” آج جلدی آ جانا آفس سے ۔۔۔
مجھے مارکیٹ جانا ہے کچھ ضروری سامان لینا ہے گھر والوں کیلئے۔۔۔
کچھ چیزیں ہیں اس لیے جلدی آ جانا تم اکٹھے چلیں گے پھر ۔۔۔”
تامی ناشتہ کر رہا تھا جب راحیلہ بیگم نے نیا حکم صادر کیا ۔۔۔
“لیکن موم!!
آپ جانتی ہیں مجھے شاپنگ میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔
اور نہ ہی چیزیں لینے کا پتہ ہے اس لیے آپ خود ہی چلی جایں ۔۔۔”
تا می ہاتھ صاف کرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
“تامی !!
میں نے پوچھا نہیں ہے تمہیں ۔
۔بلکہ بتایا ہے مطلب اگر میں نے جلدی آنے کا کہا ہے تو آنا ہے تمہیں۔۔۔
میں کچھ نہیں سن رہی ۔۔۔
دن بہ دن تمہارے نخرے آسمان کو چھوتے جارہے ہیں ۔۔۔
کوئی بات کہو میں سختی سے تب تک تمہیں سنتا ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
میں پھر سے وارن کر رہی ہوں ۔۔۔
بندوں کی طرح رہا کرو۔۔۔
مجھے مشورہ نہ دیا کرو ۔۔۔۔”
راحیلہ بیگم نے صبح صبح ہی ابتسام کے جواب دینے پر اس کی کلاس لی۔۔۔۔
اتنا لمبا لیکچر سن کر ابتسام کا منہ بن گیا۔۔۔
“موم آپ کو کیا ہوتا جارہا ہے؟؟
آپ نے پاکستان جانا ہے یا کہاں پر جانا ہے ۔۔۔
اب تو بات بات پر میری عزت افزائی کر ڈالتی ہیں۔۔۔
پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا ۔۔۔
آپ نے کبھی مجھے ڈانٹا تک نہیں تھا ۔۔۔
اور اب میں تھوڑی سی بھی بات کہوں۔۔ آپ مجھے ڈانٹ کے رکھ دیتی ہیں ۔۔😑۔
یہ اچھی بات نہیں ہے ناں ۔🙁۔۔”
ابتسام نے دکھی ہوتے ہوئےمظلوم ہونے کی ایکٹنگ کی ۔۔۔
“جی بیٹا حضور!! میں بہت اچھے سے جانتی ہوں جتنے تم معصوم ہوناں ۔۔
اور اگر پہلے ہی تمہارے ایسے کان کھینچ کر رکھے تھے ۔۔۔
تو آئے تو آج اتنے بگڑے ہوئے نہ ہوتے۔😡👋۔۔۔”
راحیلہ بیگم نے کن اکھیوں سے تامی کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” استغفراللہ۔۔۔😥 موم
میں کب بگڑا ہوں ؟؟
اتنا معصوم سا ۔۔۔ شریف سادہ سا بچہ ہوں ۔۔
اور فرما بردار بھی ۔”
۔تامی نے معصوم بننے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
ایسی ایکٹنگ دیکھ کرراحیلہ بیگم کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔۔
” موم اپ مذاق اڑا رہی ہیں😥😥۔۔
That’s not fair …”
ابتسام نے کہا ۔۔۔
” اچھا بس صبح صبح زیادہ ہوگئی ہے۔۔۔😂 چلو اب اٹھ جاؤ اور جلدی آ جانا پھر اکٹھے شاپنگ پر چلیں گے ۔۔۔”
راحیلہ بیگم نے اپنی ہنسی دبا کر کہا ۔۔۔
“اوکے ملکہ عا لیہ 😘😘!!”
تا می نے رحیلہ بیگم کو گلے سے لگا کر پیار سے بولتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور پھر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔۔۔
راحیلہ بیگم ابتسام کو دروازے تک چھوڑ کے آنے کے بعد باقی کام کرنے میں مصروف ہو گی ۔۔۔
##########
” چلو آؤ ہم اندر چلتے ہیں۔۔۔
ڈرائیور خود ہی سامان اٹھا کر لے آئے گا ۔۔۔”
مانو نے رامین کا ہاتھ پکڑے دروازے سے اندر جاتے ہوئے بولا ۔۔۔
“اچھا تم ہاتھ تو چھوڑو میرا۔۔
میں کونسے بھاگی جا رہی ہوں😒۔۔
تمہارے گھر آ تو گئی ہوں ۔۔۔
ابّ تو چھوڑ دو۔۔ کیا چھوٹے بچوں کی طرح میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے۔۔۔”
رامے نے مانو کو خجل ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
کیونکہ مانو نے ابھی تک رامین کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔۔
جیسے وہ ابھی بھاگ جائے گی۔۔
“چپ کرکے میرے پیچھے آؤ۔۔۔ تم سے پوچھا نہیں ہے میں نے مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔۔ اس لئے خاموش اور چپ چاپ میری ہدایت پر عمل کرو ۔۔۔😡😡”
مانو بڑی ماؤں کی طرح ہاتھ پکڑ کر آگے چلتی ہوئی بولی ۔۔
مانو کا آس طرح اپنا ہاتھ پکڑے ہوئے دیکھ کر رامین کو اپنے بچپن کی یاد آگئی۔۔۔
بچپن میں بی خانم بھی رامین کا ہاتھ ایسے ہی پکڑ کر اسے اسکول تک چھوڑ کر آتی ہوتی تھی۔۔
اور واپسی پر بھی ایسے ہی لے کر واپس جاتی ہوتی تھی ۔۔۔
اس لیے ایسے ہاتھ پکڑا دیکھ کر رہا رامین کی انکھوں میں آنسو آ گے ۔۔۔
جس کو اس نے بمشکل کنٹرول کیا ۔۔۔
” ماما!!
ماما کدھر ہیں آپ ادھر تو آئیں۔۔”
مانو گھر میں داخل ہوتے ہی زور زور سے ماما کو آوازیں دینے لگ گئی ۔۔۔
“اف لڑکی!!
حوصلہ!! کیا ہوگیا ہے؟؟
کون سا طوفان آگیا ہے جو ایسے چلا رہی ہو:”
زاہدہ بیگم کچن سے باہر آتے ہوئے بولی ۔۔۔
“ماما!
یہ دیکھیں۔۔ میں کس کو ساتھ لے کر آئی ہو ۔۔”
مانم نے را مین کا ہاتھ چھوڑ کر ماما کی طرف چلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” ارے واہ ۔۔
رامین ھی ہوسکتی ہے۔۔
کیونکہ کل رات سے تم نے میرے کا ن بول بول کر پکا دیئے ہیں۔۔
اس لئے مجھے پتا ہے ۔۔”
زاہدہ بیگم رامین کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
“السلام علیکم آنٹی ۔۔”
رآمے نے آگے بڑھ کر آنٹی سے گلے ملیں اور سلام کیا ۔۔۔
” وعلیکم السلام۔۔
کیسی ہو بیٹا ۔۔۔”
زاہدہ بیگم نے نہایت شائستگی سے جواب دیا ۔۔۔
“الحمدللہ ۔۔😍
اللہ کا شکر ہے آپ سنائیں۔۔”
رامین نے پوچھا ۔۔۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد
زاہدہ نے مانو اور رامین دونوں کو فریش ہونے کے لئے کمرے میں بھیج دیا ۔۔۔۔
تب تک خود کچن میں چلی گئی تاکہ ناشتہ کی تیاری کرسکیں ۔۔۔
” یہ دیکھو۔۔
را مے یہ ہے میری سلطنت ۔۔۔”
مانو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے رامین سے بولی ۔۔۔
رامین نے کمرہ دیکھا۔۔۔۔
کمرہ نہایت سادگی خون نفاست سے سجا ہوا تھا ۔۔۔
دو سنگل بیڈ ۔۔
ایک سٹڈی ٹیبل ۔۔۔
اٹیچ باتھ روم ۔۔۔جہاں پر مانو نے رامین کی ضرورت کی تمام اشیاء رکھ دی تھی ۔۔۔
روم میں لائٹنگ سسٹم رامین کو بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔
“چلو تم فریش ہو جاؤ ۔۔۔
پھر ہم لوگ ناشتہ کر کے یونی چلیں گے ۔۔۔۔
پھر واپسی پر آر باقی کی سیٹنگ کر لیں گے ۔۔۔”
مانو نے پورا پلان ترتیب دیتے ہوئے کہا ۔۔
” اوکے ”
اور رامے فر یش ہونے چلی گئی ۔۔
جبکہ مانو نیچے زاہدہ بیگم کی طرف چلی گئی ۔۔
تاکہ کچن میں جا کر ان سے رآمے کے بارے میں کمنٹ سن سکے ۔۔۔
#########
“آج تم جلدی جا رہے ہو گھر واپس ۔۔۔
خیر تو ہے ”
زین نے تامی کو اپنا کام سمیٹتے ہوئے دیکھ کر شرارت سے کہا ۔۔۔
” فضول بکو اس کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔
موم صبح حکم صادر فرمایا تھا کہ۔۔
جلدی آجاؤ گھر پھر ہم شاپنگ پر چل سکیں۔۔۔
اس لیے اب میں ان کا حکم بجا لا رہا ہوں۔۔۔
ادر وائز تم جانتے ہو نہ تھوڑی سی دیر پر میری کیا سے کیا عزتافزائی ہو سکتی ہے ۔۔۔”
تامی نے زین کو آنکھ مار کرکہا ۔۔۔۔
” اہاہاہا۔۔
ہاں بیٹا سمجھ سکتا ہوں تیرے جذبات ۔۔۔
آج کل میں بھی نوٹ کر رہا ہوں بات بات پر تیری بڑی عزت ہو رہی ہے ۔۔۔
ابھی تو انگلینڈ میں ہو۔۔
جب پاکستان جآؤ گے تب آنٹی تمہارا سوچو کیا حال کریں گی ۔۔۔”
زین نے ہنستے ہوئے تامی کو مستقبل کا خا کہ دکھا یا ۔۔۔۔
” بندے کا منہ اچھا نہ ہو تو بات ہی اچھی کرلیں ۔۔۔
لیکن تم سے اس کی بالکل بھی امید نہیں کی جاسکتی ۔۔۔
انتہائی گھٹیا قسم کے۔۔۔ اعلی درجے کے کمینے دوست ہو ۔۔۔
بجائے اس کے کہ تم میری حوصلہ افزائی کرو۔۔۔
تم مجھے ہی باتیں سنا رہے ہو۔۔۔۔
بیٹا تم مجھے مس کروگے۔۔ یاد کرو گے میرے جیسا انتہائی سادہ شریف انسان دوست۔۔۔”
تامی نےفائل ٹیبلپر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” اچھا مذاق کر رہا تھا سیریس نہ لیا کرو فضول میں ۔۔۔
چڑی جتنا دل ہے ۔۔۔
میں چیک کر رہا تھا کتنے پانی میں ہے۔۔”
زین نے شرارت سے کہا ۔۔۔
بات سن کرا بتسام فائل کو چھوڑ کر زین کو مارنے کے لئے دوڑا ۔۔۔
لیکن زینتامی کا ارادہ پہلےجان چکا تھا اس لیے وہ فورا ہی دروازے سے چھلانگ مار کر نکل گیا۔۔۔
پیچھے سے ابتسام دل ہی دل میں گالیوں سے نوازتا رہا ۔۔۔
جلدی جلدی اپنا کام کرنے لگا ۔۔۔۔
تاکہ گھر جلدپہنچ سکے ۔۔۔
########
” جی تو ماما بتائیں ۔۔۔
آپ کو اور رامین کیسی لگی ؟؟”
مانو زاہدہ بیگم سے لپٹ کر بولی ۔۔۔
” مانو تنگ نہیں کرو ۔۔۔
کام کرنے دو۔۔ ناشتہ بنا رہی ہوں۔۔۔”
زاہدہ بیگم نے مانو کو کہا۔۔۔
” ماما بتائیں نا ۔۔پلیز ۔۔۔
رامے کیسی لگی آپ کو ۔۔۔”
مانو پرجوش طریقے سے زاہدہ بیگم سے پوچھیں جا رہی تھی ۔۔۔
” اچھی لڑکی ہے ۔۔۔
۔۔سلجھی ہوئی ۔۔کسی اچھے خاندان کی لگ رہی ہے۔۔۔”
زاہدہ بیگم نے کہا ۔۔۔
” دیکھا نا میں نے کہا تھا۔۔۔
آپ کو رآمے اچھی لگے گی۔۔
آخر دوست کس کی ہے ۔۔”
مانو نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔
” چلو اب جاکے منہ دھو لو اور رامین کو بھی بلا لو پھر ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔”
زاہدہ بیگم نے پراٹھا بناتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور مانو اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...