ہر ایک اسم چند الفاظ کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے۔ اصطلاحِ فصحا میں ان افعال کو ’صلہ‘ کہتے ہیں۔ بعض صلے تو روزمرہ میں داخل ہیں جیسے روٹی کھانا، پانی پینا، کپڑے پہننا اور بعض اصطلاح بن گئے ہیں جیسے تصویر بنانا کو لوگ تصویر کھینچنا بولتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصطلاحاً کھینچنا کو بنانا کے معنی پر استعمال کیا ہے۔ لغت میں کھینچنا کے معنی بنانا کے نہیں ہیں۔ کھینچنا کے معنی پر رعایتاً لے لیا ہے اور خاص سے عام تک اسی طرح بولنے لگے۔ اس لیے ان نئے معنوں کا نام ’’اصطلاحی معنی‘‘ رکھا گیا۔
اصطلاح کے ساتھ جو جملہ آتا ہے اُس کو ’’مُحاوَرَہ‘‘ کہتے ہیں۔ محاورے کے پہچاننے کا عمدہ قاعدہ یہی ہے کہ ہم جملے کے فعل کو دیکھیں۔ اگر فعل اپنے لغوی معنی پر صرف نہیں ہوا ہے اور کسی دوسرے فعل کے معنی پر بولا گیا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قطعی محاورہ ہے۔ شاذ و نادر محاورے ایسے ہیں جن کے فعل اپنے لغوی معنی میں صرف ہوئے ہیں، لیکن ان میں ایک قصہ طلب بات پوشیدہ رہتی ہے۔ جیسے اس کا مارا پانی نہیں مانگتا۔ اس کے لفظوں کے لغوی معنی تو یہ ہوئے کہ اس کا مارا ہوا آدمی پانی طلب نہیں کرتا۔ مگر اس میں ایک پوشیدہ معنی ہیں جس کے سبب سے سب لوگ اُسے محاورہ کہتے ہیں۔ یعنی قیاس یہ کہتا ہے کہ جب آدمی کی حالتِ نزع ہوتی ہے اور دم نکلنے لگتا ہے تو اُسے اس وقت بہت پیاس معلوم ہوتی ہے اور پانی مانگتا ہے۔ یہاں پر پانی مانگنا دم نکلنے کے وقت پانی مانگنا کے معنوں میں صرف ہوا ہے۔ اِس سے ہم اِس کو مُحاورہ کہتے ہیں۔ اس جملے کے پورے معنی یہ ہوئے کہ جس کو وہ مارتا ہے وہ فوراً مر جاتا ہے۔ اُسے اتنی بھی مہلت نہیں کہ دم نکلنے کے وقت پانی مانگے۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ محاورے کی پہچان یہ ہے کہ اُس کے افعال اپنے لغوی معنی میں نہ ہوں اور اصطلاحی معنی میں صرف ہوئے ہوں، اور اگر لغوی معنی میں صرف ہوئے ہوں تو وضاحت معنوی اور تاویل میں لغوی معنی سے کچھ زیادہ ہوں۔ اس لیے محاورے کے پہچاننے کے لیے افعال کے اصطلاحی معنی کا جاننا ضروری ہے۔ اور یہ افعال جب ایک اسم سے مل کر اپنے نئے معنی مستعمل ہوتے ہیں تو ان کو صلہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں صلے محاورے کی بنیاد ہیں۔
قاعدہ: بعض صلے اِسم کے ساتھ مل کر اسم صفت بن جاتے ہیں اور وہ بھی محاورے میں داخل ہیں۔ جیسے آنکھ لگنا مصدر مرکب ہے۔ اس کے معنی اصطلاحی سونا ہیں۔ میری ابھی آنکھ لگ گئی تھی کہ تم نے جگا دیا۔ رات بھر آنکھ سے آنکھ نہ لگنے پائی۔ بیمار کی ذرا آنکھ لگ جائے تو صحت کی نشانی ہے۔ بچہ آنکھ لگتے ہی چونک پڑا۔ اتنا شور و غل تھا کہ آنکھ لگنا مشکل ہو گیا۔ آنکھ لگا مرد آنکھ لگی عورت اسم صفت ہے۔ مرد و عورت موصوف ہیں۔ اس کے معنی آشنا کے ہیں۔ یعنی ناجائز واسطہ جو شادی بیاہ سے نہ ہو۔ بلکہ محض آشنائی سے ہو۔
لگنا
ہاتھ لگنا مصدر لازم ہے۔ اس کے معنی لغوی چھو جانا کے ہیں۔ دیکھو خبر دار ہاتھ نہ لگنے پائے، نہیں تو تصویر کا روغن اڑ جائے گا۔ محاورے میں اس کے معنی دستیاب ہونا کے ہیں۔ کوئی اصیل مرغ ہاتھ لگے تو ہم کو دکھانا۔ رونے لگنا بھی محاورہ ہے، اس کے معنی رونا شروع کرنا۔ باپ کے مرنے کا حال سنا تو بیٹا زار زار رونے لگا۔
کانٹا لگنا: کانٹے کا بھنک جانا۔ چلتے چلتے پاؤں میں اس زور سے کانٹا لگا کہ وہ اف کر کے بیٹھ گیا۔
روٹیاں لگنا: بے پروائی کرنا۔ اب ایسی روٹیاں لگیں کام کرنے سے جی چُراتے ہو۔
چوری لگنا: چوری کا الزام اپنے اوپر عائد ہونا۔ ہم پہلے سے جانتے تھے کہ ایک دن چوری ضرور لگے گی۔
چھت سے آنکھیں لگنا: مرنے کے قریب ہونا۔ چار دن کے بخار میں چھت سے آنکھیں لگ گئیں۔
چارپائی سے لگنا: بیمار پڑنا۔ رات دن کی سوختی نے چارپائی سے لگا دیا۔
شروع ہونا کے معنی پر جیسے آج سے منگل لگا ہے۔ کل سے بدھ لگے گا۔
پانی لگنا: پانی کا نقصان کرنا۔ ریخیں کھل گئی ہیں۔ اس سبب سے دانتوں میں پانی لگتا ہے۔ کلکتہ کا پانی لگ گیا تو بیمار ہو کر گھر چلا آیا۔
گرمی لگنا: گرمی معلوم ہونا۔ مجھے گرمی بہت لگتی ہے۔
بُرا لگنا: بُرا معلوم ہونا۔ میں نے جو کہا تو بہت برا لگا۔
دھبّا لگنا: الزام آنا، دامن آبرو پہ دھبّا لگ گیا۔ آپ کا کیا گیا، ہماری عزت میں دھبا لگ گیا۔
مُنہ لگنا: برابری کرنا۔ میرے منہ نہ لگو ورنہ ساری آبرو خاک میں ملا دوں گا۔
بھوک لگنا: اشتہائے طعام معلوم ہونا۔ کہنے لگا مجھے تو اس وقت شدت سے بھوک لگی ہے۔
ٹھٹھ لگنا: بھیڑ ہونا۔ میلے میں آدمیوں کا ٹھٹھ لگا ہوا تھا۔
چھٹنا
چھٹنا مصدر لازم ہے رِہا ہونے کے معنی پر۔ اور چھوٹنا بھی اسی معنی پر مصدر لازم ہے۔ اصطلاح میں اُس کے معنی اور بھی ہیں جیسے نبضیں چھٹنا، نبض کی حرکت بند ہونا:
نبض میری دیکھ کر نبضیں طبیبوں کی چھٹیں
بے مرض مرنے لگے کیونکر یہ حکمت کے خلاف
انار چھٹنا: آتشبازی کے انار کا جلنا۔ رات کو انار چھٹا تو وہ ڈر گیا۔
نوکری چھٹنا: برطرف ہونا، معزول ہونا۔ برسوں کی نوکری بات کی بات میں چھُٹ گئی۔
جان چھٹنا: جان بچنا۔ اس مرض سے جان چھٹتے معلوم نہیں ہوتی۔
سستے چھٹنا: معاملے کا بہ آسانی طے ہونا۔ دو چار روپے دے دلا کر جان بچ جائے تو سمجھیں کہ سستے چھٹے۔
طوطے چھٹنا: حواس جاتے رہنا۔ یہ خبر سنتے ہی اُس کے ہاتھوں کے طوطے چھٹ گئے۔
قاعدہ: محاورہ اور کنایہ میں فرق ہوتا ہے۔ محاورے میں مصدر کے اصطلاحی معنی لیے جاتے ہیں اور کنایہ میں نہ اصطلاحی معنی ہوتے نہ لغوی۔ بلکہ ان کا مطلب لفظوں کے خلاف ہوتا ہے۔ جیسے اُلٹنا کے معنی اُلٹا کرنے کے ہیں۔ آستین الٹنا، اس کے لغوی معنی آستین کو الٹنا یعنی الٹا کرنے کے ہیں۔ لیکن کنایہ میں مراد ہے لڑائی کے لیے مستعد ہونے سے۔ وہ تو بات بات پر آستین الٹنے لگتا ہے یعنی جنگ کے لیے مستعد ہو جاتا ہے:
منظور عاشقوں کا اگر امتحان ہے
پھر دیر کیا ہے میان سے لے آستین اُلٹ
اٹھنا
اٹھنا: کھڑا ہونا۔ مصدر لازم ہے، میں اٹھا تو وہ بھی اٹھے۔
اچار اٹھنا: اچار کا پک جانا۔ تیار ہو جانا۔ دھوپ دکھانے سے چار دن میں اچار اٹھتا ہے۔
اٹھنا: رونے لگنا۔ جب ماں یاد آتی ہے تو بچہ رو اٹھتا ہے۔
گھبرا اٹھنا: گھبرا جانا۔ جب کام کرتے کرتے دل گھبرا اٹھتا ہے تو دو گھڑی باغ میں ٹہلنے نکل جاتا ہوں۔
قیمت اٹھنا: دام لگنا۔ بازار میں جو قیمت اٹھے وہ میں بھی دوں گا۔
آنکھیں اٹھنا: آنکھوں میں درد ہونا۔ مرزا کی کل سے آنکھیں اٹھی ہیں۔
پھوڑنا
پھوڑنا مصدر متعدی ہے۔ اس کے معنی توڑنا کے ہیں۔ احمد نے رات کو رستم کا سر لکڑی سے پھوڑ ڈالا۔ لیکن محاورے میں اس کے معنی بدل جاتے ہیں۔ جیسے کلّو نے للّو کا بھانڈا پھوڑ دیا یعنی راز فاش کر دیا۔ میں نے لاکھ سر پھوڑا، اس نے ایک نہ مانی۔ یعنی میں نے بہت سمجھایا۔
بٹھانا
بٹھانا متعدی ہے ؏
محفل میں مجھے رات کو یاروں نے بٹھایا
قرق بٹھانا: رعب بٹھانا، حکومت کرنا کے معنی پر بولتے ہیں۔ وہ حق ناحق اپنا قرق بٹھاتے ہیں۔
گٹا بٹھانا: گٹا جوڑنا۔ کمان گَرنے دم بھر میں گٹا بٹھا دیا۔
گھر بٹھانا: کسی کو گھر میں ڈال لینا۔ راجہ نے ایک بازاری عورت کو گھر بٹھایا۔
کرنا
کرنا متعدی ہے۔ اس کے ساتھ تمام فارسی عربی الفاظ یا افعال مل کر مصدر متعدی بن جاتے ہیں۔ جیسے قبول کرنا، معلوم کرنا، گفتگو کرنا۔ لیکن بعض موقع پر کرنا کے معنی بدل جاتے ہیں۔ جیسے کان میں قُو کرنا۔
لڑکے نے چار دن میں اپنے کپڑے گو کر دیے، یعنی میلے کر دیے۔ میں نے کہا ذرا پھونک ڈال دیجیے، آپ نے دور سے چھو کر دیا یعنی پھونک ڈال دیا۔ رات کو چاروں قل پڑھ کر اپنے اوپر دم کیے یعنی پھونکے۔
تم نے میرے بچے کو ناحق شل کیا یعنی تھکایا۔
کلیل کرنا: جانور کا خوش ہو کر کودنا۔ بچھڑا کھیت میں کلیل کر رہا تھا۔
جب یہ معلوم ہو چکا کہ اکثر صلوں سے محاورے بنتے ہیں اور صلہ ہمیشہ لغوی معنی کو چھوڑ کر اصطلاحی معنی میں صرف ہوتا ہے، ہم اب بعض مخصوص صلوں کے جملے لکھتے ہیں:
ڈھڈھانا: ہوا ہونا۔ ہر درخت ڈھڈھا رہا تھا۔
منھ سے پھوٹنا: بولنا۔ کچھ تم بھی منھ سے پھوٹو۔
ناک چنے چبوانا: پریشان کرنا۔ برسوں اس نے ناک چنے چبوائے۔ میں نے منھ سے اف نہیں کی۔
پاؤں کی بیڑی کٹ جانا: بے فکر ہو جانا، آزاد ہو جانا۔ ایک بڈھا باپ باقی تھا۔ جب اس کا بھی انتقال ہو گیا تو پاوں کی بیڑی کٹ گئی۔
انگلیوں پر نچانا: ہنسنا بنانا۔ کل کے لونڈے اسے انگلیوں پر نچاتے ہیں۔
نہٹا لگنا: ناخن چبھنا۔ ہنسی ہنسی میں ناک پر نہٹا لگ گیا۔
اجیرن ہونا: دوبھر ہونا۔ دو دن کی زندگی اجیرن ہو گئی۔
ایڑیاں رگڑنا: مصیبت جھیلنا۔ نوکری کے واسطے اس نے برسوں ایڑیاں رگڑیں۔
کوڑی پھرنا: صلاح ہونا۔ شہر کے سوداگروں میں کوڑی پھر گئی کہ ان سے معاملہ نہ کرو۔ میں نے جھٹ بمبئی کو آڈر بھیج دیا۔
دیکھ بھال کرنا: جانچ لینا۔ اپنے اسباب کی دیکھ بھال کر لو۔
سر اٹھانا: غرور کرنا۔ جس نے سر اٹھایا، اُس نے نیچا دیکھا۔
دانوں میں پھُکنا: پھنسیوں کا بدن پر نکل آنا۔ بچہ سر سے پیر تک دانوں میں پھکا ہے۔
سر میں دھمک ہونا: سر میں درد ہونا۔ رات سے میرے سر میں دھمک ہوتی ہے۔
کوپل بھوٹنا: کوپل کا نکلنا۔ کوپل پھوٹنے کے پیشتر ہی سے پودے آپس میں ملتے رہے ہیں۔
بہرہ مند ہونا: فائدہ اٹھانا۔ اگر ہم سامعۂ باطنی سے بہرہ مند ہیں تو ہمیں وہ تمام مظہر دکھا دیے جائیں گے۔
نشر ہونا: بدنام ہونا۔ ایسی باتوں سے سارے عالم میں نشر ہو جاؤ گے۔ پھر کوئی بات نہ پوچھے گا۔
ٹالے بالے دینا: برسوں ٹالے بالے دیا کیے۔
اظہار دینا: اپنا حال عدالت میں یا پولس میں ظاہر کرنا۔ جو اظہار پولیس میں دیے تھے وہی عدالت میں بھی دیے۔
حواس باختہ ہونا: حواس جاتے رہنا۔ یہ سن کر میرے حواس باختہ ہو گئے۔
آبرو بیچنا: آبرو ضائع کرنا۔ آبرو بیچ کے ٹکڑا فقرا لیتے ہیں۔
منھ آنا: برا کہنا
اب تو ہر بات میں منھ آتے ہو مجھ پر ایسا
لوگ دانتوں میں زباں اپنی دبا لیتے ہیں
پیش قدمی کرنا: شروع کرنا، آگے جانا ؏
پیش قدمی رفقا کر گئے تو کیا غم ہے
اندھیر کرنا: زبردستی کرنا، ظلم کرنا، لوٹنا۔ اتنا اندھیر نہ کرو، دال میں نمک کھایا کرو:
مشک کافور خجالت سے ہوا جاتا ہے
اتنا اندھیر نہ گیسوئے سیہ فام کریں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں: بیکار ہیں، آج کل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔
وردی بولنا: دلیل کرنا۔ خلاف وقت نوکری لینا:
کیا رموزِ عشق کہتا میں فرشتے ساتھ تھے
بحر وردی کل یہ ہرکارے مقرر بولتے
پاؤں سوجنا: پاؤں کا سُن ہو جانا۔
؏ سو جائیں اگر پاؤں تو راحت نہیں ہوتی۔
پالا پڑنا: سابقہ پڑنا، معاملہ ہونا۔ ابھی ان کو مجھ سے پالا نہیں پڑا، ورنہ سب تین پانچ بھول جاتے۔
پھٹ پڑنا: ٹوٹ جانا۔ کل ایسی آندھی آئی تھی کہ صدہا درخت پھٹ پڑے۔
موس لینا: چُرا لینا، لوٹ لینا۔ دوستوں نے مل کر مجھے موس لیا۔
اداسی ٹپکنا: مایوسی ظاہر ہونا۔ در و دیوار سے اداسی ٹپک رہی تھی۔
پرندہ پر نہیں مار سکتا: یعنی کوئی نہیں آ سکتا۔ رات دن پہرہ رہتا ہے، پرندہ پر نہیں مار سکتا۔
دور دورا ہونا: عروج ہونا۔ آج کل سرکار میں خاں صاحب کا بہت دور دورا ہے۔
پھوٹ پھوٹ کے رونا: زار زار رونا۔ اتنا کہنے پر وہ خوب پھوٹ پھوٹ کے رویا۔
آنکھ سے گر جانا: حقیر ہو جانا۔ ایسی باتیں کرو گے تو دنیا کی آنکھ سے گر جاؤ گے۔
اپنی ٹکر کا سمجھنا: اپنے برابر کا سمجھنا۔ کیا مجھے اپنی ٹکر کا سمجھ لیا ہے۔
کبھی تو میری انٹی پر چڑھو گے یعنی قابو میں آؤ گے۔
میں تو ان کا دوست ہوں لیکن وہ ہمیشہ میری جڑ کاٹا کیے۔ یعنی مجھ کو نقصان پہونچایا کیے۔
دونوں کبوتر دم بھر میں تارا ہو گئے یعنی بلند ہو گئے۔
آدھی رات کو چراغ گل ہو گیا یعنی بجھ گیا۔
طلبا کو مَطب میں تین برس تک حکیم صاحب کی چلمیں بھرنا پڑتی ہیں یعنی خدمت کرنا پڑتی ہے۔
میرے کہنے سے کیوں مرچیں لگتی ہیں یعنی کیوں بُرا معلوم ہوتا ہے۔
نواب صاحب کی آنکھ بند ہونے کے بعد گھر تباہ ہو جائے گا یعنی مرنے کے بعد۔
ناک چوٹی میں گرفتار ہونا: وہ خود اپنی ناک چوٹی میں گرفتار ہے یعنی اپنے بچوں سے فراغت نہیں۔
ان لگنا: پچنا، ہضم ہونا۔ کیسی ہی نعمت کھاؤ، اَن نہیں لگتی۔
کٹ جانا: گزر جانا۔ سارا دن کٹ گیا اور تم نہ آئے۔
دَرّانہ جانا: نڈر جانا:
لحد میں میہمانِ دہر یوں جاتے ہیں درّانہ
مکان میں اپنے جیسے کوئی صاحب خانہ آتا ہے
قدم لینا: قدم چومنا۔ تم نے وہ کام کیا ہے کہ تمہارے قدم لے۔
کام چلنا: کام نکلنا۔ ان سے کسی کا کام نہیں چلتا۔
آڑے آنا: کام آنا۔ میرے آڑے تیری رحمت آئی۔
چوٹ آنا: چوٹ لگنا۔ کوٹھے سے گر پڑا، ٹانگ میں بہت چوٹ آئی۔
جھرمٹ کرنا: بھیڑ لگانا۔
جھُرمُٹ درِ میخانہ پہ میخوار کریں گے۔
سری ٹیک کرنا: خوشامد کرنا۔ ان کو غرض ہو گی تو سو دفعہ سری ٹیک کریں گے۔
انگشت نما ہونا: بدنام ہونا۔ ایسے کام کیے کہ ساری دنیا میں انگشت نما ہوا۔
لا سخن سنانا: سخت بات کہنا:
الٰہی یہ کیسا بت بے دہن ہے
سناتا ہر اک بات پر لا سخن ہے
آواز بیٹھ جانا: آواز بند ہو جانا۔ چیختے چیختے آواز بیٹھ گئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
کج ادائی کرنا: بے مروتی کرنا۔ اب تو بات بات پر وہ کج ادائی کرتے ہیں۔
خود بین ہونا: مغرور ہونا۔ وہ بڑا خود بین ہے۔