عبدالرب استاد(گلبرگہ)
اٹل ٹھکر نے اردو ادب میں جہاں ایک ڈرامہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت بنالی وہیں وہ ایک افسانہ نگاراور ناول نگار کے طورپر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اٹل ٹھکر نے ابتدائی تعلیم گوکہ گجراتی زبان میں حاصل کی مگر وہ اردو سے ایسے جڑے رہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اردو ان کی زبان نہیں، بلکہ وہ خود ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں ( اس میں قطعی تامل نہیں کرتے) کہ اردو ان کی مادری زبان ہے۔ ان کے علاوہ انگریزی، کنڑی، ہندی پنجابی زبانوں سے واقف ہیں اور صڑف زبان کی حدتک نہیں بلکہ ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے ان کی تخلیقات میں معاشرے اور اس میں ہونے والی اتھل پتھل کے واقعات ملتے ہیں، ان کے مسائل پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ انہی مشاہدات اور تجربات کو کبھی ڈرامہ کے ذریعہ، کبھی افسانے اور کبھی ناول میں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنی زبانوں کو جاننے والا یہ تخلیق کار اپنے فن کے اظہار کے لئے اسی شیریں زبان یعنی اردو کو وسیلہ بنالیا۔
اٹل ٹھکر اسٹیج کی دنیا سے جڑا ہوا فنکار، ہدایتکار اور اداکار ہے۔ کئی ایک ڈراموں کو انہوں نے خود اسٹیج بھی کیا،۔ انگریزی اور کنڑی زبان کے معروف ادیب اور آرٹسٹ، مشہور زمانہ عالمی فنکار و نیز گیان پیٹھ ایوارڈی جناب گریش کارناڈ (جو کنڑی ہندی فلموں اور ٹی وی سیریلیوں کے ہدایت کار اور اداکار بھی ہیں) کے ساتھ اٹل ٹھکر کے دوستانہ تعلقات نے ان چیزوں کو صیقل کردیا۔ کیونکہ دونوں میں قدر مشترک، اسٹیج، ادب اور مقام رہاہے۔
زیرنظر تصنیف، جس میں چار ڈرامے ہیں۔ ڈرامہ کے متعلق معروف ڈرامہ نگار پروفیسر ریوتی شرن شرماکا یہ خیال ہے کہ: ’’ڈرامہ لکھنے یا پڑھنے کی چیز نہیں بلکہ دیکھنے اور دکھانے کی چیز ہے‘‘۔
ان چاروں ڈراموں کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ انل ٹھکر نے ان کو لکھا نہیں بلکہ دکھایاہے۔ کیونکہ وہ اسٹیج کے فن اور ان کے رموزونکات کی باریکی سے واقف ہیں۔ اسطرح انھوں نے اپنے ان چاروں ڈراموں کی تخلیق کیلئے تخیل کے تانے بانے مافوق الفطرت عناصر یا واقعات سے نہیں جوڑے بلکہ ہماری اپنی جیتی جاگتی دنیا کی حقیقت کو بیان کرنے والے کرداروں سے تخلیق کیاہے۔ وہ دنیا جسے ہم سبھی دیکھ رہے ہیں۔ محسوس کررہے ہیں، جی رہے ہیں اور جوجھ رہے ہیں۔ قاری کو الجھاؤمیں نہیں ڈالا گیا، زبان ادق یا گنجلک استعمال نہیں کی گئی، اس طرح انل ٹھکر نثر میں میرؔ کی سہل ممتنع والی کیفیت پیدا کرلی اور یہی فنکاری ہے۔ سطحی نظر سے پڑھنے والے کو اس میں بظاہر کوئی چیز ہاتھ نہ آئے گی بلکہ اسے وہ تضیح اوقات گردانے گا مگر گہرائی سے اس کا مطالعہ کرے تو اس میں ہماری اردگرد کی دنیا کی حقیقت نگاری نظر آئے گی۔ فقرے، مکالمہ چیست اور برجستہ ہیں جس سے قاری کاتجسس برقرار رہتاہے۔ حالات کی خبر تو اخبار بھی دیتاہے مگر وہ وقتی اثرات مرتب کرتاہے۔ جبکہ فن پارہ دیرپا اثرات چھوڑتے ہوئے آفاقی دروں کو چھوتانظر آتاہے۔ آج یقینا دنیا نے ترقی تو بہت کرلی، سائنٹیفک انداز سے سونچنے اور مشاہدہ کرنے کا رواج بھی عام ہے۔ اس کے باوجود بعض ایسی حقیقتیں یا تلخ حقیقتیں یا تلخ حقیقتیں ہیں جن سے انسان آنکھ نہیں ملاپاتا۔ یہی سب کچھ ان ڈراموں میں ملے گا۔
آج کا انسان مادیت کی زد میں اس قدر آگیاہے کہ وہ کچھ بھی کرگذرنے کو تیار ہے۔ دوسروں کی عزت لینے بھی اور وقت پڑنے پر اپنی عزت وآبرواور ناموس کو داؤ پر لگانے بھی۔ اور جب ان چیزوں سے اس کا جی بھر جائے تو نہ صرف اسے حقیرجانتاہے بلکہ اس سے نفرت بھی کرنے لگتاہے۔ یہ تمام چیزیں اخلاقی قدروں کے زوال کیطرف اشارہ کررہی ہیں۔ بلکہ آج ان نام نہاد لوگوں نے محض مادی اور وقتی فائدے کیلئے اخلاق کی تعریف بھی خودساختہ بنالی ہے، کہ غیراخلاقی کاموں کو اخلاق کا نام دیا، جھوٹ، فریب، دجل، مکاری، ریاکاری، دھوکہ دہی، رشوت وغیرہ وغیرہ کا استعمال جرات مندی سے کرتے ہیں اور کمال ہنرمندی کا نام دیتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا نظر بچا کر بشر کی انساں گناہ کرے اور کمال سمجھے
اسطرح معاشرہ کا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے اور اس افراتفری کے ماحول میں اگر کسی نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش بھی کی تو وہ یکاوتنہا نظر آتاہے اور ان نام نہادوں کی زد میں آجاتاہے۔ اس پر طنز کے تیر، فقروں کے وار ہوتے رہتے ہیں۔ کڑھنے لگتاہے اور دل مسوس کر رہ جاتاہے۔ کیونکہ اس کا ضمیر اسے خاموش بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بھلا ایسے میں ایک فنکار جو حساس طبعیت کا مالک ہوتاہے وہ بپھرجاتاہے، ایسے حالات اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتے، وہ بے کل ہوجاتاہے اوررخ کرتاہے تھیٹرکا، سہارالیتاہے فن پارہ کا، پھر اس کا قلم جنبش کرتاہے، تخیل میں ہیجان پیداہوتاہے اور اپنے انہی خیالات کو صفحہ قرطاس پر بکھیردیتاہے اور پھر یہ الفاظ۔ کبھی ناول کا روپ دھارلیتے ہیں، تو کبھی افسانوی رنگ میں عیاں ہوتے ہیں۔ کبھی اشعار کی شکل میں ڈھل کر نمودار ہوتے ہیں، تو کبھی کرداروں کے ذریعہ مکالماتی انداز میں ڈرامہ کے حوالے سے قاری کے آگے بولتے نظر آتے ہیں۔
ہرشخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں بحیثیت انسان زندگی گزارے اور بحیثیت انسان زندگی گذارنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنے ضمیر کو زندہ رکھے اور اسے مردہ ہونے سے بچائے۔ انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جہاں کہیں بھی، جب کبھی بھی اور جس کسی نے بھی زندہ ضمیری کی بات کی ہے اسے آلام سے گذرنا پڑا، مصیبتیں جھیلنی پڑیں، خود پر جبر کرنا پڑا، شاید اسی کونفس سے جہاد کرنا بتایاگیاہے۔ کیونکہ انھوں نے بادمخالف میں بھی راستبازی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اور شاید ایسے ہی لوگوں نے یہ کہا کہ انسانی ضمیر اگر زندہ ہے تو انسان بھی زندہ ہے۔ وگر نہ اس کی زندگی زندگی نہیں اسلئے خود احتسابی ضروری ہوجاتی ہے۔ بقول شاعر
ٹوٹنے کی آوازیں آرہی ہیں اندر سے دل تو تھا شکستہ ہی اب نہ جانے کیا ٹوٹا
انل ٹھکر نے اپنے ان چاروں ڈراموں کی بنیاد اپنے معاشرے پر ہی رکھی اور اس کا ہیوئی انہی سے تیار کیا۔ اپنے معاشرے کے مسائل اور تبدیلیوں کو پراثر انداز میں پیش کیا۔ اپنے قاری کے ذہن کو جھنجھوڑتا اور مہمیز لگاتاہے اور مطالبہ کرتاہے کہ وہ بھی اپنے اردگرد پر نظر رکھے، قرب و جوار کو بہ نظر غائر دیکھے اور محسوس کرے کہ کس معاشرے میں وہ زندگی گذاررہاہے، کن مسائل سے دوچار ہے اور کس دلدل میں وہ دھنستاجارہاہے۔ اور کن لوگوں سے اس کا واسطہ پڑرہاہے؟جیساکہ کہاگیاہے کہ اس مجموعہ میں چارڈرامہ ہیں اس کی خصوصیت یہ کہ اس کا دیباچہ نامور ادیب و نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا لکھاہوااور سرورق مشہور آرٹسٹ اندرجیت (امروز) کا بنایاہواہے۔
1۔ اکھڑے لوگ:
اس ڈرامہ میں چھ کردار ہیں، جن میں اصل چار کرداروں کے اطراف یہ ڈرامہ گھومتانظر آتاہے۔ ۱)لڑکی، ۲) لڑکا، ۳) عورت ۴) آدمی ، جبکہ دو اور کردار ۵) آدمی ۶) آدمی، اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ سارا ڈرامہ دراصل ایک کھر کی داستان بیان کررہاہے۔ جس میں ماں (عورت)، باپ (آدمی)، بیٹی (لڑکی) اور بیٹا (لڑکا) ہے۔ اور ہر شخص انفرادی زندگی گذاررہاہے۔ گھرہونے کے باوجود ہر شخص اپنی دانست میں اکھڑاہواہے۔ یہ دراصل Westernisationکی دین ہے۔ جہاں Isolated familyکا تصور ملتاہے۔ اس تصور نے ہمارے پورے معاشرے کو، یہاں کی تہذیب کو تہس نحس کردیاہے۔ اور سکون غارت کردیاہے۔ گوکہ اچھی کھاتی پیتی فیملی ہے، جہاں باپ بھی ملازم اور ماں بھی ملازم ہے اور انکے صرف دو اولاد، ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ ہم دوہمارے دو کی تحریک یہ دعویٰ پیش کررہی تھی کہ اولاد کی اعلیٰ تعلیم، ان کے بہتر مستقبل اور عیش و آرام کی زندگی اسی سے ممکن ہے۔ مگر اس کے پس پردہ جو برائیاں کام کررہی ہیں، یامعاشرہ میں ایک ناسور کی شکل اختیار کررہی تھیں اور کرگئی ہیں ان کو ایک فنکار کی حساس طبعیت نے گرفت کرلیااور اس ڈرامے کے ذریعہ عوام کو یا اپنے قاری اور ناظر کو بتادیا۔ کہ آج کا انسان طمع کے دلدل میں کس حدتک دھنس گیاہے اور محض وقتی خوشی کی خاطر اپنے سکون کو اور اپنی آبرو کو بھی داؤ پر لگادیا۔ کے باپ جو انجینئرہے، اپنے پرموشن کے لئے اعلیٰ عہدیداروں کی ہر خواہش کی تکمیل کرنے کی خاطر اس نے اپنی عزیز ترین شئے کو بھی داؤ پر لگادیا۔ اور (عروج بالفروج)جیسے تیسے پرموشن حاصل کرلیا۔ اپنے مقصد میں کامیابی تو حاصل ہوئی مگر اس کے ضمیر پر ایک بوجھ آن پڑا۔ اس کو اب بجائے سترمندگی سے جھیلنے کے اس نے جس شئے کا استعمال کیا تھا سی کو دوستی قرار دیتے ہوئے ہر وقت اس پر طنز یہ جملے اور فقرے کسنا شروع کیا۔ حالانکہ وہ(بیوی) محض (شوہر) اس کی خوشی کی خاطر اپنے آپ کو اور اپنی آبرو کو کسی اور کے حوالے کردیاتھا۔ اب اس انجینئر نے اپنی ہی اولاد پر شک کرنا شروع کردیا۔ اسطرح لڑکا اپنے باپ سے چڑنے لگا اور بیٹی جس کی طرف نے ماں کا دھیان تھا اور نہ باپ کی نظر، وہ غلط راستے پر پڑنے لگی۔ برتھ کنٹرول کی گولیاں چپکے چپکے سے بیٹی لے رہی تھی مگر باپ اپنی بیوی پر شک کررہاتھا، کیوں کہ وہ ایک ٹیچر تھی اور سارادن گھر کے باہر رہتی اس طرح شوہر بدگمانی میں مبتلا تھا کہ یہ گولیاں شاید ہی وہی لے رہی ہے۔ مگر…… جب بوں کے سامنے شوہر نے بیوی سے جواب طلبی چاہی تو اس نے صفائی دے دی، عین اسی اثناء میں بیٹی نے منہ کھولتے ہوئے کہا کہ یہ گولیاں وہ لیتی ہے، تب ہی بیٹے نے ماں سے پوچھا کہ کیوں اسے باپ ہمیشہ سور کے بچہ سے مخاطب ہوتاہے۔ اس ماں نے بچوں کو اپنے اپنے کمرے میں جانے کا حکم تو دیا۔ مگر ایک بیوی نے اپنے شوہر سے اپنے ماضی کے متعلق سوال رکھ دیئے کے آیا اس کا اصل ذمہ دار کون ہے۔
اسطرح ڈرامہ نگار نے معاشرے میں ہونے والی اس کیفیت کو پیش کردیا کہ جہاں صرف دولت کمانے عیش و عشرت کی زندگی گذارنے کیلئے مرداور عورت دونوں کام کرنے لگیں تو بچوں کی پرورش کیسے ہو؟ ان کی اخلاقی قدریں ضائع ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ ان مسائل کو بیان کردیا۔
۲) پردہ اٹھاؤ:
اس ڈرامہ میں انل ٹھکر نے انسانی رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے اور سماجی ناہمواریوں کو دکھایاہے۔ کہ انسانی رشتوں میں ایثار اور قربانی نہ ہو تو پھر رشتے برقرار نہیں رہتے۔ انا ایک دوسرے کو لے ڈوبتی اور جداکردیتی ہے۔ ڈرامہ میں ایک ماہر نفسیات معلوم ہوتاہے، کہ ایک شوہر اور بیوی میں جب علاحدگی ہوجاتی ہے اور برسوں گذرنے کے بعد جب اچانک دونوں ایکدوسرے کے مقابل آتے ہیں یا اولاد کی معرفت سامنا ہوجاتاہے تو اس وقت کیا کیفیت ہوتی ہے۔ ان لطیف احساسات اور جذبات پر گرفت کرتے ہوئے برجستہ امکالموں اور چست فقروں سے ڈرامہ میں جان ڈال دی ہے۔ کسی فلاسفر کا قول ہے کہ دنیامیں اکثر رشتے محض اولاد کی خاطر جڑے ہوتے ہیں، کہیں ماں برداشت کرتے ہوئے جی رہی ہوتی ہے، کہیں باپ صبر کرتے ہوئے زندگی گذار رہا ہوتاہے۔ اور اگر یہ دونوں سے بن نہ پائی تو علاحدگی ہوہی جاتی ہے۔ بسااوقات زندگی میں کبھی کبھی ایسا بھی موڑ آجاتاہے کہ دونوں کا نقطۂ اشتراک بھی اولاد ہی بن جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال یہ ڈرامہ پیش کرراہے۔
۳)آپ کیوں روئے: اس متوسط طبقہ سے متعلق یہ کردار ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں۔ جس میں میاں اور بیوی جو ایک دوسرے پر ایثار کرنے والے، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے والے کردار کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ میاں اسکول ماسٹر ہے اور قلیل تنخواہ میں وہ اپنی بیوی کی کفالت کررہاہے۔ مگر دیگر ضروریات کی تکمیل ہونہیں پاتی۔ بالآخربیوی نے شوہر کی اجازت سے نرس ٹریننگ جوائن کرلیتی ہے جہاں سے اسے ہر ماہ اسٹائفنڈ ملتی ہے، مگر وہان اس ٹریننگ میں ان سے یہ عہد لیاجاتاہے کہ وہ ختم ٹریننگ تک ماں نہیں بن پائیں گی۔بہ صورت دیگر وہ سارا اسٹائفنڈ واپس کردینا ہوگا۔ مگر یہ چاہتے ہوئے بھی پنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتے اور بیوی کا جب ٹسٹ کردیا گیا تو وہ +veنکلا۔ اس اثنا میں بیوی کی نفیسات اور مرد کی نفسیات کیا کیا کام کرتی ہے یہ بین السطور میں اور اشاروں اشاروں میں ڈرامہ نگار نے عیاں کردیا۔ کے اسکول ماسٹر کو یہ فکر نہیں ہے کہ اس کی ٹریننگ کو خطرہ ہوگا یا یہ اب کیا سوچے گی۔ بلکہ اسے یہ فکر دامن گیر ہے کہ وہ اسٹائفنڈ کیسے واپس کرے۔ کہاں سے اس کا انتظام ہو۔ اسکے دوست نے یہ مشورہ دیا کہ Abortionیوں نہیں کروادیتے۔ یہاں بھی نفسیاتی کشمکش ہے۔ کہ پہلی اولاد بھلا کوئی کیوں ضائع کردے۔ وہ ہچکچاتاہے کہ کیسے اپنی بیوی سے یہ بات کہہ دے۔ مگر ادھر بیوی نے اپنے طورپر یہ طے کرلیا کہ اسے بہرحال Abortionرواکر ہی اس تکلیف سے نجات حاصل کرتی ہے کہ اس کا شوہر کہاں سے وہ اسٹائی فنڈ واپس کردے۔ چنانچہ وہ خود اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میں Abortionکروانا چاہتی ہوں۔
اس مجموعہ کا چوتھا اور آخری ڈرامہ خالی خانے ہے جو مجموعہ کا ٹائٹل بھی ہے۔ میرے استاد محترم نے یہ واقعہ سنایا تھا کہ جب ڈرامہ نگار اندرجیت کے پاس پہنچے اس کی سرورق کی خاطر توانھوں نے ڈرامہ پڑھے بغیر صرف ٹائٹل سن کر ہی یہ کہاتھا کہ میری پیدائش پر میرے والدین نے میرا نام اندرجیت رکھا۔ جبکہ اس پر میرا اختیار نہیں، اور میرے منہ میں انھوں نے وہی زبان ڈال دی جو وہ بولا کرتے تھے، جیسے شاید میں بڑا ہوکر پسند نہیں کرتا، اور مجھے اس مذہب کا پیروبنایا گیا جو ان کا تھا۔ اس طرح میری زندگی میں، میرے نام کا خانہ خالی، میری زبان کا خانہ خالی، میرے مذہب کا خانہ خالی، گویا ساری زندگی خالی ہی خالی۔ یہ تو اندرجیت کا بیان تھا، اور یہی کچھ صورتحال ذرامہ میں نظر آتی ہے۔ لڑکا ملٹری میں جانے کا خواہش مند مگر باپ ہے کہ ڈاکٹربنانے پر تلا ۔ وہ دلچسپی نہیں لیتا، کیونکہ اس پر زبردستی سے کورس ٹھونسا جارہاہے۔ اس طرح لڑکا جو ذہین و فطین تھا اب ناکارہ اور سست ہوگیا۔ کاہل ہوگیا۔ اس ڈرامہ میں عدالتی کمرہ کی گفتگو کو بڑے اچھے جراح کے انداز میں پیش کیاگیا۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک کمزوری کی طرف اشارہ ہے جہاں اولیائے طلبہ اپنی من مرضی چلانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ان ذہین طلباء کا مستقبل برباد ہوجاتاہے۔ وہ بننا چاہتے ہیں پائیلٹ اسے ڈاکٹر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ بننا چاہتے ہیں آرٹسٹ اسے انجینئر بنانے پر بضد ہوتے ہیں۔ جس سے معاشرہ کے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہورہاہوتاہے۔
غرض انل ٹھکر نے ہر ڈرامے کو معاشرہ سے اٹھایا ہے۔ اور اپنی شستہ اور سہل ممتنع زبان سے، چست فقروں اور جاندار مکالموں سے مزین کیاہے۔ ہر ڈرامہ اپنی ایک الگ نوعیت لئے ہوئے ہے اور قاری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ دیکھنے والی کیفیت پیدا کردی ہے کہ ہر قاری ڈرامہ کو پڑھتے ہوئے دیکھ بھی رہاہوتاہے۔ تجسس کو برقرار رکھاگیاہے۔ بہرحال انل ٹھکر کے ڈرامہ، اردو ڈرامہ نگاری خاص طورپر اسٹیج ڈرامہ نگاری میں اضافہ کا باعث ہیں۔