نذیر فتح پوری
احساس جگا دیں گے
آئنے ایسے ہیں
اک روگ لگا دیں گے
یوں خود میں مگن ہو جا
درد ستائے تو
مصروفِ سخن ہو جا
مدفون کتابوں میں
میرا لہو ڈھونڈو
تاریخ کے صفحوں میں
کاغذ پہ نظر بھی رکھ
حرف شناسی میں
کچھ اپنا ہنر بھی رکھ
یہ کیسی پہیلی ہے
دن تھا اکیلا کل
اب رات اکیلی ہے
ہر حال میں بیٹھیں گے
گاؤں میں جائیں گے
چوپال میں بیٹھیں گے
یہ درد کی دھارا ہے
اس میں جو بہہ جائے
وہ آدمی پیارا ہے
تحلیل نہیں ہوتے
دل کے ارادے تو
تبدیل نہیں ہوتے
آنسو بھی ہیں ،آہیں بھی
وقت کی جھولی میں
سسکی بھی،کراہیں بھی
سایہ تو کبھی دے گا
اس کی حفاظت کر
یہ پیڑ ہے رشتوں کا
وِش کنسا سے ڈرتے ہیں
ڈس کے رہے گی یہ
ہم دنیا سے ڈرتے ہیں
وہ گانوں سے کیا روٹھی
کھیت میں سناٹا
پنگھٹ پہ ہے خاموشی
کیا چاند چمکتے ہیں
نیند جزیروں پر
اب خواب ہمکتے ہیں
کیا صبح کا منظر ہے
اوس کی خوشبو سے
ہر چیز معطر ہے
دھرتی کی دعا بن جا
سوکھا موسم ہے
ساون کی گھٹا بن جا
تم آئے تو یوں آئے
گھر میں اندھیروں کے
اک چاند اُٹھا لائے
کیا دھوپ ہے میری جاں
پیاس کی شدت بھی
اور اس پہ یہ ریگستاں
جب باغ میں جائیں گے
پھول کے بدلے میں
کچھ تتلیاں لائیں گے
کیا درد کے منظر ہیں
پانی کی کچھ بوندیں
پیاسوں کا مقدر ہیں
یہ خواب ہے اندھوں کا
دنیا کی رعنائی
دھوکا ہے نگاہوں کا
وہ کواب ہی اندھا تھا
دل اشارے سے
میں جس کو بلاتا تھا
ایسا بھی کسی پل ہو
رات ہو برہا کی
اور درد کا کمبل ہو
میں خوش ہوں بہاروں سے
مجھ کو بلاتی ہیں
خوشبو کے اشاروں سے
موسم ہے یہ جل تھل کا
خشک زمینوں پر
رتھ اترا ہے بادل کا
محبوب کی مہندی ہے
دل کو رچائے گی
یہ چیز ہی ایسی ہے
ہے شکر مرے بھائی
ہم پہ نہیں کھلتا
دربارِ شہنشاہی
مرنے سے نہ اتنا ڈر
دوست تُو رکھا کر
سانسوں کو ہتھیلی پر
جذبوں میں مچی ہلچل
آگیا کمرے میں
اک اُڑتا ہوا بادل
کیا بات ہے کونجوں کی
اپنے تصور میں
بارات ہے کونجوں کی
یوں لطف اٹھائے گا
میری خموشی پر
بے نطق سنائے گا
کیا آس لگائیں ہم
ٹوٹی ہیں محرابیں
کیا خواب سجائیں ہم
کیا جنگ کی منزل ہے
میرا محافظ ہی
اب میرے مقابل ہے
مت سوچ یہ کیسی ہے
خواب کی بستی بھی
بے خواب سی لگتی ہے
میں ساتھ رہوں کس کے
خواب جو رکھتا ہو
یا خواب نہیں جس کے
کب جوگی کے پھیرے ہیں
گھومنے پھرنے کو
ہم گھر سے نکلتے ہیں
ست رنگی نظاروں میں
جب بھی نظر الجھی
تم آئے بہاروں میں
بے کار نہیں پڑھتے
چہرے جو پڑھتے ہیں
اخبار نہیں پڑھتے
میں رستہ تکوں تیرا
دیکھ مسیحا تو
بیمار ہے دل میرا
تحقیق ادھوری ہے
جانِ غزل آجا
تخلیق ادھوری ہے
خاموش بھی رہنا ہے
کیسی ہے مجبوری
حق بات بھی کہنا ہے
جو عقل کا اندھا ہے
اس کو ہی کاٹے گا
جس شاخ پہ بیٹھا ہے
بارود بچھاتے ہو
امن کی دھرتی پر
کیوں آگ لگاتے ہو
رُخ دیکھ ہواؤں کا
دیپ جلانا پھر
رستے پہ دعاؤں کا
جب رات سلگتی ہے
نیند کے کمرے میں
تنہائی پگھلتی ہے
آنسو ہو کہ سپنا ہو
غور کرو خود پر
تم کون ہو اور کیا ہو
مت دھوپ میں سویا کر
صبح کی ٹھنڈک سے
آنکھوں کوبھگویا کر
یہ کام بھی کرتا ہے
نام پہ خدمت کے
وہ جیب بھی بھرتا ہے
کیا رات چراغوں کی
اپنی دوالی ہے
جلتے ہوئے داغوں کی
پھولوں سا کھلیں گے ہم
باغ میں جائیں گے
ساون سے ملیں گے ہم
کیا وقت کا پھیرا ہے
اونچی حویلی میں
اب خوف کا ڈیرا ہے
کیوں درد بڑھاتے ہو
دوستو ! بچپن کی
کیوں یاد دلاتے ہو
جگنو جو نظر آئے
قافلے والوں کو
پھر راستہ مل جائے
تھے سوئے ہوئے رستے
اس نے قدم رکھا
تب جاگ پڑے رستے
جذبات کا مظہر ہے
ماہیا اپنا تو
حالات کا مظہر ہے