امین خیال
شان اس شہ بالے کی
کون گھٹائے گا
وَرَفَعنا والے کی
اُس نور اُجالے کا
نام ہے کیا پیارا
دو مِیموں والے کا
روضے کی ہری جالی
جالی والا نبیؐ
محشر کا ہے والی
کیا نُور تجلّا ہے
جالیوں کے پیچھے
اک عرش، معلّا ہے
طلمت کی بلا ٹالی
کملی والے نے
دنیا ہی بدل دالی
ہاں نور ہی نور ہیں وہ
ٹھنڈک آنکھوں کی
اور دل کا سرور ہیں وہ
الطاف محمدؐ کے
لکھ نہ سکا کوئی
اوصاف محمدؐ کے
افلاک کو چھوتا ہے
کاہکشاں ان کے
پاؤں کا جوتا ہے
چاند آپ کا ہالاہے
اسمِ محمدؐ سے
گھر گھر میں اجالا ہے
دھوم ان کی جہاں میں ہے
کلمہ ان کا ہے
نام ان کا اذاں میں ہے
کلمے کا پھریرا ہے
ہر اک دیس ان کا
ہر جا پہ بسیرا ہے
کوئی کیا توصیف کرے
مکی، مدنی کی
رب خود توصیف کرے
میں ابنِ آدم ہوں
فکر مجھے ہے کہ
سرکارؐ کا خادم ہوں
سچ بات سنی کُن کی
دل میں سرور اُن کا
آنکھوں میں ضیا اُن کی
مینارا روشن ہے
ان کے دَم سے ہی
جگ سارا روشن ہے
جن کا نہ سایا ہے
سب جگ ان کے ہی
سائے میں آیا ہے
کیا نور سویرا ہے
ذکرِ محمدؐ سے
منہ میٹھا میرا ہے
والفجر سا مکھڑا ہے
جہل سیاہی میں
وہ نور کا ٹکڑا ہے
کیا خوب ہے پھلواری
شوخ سے رنگوں میں
ہے کس کی چتر کاری
جوڑے میں پھول لگا
اس کے مقابل میں
سب گلشن دھول لگا
سہروں پہ سہرا ہے
پھول نہیں یہ تو
اُس یار کا چہرا ہے
دیتا ہے صدا کیسے
پھول ان تتلیوں کو
لیتا ہے بلا کیسے
یہ کیسی کرامت ہے
ہنس دے پھول جھڑیں
باتوں میں حلاوت ہے
ہیں آم ،بھرے رس کے
جیون کاٹ دیا
کچھ رو کے،کچھ ہنس کے
دنیا کے دھندے ہیں
اتنا جان لیا
سب غرض کے بندے ہیں
باقی سب چھوڑا ہے
پیار کے گلشن سے
اک پھول ہی توڑا ہے
کیسا یہ سجتا ہے
پھول تو ٹہنی پر
ہی اچھا لگتا ہے
دو پھول ہیں سوسن کے
تو جو مل جائے
دکھ دور ہوں جیون کے
کیا خوب بہاریں ہیں
ہر جانب ،ہر سو
پھولوں کی قطاریں ہیں
شبنم کیوں روتی ہے
پھول کی پینٹنگ میں
خوشبو کب ہوتی ہے
باغوں میں پھول کھلے
دن وہ کیسا تھا
ہم تم سے جب تھے ملے
ہے صورت خواب ایسی
چمبہ ہنستی ہے
اک چھوری گلاب ایسی
ہم باسی دھول کے ہیں
قدر ہی کیا اپنی
ہم پھول ببول کے ہیں
پھولوں کی کڑھائی ہے
رب نے دھرتی بھی
کیا چھینٹ بنائی ہے
کیا رنگ ہیں گلبن کے
باغ میں پھول نہیں
سب رنگ ہیں ساجن کے
شبنم کی گہریں ہیں
ورقِ گلستاں پر
پھولوں کی مہریں ہیں
پُر کیف فضائیں ہیں
پھولوں،کلیوں میں
دلبرکی ادائیں ہیں
کوئی چاند کا ٹکڑا ہے
پھول گلاب نہیں،
اس یار کا مکھڑا ہے
جور اور جفاؤں میں
پھول نہیں کھلتے
بے رحم خزاؤں میں
جب جب بھی پھول کھلیں
کہہ دے کوئی ان سے
ایسے میں آن ملیں
ہوئی گل افشانی ہے
لفظ مہکتے ہیں
معنوں میں روانی ہے
ان پیار کے جھانسوں میں
مہک ہے چمبے کی
گوری کی سانسوں میں
کھل جائیں گلاب ایسے
بڑھ کر دل اپنے
ہو جائیں چناب ایسے
تو باغ میں آ ماہیا
ساتھ پرانوں کے
نئے پھول اُگا ماہیا
پھولوں کا تبسم ہے
گوری کے ہنسنے میں
بلبل کا ترنم ہے
کیا حسن جناب کا ہے
کیسا ماند ہوا
جو پھول گلاب کا ہے
کوئی چمبہ مہکا ہے
جثہ گوری کا
کیا دہکا دہکا ہے
کچھ غنچے مہکے ہیں
پھول خیال چنو
لب ان کے چہکے ہیں
کلیوں کے تھال بھریں
پھول سمیٹیں گے
جو ساجن بات کریں
کیکر پر پھول آئے
آج یہ آپ کہاں
اس جانب بھول آئے
کیا سچ فرمایا ہے
نیچ کی یاری سے
پھل کس نے پایا ہے
آموں پہ بُور آیا
چیت کے موسم میں
وہ یاد ضرور آیا
پتے امرودوں کے
ڈھنگ نہیں بدلے
اب تک نمرودوں کے
سڑکوں پر کنکر ہیں
پھول نہیں،اپنی
قسمت میں پتھر ہیں