھ کو پرہیز نہیں۔ مذہب سلیمانی میں ہر امر موقوف ہے ایک وقت کا۔ ایک وقت وہ ہوا کہ میں جہاز میں میلا کچیلا تھا۔ ایک وقت یہ ہے کہ نہا رہا ہوں۔ میں ان کو راضی کروں گا خوب سا انعام دوں گا۔ انھوں نے بموجب کہنے کے بدن خوب سا ملا اور اچھی طرح نہلایا۔ بعد فراغت کے ایک اور مکان میں لے گئے۔ اس میں فرش صاف تھا۔ گرد اُس کے تکیے لگے۔ اُس پر بٹھلا کر پوشاک پہنائی۔ مجھ کو اُس سے راحت آئی۔ بعد ایک دم کے تین لڑکے خوبصورت کشتیاں ہاتھ میں لے کر آئے۔ ایک میں قہوہ، دوسرے میں شربت، تیسرے میں قلیاں چپک رکھ لائے۔ فقیر نے شربت اور قہوہ پیا۔ حقہ چپک کا دم کھینچا۔ پھر ایک خوشبو مانند عطر کے مانگ کر لگائی۔ بتیاں اگر وغیرہ کی جلائی۔ حمام کیا بجائے خود ایک بہشت تھا۔ دل میں خیال آیا اگر شاہدِ شیریں ادا غم زدہ ہو، یہ مقام غیرت دہِ روضۂ رضواں کا ہو۔ دو گھڑی وہاں ٹھہرا پھر باہر نکل کر کئی روپئے حمامیوں کو دے کر بڑے صاحب کے مکان پر آیا۔ نام ان کا ٹن بن صاحب تھا۔ کپتان صاحب جنھوں نے میری تقریب کی تھی وہ بھی موجود تھے۔ جا بجا کی باتیں اور ذکر رہے۔ بعد اس کے میں نے ٹن بن صاحب سے پوچھا کہ یہاں افسران فوج سے تمھاری ملاقات ہے یا نہ۔ انھوں نے کہا، آگے مجھ سے اُن سے بہت دوستی تھی مگر ان کی حرکتوں سے طبیعت کو نفرت ہوئی۔ اس واسطے اُن سے ملاقات ترک کی۔ اکثر وہ لوگ میرے مکان پر آ کر شراب برانڈی پیتے اور چپک کے اتنے دم کھینچتے کہ مکان دھویں سے سیاہ ہوتا۔ لا چار میں نے ان سے کنارہ کیا۔ اے عزیزانِ ذی شعور! اگر جناب رسول مقبول اجازت شراب نوشی کی دیتے، یہ لوگ شراب پی کر مست ہو کر کیا کیا فساد برپا کرتے۔ باوجود ممانعت کے یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر منع نہ ہوتا خدا جانے کیا فتنہ و غضب نازل کرتے، لڑ لڑ مرتے۔ چنانچہ راہ میں اکثر ترک دیکھنے میں آئے۔ قہوہ خانوں میں شراب بھی ہوتی ہے اُس کو لے کر پیتے تھے۔
دوسرے دن گدھے پر سوار ہو کر شہر کا تماشا دیکھنے گیا۔ آدمیوں کو میلے اور کثیف کپڑے پہنے پایا۔ اکثروں کو نابینا دیکھا۔ سبب اُس کا یہ قیاس میں آیا کہ اس شہر میں ہوا تند چلتی ہے، مٹی کنکریلی اُڑ کر آنکھوں میں پڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ وہاں کے اپنی اولاد کی ایک آنکھ یا اگلے دانت بخوفِ گرفتاری نوکری فوج محمد علی شاہ کے پھوڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ اس عیب سے نوکری بادشاہی سے کہ بد تر غلامی سے ہے، بچاتے ہیں۔ لباس وہاں کے لوگوں کا میرے پسند نہ آیا۔ کثیف اور کالا مانند لباس مشعلچیوں کے تھا۔ قواعد پلٹنوں کی دیکھی، مثل قواعد فوج انگریزی کے تھی۔ ہر ایک سپاہی کے کندھے پر بندوق فرانسیسی۔ سب جوان، جسیم اور موٹے مگر قد و قامت کے چھوٹے۔ کپڑے پرانے، سڑیل پہنے۔ افسر اُن کے بھی ویسے ہی کثیف پوش تھے۔ اگر ایسے لوگ توانا اور قوی فوج انگریزی میں ہوں، بادشاہ روئے زمین کے مقابلہ میں عاجز ہوں اور زبوں۔ مگر یہاں خرابی میں مبتلا تھے، کوئی کسی کو نہ پوچھتا۔ کوئی شخص نوکری فوج شاہی میں بخوشی نہیں قبول کرتا ہے۔ شاہ مصر زبردستی نوکر رکھتا ہے اس لیے کہ خوفِ مضرت و ہلاکت و قلتِ منفعت ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو عیبی کرتے ہیں یعنی آنکھ یا دانت توڑتے ہیں تا کہ نوکرئ سپاہ سے بچیں۔ نوکر ہونے کے ساتھی دائیں ہاتھ پر سپاہی کے بموجب حکم شاہی کے داغ دیا جاتا ہے۔ پھر عمر بھر اُسی نوکری میں رہتا ہے، ماں باپ عزیز و اقربا پاس نہیں جا سکتا ہے۔ چھاؤنی فوج کی مانند گھر سوروں کے مٹی اینٹ سے بنی۔ ہر ایک کوٹھری میں سوا ایک آدمی کے دوسرے کی جگہ نہ تھی۔ اونچاؤ اُس کا ایسا کہ کوئی آدمی سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا۔ کھانے کا یہ حال تھا کہ شام کو گوشت چاول کا ہریسہ سا پکتا، طباقوں میں نکال کر رکھ دیتے۔ ایک طباق میں کئی آدمیوں کو شریک کر کے کھلاتے۔ معاذ اللہ یہ نوکری کیا بد تر ہے۔ اکبارگی اپنے تئیں دریا یا کنویں میں گرانا بہتر ہے۔ اُس شاہِ والا شان سے یہ امر بعید نظر آتا ہے کہ لوگوں کو زبردستی سے نوکر رکھتا ہے اور ان پر جبر کرتا ہے۔
خیر بندہ تماشا دیکھتے ہوئے باہر شہر کے گیا۔ ایک گورستان دیکھا۔ اُس میں ہزاروں قبریں نظر آئیں۔ دیکھنے والے کو باعثِ حیرت تھیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا اس قدر زیادتی قبروں کا سبب کیا۔ دریافت ہوا کہ یہاں اکثر وبا آتی ہے، ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ مکینوں کی اُسی سے آبادی ہے۔ اسکندریہ آباد کیا ہوا اسکندر کا ہے۔ وقت آباد کرنے کے ایک بڑا سا پتھر کھڑا کیا تھا۔ اب تلک قائم اور کھڑا ہے۔ راہوں اور کوچوں میں تنگی ہے۔ اس سبب سے بیشتر وبا آتی ہے۔ آدمی وہاں کے مفلس و پریشان اکثر تھے۔ بعضے راہ میں فاقہ مست اور خراب پڑے ہوئے مثلِ سگانِ بازاری ہندوستان کے، دیکھنے اُن کے سے سخت تنفّر ہوا۔ آگے بڑھا، ایک اور پرانا تکیہ دیکھا، وہاں فرانسیسوں نے محمد علی شاہ کی اجازت سے قبروں کو کھودا ہے۔ مُردوں کو شیشہ کے صندوق میں رکھا پایا ہے۔ ظاہراً ہزار دو ہزار برس پہلے مُردوں کو شیشے کے صندوقوں میں رکھ کے دفن کرتے تھے۔ نہیں مردے صندوقوں میں کیوں کر نکلتے۔ اگرچہ عمارت اُس شہر کی شکستہ ویران تھی۔ مگر آبادی زمانہ سابق سے خبر دیتی۔ کئی وجہوں سے ثابت ہوتا کہ یہ شہر اگلے دنوں میں پُر عمارت اور خوب آباد ہوگا۔ اس واسطے کہ جا بجا اینٹ کا اور پتھر کا نشان تھا۔ زمین کے نیچے سے اکثر سنگِ مرمر نکلتا۔ ان دنوں کئی مکان کوٹھی فرانسیسوں اور انگریزوں کے خوب تیّار ہوئے ہیں۔ سو اُن کے اور سب مکان ٹوٹے پھوٹے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...