بعد ان سیروں کے ایک دن خیال آیا۔ جو روپیہ میں زادِ راہ کے لیے لایا تھا، بہت خرچ ہوا، تھوڑا سا باقی رہا۔ اب مصلحت یہی ہے کہ یہاں سے چل دیجیے۔ جب یہ بھی اُٹھ جائے گا، نہ رہنے میں لطف ہے نہ جانا بن پڑے گا۔ یہ سوچ کر اٹھارھویں تاریخ جنوری کے روانگی کا عزم مصمم کیا۔ اس وقت سے وہاں کی ہر چیز کو کمال محبت سے دیکھتا تھا اور دل سے کہتا ایک دن وہ ہو گا کہ دیکھنے ان پریوں اور بازار اور گاڈیوں اور راہوں دلکش اور دوست آشناؤں سے جدا پڑوں گا جیسے مردے کے لیے سامان تجہیز و تکفین کا کرتے ہیں۔ اپنے سامانِ سفر میں مستعد تھا اور خشکی کی راہ سے ارادہ سفر کا کیا۔ بوچڑ صاحب اور دوستوں نے راہ دریا سے چلنے کو کہا۔ مگر میں نے سوچا دیکھی ہوئی راہ کیا فائدہ پھر دیکھنا۔ آخر اٹھارھویں جنوری کے خشکی کی راہ سے اور اسباب بھاری اپنا بوچڑ صاحب کو سونپا کہ کسی کے جہاز پر رکھ کر ہندوستان میں میرے پاس بھیج دینا۔ اسباب ضروری ایک پٹاری چرمی میں رکھ کر اپنے ساتھ لیا۔ ایک جام شراب وین دوستوں کے ساتھ پی کر گاڈی میل کوچ پر سوار ہوا۔ وقت روانگی بوچڑ صاحب، راچر صاحب اور کئی دوست افسوس کھا کر رنج جدائی سے رونے لگے۔ میں بھی وہاں سے چلتے وقت ایسا ملول ہوا جیسے حضرت آدم بہشت سے نکلے۔ چونکہ ملتے ملاتے دوستوں سے رخصت لیتے مجھ کو دیر ہوئی، گاڈی میل کوچ آدمیوں سے بھر گئی۔ کہیں جگہ باقی نہ رہی۔ ناچار کوچوان کے پاس بیٹھا مگر دل پر مفارقت دوستوں کا قلق تھا۔ برف ایسا برستا کہ تمام راہ میں میری داڑھی مونچھ پر جم گیا۔ ڈیڑھ پہر رات گئے کرکوزانڈر میں پہنچا۔ وہ مقام لندن سے چوبیس کوس تھا۔ وہاں سے ایک مزدور نے میرا اسباب میل کوچ سے اتار کر اپنی گاڈی پر رکھ کر مجھ کو ساتھ لے کر سرائے فلکن میں پہنچایا۔ میرے نوکر نے کہا کیا کیا کھانا لاؤں۔ میں نے کہا سردی مارا، برف کا ستایا ہوں، آتش پرستی کروں گا۔ پہلے آگ لا، ا س کے پاس بیٹھ کر تاپوں گا۔ اس نے آتشدان میں آگ جلائی۔ قریب اس کے بیٹھ کر ایسی مجھ کو آرام آئی کہ آگ مجھ کو مثل آتش پرست عزیز ہو گئی۔ ہر شخص گاڈی سے اتر کو خوشی میں مشغول ہوا مگر مفارقت میں ان دوستوں اور شہر جنت نشاں سے رنجیدہ اور چپ بیٹھا تھا۔
ایک شخص جبالڑکو اپنی نوکری پر جاتا تھا، مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر قریب آ بیٹھا۔ ہنگامۂ صحبت گرم کیا۔ میں نے اس کی میٹھی باتیں سن کر غم کو دل سے مٹا دیا۔ اس کے ساتھ شراب شیریں دوستوں کو یاد کر کے پی اور ان کے حق میں دعا دی۔ پھر وہاں سے شہر لندن کی محبت سے دل اٹھایا۔ دو پہر رات کو دھویں کے جہاز پر سوا ر ہوا۔ نام اس کا مکس تھا۔ حال جہاز والوں کا بسب برف کے متغیر ہوا۔ برف سطح جہاز پر چار چار انگل جم گیا۔ رسیاں جہاز کی برف جمیں ٹکڑا بلور کا معلوم ہوتیں۔ یہاں تک کہ صبحی جہاز جزیرہ فال مت میں پہنچا۔ چاروں طرف اس کے پہاڑ تھا۔ وہاں طوفان جہاز کو آفت نہیں پہنچاتا ہے مگر بغیر ہوائے موافق کے جہاز وہاں سے نہیں ہلتا ہے۔ پہاڑوں پر سبزی تھی۔ دل کو اس سے راحت آتی۔ رستے بازار کے لطیف تمام تھے۔ آدمی خوبصورت و خوش کلام تھے۔ وہاں سے لاڈنیکم صاحب مع اپنی میم صاحب کے اور ولیم سیڈ صاحب اور کئی صاحب مع بی بیوں اپنی کے سوار جہاز پر ہوئے۔ جہاز مصر کی طرف چلا۔ بعد دو ایک دن کے ایک شہر میں پہنچا۔ نام اس کا ویگوتھا۔ حاکم وہاں کے اسپانیل تھے، وہ بھی ہیں قوم انگریزوں سے۔ جہاز اس جزیرے میں خط پہنچانے کے لیے ٹھہرا۔ خطوں کو اس طرف ایک چھوٹی ناؤ پر لاد کر روانہ کیا۔ بندہ بھی اس شہر کی سیر کو اس پر سوار ہو کر کنارے اترا۔ شہر دیکھا، پر سبزہ و گلہائے خنداں مگر بسبب بے انتظامی اور لڑئی بھڑائی کے ویران۔ ایک قلعہ پرانا تھا ٹوٹا پھوٹا ہوا۔ توپوں کو کھود کر زمین میں گاڑا۔ مجھ کو دیکھنے ویرانے ملک اور بے سرو سامانی سپاہ سے لکھنؤ یاد آیا۔ دائیں بائیں پھرا، دو رنڈیوں حسین کو دیکھا۔ کمر ان کی مانند چیتے کی کمر کے تھی۔ آنکھ بھون ان کی ہرن کی سی۔ دل اگرچہ صورت دیکھنے ان کے سے نہ بھرا۔ مگر خیال روانگی جہاز کا آیا کہ مبادا جہاز رواں ہوئے۔ اسی سوچ میں تھا کہ جہاز کی توپ کا دھماکہ کان تلک پہنچا۔ یہ دستور ہے کہ جب جہاز کا لنگر کھولتے ہیں لوگوں کی اطلاع کے واسطے توپ چھوڑتے ہیں۔ تاکہ جو کوئی کہیں گیا ہوئے جلدی سے چلا آئے، اپنے تئیں جہاز پر پہنچائے۔ توپ کی آواز سنتےہی گرتے پڑتے میں جہاز پر آیا۔ جہاز وہاں سے چل نکلا۔ رات کو طوفان آیا، ہوائے مخالف کا غلبہ ہوا۔ مگرجہاز تباہی سے بچ کر بخیریت رواں تھا۔ مجھ کو خیال زندگی کا آیا کہ اسی طرح جہاز عمر بہا جاتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...