یہ فقیر بیچ سنہ اٹھارہ سو اٹھائیس عیسوی (1828ء) مطابق سنہ بارہ سو چوالیس ہجری کے حیدرآباد وطن خاص اپنے کو چھوڑ کر عظیم آباد، ڈھاکہ، مچھلی بندر، مندراج، گورکھپور، نیپال، اکبر آباد، شاہجہاں آباد وغیرہ دیکھتا ہوا بیت السلطنت لکھنؤ میں پہنچا۔ یہاں بہ مددگاری نصیبے اور یاوری کپتان ممتاز خاں مینکنس صاحب بہادر کی ملازمت نصیر الدین حیدر بادشاہ سے عزت پانے والا ہوا۔ شاہ سلیمان جاہ نے ایسی عنایت اور خاوندی میرے حالِ پُراختلال پر مبذول فرمائی کہ ہرگز نہیں تابِ بیان اور یارائے گویائی۔ رسالۂ خاص سلیمانی میں عہدہ جماعہ داری کا دیا۔ بعد چند روز کے صوبہ داری اسی رسالے کی دے کر درماہہ بڑھایا۔ بندہ چین سے زندگی بسر کرتا اور شکرانہ منعمِ حقیقی کا بجا لاتا۔ ناگہاں شوق تحصیلِ علمِ انگریزی کا دامن گیر ہوا۔ بہت محنت کرکے تھوڑے دنوں میں اسے حاصل کیا۔ بعد اس کے بیشتر کتابون تواریخ کی سیر کرتا، دیکھنے حال شہروں اور راہ و رسم ملکوں سے محظوظ ہوتا۔ اک بارگی سنہ اٹھارہ سو چھتیس عیسوی (1836ء ) میں دل میرا طلبگارِ سیّاحیٔ جہان خصوص ملکِ انگلستان کا ہوا۔ شاہ سلیمان جاہ سے اظہار کرکے رخصت دوبرس کی مانگی، شاہِ گردوں بارگاہ نے بصد عنایت و انعام اجازت دی، عاجز تسلیمات بجا لایا اور راہی منزلِ مقصود کا ہوا۔ تھوڑے دنوں بعد دار الامارۃ کلکتہ پہنچا، پانچ چھ مہینے وہاں کی سیر کرتا رہا۔ بعد ازاں جمعرات کے دن تیسویں تاریخ مارچ کے مہینے سنہ اٹھارہ سو سینتیس عیسوی (1837ء) میں جہاز پر سوار ہوکر بیت السلطنت انگلستان کو چلا۔ نام جہاز کا ازابیلہ، کپتان اس کا ڈبیڈ براں صاحب مع اپنی بی بی کے تھا۔ جہاز وزن میں چھ سو ٹن کا کنارے گنگا پر آ لگا تھا۔ یہاں سے دریائے شور پہنچنے تک اس کی اعانت کو دھویں کا جہاز مقرر ہوا۔ تھوڑے دنوں میں اپنے زور سے ہمارے جہاز ازابیلہ کو گنگا سے کھینچ کر سمندر میں لے گیا، وہاں سے جہاز ہمارا چل نکلا۔ دونوں طرف گنگا کے کنارے سبزۂ آبدار لہلہا رہا تھا۔ جابجا مکان صاحبانِ انگریز کا بنا ہوا نادر اور زیبا۔ جہازِ رواں پر عجب سماں تھا، بیان میں نہیں سماتا۔ اس سبزے کو دیکھ کر دل میرا ملول ہوا کہ دیکھیے پھر کبھی یہاں آنا ہو یا نہیں۔ جمعہ کے دن اکتیسویں تاریخ مارچ کے کھجڑے میں پہنچ کر جہاز ٹھہرا۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا، طوفان شدید آیا، سبھوں کا دل گھبرایا اور جہاز ڈگمگایا، مگر قدرتِ الٰہی سے زنجیر لنگر کی نہ ٹوٹی۔ روح کسی ذی حیات کی قفسِ بدن سے نہ چھوٹی۔ مصرع:
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت
خداخدا کرکے تیسری اپریل کو جہاز ہمارا دریائے گنگ سے سمندر میں پہنچا۔ ہوا موافق کا بہنا شروع ہوا، کپتان صاحب نے بادبانوں کو کھول دیا، جہاز تیر کی طرح چلا۔ ننکو خدمت گار میرا تیز روی جہاز سے ڈر کر کہنے لگا، کپتان صاحب بادبانوں کو باندھیں نہیں تو جہاز الٹ جاوے گا۔ میں نے کہنا اس کا کچھ نہ سنا، ہراساں ہو کر جہاز میں بیٹھ گیا اور کہتا تھا کہ میں عبث اپنے تئیں یہاں لایا، اگر نہ آتا یہ مصیبتیں کیوں اٹھاتا۔ کپتان صاحب ہم سب لوگوں پر اتنی مہربانی فرماتے تھے کہ تکلیف اور مصائب جہاز کے کچھ نہ ہوکے پاتے۔ ہر طرح کے کھانے، پینے، میوے، دودھ، گوشت، شراب شام پئین وغیرہ موجود تھے۔ عنایت کپتان صاحب سے ابوابِ تکلیف ہر صورت سے مسدود تھے۔ اتوار اور جمعرات کو موافق رسم مقرر انگریزون ہر قسم کے کھانے اور مٹھائی زیادہ پکتے، ہر ایک کے کھانے میں آتے۔ غرض کہ ہر نہج سے آسائش تھی، گھر میں یہ بات میسر نہیں آتی۔
منگل کے دن چوتھی تاریخ ہوا بند تھی، ایک عجیب تماشا اور کیفیت نظر آئی۔ ہزاروں کچھوے لہراتے ہوئے پانی پر پھرتے، کپتان صاحب نے جہازیوں کو حکم دیا کہ کشتی پر سوار ہوکر ان کا شکار کرو۔ جہازیوں نے بموجب حکم ان کے ناؤ پر سوار ہو کر، کانٹون آہنی سے کچھوؤں کو زخمی کیا، بعد اس کے جیسے کوئی جنگل سے نبوا کنڈے چنتا ہے، ان کو پانی سے اٹھا کر کشتی پر رکھا۔ اسی طرح دو تین گھڑی خوب شکار کیا۔ اتنے عرصے میں دو دو من کے چوبیس عدد کچھوؤں کو پکڑا۔ ایک امر عجیب دیکھا کہ ہر ایک کی گردن میں نیچے ایک چھوٹی مچھلی جونک کی طرح چمٹی تھی۔ کپتان صاحب نے ہڈی چمڑے سے گوشت ان کا صاف کروا کر لوگوں کو بانٹ دیا۔ مجھے اس گوشت سے نفرت اور کراہیت آئی، ہر چند کپتان صاحب نے اصرار کیا، پر میں نے نہ کھایا۔ اور لوگوں نے دو تین دن تک کباب اور شوربا اس کا بڑے مزے سے کھایا۔ یہ طرفہ ماجرا تھا کہ جس روز ہوا کا چلنا موقوف ہوتا، غول کچھوؤں کا خوابِ غفلت میں آکر بے باکانہ پانی کے اوپر آتا۔ اُس وقت جس کا جی چاہتا آسانی سے ان کو پکڑ لیتا۔
جہاز رواں تھا، ساتویں تاریخ مئی کے بڑا طوفان آیا۔ پانی ایسے زور سے اچھلتا کہ لب جہاز تک آتا۔ آخر صدمے اس کے سے دونوں کنارے جہاز کے ٹوٹے، گیارہ بھیڑیں اور کئی مرغیاں اور بطخیں اور کتنے اسباب پانی میں ڈوبے۔ سب آدمی اپنی زندگی سے مایوس ہوکر روتے اور خداوند تعالیٰ کی درگاہ میں عجز و نیاز کرتے، نویں تاریخ کچھ کم ہوا۔ کپتان صاحب نے باد بانوں کو کھولا، دسویں تاریخ اس سے زیادہ آیا۔ پھریرا بادبانوں کا شدت ہوا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پانی میں گرا اور مستول جہاز کا ٹوٹ گیا۔ ایک میز جہاز میں جڑا تھا، صدمے ہوا سے جڑ سے اکھڑ کر پانی میں ڈوبا۔ جہاز کے دونوں طرف سے پانی آئینہ ساں قریب سر ہمارے کے اچھلتا مگر فضل الٰہی نے ہم کو اس صدمے سے بچایا۔ سب لوگ بہت گھبرائے اور اس سانحہ سے سخت حیران ہوئے کہ اے خدا! سوائے تیرے ہمارا کوئی مددگار نہیں اور ہم میں سے کوئی اپنے بچانے کا مختار نہیں۔ حق تعالی نے اپنی عنایت سے گیارھویں تاریخ اس طوفان کو دور کیا۔ خسروِ خاوری نے تختِ زریں فلک پر جلوۂ نور دکھلایا۔ دھوپ نکلنے سے مَیں ایسا مسرور ہوا کہ بیان اس کے سے زبان معذور۔ جیسے عاشقِ مہجور طالب دیدار معشوق کا ہو، ویسے جہاز والے کمالِ شوق سے دھوپ کو دیکھتے ہرسو۔ آخر بتائید الٰہی جہاز ان بلاؤں سے نجات پاکر روانہ ہوا۔
تیسری تاریخ جون کی ہفتہ کے دن دوپہر کو ایک بوم شوم بلندی ہوا سے جہاز کی طرف جھکا آ کر۔ جس کوٹھری میں ہم سبھوں کا کھانا رکھا تھا، اس کی چھت پر آ بیٹھا۔ کپتان صاحب نے مجھ سے پوچھا یہ کیا نشان ہے۔ میں نے کہا خوب نہیں، ابھی ایک بلا سے نجات پائی ہے ایسا نہ ہو پھر کوئی اور سانحہ پیش آئے، خرابی میں پھنسائے۔