احمد ہمیش
جوارِ رحمت تو ان دیکھے بادل کانام ہوا کرتا تھا
بہت دن ہوئے لبِ تصور پہ نہیں آتا
اب تو صرف اور صرف شیطان کا سایہ ہے
جو تمام عالم پر منڈلارہا ہے
جو بچے ماں باپ کے لمس سے جیتے جاگتے کسی مُجسّم کو پہنچے
وہ بھول گئے ہیں کہ دنیا کن حرفوں سے بنی ہے
مٹی اور آگ کے درمیان
جو پانی ہوا کرتا تھا
اب انا اور رعونت کے تاریک نظر بتُوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے
تاہم کوئی کچھ کہنا چاہتاہے
تو کس سے کہنا چاہتاہے
کوئی کچھ سننا چاہتاہے
تو کس سے سننا چاہتاہی
محبت اگر اب بھی آواز بن سکتی ہے تو اُسے موت تک کہا سنا جاسکتاہے
اب وہ دنیا رہی نہیں
جس میں کوئی کسی کی ماں ہوا کرتی تھی
جس میں کوئی کسی کا بیٹا ہوا کرتاتھا
جس میں کوئی کسی کی بیٹی ہوا کرتی تھی
تو اب اعمال نامہ کیسے بنے گا!