آٹھویں فروری 1838ء کو ڈیڑھ پہر رات گئے، مالٹا میں پہنچا۔ جہاز سے اترا۔ دوسرا جہاز ملیزر نام اسکندریہ تک ایک سو بیس روپیہ کرایہ پر ٹھہرا کر اسباب اپنا اس پر لے گیا۔ اس وقت سب صاحبان عالیشان نے میری سفارش کی چٹھی کرنیل لو صاحب رزیڈنٹ لکھنؤ کے نام پر لکھ کر مرحمت فرمائی۔ لارڈ بنکم صاحب نے بھی چٹھی میں بہت طرح سے سعی کی۔ ان صاحبوں کی خوبیوں کو میں بیان نہیں کر سکتا ہوں کہ مجھ مسافر پر کیا کیا عنایت فرمائی۔ میں ملیزر جہاز کے کپتان سے دوپہر کی رخصت لے کر مالٹا کی سیر کرنے چلا۔ کپتان صاحب نے مجھ سے چلتے وقت کہا کہ اگر تم کو آنے میں عرصہ کھچے گا، جہاز روانہ ہووے گا، تم کو یہیں رہنا پڑے گا۔ میں ڈرتے ڈرتے سیر کو گیا۔ شہر دیکھا آباد خُجستہ بنیاد۔ فرش بازار سنگ مرمر سے بنا۔ دو طرفہ میوہ فروشوں کی دکان پر میوہ چنا۔ زیادتی میوہ جات سے بازار باغ معلوم ہوتا۔ دیکھتے دیکھتے کلیسائے سنٹ جان تک پہنچا۔ وہ بہت قدیمی رومن کا بنایا ہوا تھا۔ عمارت اس کی بلند، کنگرے فلک پیوند۔ تصویریں حواریوں وغیرہ کی رکھیں۔ بندگی کے لیے کھڑے تھے صاحبان دین۔ دوسری طرف ایک مکان میں گیا، وہاں پادریوں نے ترک دنیا کر کے رہنا اختیار کیا۔ گوشہ تنہائی میں تجرد سے موافقت کر کے تعلقات دنیا سے ہاتھ اٹھایا۔ ان کے معتقد اور مرید کھانا بھیجتے ہیں اور غذائے نفیس ان کو کھلاتے ہیں۔ دنیا داروں سے ان کو زیادہ موٹا اور فربہ پایا۔ سمجھا کہ گوشہ کو بیٹھنا محض کھانوں لطیف اور زیادتی معتقدوں کے لیے تھا۔ ان سے یہ حرکت بد نظر آئی۔ ماباپ نے کس محنتوں سے ان کی پرورش کی، اس خیال سے کہ بوڑھاپے میں ہمارے کام آویں۔ افسوس کہ وہ جوان ہو کر اس سعادت سے باز رہیں بلکہ آپ اوروں کے ٹکڑوں پر نظر لگاویں۔ میرے نزدیک بہتر وہ شخص ہے کہ باوجود تعلق دنیوی اور بارِ عیال و اطفال کے فکر عاقبت سے غافل نہ ہو۔ سوائے اپنی جورو کے اور کسی عورت پر مائل نہ ہو، عذابِ خدا تعالیٰ سےہمیشہ ڈرتا رہے، حتی الامکان بندگان خدا سے نیکی کرتا رہے۔ درحقیقت وہ پادری گوشہ نشین مانند سانڈوں بنارس کے موٹے تازے نظر آئے۔ بے محنت باربرداری کے دانہ گھاس غیروں کا کھا کر موٹے ہوتے ہیں۔ بعد اس کے اور تین مکانوں عالیشان کی سیر کی۔ عمارت ان کی پسند طبیعت آئی۔ پھر وہاں سے اس سرا میں کہ لارڈ بنکم صاحب تشریف رکھتے تھے، گیا۔ ان سے اور ان کی بی بی سے رخصت چاہنے والا ہوا۔ دونوں صاحبوں نے اس فقیر کو شراب وین پلائی۔ جدائی میری سے رنجش خاطر بہم پہنچائی، مجھ کو بھی رقت آئی۔ اس لیے کہ جہاز پر ہر روز لارڈ صاحب اور بی بی ان کی شراب وین پلاتی تھیں اور باتوں عنایت آمیز سے دل میرا خوش فرماتی تھیں۔ خدا ان کو آفات زمانہ سے بچاوے اور ہمیشہ روز عیش و عشرت دکھلاوے۔ ناگاہ آواز توپ جہاز کی کان میں آئی۔ واماندوں نے روانگی جہاز کی خبر پائی۔ بندہ مضطرب ہو کر لارڈ صاحب کے پاس سے اٹھ کر کنارے دریا کے آیا۔ لنگر جہاز کا کھلا دیکھا اور قریب روانگی کے تھا۔ ایک اور جہاز جنگی ایشیہ نام وہیں قیام رکھتا۔ نول صاحب کپتان اس کے نے مجھ کو بڑے اصرار سے جہاز پر بلایا اور اس کا تماشا دکھلایا۔ چوراسی ضرب توپ اس میں لگیں۔ جہاز مضبوطی میں جوں قلعہ آہنیں۔ ازانجا کہ ہمارا جہاز آمادۂ روانگی تھا، زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ جانا۔ ایک دو کلمہ کہہ سن کر اپنے جہاز پر سوار ہوا، کپتان نے کہا۔ اگر تم آنے میں ایک لحظہ دیر کرتے، جہاز روانہ ہوتا۔ تم ہر گز ہم تک نہ پہنچتے، مانند پادریوں سائل نان طلب کے یہیں اوقات گزاری کرتے۔ بندہ درگاہ الٰہی میں شکر بجا لایا اور جہاز پر سوار ہو کر آگے چلا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...