قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہر شہر کو شہرِ نا پرساں قرار دیاجاتاہے جہاں ہر کوئی اپنی فضا میں ہمہ وقت مست دکھائی دیتاہے اور زندگی کی اقدار عالیہ پر جان کنی کا عالم ہے ۔یہ عجیب شہر ہیں جن پر اکثر لوگوں کو عراق کے شہر کوفہ کے قریب ہونے کا گماں گزرتا ہے۔اِ س ناول میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جاہ و حشمت کی نشانیوں اور کھنڈرات میں جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور عبرت کی مظہر حنوط شدہ لاشوں سے وابستہ داستانوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔ صبح و شام کے مناطر سے لبریز اس ناول میں کچھ شقی القلب درندوں نے کئی بھیس بنا کر مظلوم انسانوں کی حیاتِ مستعار کو غم کے فسانے میں بدل کر اس دنیا کے آئینہ خانے میں اُنھیں تماشا بنا کر رکھ دیا۔سب سوچتے ہیں اب دعائے نیم شب میں الم نصیبوں اور جگر فگاروں کا پرسانِ حال کون ہو گا ۔ اِس ناول میں کچھ کردار ایسے بھی ملیں گے جو ہر عہد میںمرہم بہ دست پہنچیں گے اور الم نصیبوں کو یہی کہیں گے کہ ہجوم ِ غم میں دِل سنبھال کر اور یاس و ہراس کو ٹال کر آگے بڑھنا ہی دانش مندی ہے ۔ اس کہانی میںمحسن کش ،پیمان شکن ،جعل ساز اور سارق سفہا کو آ ئینہ دکھایا گیا ہے ۔ بے حس معاشرہ جب مظلوموں کی داد رسی اور چارہ گری سے گریز کو معمول بنالے تو اُن کے رفتگاں عالمِ خواب میں اُن کی ڈھارس بندھاتے ہیں ۔اس قسم کا تصوراتی ماحول اس کہانی کو نیا آ ہنگ عطا کرتاہے ۔
فقیر
غلام شبیر
گُلوں کی سیج ہے کیا مخملیں بچھونا کیا
نہ مِل کے خا ک میں گر خا ک ہوں تو سونا کیا
بساطِ سیل پہ قصر ِ حباب کی تعمیر
یہ زندگی ہے تو پھر ہونا کیا نہ ہونا کیا
(مجیدامجد)