عبداللہ جاوید (کینیڈا)
پیَر
امریکہ کا شہر تھا کوئی
شریمد بھگوت گیتا پڑھتے
لفظوں پر میں ٹہر گیا تھا
یا لفظوں نے روک لیا تھا
نظروں کو
آگے پڑھنے سے
اندر سے کوئی کہتاتھا
دھیان کرو!
’’دھیان اگر کرنا ہے اس کا
پَیروں سے آغاز کرو۔ ‘‘
دھیان تو کرتا
لیکن دھیان کی خاطر ۔
پَیر
کہاں سے لاتا۔؟
پَیر کہاں تھے۔؟
میرے اندر، میرے باہر،
پَیر کہاں تھے۔؟
میرے چاروں اور بہت کچھ تھا
یا سب کچھ
کاٹھ کباڑ سا پھیلا تھا۔!
دھرتی اور آکاش تھے
دنیائیں ہی دنیائیں تھیں۔
دھواں ،دھواں تھا
اور دھویں میں
مادّے کے ذرات کا پھٹنا ،
ٹوٹنا ، بٹنا اور سمٹنا
جاری تھا۔۔
پَیر کہاں تھے۔؟
جانے کون ساشہر تھا۔۔ جوتھا
شہروں کے بھی نام کئی تھے۔
ملکوں کے بھی نام کئی تھے ۔
گیا ، بہار ، موئن جو ڈارو ،
ٹیکسلا ، کاشی ، مکّہ ، روم
شِکاگو ، مونٹریال ، منی ٹوبا
ٹورانٹو ۔۔۔۔
لوگ تھے
چاروں اور تھے
(ملکوں ،شہروں ہوتے ہی ہیں )
دھیان کا موقع تھا
نہ سمے تھا
پھر بھی آنکھیں پَیروں پر تھیں
اور میں اس کے
دھیان میں گم تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجرہ
رات موجِ ہوا
ایک چھوٹے سے کمرے کے
چھوٹے دریچے میں
آکر کھڑی ہو گئی
بولی ،’’ اے بے خبر!
خوابِ راحت میں تم ہو یہاں
اور وہاں
اجنبی ملک کے
اجنبی باغ کی
اجنبی بینچ پر
بیٹھے بیٹھے
کسی سمت کو اڑگئی
ایک مینا
تمہاری جو دلدار تھی
بینچ پر
خالی پنجرہ
دھرا رہ گیا۔۔! !‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَنا
اَنا کی سنگلاخ
چوٹیوں پر
پہنچ گئے ہو تو جان لو گے
اَنا کی سنگلاخ چوٹیوں پر
بجز
بانجھ، پتھروں کے
نمو نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاعنوان
دھرتی پر
اور آگ کی بارش
سوچیں کیسی سوچیں ہیں
دھرتی پر
تو بستے ہیں
پودے ،بچے، پھول اور گھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہاں
ملاقات ہو
نگاہوں نگاہوں میں
ہر بات ہو
جو کہے دل کہے
جو سنے دل سنے
لب ہلیں تو ہلیں کپکپاتے ہوئے
فرطِ جذبات سے گنگناتے ہوئے
جسم سے جسم کی روح سے روح کی
انگ سے انگ کی روم سے روم کی
نگہتیں بھی ملیں
لمس سے لمس کی لذتیں بھی ملیں
یوں ملیں
جیسے پہلے جداہی نہ تھے
دردِ فرقت میں ہم مبتلا ہی نہ تھے
کاش ایسی بھی کوئی ملاقات ہو!
اس نئے عصر میں
جب مشینوں کے آقا
مشیں بن گئے
خون کا پمپ دل کو پکاراگیا
ذہن کمپیوٹروں میں ابھارا گیا
روح کو لے کے صنعت کا دھارا گیا
دل سے جب دل لگی، دلبری ہی گئی
روح سے روح کی نغمگی ہی گئی
جب مشینوں نےتہذیب کو ڈس لیا
قطرہ قطرہ
ثقافت کا سب رس لیا
لمس اور لمس کی لذ تیں نگہتیں
اُلفتیں، فرقتیں، رنجٹیں ، راحتیں
عشق کی نگہتیں
عقل کی تہمتیں
سب مشین ہو گئیں!
اب مشینوں میں کیسے ملاقات ہو
اور نگاہوں نگاہوں میں ہر بات ہو
جو کہے دل کہے، جو سنے دل سنے
لب ہلیں تو ہلیں
کپکپاتے ہوئے،فرطِ جذبات سے گنگناتے ہوئے؟
وہ نگاہیں کہاں
دل کہاں ، لب کہاں
فرطِ جذبات کی کپکپی اب کہاں
دل لگی اب کہاں ، دلبری اب کہاں
اب کہاں ؟ اب کہاں ؟
اب کہاں ؟ اب کہاں ۔؟