” چلو ارشد بیٹا ۔۔۔۔
راحیلہ کا نکاح ہے سب انتظار میں ہیں ۔۔۔۔”
بابا سائیں نے پیار سے ارشد کو۔ کہا ۔۔۔
جس نے بہن کا ہاتھ مضبوطی سے تھآ ما ہوا تھا ۔۔۔
جیسے آج کے بعد وو کبھی مل نا سکے۔
” بابا ۔۔۔
راحیلہ کا نکاح هو چکا ہے ۔۔۔۔”
ارشد خان نے اونچی آواز میں کہا ۔۔۔۔
” ارشد خان کیا بکواس کر رہے هو ۔۔۔
تم ہوش میں تو هو ۔۔۔”
رحمان خاں نے اگے بڑھ کر ارشد خان کو غصّے سے کہا ۔۔۔
” رحمان خآ ن !!
تم ۔۔ تمھے کوئ حق نهی ۔۔۔
میری بہن کے معآ ملے میں بولو ۔۔۔۔
یہ میرا اور میری بہن کا معآملہ ہے ۔۔۔
تم دور رہو ۔۔۔
ویسے بھی تمھے جو چاھیے تھا ۔۔۔
مل تو گیا ۔۔۔
اب کس چیز کے لیے مجھ سے لڑو گے ۔۔۔
ہے کوئی وجہ ۔۔۔
بہن پر جان دیتے تھے ۔۔۔
لیکن جب جان دینے کی بآری ای۔۔۔
تو جان تو دور ایک اپنی خوشی کی قربانی تک نا دے سکے ۔۔۔”
ارشد خان نے غصّے اور دکھ سے رحمان خاں کو کہا ۔۔
۔
ابھی کچھ اور کہتا ۔۔کہ
اچانک ایک زوردار تھپڑ کی آواز ای ۔۔۔
” چٹا خ “👋
یہ صلہ دیا ۔۔۔
تم۔ نے میری محبت کا ۔۔۔
اس سب کے لیے میں نے تمھے پرھنے یونی بھیجا تھا ۔۔۔
بولو ۔۔
جواب دو ۔۔۔
ذرا باپ کی عزت کا خیال نهی آیا ۔۔۔۔
اس سے تو امید نهی تھی ۔۔۔
پر تم تو اتنی سمجھ دار بیٹی تھی ۔۔۔۔
کیا منہ دکھاؤ گا میں۔ ”
خان سائیں ۔مضبوط انسان جو بڑی سے بڑی بات بھی۔ سہہ جاتے ۔۔۔
اس بات پر ٹوٹ کر رہ گے ۔۔۔
اور راحیلہ کو ایک تھپڑ لگا دیا ۔۔۔
ابھی اور تھپڑ مارتے کہ ارشد خان نے بابا سائیں کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔
” بس ۔۔۔
بہت ہوا ۔۔۔
ہر خوشی کا خیال رکھ رکھ کر آپ نے اپنی بیٹی کو جوان کیا ۔۔۔
لیکن جب اس کی ساری زندگی کی خوشی کی بات ای تو آپ نے اس سے ھی منہ پھیر لیا ۔۔۔
یہ کہاں پر لکھا ہے ۔۔۔
بابا ۔۔۔۔
کتنا روتی رہی وو ۔۔۔
آپ کو زرہ بھر پھرق نهی پڑا ۔۔۔
آپ کو اپنے بیٹے اور بھائی کی خوشی عزیز تھی ۔۔بسس ۔۔۔
بیٹی کی خوشی کا خیال کہاں تھا بابا ۔۔۔۔
لیکن آپ اور رحمان خان کان کھول کر سن لیں ۔۔۔۔”
ارشد خان غصّے سے بابا سائیں اور راحیلہ کے درمیان ڈھال بنا کھڑا بول رہا تھا ۔۔۔
وہ اپنی اکلوتی بہن کی خوشیوں کے لیے جنگ لڑ رہا تھا ۔۔۔
” میں مرتے دم تک اپنی بہن کا ساتھ دوں گا ۔۔۔
میں نہیں مانتا ان فضول اور من گھڑت روایات کو ۔۔۔
اور میں نے خود اپنے پورے ہوشو حواس میں راحیلہ کا نکاح حسام سے کروایا ہے ۔۔۔”
ارشد خان نے سچ بولتے ہوے کہا ۔۔۔
” تم اتنے بڑے کب سے هو گے ۔۔۔؟؟
جو اتنے بڑے فیصلے کرنے لگے ۔۔۔؟؟
کس کی اجازت سے تم نے یہ سب کیا ۔۔۔؟؟”
ارشد خان کے چچا نے اگے بڑھ کر ارشد علی کو گریبان سے پکڑا ۔۔۔
” چچا سائیں !!
میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں ۔۔۔
اس لیے آپ کے لیے بہتر هو گا ۔۔۔
آپ دور رہیں ۔۔
یہ ہمارے گھر کا مسلہ ہے ۔۔۔”
ارشد خان نے اپنا گریبان چھڑواتے ہوے کہا ۔۔۔
باپ کی بےعزتی دیکھ کر شاداب خان اگے آیا اور ارشد خان سے الجھ پڑا ۔۔۔
ارشد خان بھی ایک مضبوط جسم کا مالک تھا ۔۔۔
لہذا شاداب خان کو دو پل میں ھی ڈھیر کر دیا ۔۔۔
” دفعہ هو جاؤ ۔۔۔
اس منحوس کو بھی لے جاؤ ۔۔۔
آئندہ کبھی اپنی شکل نا دکھانا مجھے تم دونوں ۔۔۔
چلے جاؤ اب کوئی جگہ نہیں اس گھر میں تم دونوں کے لیے ۔۔۔
آج سے تم ہمارے لیے اور ہم سب تمھرے لیے مر گے ۔۔۔”
خان بابا نے دکھ اور آنکھوں میں آنسو لیے ارشد خان کو۔ دھکا دیا ۔۔۔
اور خود زمین پر بیٹھتے چلے گے ۔۔۔
” بابا سائیں !!! ”
راحیلہ کا دھیہان بابا سائیں کی طرف ھی تھا ۔۔۔
اس لیے سب سے پھلے وو چیختی ہوئی ان تک گئی ۔
” بابا سائیں ۔۔۔
مجھ مے معاف کر دیں ۔۔۔
میں نے سب کچھ جان کر نهی کیا ۔۔۔
بس ایک دفعہ معاف کر دیں ۔۔۔”
راحیلہ نے روتے ہوے ان سے بول رہی۔ تھی ۔۔۔
” راحیلہ ۔۔۔!!۔
چلی جاؤ ۔۔۔
تم نے جو کچھ کیا ۔۔۔
اس سب کے لیے میں نے تمھے معاف کیا ۔۔۔
جاؤ چلی جاؤ ۔۔۔
ورنہ خاندان والے عزت کے نام پر تمھے قتل کر دیں گے ۔۔۔
آآئندہ مجھے اپنی شکل نا دکھانا ۔۔۔
چاہے میں مڑ بھی جاؤں ۔۔۔”
بابا سائیں نے روتے ہوے راحیلہ کے اگے ہاتھ جوڑے ۔۔۔
۔
ادھر سے اچانک شاداب خان کا چھوٹا بھائی ارباز خان پستول لے کر آ گیا ۔۔۔
” بہت هو گیا تماشا ۔۔۔
ہمآرے گھر کی عزت ہے راحیلہ ۔۔۔
اگر یہ ہماری عزت کو اچھال سکتی ہے ۔۔۔
تو اسے بھی نهی حق زندہ رهنے کا ۔۔۔۔۔۔”
ارباز خان غصّے میں کہا ۔۔
اور گولی چلا دی ۔۔۔
ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔۔۔
” اچانک راحیلہ کی چیخ سنای دی ۔۔۔
کوئی تھا جو زمین پر بیٹھتا چلا گیا ۔۔۔۔
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...